نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز جمعہ کے لیے شرائط کا پایا جانا ضروری ہے ان شرائط میں سے ایک شرط شہر یا قصبہ کا ہونا ہے قریہ صغیرہ یعنی چھوٹی بستی جہاں ضروریات کی تمام چیزیں دستیاب نہ ہو وہاں جمعہ قائم کرنا درست نہیں ہے اگر جمعہ قائم کردیا گیا ہے تو لوگوں کو سمجھا کر بند کرانے کی کوشش کی جائے لیکن اگر لوگ بند کرنے پر آمادہ نہ ہوں یا فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو پھر اس صورت میں جمعہ کو جاری رہنے دیا جائے۔ حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب نے ایسی صورت میں جمعہ جاری رکھنے کی اجازت دی ہے۔ کفایت المفتی میں ہے:اگر اس جگہ ایک سو برس سے جمعہ کی نماز ہوتی ہے تو اسے بند نہ کرنا چاہیے کہ اس کی بندش میں دوسرے فتنہ و فساد کا اندیشہ ہے، جو لوگ نہ پڑھیں ان پر اعتراض اور طعن نہ کرنا چاہیے، وہ اپنی ظہر کی نماز پڑھ لیا کریں اور جو جمعہ پڑھیں وہ جمعہ پڑھ لیا کریں۔(۱)’’وعبارۃ القستاني: تقع فرضاً في القصبات والقری الکبیرۃ التي فیہا أسواق، وفیما ذکرنا إشارۃ إلی أنہ لاتجوز في الصغیرۃ التي لیس فیہا قاض ومنبر وخطیب، کما في المضمرات‘‘(۲)(۱) مفتی کفایت اللہ، کفایت المفتی، ’’کتاب الصلاۃ: پانچواں باب‘‘: ج ۳، ص: ۱۸۷۔(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۶۰۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 77

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گاؤں میں جمعہ کی نماز پڑھنا ثابت نہیں ہے، جمعہ کی فرضیت مکہ میں ہو چکی تھی لیکن آپ نے وہاں جمعہ قائم نہیں کیا پھر ہجرت کے موقع پر آپ نے چودہ دن قبا میں قیام فرمایا جو کہ مدینہ کے قریب ایک گاؤں تھا جمعہ کی فرضیت ہوچکی تھی لیکن آپ نے قبا میں جمعہ کی نماز ادا نہیں کی، بلکہ جب آپ مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں جمعہ قائم فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی مدینہ ہی میں جمعہ قائم کیا جاتا تھا، آس پاس کے دیہاتوں میں جمعہ قائم نہیں کیا جاتا تھا، بلکہ مدینہ سے باہر بہت سی بستیوں کے لوگ مسلمان ہوگئے تھے اور بہت سے علاقے فتح ہوگئے تھے، پھر بھی وہاں جمعہ قائم نہیں کیا گیا، جب کہ وہاں کے لوگ مدینہ میں حاضر ہوکر جمعے میں شریک نہیں ہوسکتے تھے؛ یہاں تک کہ ’’جواثیٰ‘‘ کے لوگوں (یعنی وفدِ عبد القیس) نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر بخوشی اسلام قبول کیا اور واپس اپنے علاقے میں جاکر سنہ ۷؍ ہجری میں ’’جواثیٰ‘‘ (جو اس وقت بہت بڑا قصبہ اور مرکزی حیثیت رکھتا تھا) میں جمعہ قائم کیا اور  مدینہ کے بعد یہ پہلی جگہ تھی جہاں جمعہ قائم کیا گیا۔ اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے فتوحات کے بعد صرف شہروں میں ہی جمعہ کے قیام کا اہتمام کیا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پر اجماع ہے کہ جمعہ قائم کرنے کے لیے شہر ہونا شرط ہے۔’’جمع أہل المدینۃ قبل أن یقدم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقبل أن تنزل الجمعۃ وہم الذین سموہا الجمعۃ، فقالت الأنصار للیہود: یوم یجتمعون فیہ کل سبعۃ أیام، وللنصاری أیضا مثل ذلک، فہلم فلنجعل یوما نجتمع ونذکر اللہ ونصلی ونشکرہ فیہ، أو کما قالوا: فقالوا: یوم السبت للیہود، ویوم الأحد للنصاري، فاجعلوہ یوم العروبۃ، وکانوا یسمون یوم الجمعۃ یوم العروبۃ، فاجتمعوا إلی أسعد بن زرارۃ فصلی بہم، یومئذ وذکرہم فسموہ الجمعۃ، حتی اجتمعوا إلیہ‘‘(۱)(۱) أخرجہ عبدالرزاق في مصنفہ، ’’باب أول من جمع‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۹، رقم: ۵۱۴۴۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 75

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نابینا پر جمعہ کی فرضیت میں اختلاف ہے، حضرت امام ابوحنیفہ کے یہاں نابینا پر جمعہ فرض نہیں ہے اور صاحبین کے نزدیک اگر کوئی نابینا کو مسجد تک لے جانے والا موجود ہو تو نابینا پر جمعہ کی نماز فرض ہے۔’’و السادس سلامۃ العینین  فلا تجب علی أعمی عند أبي حنیفۃ خلافا لہما إذا وجد قائدا یوصلہ وہي مسألۃ القادر بقدرۃ الغیر‘‘(۲)نابینا شخص چوں کہ پاکی کا بہت زیادہ اہتمام نہیں کر پاتا ہے اس لیے اس کی امامت مکروہ ہے  لیکن اگر وہ سب سے ا فضل ہے اور طہارت کا اہتمام بھی کرتاہے تو اس کی امامت مکروہ نہیں ہے اور جمعہ کی امامت کا بھی یہی حکم ہے۔’’وکرہ إمامۃ العبد إن لم یکن عالما تقیا والأعمی لعدم اہتدائہ إلی القبلۃ وصون ثیابہ عن الدنس وإن لم یوجد أفضل منہ فلا کراہۃ‘‘(۱)(۲) أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ص: ۵۰۵۔(۱) أیضاً: ’’فصل بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۲۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 74

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب واللہ الموفق: جمعہ شہر، قصبہ اور فناء شہر میں قائم کیا جاسکتا ہے، اگر مدرسہ غیر مسلم بستی سے صرف سو میٹر کے فا صلے پر ہے اور اُس بستی میں شرائط جمعہ موجود ہیں یعنی وہاں کی آبادی تین ہزارکے آس پاس ہے تومذکورہ مدرسہ میں جمعہ قائم کیا جاسکتاہے اس لیے کہ وہ فناء شہر اور اس کے مضافات کے حکم میں ہے۔’’(فناؤہ) بکسر الفاء (وہو ما) حولہ (اتصل بہ) أولا، کما حررہ ابن الکمال وغیرہ (لأجل مصالحہ) کدفن الموتی ورکض الخیل، والمختار للفتوی تقدیرہ بفرسخ، ذکرہ الولوالجی‘‘(۱)’’(لاتصح الجمعۃ إلا في مصر جامع، أو في مصلی المصر، و لاتجوز في القری)؛ لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: لا جمعۃ و لا تشریق و لا فطر و لا أضحی إلا في مصر جامع و المصر الجامع: کل موضع لہ أمیر و قاض ینفذ الأحکام ویقیم الحدود، و ہذا عند أبي یوسف رحمہ اللّٰہ، و عنہ أنہم إذا اجتمعوا في أکبر مساجدہم لم یسعہم، و الأول اختیار الکرخي و ہو الظاہر، و الثاني اختیار الثلجی، و الحکم غیر مقصور علی المصلي؛ بل تجوز في جمیع أفنیۃ المصر؛ لأنہا بمنزلتہ في حوائج أہلہ‘‘(۱)(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۷۔(۱) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۷ تا ۵۱۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 73

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اقامت جمعہ کے لیے بنیادی شرط بڑی آبادی کا ہونا ہے ایک ایسی آبادی جہاں ضروریات کی تمام چیزیں ملتی ہوں مثلاً: ڈاکخانہ، میڈیکل وغیرہ، حضرات اہل علم نے تین ہزار یا اس کے آس پاس کی آبادی کو بڑی آبادی شمار کیا ہے، اتنی بڑی آبادی میں جمعہ کی نماز قائم کی جاسکتی ہے۔ سوال میںجو صورت حال مذکور ہے، اس میں جمعہ قائم کرنا درست نہیں ہے۔ لوگوں میں نماز کی ترغیب کے لیے دوسرے طریقے استعمال کئے جائیں۔’’(یشترط لصحتہا) سبعۃ أشیاء: الأول (المصر)، الثاني: (السلطان)، والثالث: (وقت الظہر)، والرابع: (الخطبۃ فیہ)، الخامس: (کونہا قبلہا)، السادس: (الجماعۃ)، السابع: (الإذن العام)‘‘(۱)’’عن علي رضي اللّٰہ عنہ قال: لا جمعۃ ولا تشریق إلافي مصر جامع و کان یعد الأمصار: البصرۃ و الکوفۃ والمدینۃ و البحرین‘‘(۲)’’وفي التاتارخانیۃ: ثم ظاہر روایۃ أصحابنا لا تجب إلا علی من یسکن المصر أو ما یتصل بہ، فلا تجب علی أہل السواد ولو قریباً و ہذا أصح ما قیل فیہ و بہ جزم في التجنیس‘‘(۳)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۵ تا ۲۵۔(۲) أخرجہ عبد الرزاق، في مصنفہ، ’’کتاب الصلاۃ، کتاب الجمعۃ: باب القری الصغار‘‘: ج ۳، ص: ۱۶۸، رقم: ۵۱۷۷۔(۳) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في شروط وجوب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۲۷۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 71

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: کمپنی چوں کہ شہر کی مانندجگہ پر واقع ہے جیسا کہ سوال میں صراحت ہے، اس لیے اس جگہ جمعہ کی نماز قائم کی جاسکتی ہے اور چار پانچ لوگ مل کر جمعہ کی نماز پڑھ سکتے ہیں، بہتر ہے کہ ایسی جگہ جمعہ کا اہتمام کیا جائے کہ اگر کمپنی کے ملازمین کے علاوہ بھی کوئی آنا چاہے، تو آسکے تاکہ اذن عام کی شرط پر بھی اچھی طرح عمل ہوجائے۔’’السلطان إذا أراد أن یجمع بحشمہ في دارہ فإن فتح باب الدار وأذن إذنا عاما جازت صلاتہ شہدہا العامۃ أو لم یشہدوہا، کذا في المحیط‘‘(۱)(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۹۔(وفاقدہا) أي ہذہ الشروط أو بعضہا (إن) اختار العزیمۃ و(صلاہا وہو مکلف)   بالغ عاقل (وقعت) فرضا عن الوقت لئلا یعود علی موضوعہ بالنقض وفي البحر: ہي أفضل إلا للمرأۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في شروط الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۲۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 70

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: جمعہ کے لیے اذن عام کی شرط ائمہ اربعہ میں سے صرف احناف کے یہاں ہے اور احناف کے یہاں بھی ظاہر الروایت نہیں ہے، اسی وجہ سے صاحب ہدایہ نے اس شرط کو ذکر نہیں کیا ہے، ہاں نوادر کی روایت کے مطابق اذن عام کو شرط قرار دیا گیا ہے۔دوسری بات یہ کہ موجودہ حالات میں حکومت کی طرف سے جو پانچ چھ سے زائد لوگوں کو منع کیا جارہا ہے یہ قانونی اور حکومتی پابندی کی بنا پر ہے اور ایسی ممانعت اذن عام کے منافی نہیں ہے کیوں کہ مقصد لوگوں کو نماز جمعہ سے روکنا نہیں ہے؛ بلکہ قانون شکنی کی صورت میں ہونے والی بڑی پریشانی سے بچنا ہے مساجد تو خدا کا گھر ہیں جہاں ہر حال میں اذن عام پایا جاتا ہے اس وقت اگر ناگزیر حالات کی بنا پر عام لوگوں کو مسجد میں نماز پڑھنے سے منع کیا جارہاہے تو یہ درحقیقت نماز سے روکنا نہیں ہے بلکہ مضر صحت ہونے کی وجہ سے بھیڑ سے روکنا ہے اس سے مسجد کی نماز جمعہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے، اس لیے مسجد میں جمعہ کی نماز بلاکراہت درست ہے۔جہاں تک مسئلہ ہے گھر میں اذن عام کا ہونا یا نہ ہونا، یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اگر کسی علاقے میں جمعہ کے شرائط پائے جاتے ہوں تو وہاں پر اذن عام کی اس درجہ شرط ضروری نہیں بلکہ اگر کسی وجہ سے عام لوگوں کو منع بھی کیا جائے تو بھی جمعہ کی نماز ہوجاتی ہے حضرات اکابر نے اس فیکٹری اور کمپنی میں نماز جمعہ کی اجازت دی ہے جس میں سیکیورٹی اورسامان کی حفاظت کی خاطر عام لوگوں کو آنے کی اجازت نہیں ہے۔چناں چہ امداد الفتاوی میں لکھا ہے کہ: اگر چھاؤنی میں جمعہ ادا کیا جائے تو جائز ہے گو چھاؤنی اور قلعے میں دوسرے لوگ نہ آسکتے ہوں؛ کیوں کہ مقصود نماز سے روکنا نہیں ہے بلکہ انتظام مقصود ہے۔(۱)(۱) مولانا أشرف علي تھانوي رحمۃ اللّٰہ علیہ، إمداد الفتاوی،   ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجمعۃ والعیدین‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۰، زکریا، دیوبند۔وشرط أدائہا أیضاً الإذن العام من الإمام حتی لو غلق بابہ وصلی باتباعہ لا تجوز۔ (النہر الفائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘:  زکریا، دیوبند،ج ۱، ص: ۳۶۰)ومنہا: الإذن العام وہو أن تفتح أبواب الجامع فیؤذن للناس کافۃ حتی أن جماعۃ لو اجتمعوا في الجامع وأغلقوا أبواب المسجد علی أنفسہم وجمعوا لم یجز۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۹)قال وإذا دخل القوم مسجداً قد صلی فیہ أہلہ کرہت لہم أن یصلوا جماعۃ بأذان وإقامۃ ولکنہم یصلون وحداً بغیر أذان وإقامۃ لحدیث الحسن قال: کانت الصحابۃ إذا فاتتہم الجماعۃ فمنہم من اتبع الجماعات ومنہم من صلی في مسجدہ بغیر أذان والإقامۃ۔ (سرخسي، المبسوط، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۰؛ وابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب: في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 68

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: جمعہ کی سات شرطیں فقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں (۱)مصر یعنی شہر یا بڑی آبادی کا ہونا (۲) سلطان (۳) ظہر کا وقت ہونا (۴) خطبہ کا ہونا (۵)خطبہ کاجمعہ سے پہلے ہونا (۶) جماعت (۷)اذن عام کا ہونا ۔عیدین میں بھی وہی شرطیں ہیں جو جمعہ میں ہیں سوائے  سلطان اور خطبہ کے ۔لیکن یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اقامت جمعہ کے لیے بنیادی شرط بڑی آبادی کا ہونا ہے ایک ایسی آبادی جہاں ضروریات کی تمام چیزیں ملتی ہوںمثلا ڈاکخانہ ، میڈیکل وغیرہ۔ حضرات اہل علم نے تین ہزار یا اس کے آس پاس کی آبادی کو بڑی آبادی میں شمار کیا ہے ، اتنی بڑی آبادی میں جمعہ قائم کیا جاسکتی ہے۔’’(یشترط لصحتہا) سبعۃ أشیاء: الأول: (المصر)، الثاني: (السلطان)، والثالث: (وقت الظہر)، والرابع: (الخطبۃ فیہ)، الخامس: (کونہا قبلہا)، السادس: (الجماعۃ)، السابع: (الإذن العام)‘‘(۱)’’عن علي رضي اللّٰہ عنہ قال: لا جمعۃ ولا تشریق إلا في مصر جامع وکان یعد الأمصار: البصرۃ و الکوفۃ والمدینۃ والبحرین‘‘(۲)’’وفي التاتارخانیۃ: ثم ظاہر روایۃ أصحابنا لا تجب إلا علی من یسکن المصر أو ما یتصل بہ، فلا تجب علی أہل السواد ولو قریباً و ہذا أصح ما قیل فیہ و بہ جزم في التجنیس‘‘(۳)(۱) الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج  ۳، ص: ۵ تا ۲۵۔(۲) أخرجہ عبد الرزاق في مصنفہ، ’’کتاب الصلاۃ، کتاب الجمعۃ: باب القری الصغار‘‘: ج ۳، ص: ۱۶۸، رقم : ۵۱۷۷۔(۳) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في شروط وجوب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۲۷۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 67

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: جن جگہوں پر جمعہ کے شرائط نہیں پائے جاتے ہیں وہاں ظہر کی نماز پڑھنی چاہیے، جمعہ کی نماز درست نہیں ہے اگر کسی نے جمعہ کی نماز پڑھ لی تو اس کی نماز نہیں ہوئی اس کو ظہر کی نماز لوٹانی ہوگی۔(۱)(۱) (لا تصح الجمعۃ إلا في مصر جامع، أو في مصلی المصر، ولا تجوز في القری) لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: لا جمعۃ ولا تشریق ولا فطر ولا أضحیٰ إلا في مصر جامع۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۷، ۴۸)ولأدائہا شرائط في غیر المصلی: منہا: المصر، ہکذا في الکافي … ومنہا: السلطان عادلا کان أو جائراً، ہکذا في التتارخانیۃ … ومنہا: وقت الظہر حتی لو خرج وقت الظہر في خلال الصلاۃ تفسد الجمعۃ … ومنہا: الخطبۃ قبلہا حتی لو صلوا بلا خطبۃ أو خطب قبل الوقت لم یجز، کذا في الکافي … ومنہا: الجماعۃ وأقلہا ثلاثۃ سوی الإمام، کذا في التبیین … ومنہا: الإذن العام وہو أن تفتح أبواب الجامع فیؤذن للناس کافۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۵، ۲۰۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 66

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: بشرط صحت سوال، مذکورہ گاؤں ایک بڑا گاؤں ہے اور بڑے گاؤں میں جمعہ کی نماز جائز ہے۔(۱)(۱) (لا تصح الجمعۃ إلا في مصر جامع، أو في مصلی المصر، ولا تجوز في القری) لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: لا جمعۃ ولا تشریق ولا فطر ولا أضحیٰ إلا في مصر جامع۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۷، ۴۸)ولأدائہا شرائط في غیر المصلی منہا: المصر ہکذا في الکافي … ومنہا: السلطان عادلا کان أو جائراً، ہکذا في التتارخانیۃ … ومنہا: وقت الظہر حتی لو خرج وقت الظہرفي خلال الصلاۃ تفسد الجمعۃ … ومنہا: الخطبۃ قبلہا حتی لو صلوا بلا خطبۃ أو خطب قبل الوقت لم یجز، کذا في الکافي … ومنہا: الجماعۃ وأقلہا ثلاثۃ سوی الإمام، کذا في التبیین … ومنہا: الإذن العام وہو أن تفتح أبواب الجامع فیؤذن للناس کافۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱ص: ۲۰۵ تا ۲۰۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 65