تجارت و ملازمت
Ref. No. 2896/45-4537 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جانوروں کی خوراک بیچنا جائز ہے، جانور حلال ہو یا حرام ہو اس کی خوراک بیچنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور یہ کمائی حلال ہے۔ البتہ جوچیز غیر قانونی دائرہ میں آتی ہو اس سے احتراز کرنا چاہئے۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2895/45-4563 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں مرحوم کی چھ بیٹیاں اور اییک بیٹاہے، ان کے علاوہ ورثہ میں سے کوئی نہیں ہے، تو ترکہ کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ لڑکے کو دوہرا اور لڑکیوں کو اکہرا حصہ ملے گا۔ لہذا مرحوم کا کل ترکہ آٹھ حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے بیٹے کو دو حصے اور ہر ایک بیٹی کو ایک ایک حصہ ملے گا۔ مرحوم نے جو کچھ مال ، زمین و مکان یا زیورات چھوڑے ان کو جمع کرلیاجائے اور ان کی مالیت نکال لی جائے پھر مذکورہ طریقہ پرپورے ترکہ کو تقسیم کرلیا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل
Ref. No. 2893/45-4535 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ان کو گھر سے نکالنا شاید اس مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ گھر سے باہرنکال دیا گیا تو مزید پریشانیاں آسکتی ہیں۔ اگر ان کی بیوی نہیں ہیں تو ان کی شادی کردی جائے، ایک دو تین اور چار شادیاں شریعت میں اسی لئے جائز قرار پائی ہیں تاکہ آدمی زنا جیسی لعنت میں مبتلا نہ ہو۔ ان کو کسی تدبیر کے ذریعہ کسی جائز کام میں لگادیں تاکہ ہمہ وقت اسی کام میں مصروف رہیں اور اس طرح خالی ذہن کی وجہ سے جو پریشانیاں آرہی ہیں وہ کم ہوجائیں گی۔ ان کو جماعت وغیرہ میں جانے کے لئے آمادہ کریں، نیک لوگوں کی مجلس میں بھیجیں۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

اعتکاف
Ref. No. 2892/45-4534 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ رمضان کے پورے مہینہ کا اعتکاف کرنا بھی نبی کریم ﷺ کے عمل سے ثابت ہے؛ لہذا آپ ﷺ کے عمل کی اتباع میں رمضان کے پورے مہینہ کا اعتکاف کرنا باعثِ اجر و ثواب ہوگا، تاہم چونکہ یہ آپ ﷺ کا مستقل معمول نہیں تھا،اور آپ نے پورے رمضان کا اعتکاف شب قدر کی تلاش میں کیا تھا جس سے واضح ہوگیا تھا کہ شب قدر اخیر عشرہ میں ہے اور پھر آپ نے اسی کے اعتکاف کا حکم فرمایا۔ اس لئے پورے رمضان اعتکاف کرنے کو سنت قرار نہیں دیاجائے گا۔ بلکہ رمضان کے صرف اخیر عشرہ میں اعتکاف کرنا سنت ہوگا، اس کے علاوہ ایام میں اعتکاف کرنا مستحب قرار پائے گا۔ سنت اعتکاف ہو یا مستحب اعتکاف ہو دونوں میں ایک جیسی پابندیاں ہیں۔ رمضان کےاخیرہ عشرہ کا اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایۃ ہے، جس مطلب یہ ہے کہ اہل محلہ پر اس سنت پر عمل کرنا ضروری ہے، لیکن ایک شخص کے عمل سے سارے محلہ والے بری ہوجائیں گے اور ان سے گناہ ساقط ہوجائے گا، لیکن اگر اہل محلہ میں سے کوئی بھی اعتکاف میں نہیں بیٹھا اور مسجد خالی رہی تو سنت مؤکدہ کے ترک کا گناہ سب پر ہوگا۔ "وينقسم إلى واجب، وهو المنذور تنجيزا أو تعليقا، وإلى سنة مؤكدة، وهو في العشر الأخير من رمضان، وإلى مستحب، وهو ما سواهما، هكذا في فتح القدير". (الفتاوى الهندية (1 / 211) "وعن أبي سعيد الخدري رضي الله عنهم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم اعتكف العشر الأول من رمضان ثم اعتكف العشر الأوسط في قبة تركية ثم أطلع رأسه، فقال: «إني اعتكفت العشر الأول ألتمس هذه الليلة ثم اعتكفت العشر الأوسط، ثم أتيت فقيل لي: إنها في العشر الأواخر، فمن اعتكف معي فليعتكف العشر الأواخر، فقد أريت هذه الليلة ثم أنسيتها وقد رأيتني أسجد في ماء وطين من صبيحتها، فالتمسوها في العشر الأواخر والتمسوها في كل وتر». قال: فمطرت السماء تلك الليلة وكان المسجد على عريش فوكف المسجد فبصرت عيناي رسول الله صلى الله عليه وسلم وعلى جبهته أثر الماء والطين والماء من صبيحة إحدى وعشرين. متفق عليه في المعنى واللفظ لمسلم إلى قوله: " فقيل لي: إنها في العشر الأواخر ". والباقي للبخاري". (مشكاة المصابيح (1 / 644) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2891/45-4533 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال، صورت مسئولہ میں مرحوم کی کل جائداد کو 12حصوں میں تقسیم کریں گے جن میں سے ہر ایک بھائی کو دو دواور ہر ایک بہن کو ایک ایک حصہ ملے گا، ۔ چچا کو اس وراثت میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

اعتکاف
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ معتکف کے لئے مسجد میں پردہ لگانا مستحب ہے، جس سے عبادت میں یکسوئی اور خلوت حاصل ہوتی ہے، اور سوتے وقت ستر کی بھی حفاظت ہوتی ہے، البتہ اس بات کا خیال رکھاجائے کہ ضرورت سے زیادہ جگہ نہ روکی جائے۔ عن عائشۃ قالت کان رسول اللہ ﷺ اذا اراد ان یعتکف صلی الفجر ثم دخل فی معتکفہ۔ (رواہ ابوداؤد وا بن ماجۃ ) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

آداب و اخلاق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ٹوپی پہننا سنن عادیہ میں سے ہے، امور عادیہ میں بھی حضور ﷺ کی اتباع خیروبرکت کا باعث ہے، لیکن اس کو واجب سمجھنا اور گھر میں گرمی وغیرہ کی وجہ سے ٹوپی نہ پہننے والے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا درست نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

اعتکاف
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طبعی و شرعی ضرورت کے بغیر معتکف کے لئے مسجد سے نکلنا ممنوع ہے، اگر معتکف غلطی سے بھی شرعی مسجد سے باہر نکل گیا تو مسنون اعتکاف فاسد ہوجاتاہے، اور ایک دن کے اعتکاف کی قضاء لازم ہوتی ہے، عیدالفطر اور ایام تشریق کے علاوہ کسی بھی دن مغرب تا مغرب دن کے روزہ کے ساتھ قضا کرنا ضروری ہوگا۔ فلوخرج ولوناسیا ساعۃ زمانیۃ لا رملیۃ کما مر بلاعذر فسد۔ (الدرالمختار مع رد المحتار 2/447) (الھندیۃ 1/212) فان خرج ساعۃ بلاعذر فسد ای فسد اعتکافہ (التبیین الحقائق، باب الاعتکاف 2/230) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

روزہ و رمضان
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں روزہ فاسد نہیں ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

روزہ و رمضان
Ref. No. 2861/45-4504 الجواب بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ ﷺ شعبان کے مہینہ میں اکثر ایام روزہ رکھتے تھے۔ لیکن امت کو بطور شفقت آپ نے نصف آخر میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا تاکہ رمضان کے لئے تیار ہوجائیں۔ اس لئے علماء نے لکھا کہ جو شخص ہر پیر وجمعرات کو یا ہر ماہ ایام بیض میں یا آخری تین دن روزہ رکھنے کا عادی ہو، یا شعبان کے نصفِ اول میں بھی وہ روزہ رکھتا ہو ، اور اس کو روزہ رکھنے سے کز وری اور طبیعت میں گراوٹ پیدا نہ ہوتی ہو تو اس کے لیے نصف شعبان کے بعد بھی روزہ رکھنا بلا کراہت جائز ہے ، لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو پھر اس کے لئے نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنا مکروہ ہوگا۔ نفلی روزوں میں تتابع کی کوئی شرط نہیں ہے۔ اس لئے حسب سہولت روزہ رکھ سکتاہے۔ "عن أبي سلمة، أن عائشة رضي الله عنها، حدثته قالت: لم يكن النبي صلى الله عليه وسلم يصوم شهرًا أكثر من شعبان، فإنه كان يصوم شعبان كله". (صحيح البخاري (3/ 38) قال القاري: إذا مضى النصف الأول من شعبان فلاتصوموا بلا انضمام شيء من النصف الأول، أو بلا سبب من الأسباب المذكورة، والنهي للتنزيه رحمةً على الأمة أن يضعفوا عن حق القيام بصيام رمضان على وجه النشاط، وأما من صام شعبان كله، فيتعود بالصوم وتزول عنه الكلفة، ولذا قيده بالانتصاف، أو نهى عنه لأنه نوع من التقدم المقدم، (بذل المجهود في حل سنن أبي داود (8/ 471) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند