Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
Ref. No. 2282/44-3437
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چھپکلی کی بیٹ نجاست غلیظہ ہے، لہذا اگر چھپکلی کی بیٹ ماء قلیل میں گرجائے تو وہ پانی ناپاک ہوجائے گا، اور اگر کسی شخص کے بدن یا کپڑوں پر لگ جائے تو اسے دھونا ضروری ہوگا۔
واشار بالروث والخثي الي نجاسة خرء كل حيوان غير الطيور. (البحر الرائق : ( 242/2، ط:دار الكتاب الاسلامي)
(وخرء) كل لا يذرق في الهواء كبط أهلي (ودجاج)... (وروث وخثي) أفاد بهما نجاسة خرء كل حيوان غير الطيور.
(قوله: أفاد بهما نجاسة خرء كل حيوان غير الطيور) أراد بالنجاسة المغلظة؛ لأن الكلام فيها ولانصراف الإطلاق إليها كما يأتي. (الدر المختار مع رد المحتار: (320/1، ط: دار الفكر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مصنف عبد الرزاق کے حوالہ سے یہ حدیث لکھی ہے، مگر مصنف عبد الزاق میں موجود نہیں ہے، اس لیے علماء نے اس کو موضوع قرار دیا ہے۔(۱)
’’ومنہا ما ذکرہ العجلوني في کشف الخفا (ج ۱، ص: ۲۶۵)، قال: روي عبد الرزاق بسندہ عن جابر بن عبد اللّٰہ قال: قلت: یا رسول اللّٰہ بأبي أنت وأمي أخبرني عن أول شيء خلقہ اللّٰہ قبل الأشیاء؟ قال: یا جابر إن اللّٰہ تعالیٰ خلق قبل الأشیاء نور نبیک من نورہ فجعل ذلک النور یدور بالقدرۃ حیث شاء، ولم یکن في ذلک الوقت لوح ولا قلم ولا جنۃ ولا نار ولا ملک ... الحدیث بطولہ۔ وہذا لم نقف علیہ في المطبوع من المصنف للحافظ عبد الرزاق‘‘(۲)
(۱) وفي الدر أیضا عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: سمعت رسول اللّٰہ یقول إن أول شیء خلق اللّٰہ القلم ثم النون الخ …… أخرجہ الحکیم الترمذي ہذا وروي أن أول ما خلق اللّٰہ العقل وأن أول ما خلق اللّٰہ نوري وأن أول ما خلق اللّٰہ روحي وأن أول ما خلق اللّٰہ العرش والأولیۃ من الأمور الإضافیۃ، فیؤول أن کل واحد مما ذکر خلق قبل ما ہو من جنسہ، فالقلم خلق قبل جنس الأقلام، ونورہ قبل الأنوار وإلا فقد ثبت أن العرش قبل خلق السموات والأرض فتطلق الأولیۃ علی کل واحد بشرط التقیید، فیقال: أول المعاني کذا وأول الأنوار کذا، ومنہ قولہ: أول ما خلق اللّٰہ نوري وفي روایۃ روحي ومعناہما واحد فإن الأرواح نورانیۃ أي أول ما خلق اللّٰہ من الأرواح روحي، رواہ الترمذي وقال ہذا حدیث غریب إسنادا أي لا متنا۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الإیمان بالقدر‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۷، رقم: ۹۴)
(۲) أبوسعید عبدالملک، شرف المصطفی: ج ۱، ص: ۳۰۷؛ و نور الدین برھان الحلبي، السیرۃ الحلبیۃ:ج ۱، ص: ۲۱۴؛ و إسماعیل بن محمد، کشف الخفاء حرف الھمزہ مع الھاء: ج ۱، ص: ۳۰۲۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص101
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں وضو کرلینا کافی ہے۔ جب تک احتلام کا یقین نہ ہوجائے آپ پر غسل واجب نہیں۔ صرف وضو کریں اور نماز پڑھیں، وسوسوں کو جگہ نہ دیں۔ بہتر ہوگا کہ اس بیماری کے علاج کے لیے آپ کسی ماہر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔(۱)
(۱) في الدر المختار أي برطوبۃ الفرج فیکون مفرعاً علی قولھما بنجاستھا(ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس‘‘ ج۱،ص:۵۱۵) ؛ خلاصۂ بحث : یہ کہ جو رطوبت بہتی ہے وہ خواہ کوئی ہو ناقض وضو ہے اور ناپاک ہے۔ (اشرف علی تھانوی، إمداد الفتاویٰ، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس و تطہیرہا‘‘ج۱،ص:۳۵۰) ؛ ومن أیقن بالطہارۃ و شک في الحدث فھو علی طہارۃ۔ ومن أیقن الحدث و شک في الطھارۃ فھو علی الحدث۔ (سراج الدین أبو محمد، الفتاوی السراجیہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب ینقض الوضوء‘‘ج۱، ص:۳۶، مکتبۃ زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص306
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:اذان شعائر اسلام میں ہے، اذان کے ذریعہ آدمی دوسروں کو نماز کی دعوت دیتا ہے، ڈرامہ اور سیریل دیکھنے والا شرعاً فاسق ہے اور فاسق کا اذان دینا درست نہیں ہے۔
’’ویکرہ أذان فاسق لأن خبرہ لا یقبل في الدیانات‘‘(۱)
’’وینبغي أن لا یصح أذان الفاسق بالنسبۃ إلی قبول خبرہ والاعتماد علیہ أي لأنہ لا یقبل قولہ في الأمور الدینیۃ‘‘(۲)
’’عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لیؤذن لکم خیارکم ولیؤمکم قراؤکم‘‘(۳)
’’وینبغي أن یکون المؤذن رجلا عاقلاً صالحاً تقیا عالماً بالسنۃ کذا في النہایۃ‘‘(۴)
’’ویکرہ أذان الفاسق ولا یعاد ہکذا في الذخیرۃ‘‘(۵)
(۱) أحمد بن محمد،حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح: ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ص: ۲۰۰۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۱، ۶۲۔
(۳) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۷، رقم: ۵۹۰۔
(۴) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۰۔ (۵) أیضًا۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص194
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سجدے میں صرف پیر کا انگوٹھا زمین پر رکھے رہنے سے نماز ادا ہو جائے گی، صرف انگوٹھا رکھنا اور دوسری انگلیوں کو اٹھائے رکھنا خلاف سنت ہے؛ اس لیے مکروہ ہے، سنت یہ ہے کہ کہ دونوں قدموں کی انگلیاں زمین پر لگی رہیں اور انگلیوں کا رخ قبلہ کی جانب ہو۔
فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 335
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں مسبوق بھی امام کے ساتھ سجدہ سہو میں شریک ہوگا ہاں جب امام سجدہ سہو کے لیے سلام پھیرے گا اس میں مسبوق امام کی متابعت نہیں کرے گا۔(۱)
(۱) ثالثہا: أنہ لو قام إلی قضاء ما سبق بہ، وعلی الإمام سجدتا سہو قبل أن یدخل معہ، کان علیہ أں یعود فیسجد معہ ما لم یقید بسجدۃ، فإن لم یعد حتی سجد، وعلیہ أن یسجد في آخر صلاتہ … ومنہا أنہ یتابع الإمام في السہو ولا یتابعہ في التسلیم والتکبیر والتلبیۃ، فإن تابعہ في التسلیم والتلبیۃ فسدت۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السابع في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۰، زکریا دیوبند)
ولو قام لقضاء ما سبق بہ وسجد إمامہ لسہو تابعہ فیہ إن لم یقید الرکعۃ بسجدۃ فإن لم یتابعہ سجد في آخر صلاتہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃالطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، فصل في ما یفعلہ المقتدي الخ‘‘: ص: ۳۰۹، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص33
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسا مصلی اور جائے نماز جس پر خانہ کعبہ کی تصویر پرنٹ ہو یا نقش ہو اس پر نماز پڑھنے سے نماز ہوجاتی ہے۔ اگر اس سے خشوع و خضوع متاثر ہو، تو ایسے مصلی پر نماز پڑھنے سے احتراز بہتر ہے، ایسے مصلی میں بسااوقات خشوع فوت ہونے کا امکان ہے؛ اس لیے مصلی سادے ہونے چاہئیں۔ حدیث سے بھی اس طرف اشارہ ملتاہے، ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منقش چادر میں نماز پڑھی پھر آپ نے وہ چادر ابوجہم کو دینے کا حکم دے دیا۔
’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلی في خمیصۃ لہا أعلام، فنظر إلی أعلامھا نظرۃ، فلما انصرف قال: إذہبوا بخمیصتي ہذہ إلی أبي جہم، وائتوني بأنبجانیّۃ أبي جہم؛ فإنہا ألہتنی آنفا عن صلاتي‘‘(۱)
فتاویٰ عثمانی میں لکھا ہے: ’’جا نمازوں پر فی نفسہ کسی بھی قسم کا نقش پسندیدہ نہیں؛ لیکن اگر کسی جانماز پر حرمین شریفین میں سے کسی کی تصویر اس طرح بنی ہوئی ہے کہ وہ پاؤں کے نیچے نہیں آتی تو اس میں بھی اہانت کا کوئی پہلو نہیں؛ البتہ موضع سجود میں بیت اللہ کے سوا کسی اور چیز کی تصویر بالخصوص روضۂ اقدس کی شبیہ میں چوں کہ ایہام خلافِ مقصود کا ہوسکتا ہے؛ اس لیے اس سے احتراز مناسب معلوم ہوتا ہے‘‘۔(۲)
(۱) معلوم ہوا کہ اس طرح کے مصلی سے احتراز ہی بہتر ہے۔
(۲) ایسے مصلی جس پر خانہ کعبہ وغیرہ کی تصویر ہو اس پر پاؤں رکھناخلاف احتیاطہے۔
(۳) ایسے مصلی کو بچھانے اور اس پر بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ لیکن حضرات فقہاء نے لکھاہے کہ جو مصلیٰ نماز کے لیے مختص ہو بہتر ہے کہ جب تک نماز کے لیے استعمال ہو اس کو کسی دوسرے کام میں استعمال میں نہ لایا جائے؛ اس لیے اس پر بلاضرورت بیٹھنا خلاف اولیٰ کہلائے گا۔(۳)
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب إذا صلی في ثوب لہ أعلام و نظر إلی علمھا‘‘: ج ۱، ص: ۵۴، رقم:۳۷۳۔
ویستنبط منہ کراہیۃ کل ما یشغل عن الصلاۃ من الأصباغ والنقوش ونحو ہا۔ (ابن حجر العسقلاني، فتح الباري بشرح صحیح البخاري، ’’کتاب الصلاۃ، باب إذا صلی في ثوب الخ‘‘: ج ۱، ص:۶۰۷
(۲) مفتي تقي عثماني، فتاوی عثماني: ج ۱، ص: ۱۵۔
(۳) قولہ أو لغیر ذي روح) لقول ابن عباس للسائل: فإن کنت لا بد فاعلاً فاصنع الشجر وما لا نفس لہ رواہ الشیخان ولا فرق في الشجر بین المثمر وغیرہ خلافاً لمجاہد، قولہ لأنہا لا تعبد، أي ہذہ المذکورات وحینئذ فلا یحصل التشبہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۴۱۸، زکریا دیوبند)
صح فرض ونفل فیہا وکذا فوقہا وإن لم یتخذ سترۃ لکنہ مکروہ لإسائۃ الأدب باستعلائہ علیہا۔ (الشرنبلالي، نور الایضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الصلاۃ في الکعبۃ‘‘: ص: ۱۰۰، المکتبۃ الاسعدی، سہارنپور)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص142
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں نماز صحیح ہوگئی اعادے کی ضرورت نہیں ہے؛ کیوں کہ ایسی غلطی کا احساس بہت کم ہوتا ہے۔ بعض اوقات تو غلطی ہوتی ہی نہیں اور احساس غلطی کا سننے والے کو ہوتا ہے اس لیے اس سے پرہیز مشکل ہے پس نماز صحیح ہوگئی ہر امام قاری نہیں ہوتا۔(۱)
(۱) ولو زاد کلمۃ أو نقص کلمۃ أو نقص حرفا، أو قدمہ أو بدلہ بآخر نحو من ثمرہ إذا أثمر واستحصد، تعالیٰ جد ربنا، انفرجت بدل، انفجرت، أیاب بدل أواب لم تفسد مالم یتغیر المعنی إلا مایشق تمییزہ کالضاد والظاء فأکثرہم لم یفسدہا وکذا لو کرر کلمۃ؛ وصحح الباقاني الفساد إن غیر المعنی نحو رب رب العالمین للإضافۃ کما لو بدل کلمۃ بکلمۃ وغیر المعنی نحو: إن الفجار لفي جنات؛ وتمامہ في المطولات، وإن غیر أفسد مثل: وزرابیب مکان، زرابي مبثوثۃ، ومثانین مکان مثاني، وکذا، {والقرآن الحکیم} (یٰس: ۲) و {إنک لمن المرسلین} (یٰس:۳) بزیادۃ الواو تفسد اہـ أي لأنہ جعل جواب القسم قسما کما في الخانیۃ، لکن في المنیۃ: وینبغي أن لا تفسد۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۴-۳۹۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص264
Divorce & Separation
Ref. No. 969 Alif
In the Name of Allah the Most Gracious the Most Merciful
The answer to your question is as follows:
As per the case mentioned above, your wife is divorced with three mughallazah talaqs (irreversible talaqs). By giving talaq in clear-cut words, talaq takes place without intention as well. According to shariah, ignorance is not considered an excuse, talaq takes place in all cases whether you know the ruling or not. Therefore, you cannot live as husband and wife without a valid halalah.
And Allah Knows Best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Usury / Insurance
Ref. No. 39/1148
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
It is allowable to do so, since it is not based on interest.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband