طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2658/45-4045

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  رگوں میں لگائے جانے والے انجکشن کے ذریعہ خون نکالنے سےوضو ٹوٹ جاتاہے، اور گوشت میں لگنے والے انجکشن سے اگر خون باہر آجائے تو وضو ٹوٹتاہے ورنہ نہیں۔ اور جس جگہ انجکشن لگایا گیا اس جگہ کا دھونا ضروری نہیں ہے، اس لئے کہ نجاست پھیلی نہیں تھی۔

لو مص العلق أو القراد الكبير وامتلأ دما فإنه ناقض كما سيأتي متنا فالأحسن ما في النهر عن بعض المتأخرين من أن المراد السيلان ولو بالقوة: أي فإن دم الفصد ونحوه سائل إلى ما يلحقه حكم التطهير حكما، تأمل. )رد المحتار: (134/1، ط: دار الفکر(
واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر برابر سفید پانی کی شکایت ہو، تو وہ وضو کرے اور نماز پڑھے۔ اور اگر سفید پانی کی شکایت نہیں تھی اور اچانک کسی دن سوکر اٹھی اور سفید پانی دیکھا، تو اس کو منی سمجھے اور غسل کرکے نماز پڑھے، اگرچہ کوئی بدخوابی نہ ہو۔(۲)

(۲) خلاصہ بحث یہ ہے کہ جو رطوبت بہتی ہے وہ خواہ کوئی ہو ناقص وضو ہے اور ناپاک ہے۔ (امداد الفتاویٰ، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس و تطہیرہا‘‘ ج۱، ص:۳۵۰)؛ و في الدر المختار أي برطوبۃ الفرج فیکون مفرعاً علی قولھما بنجاستھا۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، ج۱، ص:۵۱۵) السلخۃ إذا خرجت من أمھا إلی قولہ: و عندھما یتنجس وھو الاحتیاط۔ (عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتاتارخانیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل السابع في معرفۃ النجاسات و أحکامھا‘‘ ج۱،ص۴۴۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص307

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑا ہو اور پہلی رکعت میں ثناء، تعوذ وتسمیہ پڑھ کر سورۃ فاتحہ اور سورت پڑھ کر رکوع وسجدہ کر کے قعدہ کرے پھر دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ اور سورت ملا کر نماز پوری کرے۔ یہ عام قاعدہ ہے، مگر حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی وجہ سے بعض فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر دو رکعت کر کے قعدہ کرے گا تب بھی اس پر سجدہ سہو یا نماز کا اعادہ لازم نہ آئے گا کبیری میں ہے۔(۱)
’’حتی لو أدرک مع الإمام رکعۃ من المغرب فإنہ یقرء في الرکعتین الفاتحہ والسورۃ ویعقد في أولہما لأنہا ثنائیۃ ولم لم یعقد جاز استحساناً لا قیاسا ولم یلزمہ سجود السہو‘‘(۲)

(۱) قولہ وتشہد بینہما) قال في شرح المنیۃ: ولو لم یقعد جاز استحساناً لا قیاساً، ولم یلزمہ سجود السہو لکون الرکعۃ أولٰی من وجہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ،  مطلب فیما لو أتی بالرکوع والسجود أو بہما مع الإمام أو قبلہ أو بعدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۷، زکریا دیوبند)
(۲) إبراہیم حلبي، الحلبي الکبیري، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في سجود السہو،…مطلب في أحکام آخر للمسبوق‘‘: ص: ۲۱۷۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص34


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: امام کے پیچھے قرأت کرنے کو فقہاء احناف نے مکروہ لکھا ہے؛ البتہ اس شخص کی گزشتہ پڑھی ہوئی تمام نمازیں درست ہیں ان نمازوں کا دہرانا ضروری نہیں ہے۔
ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ امام کے پیچھے قراء ت نہ کرے، فرمان باری تعالیٰ ہے {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا الخ}(۱) اس آیت میں مفسرین کے قول کے مطابق، جہری (بآواز بلند قرأت ہو) اور سری (آہستہ آواز سے قراء ت ہو) دونوں نمازوں میں مقتدی کے لیے حکم ہے کہ وہ امام کے پیچھے قراء ت نہ کرے، اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ‘‘(۲) یعنی جس کا امام ہو تو اس کے امام کی قراء ت اس مقتدی کی قراء ت ہے۔ فقہ حنفی کی کتابوں میں اس کی مزید تفصیل موجود ہے کہ مقتدی امام کے پیچھے تلاوت نہ کیا کرے۔
’’وقال أبو حنیفۃ و أحمد بن حنبل: لا یجب علی المأموم قراء ۃ أصلا في السریۃ ولا الجھریۃ…، وقال علي ابن أبي طلحۃ، عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما في الآیۃ  قولہ: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَہ۲۰۴}، یعني: في الصلاۃ المفروضۃ‘‘(۱)
’’والمؤتم لا یقرء مطلقاً، قولہ: ولا الفاتحۃ تقدیرہ لا غیر الفاتحۃ ولا الفاتحۃ‘‘
’’قولہ (في السریۃ) یعلم منہ نفی (القراء ۃ) في الجھریۃ  بالأولی، والمراد التعریض‘‘
’’ومانسب لمحمد ضعیف کما بسطہ الکمال (فإن قرء کرہ تحریما) وتصح في الأصح۔ وفي (درر البحار) عن مبسوط خواھر زادہ أنھا تفسد ویکون فاسقا، وھو مروي عن عدۃ من الصحابۃ فالمنع أحوط (بل یستمع) إذ جھر (وینصت) إذا أسر لقول أبي ھریرۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ: (کنا نقرأ خلف الإمام) فنزل: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا}(۲)
(۱) سورۃ الأعراف: ۲۰۴۔
(۲) أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’کتاب إقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا، باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا‘‘:ص: ۶۱، رقم: ۸۵۰، حکم الحدیث حسن۔
(۱) ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورہ نحل‘‘: ج۲، ص: ۶۱۔
(۲) الحصکفي،  الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ،  مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج ۲، ص:۲۶۶، زکریا دیوبند۔
)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص145

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسی غلطی جان بوجھ کر نہ کرنی چاہئے اگر بلا قصد ایسی غلطی ہوجائے جیسا کہ عام طور پر دیہات میں اماموں سے ہوتی رہتی ہے تو نماز ان کی صحیح اور درست ہے۔(۲)

(۲) و إن ذکر حرفًا مکان حرف و غیر المعنی، فإن أمکن الفصل بین الحرفین من غیر مشقۃ کالطاء مع الصاد فقرأ: الطالحات مکان الصالحات، تفسد صلاتہ عند الکل، و إن کان …لایمکن الفصل بین الحرفین الا بمشقۃ کالظاء مع الضاد و الصاد مع السین، و الطاء مع التاء، اختلف المشائخ فیہ، قال أکثرہم لاتفسد صلاتہ … و لو قرأ الدالین بالدال تفسد صلاتہ (قاضی خان، فتاوی قاضیخان،  ’’کتاب الصلاۃ: فصل في القراء ۃ في القرآن‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۹، ۱۳۱، ط: دار الکتب العلمیۃ)
(ومنہا) ذکر حرف مکان حرف۔ إن ذکر حرفا مکان حرف ولم یغیر المعنی، بأن قرأ إن المسلمون إن الظالمون وما أشبہ ذلک لم تفسد صلاتہ وإن غیر المعنی۔ فإن أمکن الفصل بین الحرفین من غیر مشقۃ کالطاء مع الصاد فقرأ الطالحات مکان الصالحات تفسد صلاتہ عند الکل۔ وإن کان لا یمکن الفصل بین الحرفین إلا بمشقۃ کالظاء مع الضاد، والصاد مع السین، والطاء مع التاء، اختلف المشایخ، قال أکثرہم: لا تفسد صلاتہ۔ ہکذا في فتاوی قاضي خان۔ وکثیر من المشایخ أفتوا بہ۔ قال القاضي الإمام أبو الحسن والقاضي الإمام أبو عاصم: إن تعمد فسدت وإن جری علی لسانہ، أو کان لا یعرف التمییز لا تفسد، وہو أعدل الأقاویل والمختار؛ ہکذا في الوجیز للکردري۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص266

 

آداب و اخلاق

Ref. No. 1012 Alif

الجواب وباللہ التوفیق:۔  بشرط صحت سوال  وضاحت مطلوب ہے کہ مذکورہ جملے استعمال کرنے والے شیخ کون ہیں اور ان کا عقیدہ کیا ہے۔ مذکورہ جملے ان کی جانب سے کس پس منظر میں کہے گئے ۔ شیخ سے تحریری وضاحت طلب فرماکر جواب معلوم کرلیا جائے۔

 واللہ تعالی اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 1173 Alif

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

It is a kind of offering bribe which is unlawful; you must shun it.  You have to work hard in your studies and contact the experts to know the easiest way to pass the examination. You are not allowed to deceive for your personal gain. You should not pay money to get a certificate. It is cheating and a kind of deception. Our Prophet Muhammad (peace be upon him) said: 'He who deceives us is not one of us'.

And Allah knows best

Darul Ifta 

Darul Uloom Waqf Deoband

 

نکاح و شادی

Ref. No. 

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔آج کل دس درہم چاندی کی قیمت تقریبا 1293 ہندوستانی روپئے ہوتے ہیں۔  

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ غیروں کی مشابہت کی وجہ سے ممنوع قرار پائے گا، احتجاج کے دیگر طریقے  اختیارکرناجن میں کسی قوم کی مشابہت نہ پائی جائے درست ہے؟اس میں  آتش پرستوں کی مشابہت بھی ہے، اورفضول خرچی بھی  ۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 1009/41-191

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

There is no difference between Haram and Makrooh Tahrimi in practice, but there is a difference in evidence. Haram means something that is proved by definite evidence, while Makrooh-e Tahrimi means something that is proved by indefinite evidence. Yes, Makrooh-e Tanzihi, which means something that is not desirable though not sinful, is close to Halal, but it is better to avoid it. The prohibition of cigarette smoking is not proved by definite evidence, so it is called Makrooh and not Haram.

المکروہ الی الحرام اقرب، و نص محمد ان کل مکروہ حرام وانما لم یطلق علیہ لفظ الحرام لانہ لم یجد فیہ نصا قطعیا (البحر الرائق 22/74) ان کان ترکہ اولی فمع المنع عن الفعل بدلیل قطعی حرام وبدلیل ظنی مکروہ کراھۃ التحریم وبدون المنع عن الفعل کراھۃ التنزیہ (شرح التلویح علی التوضیح 1/20)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband