طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بہشتی زیورمیں لکھاہوا مسئلہ درست ہے، اور اس صورت مذکورہ میں آپ پر غسل واجب نہیں ہے۔(۱)

(۱)السخلۃ إذا أخرجت من أمھا فتلک الرطوبات طاھرۃ لا ینجس بھا الثوب والماء۔ کذا البیضۃ۔ (عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل السابع في النجاسۃ و أحکامھا، النوع الثاني من ھنا الفصل في مقدار النجاسۃ‘‘ ج۱،ص:۴۴۳) ؛ و فلو خرج بقیۃ المني بعد البول أو النوم أو المشي لا یجب الغسل إجماعاً۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘ ج۱، ص:۱۰۳، دارالکتاب دیوبند) ؛ و کذا لو خرج منہ بقیۃ المي بعد الغسل قبل النوم أو البول أو المشي الکثیر۔ نہر: أي لا بعدہء۔ لأن النوم والبول والشي یقطع مادۃ الزائل عن مکانہ بشھوۃ فیکون الثاني زائلاً عن مکانہ بلا شھوۃ فلا یجب الغسل اتفاقاً۔ (ابن عابدین، رد المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في تحریر الصاع والمد والرطل‘‘ ج۱، ص:۲۹۷، کذا في إمداد الفتاویٰ، ’’کتاب الطہارۃ‘‘ج۱، ص:۴۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص305

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز کے سلسلے میںاصل تویہی ہے کہ ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا کیا جائے۔{اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا}(۲)
حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے کہا تھا ’’صلّ الصلاۃ لوقتہا‘‘(۳) نماز کو اپنے وقت میں پڑھو؛ اس لیے اصل تو یہی ہے کہ نماز کو اپنے وقت میں ادا کیا جائے؛ لیکن اگر مجبوری اور عذر ہو، تو احناف کے نزدیک جمع صوری کی اجازت ہے؛ اس لیے طبی عملہ اگر ہر نماز کو اپنے وقت میں پڑھنے میں دشواری محسوس کریں، تو وقتی طور پر جمع بین الصلاتین صوری کرسکتے ہیں اس طور پر ظہر کی نماز آخری وقت میں پڑھیں اور عصر کی نماز ا ول وقت میں، اسی طرح مغرب کی نماز آخری وقت میں اور عشاء کی نماز اول وقت میں پڑھ لیںنماز یں حقیقت میں اپنے اپنے وقت میں ہی پڑھی جائیں گی لیکن جمع کی سی صورت ہوجائے گی۔
’’ولکن حملناہ علی الجمع الصوري حتی لا یعارض الخبر الواحد الاٰیۃ القطعیۃ وہو قولہ تعالیٰ: {حافظواعلی الصلوات} أي أدوہا في أوقاتہا۔۔۔۔۔ وما قلناہ ہو العمل بالآیۃ والخبر وما قالوہ یؤدي إلی ترک العمل بالاٰیۃ‘‘(۱)
 

(۲) سورۃ النساء:۱۰۳۔
(۳)عن أبي ذر رضي اللّٰہ عنہ، قال لي  قال رسول اللّٰہ: ’’کیف أنت إذا کانت علیک أمراء یؤخرون الصلاۃ عن وقتہا؟ - أو- یمیتون الصلاۃ عن وقتہا؟‘‘ قال: قلت: فما تأمرني؟ قال: ’’صل الصلاۃ لوقتہا،فإن أدرکتہا معہم، فصل، فإنہا لک نافلۃ‘‘ ولم یذکر خلف عن وقتہا۔ (أخرجہ مسلم،  في صحیحہ،’’کتاب المساجد    ومواضع الصلاۃ: باب کراہیۃ تاخیر الصلاۃ عن وقتہا، ج۱، ص: ۲۳۰، رقم: ۶۴۸)
عن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہ، قال: ما رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلی صلاۃ لغیر میقاتہا، إلا صلاتین: جمع بین المغرب والعشاء، وصلی الفجر قبل میقاتہا۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب المناسک: باب متی  یصلی الفجر بجمع‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۸، رقم:۱۶۲۸، مکتبہ، فیصل، دیوبند)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ و سلم قال: من جمع بین الصلاتین من غیر عذر فقد أتی بابا من أبواب الکبائر۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’ابواب الصلاۃ: باب ما جاء في الجمع بین الصلاتین‘‘: ج ۱، ص: ۴۸، رقم: ۱۸۸)
(۱) العیني، عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري، ’’باب الجمع في السفر بین المغرب والعشاء‘‘: ج ۱۱، ص: ۲۱۰۔(شاملہ)

 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 73

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:نسبندی کرانا ناجائز و حرام ہے اور نسبندی کرانے والا شخص فاسق و فاجر ہے ایسے شخص کی امامت اور اذان مکروہ تحریمی ہے؛ البتہ وہ شخص پہلی صف میں نماز پڑھ سکتا ہے اگر ایسا شخص اپنی غلطی پر نادم و پشیمان ہوجائے۔اور سچی توبہ کااعلان کرے تو پھر اس کی امامت واذان وغیرہ کی گنجائش ہے۔(۱)

(۱) ولذاکرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ … لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل بر وفاجر۔ الخ … وإذا صلی خلف فاسق أو مبتدع یکون محرزاً ثواب الجماعۃ لکن لا ینال ثواب من یصلي خلف إمام تقي۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی  مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ج ۳۰۳، شیخ الہند، دیوبند)
إلا أنا جوزناہا مع الکراہۃ لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل بر وفاجر وصلوا علی کل بر وفاجر وجاہدوا مع کل بر وفاجر رواہ دار قطني۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري، کتاب الصلاۃ، ’’فصل في الإمامۃ‘‘: ص: ۴۴۲، دار الکتاب دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص193

نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: روئی کے باریک گدے جس پر پیشانی ٹک جاتی ہے ایسے  گدوں پر نماز، سجدہ وغیرہ سب درست ہے۔(۲)
(۲) ولو سجد علی الحشیش أو التبن أو علی القطن أو الطنفۃ أو الثلج إن استقرت جبہتہ وأنفہ ویجد حجمہ یجوز وإن لم تستقر، لا!۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ‘‘: الفصل الأول، في فرائض الصلاۃ ومنہا السجود ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۷)

فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 334

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ فی السوال صورت میں بعد میں شریک ہونے والوں کی نماز نفل ہو جائے گی، فرض اداء نہیں ہوگا اس لیے کہ پہلی نماز سے فرض ساقط ہوگیا دوسری مرتبہ جو جماعت ہوئی اور نماز لوٹائی گئی یہ اس نقصان کی تلافی ہے تو بعد میں آنے والوں نے جو اقتداء کی ہے وہ ایسے امام کی اقتداء ہوئی جو فرض نماز نہیں پڑھ رہا تھا۔(۱)

(۱) ووجب علیہ إعادۃ الصلاۃ تغلیظاً علیہ لجبر نقصہا فتکون مکملۃ، وسقط الفرض بالأولیٰ۔ (أحمد بن محمد الشرنبلالي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ص: ۴۶۲، مکتبہ: شیخ الہند دیوبند)
و لا یصح ۔۔۔۔ اقتداء المفترض بالمتنفل۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ:  الباس الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث فيبیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۳، دار الکتاب دیوبند)
والمختار أنہ جابر للأول۔ لأن الفرض لا یتکرر۔ (الحصکفي، الدر المختار علی رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ،  مطلب کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۸، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص32

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسی صورت میں نماز کی حالت میں بائیں طرف تھوکنے کی گنجائش ہے۔ تاہم بہتر یہ ہے کہ اپنے کپڑے میں یا رومال میں تھوک لے۔(۲)
(۲) عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم رأي نخامۃً في القبلۃ، فحکہا بیدہ ورئي منہ کراھیۃ أو رئيکراہیتہ لذلک وشدتہ علیہ۔ وقال: إن أحدکم إذا قام في صلاتہ فإنما یناجی ربہ أو ربہ بینہ وبین قبلتہ فلا یبزقن في قبلتہ، ولکن عن یسارہ أو تحت قدمہ۔ ثم أخذ طرف ردائہ فبزق فیہ، و رد بعضہ علی بعض قال: أو یفعل ہکذا۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب إذا بدرہ البزاق فلیأخذ بطرف ثوبہ‘‘: ج ۱، ص: ۵۹، رقم: ۴۱۷)
عن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ، أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم رأي نخامۃ في قبلۃ المسجد، فحکہا بحصاۃ، ثم نہی أن یبزق الرجل عن یمینہ أو أمامہ ولکن یبزق عن یسارہ أو تحت قدمہ الیسری۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب النہي عن البصاق في المسجد في الصلاۃ و غیرھا‘‘: ج ۱، ص:۲۰۷، رقم: ۵۴۸)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص141

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں نماز فاسد ہوگئی نماز کا اعادہ ضروری ہے؛ اس لیے کہ یہاں پر معنی فاسد ہورہا ہے اور اس میں تاویل کی گنجائش نہیں ہے؛ بلکہ خطاء فاحش ہے۔ آیت میں جنتیوں کا تذکرہ چل رہا کہ جنتی جنت میں نہ تو لغو باتیں سنیں گے او رنہ ہی جھوٹ اس کی جگہ جہنمیوں کا مضمون بیان ہوگیا کہ جنتی جنت میں نہ تو کسی ٹھنڈک کا مزا چکھیں گے او رنہ ہی پینے کی کسی چیز کا؛ بلکہ حمیم اور غساق یعنی گرم پانی اور لہو پینے کو ملے گا۔
’’إن غیرت المعنی ووجدت في القرآن نحو أن یقرأ: والذین آمنوا و کفروا باللّٰہ ورسلہ أولئک ہم الصدیقون۔ أو لم یوجد نحو أن یقرأ {إنما نملي لہم لیزدادوا إثما وجمالا تفسد صلاتہ بلاخلاف‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۸، زکریا دیوبند)
وإن کان مثلہ فيالقرآن والمعنیٰ أيمعنیٰ اللفظ الذي قرأہ بعید من معنی اللفظ المراد ولم یکن معنی اللفظ المراد متغیراً باللفظ المقر وتغیراً فاحشاً تفسد أیضاً عند أبي حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ وہو الأحوط۔ (إبراھیم حلبي، غنیۃ المتملي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان أحکام زلۃ القاري‘‘: ص: ۴۱۱، دار الکتاب دیوبند)
والقاعدۃ عند المتقدمین أن ما غیر المعنیٰ تعییرا یکون اعتقادہ کفراً یفسد في جمیع ذلک، سواء کان في القرآن أولا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص263

روزہ و رمضان

Ref. No. 997 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ مطلقاً خون نکلنے سے روزہ  نہیں  ٹوٹ جاتا بلکہ اتنا خون نکل جائے کہ جس سے کمزوری پیداہوجائے تو روزہ مکروہ ہوجاتا ہے۔ یہ اس صورت میں ہے جبکہ آدمی اپنی مرضی سے خون نکلوائے۔  لیکن اگر کسی چوٹ وغیرہ سے خود ہی نکل جائے تو کوئی کراہت نہیں۔ وکرہ للصائم۔۔۔ وما ظن انہ یضعفہ کالفصد والحجامۃ (نورالایضاح ص 147)

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Divorce & Separation

 

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔صورت مسئولہ میں شوہر صرف دوطلاق کا اقرار کرتا ہے ، حافظ افضل صاحب کہتے ہیں کہ چار مرتبہ طلاق دی ۔ حافظ افضل صاحب اکیلے ہیں اور شوہر چار طلاق کا منکر ہے، شوہر کے مقابلہ اکیلے شخص کا قول معتبر نہیں  ہے، اس لئے صرف فقہ حنفی کے مطابق دو طلاق رجعی واقع ہوئیں، البتہ شوہر کو چاہئے کہ بالکل سچ بولے ، مسئلہ حلت وحرمت کا ہے ، احتیاط سے کام لیا جائے۔ واللہ اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 39/1144

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   کیا ضروری ہے کہ پولس وہاں تک نہ پہنچ سکے، اور ایسا کرنے میں کچھ اور لوگ بھی مجرم قرار پاسکتے ہیں، اس لئے ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ تاہم اگر انتظامیہ سے ہی صلح کرکے میت کو پوسٹ مارٹم سے بچانے کی کوشش کیجائے تو بہتر ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند