Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 857/41-000

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Since you commenced your journey without the intention of travelling ‘Safar Distance’ (48 miles), you will be regarded ‘Muqeem’ not a ‘Musafir’. Hence you have to pray full salah (4 rakat). However, when you start your journey back to your home town (with the intention of travelling 76 miles) you will be Musafir and have to perform Qasr salah (2 instead of 4 rakats). 

(من خرج من عمارة موضع إقامته) (قاصدا) ولو كافرا، ومن طاف الدنيا بلا قصد لم يقصر، (قوله قاصدا) أشار به مع قوله خرج إلى أنه لو خرج ولم يقصد أو قصد ولم يخرج لا يكون مسافرا ح. (شامی 2/122)

لا يصح القصر إلا إذا نوى السفر، فنية السفر شرط لصحة القصر باتفاق، ولكن يشترط لنية السفر أمران: أحدهما: أن ينوي قطع تلك المسافة بتمامها من أول سفره، فلو خرج هائماً على وجهه لا يدري أين يتوجه لا يقصر، ولو طاف الأرض كلها، لأنه لم يقصد قطع المسافة۔ (الفقہ علی المذاھب الاربعۃ 1/429)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf deoband

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1056/41-237

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔  مالدار آدمی ایسا کرسکتا ہے۔ قربانی  کی نیت سے بکرا خریدنے سے مالدار پر وہی بکرا لازم نہیں ہوتا ہے، تاہم ایسا کرنا بہتر نہیں ہے۔

دوسرے کے پیسوں کو اس کی اجازت کے بعد اپنے استعمال میں لاسکتا ہے۔ بلااجازت جائز نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

Ref. No. 1524/43-1014

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ذکر اللہ میں اصل یہ ہے کہ سری ہو اور انفرادی ہو، مذکورہ بالا ذکر بھی انفرادی طور پر ہونا چاہئے، اجتماعی ذکر سے بچنا چاہئے۔  البتہ پیرطریقت اپنے مریدین کی اصلاح کے لئے اس طرح کی مجلس ذکر کے لئے منعقد کرسکتاہے۔اس طرح کا ذکرکارِ ثواب سمجھ کر کرنے کے بجائے  اصلاحِ نفس کی غرض سے روح کے علاج کے لئے ہی ہوناچاہئے۔ دوکان و مکان کی خیروبرکت کے لئے یہ عمل درست  نہیں اور نام نمود اور ریاکا شائبہ ہے اور دیگر لوگوں کو اس طریقہ کار سے پریشانی لاحق ہونے اورمتنفر ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ اس لئے اس رواج کو ختم کرنا چاہئے۔دوکان و مکان میں خیروبرکت کے حصول کے لئے  قرآن کریم کی تلاوت کافی ہے۔ اہل خانہ تلاوت کا اہتمام کریں تو زیادہ مفید ثابت ہو اورزیادہ  برکتیں نازل ہوں۔ مزید تسلی کے لئے اس موضوع سے متعلق کتاب ’’حکم الذکر بالجہر‘‘ مؤلفہ مولانا سرفراز احمد خان صفدر مدظلہ"  وغیرہ کا مطالعہ شایدمفید ثابت ہوگا۔

  اجمع العلماء سلفا وخلفا علی استحباب ذکر الجماعۃ فی المساجد وغیرھا الا ان یشوش جھرھم علی نائم او مصل او قاری"  الخ (شامی 1/66) ان رفع الصوت بالذکر حين ينصرف الناس من المکتوبة کان علی عهد نبی صلی الله عليه وآله وسلم وقال ابن عباس کنت أعلم إذا بذلک إذا سمعته. (مسلم شریف 1/410 الرقم: 583)

ان الجهر أفضل لأنه اکثر عملاً ولتعدی فائدته، الی السامعين ويوقط قلب الذاکر فيجمع همه الی الفکر و يصرف سمعه و بطرد النوم ويزيد انشاط. (شامی 1/660)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1995/44-1942

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ انشورنس ایک سودی معاملہ ہے،   بلاکسی مجبوری کے انشورنس کرانا جائز نہیں ہے۔  اس لئے اگر سرکاری طور پر کوئی انشورنس لازم ہے یا انشورنس نہ لینے کی صورت میں اپنی حلال کمائی خطرہ میں پڑسکتی ہے تو ایسی شرعی مجبوریوں میں انشورنس کرانے کی اجازت ہے۔ آپ کو جو مسئلہ درپیش ہو، اس کو کسی ماہر مفتی کے سامنے رکھ کر اس کے  حدود و قیود  کو سمجھ لیں ۔

﴿يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾ (المائدة: 90)

"عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اٰكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ»، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»". (صحیح مسلم 3/1219، کتاب المساقات،دار احیاء التراث ، بیروت)

عن ابن سیرین قال: کل شيء فیه قمار فهو من المیسر (مصنف ابن ابی شیبہ (4/483، کتاب البیوع  والأقضیة، ط: مکتبة رشد، ریاض)

"وَسُمِّيَ الْقِمَارُ قِمَارًا؛ لِأَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْ الْمُقَامِرَيْنِ مِمَّنْ يَجُوزُ أَنْ يَذْهَبَ مَالُهُ إلَى صَاحِبِهِ، وَيَجُوزُ أَنْ يَسْتَفِيدَ مَالَ صَاحِبِهِ وَهُوَ حَرَامٌ بِالنَّصِّ" (فتاوی شامی .(6 / 403 ، کتاب الحظر والاباحۃ، ط: سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قانون قدرت ہے کہ انبیاء کی جماعت سخت ترین امتحانوں میں بھی مبتلا کی جاتی ہے۔ پھر امتحان کی بھی اقسام ہیں، ہر بنی کو حق تعالیٰ اپنی حکمت اور اس کی استعداد کے موافق جس قسم کے امتحان میں چاہے مبتلا کرتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے۔ ’’عن مصعب بن سعد عن أبیہ قال: قلت یا رسول اللّٰہ: أي الناس أشد بلائً؟ قال: الأنبیاء ثم الأمثل فالأمثل‘‘۔(۱) اللہ تعالیٰ نے یعقوب علیہ السلام کے دل میں یوسف علیہ السلام کی مافوق العادت محبت ڈالدی، یوسف علیہ السلام کو دردناک طریقے سے ان سے جدا کیا گیا، مفسرین لکھتے ہیں: کہ یعقوب علیہ السلام نہ کسی مخلوق کے سامنے حرف شکایت زبان پر لاتے تھے، نہ کسی سے انتقام لیتے، نہ غصہ کرتے، نہ غم کی بات منہ سے نکلتی، انتہائی غم اور تکلیف کے باوجود ادائے فرض وحقوق میں کوئی خلا نہ پڑنے دیا۔ ان کا دل جتنا فراق یوسف میں روتا تھا، اس سے زیادہ خدا کے حضور میں گڑ گڑا تے تھے۔ اسی درد میں یہ کلمات زبان سے ادا ہوئے۔ {إِنَّمَآ أَشْکُوْا بَثِّيْ وَحُزْنِيْٓ إِلَی اللّٰہِ} (۲)، اس کی تفسیر میں موضح القرآن میں لکھا ہے۔ کیا تم مجھ کو صبر سکھاؤ گے؟ بے صبر وہ ہے جو مخلوق کے آگے خالق کے دیے ہوئے درد کی شکایت کرے۔ میں تو اسی سے کہتا ہوں جس نے درد دیا اور پھر فرمایا: {وَأَعْلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لَاتَعْلَمُوْنَہ۸۶} (۳) اور جانتا ہوں اللہ کی طرف سے جو تم نہیں جانتے؛ لہٰذا یعقوب علیہ السلام کے ان الفاظ کو جو کہ قرآن پاک میں بیان کیے۔ اپنے مضمون کے استدلال میں ذکر کرنا، ظاہر کرتا ہے کہ آپ ترجمہ سے واقف نہیں، حدیث وتفسیر پر بھی آپ کی نظر نہیں۔ ایوب علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر طرح کی آسائش وآرام دیا تھا اور وہ بڑے شکر گزار بندے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمائش میں ڈالا، تو جیسے نعمت میں شاکر تھے، بلاء ومصیبت میں بھی شکر گزار رہے۔ اور کسی سے شکوہ نہ کیا اللہ ہی سے ان الفاظ میں اظہار عاجزی کے ساتھ دعا کی {إِذْ نَادٰی رَبَّہٗٓ أَنِّيْ مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ ہجصلے ۸۳ }(۴) اس لئے آپ کا اس واقعہ کو بھی استدلال میں یا اپنی بات کی تقویت میں لانا آپ کی لاعلمی کا پتہ دیتا ہے۔ جب نوح علیہ السلام نے سیکڑوں سال قوم کو سمجھایا اور وہ راہ راست پر نہ آئی اور بالکل مایوس ہوگئے اور اللہ کی طرف سے وحی کے ذریعہ بتلادیا گیا کہ جو ایمان لاچکے ان کے سوا کوئی اور شخص تمہاری قوم میں سے ایمان نہیںلائے گا، تو کفر اور نافرمانوں کے مٹانے کے لئے اللہ سے التجا کرنی چاہئے تھی کہ قوم میں کفر نہ پھیلے، بلکہ مٹ جائے۔

قرآن پاک میں ہے۔ {وأُوْحِيَ إِلٰی نُوْحٍ أَنَّہٗ لَنْ یُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِکَ إِلَّا مَنْ قَدْ  أٰمَنَ فَلاَ  تَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَہجصلے۳۶  } (۱)

ترجمہ: اور وحی بھیجی گئی نوح کے پاس کہ جو ایمان لاچکے ہیں (ان کے سوا) کوئی اور شخص تمہاری قوم میں سے ایمان نہیں لائے گا، سو جوکچھ یہ کر رہے ہیں اس پر غم مت کرو۔ {وَاصْنَعِ  الْفُلْکَ بِأَعْیُنِنَا}(۲) (اور ہمارے حکم سے) کشتی تیار کرلو {وَلَا تُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاج إِنَّھُمْ مُّغْرَقُوْنَہ۳۷}(۳) اور مجھ سے کافروں کے بارے میں کوئی گفتگو مت کرنا، وہ سب غرق کیے جائیں گے، تو نوح علیہ السلام نے جو کچھ کیا اور کہا وہ حکم خداوندی کے تحت تھا اور سفارش اور قوم کے لئے دعا کرنے سے روک دیا گیا تھا، تو مذکورہ انبیاء علیہم السلام نے جو کچھ کہا اور کیا وہ سب رضائے الٰہی اور اس کے حکم کے تحت تھا، وہ صبر وتحمل کا پیکر اور دوسروں کے لئے عملی نمونہ تھے۔

آپ کی تحریر سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ آپ مذکورہ عالم کو انبیاء علیہم السلام پر فوقیت دے رہے ہیں۔ اگر آپ کے کلام اور تحریر میں تاویل کی گنجائش نہ ہوتی، تو جو احباب آپ کے کہہ رہے ہیں صحیح ہو جاتا۔

لیکن یہ ضرور کہا جائے گا۔ کہ آپ کا طرز تحریر غلط اور بالکل غلط ہے؛ بلکہ اس کو جرء ت جاہلانہ اور عامیانہ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ چاپلوسی پر مبنی ہے جوکہ شرعاً ممنوع ہے جس سے احتراز ضروری ہے۔(۴)

فقط: واللہ اعلم بالصواب

 دار العلوم وقف دیوبند

(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 169-171)

 

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2281/44-3436

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر مرغی  کے ذبح کے وقت نکلنے والا خون  گوشت پر  نہیں لگاہوا تھا  اور کوئی نجاست بھی نہیں لگی تھی تو اس کا گوشت پاک ہے، اس کو بغیر دھوئے پکانا بھی جائز ہے۔  اور اگر خون لگاہوا تھا اور اسی حالت میں پکادیا تو سب ناپاک ہوگیا، اب وہ سالن یا گوشت کھانا جائز نہیں ہوگا۔

وقولہ تعالی( أو دما مسفوحا )یدل علی أن  المحرم  من  الدم ما کان مسفوحا (احکام القرآن،مطلب فی لحوم الابل الجلالة،ج3،ص 33،مطبوعہ کراچی) ومالزق من الدم السائل باللحم فھونجس (فتاوی عالمگیری،الفصل الثانی ،ج01،ص46،مطبوعہ کوئٹہ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سوال میں مذکوربات اگر بالکل صحیح ہے تو مسجد کے متولی اور صدر کا یہ عمل قطعا درست نہیں ہے، اس لیے کہ ولیمہ کرنا یا نہ کرنا یہ شادی کرنے والے کا اپنا عمل ہے، ولیمہ نہ کرنے پر بطور سزا کے زبردستی پیسہ وصول کرنا ناجائز ہے کسی کو بھی حق نہیں پہونچتا ہے کہ ولیمہ نہ کرنے والے سے پیسے کا مطالبہ کرے وہ بھی مسجد جیسی مقدس جگہ کے لیے جہاں صرف حلال اور پاک پیسہ استعمال ہونا چاہیے؛ اس لیے صدر وسکریٹری کا یہ عمل غیر شرعی اور غیر اخلاقی ہے۔
’’اسمعوا مني تعیشوا، ألا لا تظلموا، ألا لا تظلموا، ألا لا تظلموا، إنہ لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ،(۲) إن ہذا المال خضرۃ حلوۃ، فمن أخذہ
بطیب نفس بورک لہ فیہ، ومن أخذہ بإشراف نفس لم یبارک لہ فیہ، وکان کالذي یأکل ولا یشبع، والید العلیا خیر من الید السفلي السنن الکبری للنسائي،الید العلیا خیر من الید السفلي(۱) عن أبي ہریرۃ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ طیب لا یقبل إلا الطیب، وإن اللّٰہ أمر المؤمنین بما أمر بہ المرسلین قال: {یَا أَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیمٌ} (المؤمنون: ۵۱) (۲)

(۲) أخرجہ أحمد بن حنبل، في مسندہ، ’’حدیث عم أبي حرۃ الرقاشي‘‘: ج ۳۴، ص: ۲۹۹، رقم: ۲۰۶۹۵۔
(۱) أخرجہ النسائي، في سننہ، ’’مسألۃ الرجل في أمر لا بد لہ منہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۸، رقم: ۲۶۰۲۔
(۲) أخرجہ البیہقي، في سننہ: ج ۴، ص: ۳۳۵، رقم: ۶۳۹۔


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص466
 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ روایت کو امام احمد (حدیث نمبر: ۲۲۳۴۲)، امام طبرانی (حدیث نمبر: ۷۸۷۱) نے نقل کیا ہے۔ علامہ ہیثمی نے لکھا ہے کہ اس کے رواۃ صحیح ہیں۔ اور امام حاکم نے علی شرط مسلم اس روایت کو صحیح قرار دیاہے۔(۱)

(۱) وفي روایۃ عن أبي أمامۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال أبوذر رضي اللّٰہ عنہ: قلت: یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کم وفاء عدۃ الأنبیاء قال مأۃ ألف أربعۃ وعشرون ألفاً الرسل من ذلک ثلثمایۃ وخمسۃ عشر جما غفیراً۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الفتن: باب بدء الخلق وذکر الأنبیاء علیہم السلام، الفصل الثالث‘‘: ج ۲، ص: ۵۱۱، رقم: ۵۷۳۷)
العدد في ہذا الحدیث وإن کان مجزوما بہ، لکنہ لیس بمقطوع، فیجب الإیمان بالأنبیاء والرسل مجملا من غیر حصر في عدد، لئلا یخرج أحد منہم، ولا یدخل أحد من غیرہم فیہم۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الفتن: باب بدء الخلق وذکر الأنبیاء علیہم السلام‘‘: ج ۱۱، ص: ۴۳ رقم: ۵۷۳۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص102

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2657/45-4046

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بشرط صحت سوال اگر وارثین میں سوائے اولاد کے کوئی نہیں ہے تو زمین کی تقسیم کرنی ہو یا رقم کی، کل آٹھ حصے بنیں گے۔ جن میں سے ہر بیٹے کو دو دو اور ہر ایک بیٹی کو ایک ایک حصہ ملےگا۔ یعنی کل زمین 568  گز  میں سے ہر ایک بیٹے کو 142 گز اور ہر ایک بیٹی کو 71 گز زمین حصہ میں آئے گی۔ اور اگر بیچ کر رقم تقسیم کرنی ہے تو کل رقم 9500000  (95 لاکھ) میں سے ہر ایک بیٹے کو 2375000ملیں گے اور ہر ایک بیٹی کو 1187500 ملیں گے۔    

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں غسل واجب نہیں ہوگا۔(۱)

(۱) عن أبي ہریرۃؓ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ: إذا وجد أحدکم في بطنہ شیئا فأشکل علیہ أخرج منہ شيء أم لا؟ فلا یخرجن من المسجد حتی یسمع صوتا أو یجد ریحا۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب الدلیل علی أن من تیقن الطہارۃ ثم شک في الحدث علۃ أن یصلی بطھارتھا‘‘ج۱،ص:۱۵۸، مکتبہ نعیمیہ دیوبند) ؛ ولا یمنع الطہارۃ و نیم و حناء و درن ووسخ۔ (ابن عابدین، رد المختار،’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل‘‘ج۱، ص:۲۸۸)؛ و شرط السیلان لانتقاض الوضوء في الخارج من السبیلین۔ و ھذا مذھب علمائنا الثلاثۃ رحمھم اللّٰہ تعالی و إنہ استحسان۔ ( عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل ما یوجب الوضوء‘‘ ج۱،ص:۲۴۲، مکتبۃ زکریا دیوبند)…
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص307