Frequently Asked Questions
نکاح و شادی
Ref. No. 1523/43-1018
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب زاہد نے علی کی وکالت کواس کے سامنے قبول کرنے سے انکار کردیا تو اب توکیل باطل ہوگئی، اب زاہد ، علی کی غیرموجودگی میں اس باطل شدہ توکیل سے وکیل نہیں بن سکتا اور اس کا تصرف علی کے لئے قابل قبول نہیں ہوگا بلکہ اپنی ذات کے لئے ہی ہوگا۔ اگر اس نے علی کا نکاح کسی سے کرادیا تو یہ فضولی کا نکاح ہے وکیل کا نکاح نہیں ہے اور یہ نکاح علی کی اجازت پر موقوف رہے گا ۔
فكما أن نكاح الفضولي صحيح موقوف على الإجازة بالقول أو بالفعل فكذا طلاقه (شامی، مطلب فی تعریف السکران وحکمہ 3/242) وصورة التوكيل بالقبض كن وكيلا عني بقبض ما اشتريته وما رأيته كذا في الدرر. - - - وفي الفوائد: صورة التوكيل أن يقول المشتري لغيره، كن وكيلا في قبض المبيع أو وكلتك بقبضه. - - - وأفاد أنه ليس كل أمر توكيلا بل لا بد مما يفيد كون فعل المأمور بطريق النيابة عن الآمر فليحفظ اهـ. هذا جميع ما كتبه نقلته، وبالله التوفيق (شامی، کتاب الوکالۃ 5/509)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2051/44-2056
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مذکورہ میں نہ تو طلاق کا ذکر ہے نہ طلاق کی طرف کوئی اشارہ ہے۔ اس لئے محض لفظ 'بین' کے تلفظ سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ اس طرح کے شک و شبہہ سے بچیں۔
ویؤیدہ ما فی البحر لو قال امرأۃ طالق او قال طلقت امراء ۃ ثلثاً وقال لم اعن امر اء تی یصدق آہ ویفھم منہ انہ لو لم یقل ذلک تطلق امرأتہ لان العادۃ ان من لہ امرأۃ انما یحلف بطلا قھا لا بطلاق غیرھا الخ ۔ (ردالمحتار باب الصریح ج ۲ ص ۵۹۱)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحت سوال، اس سے ایمان سلب نہیں ہوا؛ البتہ اس طرح کے وساوس سے احتیاط ضروری ہے، وسوسہ کی طرف بالکل دھیان نہ دیں، ذہنی الجھنوں سے دور رہنے کے اسباب اختیار کریں۔(۱)
(۱) الخاطئ إذا أجری علی لسانہ کلمۃ الکفر خطأ بأن کان یرید أن یتکلّم بما لیس بکفر فجری علی لسانہ کلمۃ الکفر خطأ، لم یکن ذلک کفرا عند الکل۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۷)
وما کان خطأ من الألفاظ ولا یوجب الکفر، فقائلہ یقرّ علی حالہ، ولا یؤمر بتجدید النکاح ولکن یؤمر بالاستغفار والرّجوع عن ذلک۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب جملۃ من لا یقتل إذا ارتد‘‘: ج ۶، ص: ۳۸۱)
(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 168)
دار العلوم وقف دیوبند
روزہ و رمضان
Ref. No. 2280/44-3435
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بھاپ کی مذکورہ صورت سے صرف ناک تک خوشبو جاتی ہے، بھاپ کے بخارات اندر نہیں جاتے ہیں تو اس صورت میں روزہ فاسد نہیں ہوگا۔ لیکن اگر بھاپ لے گا تو پانی بخارات میں تبدیل ہوکر اندر چلاجائےگا، تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔
''ومفاده أنه لو أدخل حلقه الدخان أفطر أي دخان كان ولو عوداً أو عنبراً لو ذاكراً؛ لامكان التحرز عنه، فليتنبه له كما بسطه الشرنبلالي''. (الدر: ٢/ ٣٩٥، ط: سعيد)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جنات کی زیادہ سے زیادہ عمر تو اللہ ہی کے علم میں ہے، البتہ اتنا جان لینا کافی ہے کہ جنات کی عمریں بڑی لمبی ہوتی ہیں، جنات پہاڑ اور سمندر میں رہتے ہیں، اگرچہ زمینوں پر جس پر انسان آباد ہیں آجاتے ہیں اس میں بھی ان کے لیے رکاوٹ نہیں ہے۔ اور ان کی خوراک لید اور ہڈی وغیرہ ہیں۔ (۱)
(۱) فسألوني الزاد فزودتہم العظم والبعر فلا یستطیبن أحدکم بعظم ولا بعر۔ (أبو عبد اللّٰہ محمد بن أحمدالقرطبي، تفسیر القرطبي، ’’سورۃ الجن: ۳‘‘: ج۲۰، ص: ۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص260
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:پہلا اورتیسرا عمل تو وہم ہے، اور دوسرا عمل یقینی طور پر بدعت و ضلالت ہے،(۱) ایسے اعمال سے پرہیز کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے، اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔ ’’کل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ في النار‘‘(۲)
(۱) عن أبي ہریرۃ -رضي اللّٰہ عنہ- قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لو کنت اٰمر أحدا أن یسجد لأحد لأمرت المرأۃ أن تسجد لزوجہا۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الرضاع، باب ما جاء في حق الزوج علی المرأۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۹، رقم: ۳۲۵۵)
(۲) إن الناس قد أکثروا من دعاء غیر اللّٰہ تعالیٰ من الأولیاء الأحیاء منہم والأموات وغیرہم مثل یا سیدی فلان أغثني ولیس ذلک من التوسل المباح۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ المائدۃ: ۲۷ إلی ۳۷‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص377
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) اسلام میں بارات کی کوئی اصل نہیں ہے،(۳) اس وقت شادی میں مختلف قسم کی رسوم اور اسراف داخل ہوگئے ہیں ان ہی میں سے ایک گھوڑے پر بارات جانا ہے، گھوڑا بھی ایک عام سواری ہے؛ لیکن شادی کے موقعہ پر اس کا استعمال یا تو رسم کے طور پر یا فخر ومباہات کے طور پر ہوتا ہے، اس لیے بارات کے لیے گھوڑے کی سواری مناسب نہیں ہے(۱) ہاں اگر کسی جگہ اس کا رواج نہ ہو اور نہ ہی یہ اسراف اور فخر ومباہات کے طو رپر ہو تو اس کی گنجائش ہے۔
(۲) شادی کے موقعہ پر دعوت میں شریک لوگوں کا پیسہ،کپڑا یا دوسرے تحفے دینا یہ نیوتہ کی ایک رسم ہے جس میں بہت سے مفاسد ہیں،(۲) اس لیے یہ رسم قابل ترک ہے،(۳) (اصلاح الرسوم) ہاں اگر اتفاقی طور پر کسی کی شادی میں جائے اور ہدیہ وغیرہ دے کر آئے جب کہ واپس لینے کی نیت نہ ہو تو یہ نہ صرف درست ہے، بلکہ مستحب اور پسندیدہ عمل ہے؛ اس لیے کہ حدیث میں ہدیہ دینے کی ترغیب دی گئی ہے جس سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ (۴)
(۳) ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
(۱) وقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کل شیء یلہو بہ ابن آدم فہو باطلٌ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’حدیث عقبۃ بن عامر -رضي اللّٰہ عنہ-‘‘: ج ۲۸، ص: ۵۷۳، رقم: ۱۷۳۳۸)
(۲) عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا تظلموا ألا لا تظلموا إنہ لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ الحدیث (أخرجہ أحمد بن حنبل، في مسندہ، ’’حدیث عم أبي حرۃ الرقاشي‘‘: ج ۵، ص: ۷۳، رقم: ۹۷۱؛ مشکوۃ شریف، ’’کتاب البیوع: باب الغضب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۴)
(۳) لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحدود: باب التعزیر‘‘: ج ۶، ص: ۱۰۶)
(۴) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: تہادوا فإن الہدیۃ تذہب وغر الصدر۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’مسند أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ-‘‘: ج ۱۵، ص: ۱۴۱، رقم: ۹۲۵۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص467
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:شریعت اسلامیہ میں خوشی منانے کے لیے حدود اور طریقے ہیں، عیدین اللہ تعالیٰ کی عبادت، اس کی نعمتوں کے اظہار اور خوشی کے مواقع ہیں؛ لیکن غیروں کے طریقوں سے احتراز ضروری ہے، مشرکین جو طریقہ اختیار کرتے ہیں، جھالر اور چراغاں وغیرہ یہ مسلمانوں کا طریقہ نہیں؛ بلکہ غیروں کا طریقہ(۱) اور اسراف ہے؛ اس لیے اس سے بچنا چاہئے۔(۲)
(۱) (۱) لا بأس بہ إذا فعلہ من مال نفسہ ولا یستحسن من مال الوقف۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، الباب الخامس في آداب المسجد‘‘: ج ۵، ص: ۳۱۹)
(۲) وکل ہذہ بدع ومنکرات لا أصل لہا في الدین ولا مسند لہا في الکتاب والسنۃ ویجب علی أہل العلم أن ینکروہا۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، معارف السنن، ’’باب التشدید في البول‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۶)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص513
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:فقہ کی کتابوں میں ’’حي علی الصلوہ‘‘ پر کھڑے ہونے کو مستحب لکھا ہے، جس کا مطلب علامہ طحطاوی نے یہ لکھا ہے کہ ’’حي علی الصلوہ‘‘ پر ہر حال میں کھڑا ہو جانا چاہئے، اس سے تاخیر کرنا درست نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے پہلے کھڑے ہونا درست نہیں ہے۔ امام صاحب کا ’’حي علی الصلوٰہ‘‘ پرکھڑے ہونے پر اصرار کرنا درست نہیں ہے۔ صفوں کو درست کرنا واجب ہے اور واجب پر عمل کرنا مستحب پر عمل کرنے سے زیادہ ضروری ہے۔ حضرات صحابہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں تشریف لاتے دیکھ کر کھڑے ہوجاتے تھے، اور اسی وقت حضرت بلال رضی اللہ عنہ تکبیر شروع فرماتے تھے۔(۱) معلوم ہوا کہ ابتداء تکبیر میں کھڑا ہونا بھی درست ہے؛ بلکہ صفوں کی درستگی کے لئے یہی صورت بہتر ہے تاکہ اقامت کے ختم ہونے سے پہلے مکمل صف درست ہوجائے۔
’’عن أبي ھریرۃ رضي اللّٰہ عنہ یقول أقیمت الصلوۃ قمنا فعدلنا الصفوف قبل أن یخرج إلینا رسول اللّٰہ‘‘(۲) اس حدیث کے ذیل میں علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ یہی ان کے نزدیک سنت ہے(۳) حضرت حافظ ابن حجر اپنی کتاب فتح الباری شرح بخاری میں ابن شہاب کی روایت نقل فرماتے ہیں، جس میں بالکل صریح ہے کہ وہ لوگ تکبیر کہتے ہی کھڑے ہو جایا کرتے تھے۔
’’روي عبدالرزاق عن ابن جریج عن ابن شھاب أن الناس کانوا ساعۃ یقول المؤذن اللّٰہ أکبر یقومون إلی الصلاۃ فلا یأتي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم مقامہ حتی تعتدل الصفوف‘‘(۱)
(۱) أخرجہ مسلم، في سننہ، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب متی یقوم الناس للصلوٰۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۰)
(۲) فأتي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حتی إذا قام في مصلاہ قبل أن یکبر ذکر فانصرف وقال لنا مکانکم فلم نزل قیاماً ننظرہ حتی خرج إلینا وقد اغتسل ینطف رأسہ ماء فکبر فصلی بنا۔ (أخرجہ مسلم، في سننہ، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب متی یقوم الناس للصلوٰۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۰، رقم: ۱۵۷)
(۳) (قولہ فقمنا فعد لنا الصفوف) إشارۃ إلی أنہ ہذہ سنۃ معہودۃ عندہم۔ (النووي علی مسلم، ’’کتاب الصلاۃ: باب من أدرک رکعۃ من الصلاۃ فقد أدرک تلک الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۱)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، أن الصلوٰۃ کانت تقام لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فیأخذ الناس مقامہم قبل أن یأخذ النبيصلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب في الصلوٰۃ تقام ولم یأت الإمام ینظرونہ فعوداً‘‘: ج ۱، ص: ۸۰، رقم: ۵۴۱) وعن أنس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: سووا صفوفکم فإن تسویۃ الصفوف من إقامۃ الصلوٰۃ: متفق علیہ إلا عن المسلم من تمام الصلوٰۃ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلوٰۃ، باب تسویۃ الصفوف‘‘: ج ۱،ص: ۹۸، ۱۰۸۷)
(۱) ابن حجر العسقلاني،فتح الباري، ’’کتاب الصلاۃ: باب متی یقوم الناس إذا رأوا الإمام عند الإقامۃ‘‘: ج۲، ص: ۱۲۰، رقم: ۶۳۷۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص103
Usury / Insurance
Ref. No. 2609/45-4055
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
In business and trade, sometimes there is profit and sometimes there is loss and both may go up and down too. In the above mentioned case, the profit rate is fixed, so you would get the specified profit in every case, thus it is not a trade, but it is an interest gaining policy where you are giving your money at 6% interest, which is absolutely forbidden in Shariah. So it is not permissible to take the above policy and earn profit from it. You should terminate it immediately and adopt a halal method of trading.
عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اٰكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ»، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»".
(صحیح مسلم ، کتاب المساقات،3/1219، دار احیاء التراث ، بیروت)
(قوله لأنه يصير قمارا) لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص.
(ردالمحتار علی الدر المختار ، کتاب الحظر والاباحة،فصل فی البیع، ۶/۴۰۳،ط:سعید)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband