Frequently Asked Questions
Innovations
Ref. No. 3130/46-6007
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مباح امور میں اتنی گنجائش ہوتی ہے کہ اگر ان کو ضروری سمجھ کر یا رسم کے طور پر نہ کیاجائے تو اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں ہوتی ہے، اس لئے آپ کا امام صاحب کے ساتھ چند لوگوں کو دعوت دے کر بیان وغیرہ کے بعد کھانا کھلانا رسم یا ضروری سمجھے بغیر ہے توجائز ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 3117/46-6015
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صحیح قول یہی ہے کہ نبی کریم ﷺ تاحیات دنیویہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے، آپ نے کبھی کچھ نہیں لکھا، بلکہ آپ کی وحی اور خطوط وغیرہ لکھنے کے لئے افراد متعین تھے، اور صلح حدیبیہ کے موقع پر مشرکین نے 'رسول اللہ' کا لفظ مٹانے پر اصرار کیا تو معاہدہ کی کتابت کرنے والے صحابی حضرت علی نے معذرت کردی تو بعض حضرات کے مطابق آپ ﷺ نے بطور معجزہ اپنے دست مبارک سے کچھ تحریر فرمایا اور بعض کے مطابق آپ نے تحریر نہیں فرمایا تحریر کا حکم فرمایا۔
بہرحال بقول بعض بطور معجزہ کچھ تحریر کرنا ثابت بھی ہو تو بھی بقیہ زندگی آپ کا اپنے دست مبارک سے کوئی تحریر لکھنا ثابت نہیں ہے۔
قاضی ابولولید باجی اور ان کے متبعین پر فقہاء نے بڑی نکیر کی ہے، اور یہ کہا کہ امام باجی کے قول کا مطلب بھی یہ ہے کہ آپ نے بطور معجزہ لکھاتھا ، یہ مراد بالکل نہیں ہے آپ لکھنا پڑھنا سیکھ گئے تھے، اور یہ حدیث جو نقل کی جاتی ہے کہ "لم یمت علیہ السلام حتی تعلم الکتابۃ" اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔
" وَهَكَذَا كَانَ صَلَوَاتُ اللَّهِ وَسَلَامُهُ عَلَيْهِ دَائِمًا أَبَدًا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا يُحْسِنُ الْكِتَابَةَ، وَلَا يَخُطُّ سَطْرًا وَلَا حَرْفًا بِيَدِهِ، بَلْ كَانَ لَهُ كُتَّابٌ يَكْتُبُونَ بَيْنَ يَدَيْهِ الْوَحْيَ وَالرَّسَائِلَ إِلَى الْأَقَالِيمِ، وَمَنْ زَعَمَ مِنْ مُتَأَخَّرِي الْفُقَهَاءِ -كَالْقَاضِي أَبِي الْوَلِيدِ الْبَاجِيِّ وَمَنْ تَابَعَهُ- أَنَّهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ كَتَبَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ: "هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ" فَإِنَّمَا حَمَلَهُ عَلَى ذَلِكَ رِوَايَةٌ فِي صَحِيحِ الْبُخَارِيِّ: (ثُمَّ أَخَذَ فَكَتَبَ): وَهَذِهِ مَحْمُولَةٌ عَلَى الرِّوَايَةِ الْأُخْرَى: ( ثُمَّ أَمَرَ فَكَتَبَ)، وَلِهَذَا اشْتَدَّ النَّكِيرُ بَيْنَ فُقَهَاءِ الْمَغْرِبِ وَالْمَشْرِقِ على من قال بقول الباجي، وتبرؤوا مِنْهُ، وَأَنْشَدُوا فِي ذَلِكَ أَقْوَالًا وَخَطَبُوا بِهِ فِي مَحَافِلِهِمْ، وَإِنَّمَا أَرَادَ الرَّجُلُ -أَعْنِي الْبَاجِيَّ، فِيمَا يَظْهَرُ عَنْهُ -أَنَّهُ كَتَبَ ذَلِكَ عَلَى وَجْهِ الْمُعْجِزَةِ، لَا أَنَّهُ كَانَ يُحْسِنُ الْكِتَابَةَ، وَمَا أَوْرَدَهُ بَعْضُهُمْ مِنَ الْحَدِيثِ أَنَّهُ لَمْ يَمُتْ عَلَيْهِ السَّلَامُ حَتَّى تَعَلَّمَ الْكِتَابَةَ ، فَضَعِيفٌ لَا أَصْلَ لَهُ ". ( تفسير ابن كثير، ٦/ ٢٨٥ – ٢٨٦)
" وَقَدْ تَمَسَّكَ بِظَاهِرِ هَذِهِ الرِّوَايَةِ - يعني رواية يوم الحديبية - أَبُو الْوَلِيدِ الْبَاجِيُّ فَادَّعَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ بِيَدِهِ بَعْدَ أَنْ لَمْ يَكُنْ يُحْسِنُ يَكْتُبُ، فَشَنَّعَ عَلَيْهِ عُلَمَاءُ الْأَنْدَلُسِ فِي زَمَانِهِ وَأَنَّ الَّذِي قَالَه مُخَالف الْقُرْآنَ ... وَذكر ابن دِحْيَةَ أَنَّ جَمَاعَةً مِنَ الْعُلَمَاءِ وَافَقُوا الْبَاجِيَّ فِي ذَلِكَ، وَاحْتج بَعضهم لذَلِك بأحاديث، وَأَجَابَ الْجُمْهُورُ عنها بضعفها، وَعَنْ قِصَّةِ الْحُدَيْبِيَةِ بِأَنَّ الْقِصَّةَ وَاحِدَةٌ وَالْكَاتِبُ فِيهَا عَلِيٌّ، وَقَدْ صَرَّحَ فِي حَدِيثِ الْمِسْوَرِ بِأَنَّ عَلِيًّا هُوَ الَّذِي كَتَبَ، فمعنى (كتب) أي : ( أَمَرَ بِالْكِتَابَةِ ) ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ " . (فتح الباري لابن حجر ملخصاً، ٧ / ٥٠٣ – ٥٠٤)
"وَما كُنْتَ تَتْلُوا مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتابٍ، وَلا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ، إِذاً لَارْتابَ الْمُبْطِلُونَ ( العنکبوت، ٤٨) ٥- النبي محمد صلّى الله عليه وسلّم قبل نزول القرآن كان أمياً لايقرأ ولايكتب بشهادة الكتب السماوية المتقدمة، وبمعرفة قومه الذين عايشوه في مكة مدة أربعين عاماً. وأمّية النبي صلّى الله عليه وسلّم دليل قاطع واضح على أن القرآن كلام الله العزيز الحكيم. ثم ذكر النقاش في تفسير هذه الآية عن الشعبي أنه قال: ما مات النبي صلّى الله عليه وسلّم حتى كتب، وقرأ. وقد ثبت في صحيحي البخاري ومسلم أن النبي في صلح الحديبية كتب بيده: محمد بن عبد الله، ومحا كلمة رسول الله، حينما أصر المشركون على عدم كتابتها. قال القرطبي: الصحيح أنه صلّى الله عليه وسلّم ما كتب ولا حرفاً واحداً، وإنما أمر من يكتب، وكذلك ما قرأ ولا تهجى. وقال: «إنا أمة أمّية لانكتب ولانحسب». رواه الشيخان وأبو داود والنسائي عن ابن عمر". (التفسير المنير للزحيلي، ٢١ / ١٣)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبنFiqh
Ref. No. 3116/46-6017
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال کے تعلق سے چند چیزوں کی وضاحت مطلوب ہے:۔ 1۔ ممبران سے جو فیس ممبرشپ کےنام سے لی جارہی ہے وہ صرف ایک بار کے لئے ہے یا ہر ماہ ان کو یہ فیس جمع کرنی ہوگی؟ 2۔ یہ بھی وضاحت ضروری ہے ممبران کو واوچرس دینے کے لئے آپ فنڈ کہاں سے مہیا کریں گے۔ 3۔ پروموپیکیج کے ممبران کے درمیان جو قرعہ اندازی ہوگی تو نام نکلنے والے کو عمرہ پر بھیجنے کے لئے فنڈ کا انتظام کہاں سے ہوگا؟ 4۔ اسی طرح بچت ڈائری میں پیسے جمع کرنے والے اپنے پیسے کے مالک ہوں گے اور ان سے کوئی چارج نہیں لیاجائے گا، تو پھر ایک شخص کو مفت میں عمرہ کرنے کے لئے فنڈ کہاں سے آئے گا۔ ان امور کی وضاحت کے بعد ہی سوال پر غور کیاجائے گا ان شاء اللہ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Family Matters
Ref. No. 3110/46-5085
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ جو کمپنی شروع کرنا چاہتے ہیں، اس میں آپ اپنی ذاتی رقم لگارہے ہیں اور اپنے نفع و نقصان کے خطرہ کے ساتھ شروع کررہے ہیں، دوسرے افراد کی اس میں کسی طرح کی کوئی شرکت نہیں ہے، اور نہ ہی ان سے کوئی رقم لی گئی ہے ، بلکہ آپ تن تنہا اس کام کو شروع کررہے ہیں تو اس کمپنی کے مالک بھی آپ ہی ہوں گے، اور بعد میں جب موروثی جائداد و کاروبار وغیرہ کی تقسیم ہوگی تو آپ کی کمپنی کے آپ ہی مالک ہوں گے، کسی دوسرے کی اس میں شرکت نہیں ہوگی، اور موروثی جائداد کی تقسیم میں آپ کی کمپنی تقسیم میں نہیں آئے گی۔
حكم الملك ولاية التصرف للمالك في المملوك باختياره ليس لأحد ولاية الجبر عليه إلا لضرورة ولا لأحد ولاية المنع عنه وإن كان يتضرر به إلا إذا تعلق به حق الغير فيمنع عن التصرف من غير رضا صاحب الحق وغير المالك لا يكون له التصرف في ملكه من غير إذنه ورضاه إلا لضرورة." (بدائع الصنائع، کتاب الدعوٰی،فصل في بيان حكم الملك والحق الثابت في المحل،6/263،ط:دارالکتب العلمیۃ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3108/46-5084
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قبرستان کے درختوں کا ضرورت مندوں کی قبروں میں استعمال کرنا جائز ہے۔ یہاں تک کہ اگر کسی غریب کی تجہیز و تکفین کے اخراجات میسر نہ ہوں تو قبرستان کے درختوں کو بیچ کراس کے کفن دفن میں رقم خرچ کرنا بھی درست ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Travel
Ref. No. 3103/46-5096
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز شروع کرتے وقت قبلہ معلوم کرلینا ضروری ہے، ایک بار جب قبلہ کی جانب نماز شروع کردی تو اب اگر دوران نماز قبلہ بدلنامعلوم ہوجائے تو اپنا رخ بھی ادھر ہی کرلے اور اگر نماز میں قبلہ کا بدلنا معلوم نہیں ہوسکا اور نماز کے بعد چیک کیا تو قبلہ بدل چکا تھا تو اس سے نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا بلکہ نماز درست ہوگئی۔"و إن اشتبهت علیه القبلة ولیس بحضرته من یسأل عنها اجتہد وصلّی کذا في الهدایة فإن علم أنہ أخطأ بعد ما صلی لا یعیدها،فإن علم أنه أخطأ بعدما صلى لايعيدها وإن علم وهو في الصلاة استدار إلى القبلة وبنى عليها. كذا في الزاهدي وإذا كان بحضرته من يسأله عنها وهو من أهل المكان عالم بالقبلة فلا يجوز له التحري ،ولو كان بحضرته من يسأله عنها فلم يسأله وتحرى وصلى فإن أصاب القبلة جاز وإلا فلا." (الھندیۃ، كتاب الصلوة، الفصل الثالث في استقبال القبلة،ج:1،ص:64،ط:دارالفكر)
"وإن شرع بلا تحرّ لم یجز وإن أصاب لترکه فرض التحري، إلا إذا علم إصابته بعد فراغه فلا یعید اتفاقًا." (شامی، کتاب الصلوۃ،باب شروط الصلوۃ،مطلب في ستر العورة۔ج:1،ص:435،ط:سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Divorce & Separation
Ref. No. 3102/46-5097
In the name of Allah the most Gracious het most Merciful
The answer to your question is as follows:
If a husband and wife have a disagreement, and the husband has not explicitly or implicitly issued a divorce, they remain legally married, and the marriage is still valid. Merely living apart for several years does not constitute a divorce. However, if the husband has issued a divorce or made any indication with the intention of divorce, please provide clear details in writing before asking the question again.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
فقہ
Ref. No. 3101/46-5093
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق کے واقع ہونے کے لئے پورے ہوش و حواس کے ساتھ طلاق کے الفاظ اداکرنا ضروری ہوتاہے ؛ محض وہم سے یا وسوسہ سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے ۔ اور نیند کی حالت میں طلاق کے الفاظ اگر نکل جائیں تو بھی طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ لہذا نیند کی حالت میں طلاق کے وہم اور وسوسہ سے بدرجہ اولی طلاق واقع نہ ہوگی۔
لا یقع طلاق المولی علی امرأة عبدہ․․․ والنائم لانتفاء الإرادة إلخ․ (درمختار)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Miscellaneous
Ref. No. 3099/46-5098
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر قرض لینا یاد ہے اور کس سے کیاتھا یہ بھی یاد ہے تو قرضخواہ کو ادھار کی رقم واپس کرنا ضروری ہے لیکن اگر یہ یاد نہیں کہ قرض کس سے لیا تھا یعنی قرض خواہ معلوم ہی نہیں ہےیا ایسے راستہ چلتے شخص سے قرض لیا جس سے کسی بھی طرح رابطہ کرنا اور قرض ادا کرنا ممکن نہیں ہے تو ان تمام صورتوں میں قرض کے بقدر رقم صدقہ کردینا ضروری ہے۔ اگرقرض لینا ہی یاد نہیں ہے تو اس پر آخرت میں مواخذہ بھی نہیں ہوگا، البتہ یہ نیت ضرور رکھے کہ جب یاد آئےگا تو ادا کردوں گا۔
اسی طرح اگر دوکاندار کو یاد نہیں ہے کہ ادھار سامان کون لے گیا تھا اور مقروض کون ہے تو ایسی صورت میں مقروض اس رقم کے صدقہ کی نیت کرسکتاہے، یا قرض خواہ کو ہبہ کرنے کی نیت کرلے تو بھی درست ہے۔
لو لم يقدر على الأداء لفقره أو لنسيانه أو لعدم قدرته قال شداد والناطفي رحمهما الله تعالى: لا يؤاخذ به في الآخرة إذا كان الدين ثمن متاع أو قرضا، وإن كان غصبا يؤاخذ به في الآخرة، وإن نسي غصبه، وإن علم الوارث دين مورثه والدين غصب أو غيره فعليه أن يقضيه من التركة، وإن لم يقض فهو مؤاخذ به في الآخرة، وإن لم يجد المديون ولا وارثه صاحب الدين ولا وارثه فتصدق المديون أو وارثه عن صاحب الدين برئ في الآخرة. ۔ ۔ ۔ ۔ (قوله: كمن في يده عروض لا يعلم مستحقيها) يشمل ما إذا كانت لقطة علم حكمها، وإن كانت غيرها فالظاهر وجوب التصدق بأعيانها أيضا (قوله: سقط عنه المطالبة إلخ) كأنه والله تعالى أعلم؛ لأنه بمنزلة المال الضائع والفقراء مصرفه عند جهل أربابه، وبالتوبة يسقط إثم الإقدام على الظلم". (شامی، کتاب اللقطة، مطلب فيمن عليه ديون ومظالم جهل أربابها، ج:4، ص:283، ط:ایچ ایم سعید)
"هبة الدين ممن عليه الدين جائزة قياسًا واستحسانًا ...هبة الدين ممن عليه الدين وإبراءه يتم من غير قبول من المديون ويرتد برده ذكره عامة المشايخ رحمهم الله تعالى، وهو المختار، كذا في جواهر الأخلاطي". (الھندیۃ، الباب الرابع في هبة الدين ممن عليه الدين، ج:4، ص:384، ط: رشيديه)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Prayer / Friday & Eidain prayers
Ref. No. 3106/46-5095
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسی صورت میں اس وقت تک نمازوں کی قضا کرتا رہے جب تک کہ اسے یقین یا غالب گمان نہ ہوجائے کہ ساری قضا نمازیں ذمہ سے اتر گئیں ۔ جس قدر اندازہ ہو اس سے کچھ نمازیں زیادہ ہی پڑھے تاکہ کوئی نماز ذمہ میں باقی نہ رہ جائے اور اطمینان ہوجائے۔
"خاتمة من لا يدري كمية الفوائت يعمل بأكبر رأيه فإن لم يكن له رأي يقض حتى يتيقن أنه لم يبق عليه شيء." )حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح ص:447،كتاب الصلاة،باب قضاء الفوائت،ط:دارالكتب العلمية(
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند