Frequently Asked Questions
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 41/1084
In the name of Allah the most gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
A Hadith with the same wordings was not found, but the theme is approved through various narrations that the prophet Yusuf (as) was given half of the beauty and the prophet Mohammad (saws) was given all of it. It is narrated by hazrat Anas (ra) that Allah has created all prophets beautiful and your prophet (Mohammad) was the most beautiful.
قال ابن القیم فی بدائع الفوائد : قول النبي صلى الله عليه وسلم عن يوسف "أوتى شطر الحسن " قالت طائفة المراد منه أن يوسف أوتي شطر الحسن الذي أوتيه محمد فالنبي صلى الله عليه وسلم بلغ الغاية في الحسن ويوسف بلغ شطر تلك الغاية قالوا ويحقق ذلك ما رواه الترمذي من حديث قتادة عن أنس قال: "ما بعث الله نبيا إلا حسن الوجه حسن الصوت وكان نبيكم أحسنهم وجها وأحسنهم صوتا" (بدائع الفوائد 3/206)۔ (قد أعطي شطر الحسن) ، قال المظهر أي: نصف الحسن. أقول: وهو محتمل أن يكون المعنى نصف جنس الحسن مطلقا، أو نصف حسن جميع أهل زمانه. وقيل بعضه لأن الشطر كما يراد به نصف الشيء قد يراد به بعضه مطلقا. أقول: لكنه لا يلائمه مقام المدح وإن اقتصر عليه بعض الشراح، اللهم إلا أن يراد به بعض زائد على حسن غيره، وهو إما مطلق فيحمل على زيادة الحسن الصوري دون الملاحة المعنوية لئلا يشكل نبينا - صلى الله عليه وسلم - وإما مقيد بنسبة أهل زمانه وهو الأظهر / وقد قال بعض الحفاظ من المتأخرين، وهو من مشايخنا المعتبرين: أنه - صلى الله عليه وسلم - كان أحسن من يوسف عليه السلام إذ لم ينقل أن صورته كان يقع من ضوئها على جدران ما يصير كالمرآة يحكي ما يقابله، وقد حكي عن صورة نبينا - صلى الله عليه وسلم - لكن الله تعالى ستر عن أصحابه كثيرا من ذلك الجمال الباهر، فإنه لو برز لهم لم يطيقوا النظر إليه كما قاله بعض المحققين، وأما جمال يوسف عليه السلام فلم يستر منه شيء اهـ. (مرقاۃ المفاتیح، باب فی المعراج، 9/3766)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
Ref. No. 1055/41-238
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ ایسا ہونا ممکن ہے اگر اللہ چاہے۔ اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔ اللہ تعالی کے لئے کوئی چیز ناممکن نہیں ہے گرچہ اب تک اس کا کبھی ظہور نہ ہوا ہو۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
روزہ و رمضان
Ref. No. 1267/42-639
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جن روزوں میں صراحت کے ساتھ تسلسل کی شرط ہے کہ ان میں دوماہ لگاتار روزے رکھنے ہیں، ان میں اگر درمیان میں کوئی روزہ فاسد ہوگیا تو وجہ کوئی بھی ، اب دوبارہ از سر نو ہی روزہ رکھنا ہوگا۔شھرین متتابعین کے نص صریح کی بناء پر پہلے کے روزے شمار میں نہیں آئیں گے۔ الا یہ کہ شرعی عذر ہو مثلا عیدالاضحی کے ایام درمیان میں آگئے، یا عورت کو حیض آگیا۔
وکذا کل صوم شرط فیہ التتابع فان افطر بعذر الخ او بغیرہ الخ استانف الصوم (شامی باب الکفارۃ 2/800)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 1512/42-990
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میت کی جانب سے کی جانے والی قربانی کا بھی وہی حکم ہے جو عام قربانی کا ہے۔ لہذا اس کا گوشت بھی اہل خانہ ، رشتہ دار اور غریب ومالدار سب لوگ کھاسکتے ہیں۔ سارا گوشت صدقہ کرنا ضروری نہیں ہے۔
قال (ويأكل من لحم الأضحية ويطعم الأغنياء والفقراء ويدخر) لقوله - عليه الصلاة والسلام - «كنت نهيتكم عن أكل لحوم الأضاحي فكلوامنها وادخروا» ومتى جاز أكله وهو غني جاز أن يؤكله غنيا (فتح القدیر للکمال، کتاب الاضحیۃ 9/517)
فثبت بمجموع الكتاب العزيز والسنة أن المستحب ما قلنا ولأنه يوم ضيافة الله - عز وجل - بلحوم القرابين فيندب إشراك الكل فيها ويطعم الفقير والغني جميعا لكون الكل أضياف الله تعالى - عز شأنه - في هذه الأيام وله أن يهبه منهما جميعا، ولو تصدق بالكل جاز ولو حبس الكل لنفسه جاز؛ لأن القربة في الإراقة. (وأما) التصدق باللحم فتطوع وله أن يدخر الكل لنفسه فوق ثلاثة أيام؛ لأن النهي عن ذلك كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ بما روي عن النبي - عليه الصلاة والسلام - أنه قال «إني كنت نهيتكم عن إمساك لحوم الأضاحي فوق ثلاثة أيام ألا فأمسكوا ما بدا لكم» (بدائع الصنائع، بیان رکن النذر وشرائطہ 5/81)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو شخص ضروریات دین اور قرآن کریم واحادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تواتر سے باجماع امت ثابت شدہ چیزوں اور احکام کا منکر عقیدۃً ہو وہ بلا شبہ کافر و مرتد ہے۔ شرعاً وہ ہرگز مسلمان نہیں ہے؛ لہٰذا مذکورہ فی السوال شخص بشرط صحت سوال اسلام سے شریعت اسلامیہ کی روشنی میں خارج اور کافر ہے
إذا أنکر آیۃ من القرآن أو استخف بالقرآن أو بالمسجد، أو بنحوہ مما یعظم في الشرع، أو عاب شیئاً من القرآن أو خطئ أو سخر بآیۃ منہ کفر۔ (عبد الرحمن، مجمع الأنہر، ’’کتاب السیر والجہاد، ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۲، ۵۰۷)
إذا أنکر الرجل آیۃ من القرآن أو تسخر بآیۃ من القرآن، وفي ’’الخزانۃ‘‘ أو عاب کفر، کذا في التاتار خانیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالقرآن‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۹)
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ اور ان جیسے جملوں میں کہیں تو اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی ہے اور کہیں دین کی توہین ہے اور لوازمات دین پر عقیدہ کا انکار ہے(۳) اور ان چیزوں سے ایمان سے خارج ہوجاتا ہے اور نکاح بھی ٹوٹ جاتا ہے اس لئے تجدید ایمان وتجدید نکاح ضروری ہے(۱) ورنہ وہی حکم ہوگا جو لگایا گیا ہے۔ یہ مسائل صحیح ہیں اگر کہیں دشواری پیش آئے تو کسی اچھے عالم سے سمجھ لیا جائے۔
(۳) وفي البحر: والحاصل أن من تکلم بکلمۃ الکفر ہازلا أو لاعباً کفر عند الکلِّ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الجہا: باب المرتد‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۸)
رجل کفر بلسانہ طائفاً وقلبہ مطمئن بالإیمان یکون کافرا ولا یکون عند اللّٰہ مؤمناً، کذا في فتاویٰ قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، ومنہا: ما یتعلق بلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)
() تثبت (أي الردۃ بالشہادۃ) ویحکم بہا حتي تبین زوجتہ منہ ویجب تجدید النکاح۔ (ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب السیر: باب أحکام المرتدین، توبۃالزندیق‘‘: ج ۵، ص: ۱۳۷)
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1777/43-1524
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس سلسلہ میں بہتر تو یہ تھا کہ زمین کا کچھ نہ کچھ کرایہ طے کرلیا جاتا اور پھر عمل اور خرچہ میں دونوں برابر کے شریک ہوتے تاکہ آئندہ چل کر کوئی نزاع پیدا نہ ہو، لیکن جبکہ مالک زمین خود اپنا حق ساقط کرنے پر رضامند ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے،اور مذکورہ کاروبار درست ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1993/44-1940
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ بچی کو بتادیاجائے کہ جب تک وضو ٹوٹنے کا یقین نہ ہو اس وقت تک وضو نہ کرے، اگر اس طرح شک و شبہہ میں وضو کرتی رہے گی تو اس کا وہم بڑھتاجائے اور بعد میں اور مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔ نیز ' لاحول ولا قوۃ الا باللہ' کثرت سے پڑھتی رہے اور 'یا مقلب القلوب ثبت قلبي علی دینک' بھی پڑھتے رہنا مفید ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2060/44-2054
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔قرآن کریم کی تلاوت کرتے وقت یا کسی سے تلاوت سنتے وقت معانی میں غور وفکر کرتے ہوئے رونا پسندیدہ عمل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور صحابہ کرام سے تلاوت قران کے وقت رونا ثابت ہے۔
(( اقرأ عليَّ القرآن ،فقلت یا رسول اللہ أ أقرَأُ علیک وعلیک أنزل ، قال : إنی أحب أن أسمعہ من غیری فقرات علیہ سورۃ النساء حتی إذا جئت إلی ہذہ الآیۃ:{ فَکَیْفَ إذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَۃٍ بِشَہِیْدٍ وَجِئْنَابِکَ عَلیٰ ہٰؤلا ِٔشَہِیْدَاً (النساء ۴۱)قال : حسبک الآن،فالتفت إلیہ فإذاعیناہ تذرفان ))۔
(رواہ البخاری (۴۵۸۲)کتاب التفسیر/ باب فکیف إذا جئنا من کلأمۃ بشہید… ومسلم(۸۰۰)کتاب صلاۃ المسافرین /باب فضل استماع القرآن)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر کوئی مسلمان قرآن کریم کی کسی ایک آیت کا بھی انکار کردے، تو وہ مرتد ہے، جس کی سزا شریعت اسلامیہ میں یہ ہے کہ اگر وہ اسی انکار پر رہے، تو اس کو لازماً قتل کردیا جائے، لیکن اس سزا کے نفاذ کے لئے اسلامی حکومت واقتدار شرط ہے، جو یہاں پر موجود نہیں؛ اس لئے یہ سزا یہاں پر نہیں دی جاتی، یہاں پر ضروری ہے کہ اس کو سمجھایا جائے اس کے شکوک وشبہات کو دور کیا جائے، اگر اس کے باوجود وہ نہ مانے، تو اس سے تعلقات ختم کردیئے جائیں، جذبات میں کوئی غیر شرعی یا غیر قانونی اقدام نہ کیا جائے۔(۱)
(۱) إذا أنکر آیۃ من القرآن أو استخف بالقرآن أو بالمسجد، أو بنحوہ مما یعظم فی الشرع، أو عاب شیئاً من القرآن کفر۔ (عبد الرحمن، مجمع الأنہر، في شرح الملتقی الأبحر، ’’کتاب السیر والجہاد: باب المرتد، ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۷)
فما یکون کفرا بالاتفاق یوجب إحباط العمل کما في المرتد۔ (أیضاً:، ’’الصبي العاقل إذا ارتد‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۱)
من جحد القرآن أي کلہ أو سورۃ منہ أو آیۃ قلت: وکذا کلمۃ أو قرأۃ متواترۃ أو زعم أنہا لیست من کلام اللّٰہ تعالیٰ کفر۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ-، شرح الفقۃ الأکبر، ’’فصل: فیما یتعلق بالقرآن والصلاۃ‘‘: ص: ۲۷۹)
دار العلوم وقف دیوبند
(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 166)