احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1058/41-261

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔  بعض وارث کا اپنے حصہ کے بقدر اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے زمین حاصل کرنا جائز ہے۔ تاہم بہتر ہے کہ جو وارث زمین حاصل کررہے ہیں ، اگر دوسرے وارث کے پاس معاوضہ دینے کے لئے نہیں ہے تو وہ خودمعاوضہ دے کر مکمل زمین حاصل کرلیں تاکہ تمام ورثہ کو زمین مل جائے،  یہ اس وارث کا ایک تبرع اور احسان ہوگا جس کا اجر ان شاء اللہ ملے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1268/42-603

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  گھر میں ٹی وی رکھنے سے بہت سارے مفاسد کے دروازے کھل جاتے ہیں،  اور اسکرین پر چلنے والی چیزیں اپنے اختیار میں نہیں رہتی ہیں، جس کی وجہ سے اس کے برے اثرات خود اپنی ذات پر  اور بچوں پر بھی بہت جلد رونما ہونے لگتے ہیں۔ گناہ کا سبب بننے والی چیزوں سے بچنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا گناہ سے۔ اس کو ذہن میں رکھیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1392/42-812

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   بشرط صحت سوال  صورت مسئولہ میں شرعا ایک طلاق بائن واقع ہوگئی، اب  اگر میاں بیوی ایک ساتھ رہنا چاہیں تو نکاح جدید کرکے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ البتہ خیال رہے کہ مذکورہ صورت میں صرف ایک طلاق واقع ہوئی ہے۔ اب آئندہ شوہر دو طلاق کا مالک ہے۔ اس لئے آئندہ  دونوں بہت احتیاط سے رہیں اور آپسی صلح صفائی سے معاملہ کو سُلجھانے کی کوشش کریں اور شوہرنتائج پر خوب غور کرنے کے بعد جب کسی طرح نباہ کی شکل نہ بنے تب  ہی طلاق کا حق استعمال کرے۔

(قوله: والخلع من الكنايات قوله: فيعتبر فيه ما يعتبر فيها) ويقع به تطليقة بائنة إلا إن نوى ثلاثا فتكون ثلاثا، وإن نوى ثنتين كانت واحدة بائنة كما في الحاكم (قوله: من قرائن الطلاق) كمذاكرة الطلاق وسؤالها له (شامی، فائدۃ فی شرط قبول الخلع 3/444)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 1522/43-1015

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مجلس نکاح میں اگر یہ بات ہوئی ہو تو یہ توکیل ہے لیکن عام طور پرجو پوچھاجاتاہے تو اس سے نکاح  کی توکیل مراد نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے اگر نعیم کے باپ نے اس سے وکالت مراد لے کراس کا نکاح کیا تو موکل کی طرف سے اس کی رضامندی نہیں سمجھی جائے گی۔ اور نکاح موقوف رہے گا، اگر نعیم اجازت دے گا تو نکاح ہوجائے گا اور اگر منع کردیا تو نکاح کالعدم ہوجائے گا۔

فكما أن نكاح الفضولي صحيح موقوف على الإجازة بالقول أو بالفعل فكذا طلاقه   (شامی، مطلب فی تعریف السکران وحکمہ 3/242)

وصورة التوكيل بالقبض كن وكيلا عني بقبض ما اشتريته وما رأيته كذا في الدرر. - - -  وفي الفوائد: صورة التوكيل أن يقول المشتري لغيره، كن وكيلا في قبض المبيع أو وكلتك بقبضه. - - - وأفاد أنه ليس كل أمر توكيلا بل لا بد مما يفيد كون فعل المأمور بطريق النيابة عن الآمر فليحفظ اهـ. هذا جميع ما كتبه نقلته، وبالله التوفيق (شامی، کتاب الوکالۃ 5/509)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایمان اور اسلام میں داخل ہونے کے لئے دل سے اسلامی عقائد قبول کرنا اور زبان سے کلمہ طیبہ پڑھنا ضروری ہے، مگر زندگی کو مکمل طور پر دائرہ اسلام میں  داخل کرنے کے لئے صرف زبان سے اقرار کرنا کافی نہیں ہے، اس بارے میں خدا تعالیٰ کا فرمان ہے: {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ کَآفَّۃًص} (۱) اے ایمان والو: اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ، یعنی محض دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے لئے یقینا کلمہ طیبہ کا اقرار شرط ہے، لیکن اس کے لئے لازم ہے کہ وہ سچے دل سے اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کا اقرار کرنے کے ساتھ ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دے اور اسلام کے تمام عقائد کی تصدیق کرے اور کفر وشرک کے تمام شعائر سے اظہار برأت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ایمان اور کفر کی جو حدود متعین کردی ہیں ان کے اندر رہتے ہوئے پوری زندگی ایمان اور اسلام کا ایسا مظاہرہ کرے کہ کوئی لمحہ ایسا نہ گزرے کہ جس پر کفر اور منافقت کا شائبہ ہو، ’’وإسلامہ أن یأتي بکلمۃ الشہادۃ ویتبرأ عن الأدیان کلہا سوی الإسلام‘‘(۲) نیز بہتر ہے کہ اسلام لانے سے پہلے غسل کر کے اچھی طرح طہارت حاصل کرلے۔’’عن خلیفۃ بن حصین عن جدہ قیس بن عاصم قال: أتیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أرید الإسلام، فأمرني أن اغتسل بماء وسدر‘‘(۳) مذکورہ صورت میں وہ عورت مسلمان ہو گئی ہے۔(۴)

(۱) سورۃ البقرۃ: ۲۰۸۔

(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب التاسع: في أحکام المرتدین، ومنہا: الطوع‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۷۔

(۳) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب الرجل یسلم فیؤمر بالغسل‘‘: ج ۱، ص: ۵۱، رقم: ۳۵۵۔

(۴) لو قال الحربي: أنا مسلم صار مسلما وعصم دمہ ومالہ۔ (الفتاویٰ السراجیۃ، ’’کتاب السیر: باب الإسلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۲)

عن الحسن بن زیاد: إذا قال الرجل لذمي: أسلم فقال أسلمت کان إسلاماً،کذا في فتاویٰ قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب الثاني، في کیفیۃ القیال‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۲)

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1776/43-1517

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وقت داخل ہونے پر ہی نماز فرض ہوتی ہے، وقت سے پہلے نماز پڑھنا درست نہیں ، وقتیہ نماز ادا نہیں ہوگی۔ اس لئے جن لوگوں نے وقت سے پہلے نماز ادا کرلی وہ اپنی نماز قضا کریں ، اس لئے کہ وہ نماز یں جو وقت سے پہلے پڑھی گئیں وہ ذمہ سے ساقط نہیں ہوئی ہیں۔ اور کسی نماز کو جان بوجھ کر قضا کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ اس لئے اگر ٹرین  وغیرہ سے سفر ہے اور کھڑے ہوکر نماز پڑھ سکتے ہیں تو کھڑے ہوکر نماز ادا کریں، اور اگر کار وغیرہ سے سفر ہے تو  ایک جائے نماز رکھیں اور کسی مناسب جگہ اتر کر نماز اداکرلیں۔ اگر قضاء کا خطرہ ہو تو آفس میں مثل اول پر بھی نماز پڑھنے کی گنجائش ہے، لیکن اس کی عادت بنالینا درست نہیں ہے۔  اگر اتفاقیہ کسی دن راستہ میں اترنے کا کوئی موقع نہ ہو تو گھر پہونچ کر وقت  باقی ہوتو نماز اداکرلیں ورنہ قضا کرلیں۔

إذ تقديم الصلاة عن وقتها لا يصح وتصح إذا خرج وقتها (مراقی الفلاح شرح نورالایضاح 1/72)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبندBottom of Form

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 2095/44-2144

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

If the cat is suffering too much, it should be treated, but in any case it is not permissible to kill it.

عن جندب بن عبد اللہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: کان فیمن کان قبلکم رجل بہ جرح، فجزع، فأخذ سکینا فحز بہا یدہ، فما رقأ الدم حتی مات، قال اللہ تعالی: بادرَنی عبدی بنفسہ، حرمت علیہ الجنة․ رواہ البخاری (3463)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

متفرقات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بغیر کسی دلیل اور ثبوت کے کسی صاحب ایمان پر کفر کا حکم لگانا گناہ کبیرہ اور دین وایمان کے فساد کا باعث ہے، لہٰذا ایسے شخص کو چاہئے کہ علی الاعلان اپنی اس غلطی کا اقرار کرے اور توبہ و استغفار کرے اور آئندہ ایسے الفاظ کا استعمال نہ کرے۔ بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک پر کفر لوٹ گیا یعنی یا تو کہنے والا خود کافر ہوگیا یا وہ شخص جس کو اس نے کافر کہا ’’عن أبي ہریرۃ -رضي اللّٰہ عنہ- أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: إذا قال الرجل لأخیہ: یاکافر فقد باء بہ أحدہما۔(۱) وما کان خطأ من الألفاظ ولا یوجب الکفر فقائلہ مومن علی حالہ ولا یؤمر بتجدید النکاح ولکن یؤمر بالاستغفار والرجوع عن ذلک(۲)۔ وذہب جمہور المحققین إلی أن الإیمان ہو التصدیق بالقلب، وإنما الإقرار شرط لإجراء الأحکام في الدنیا‘‘۔(۳)

دار العلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جمہور علماء کے مطابق ملائکہ وہ لطیف نورانی اجسام ہیں جنہیں اپنی لطافت ونورانیت کے باعث مختلف شکلیں بدلنے پر قدرت حاصل ہوتی ہے۔ ’’فذہب أکثر المسلمین إلی أنہا أجسام لطیفۃ قادرۃ علی التشکل بأشکال مختلفۃ‘‘(۱) فرشتے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نورانی مخلوق ہیں، لہٰذا ان کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا غلط ہے کہ ان کی پیدائش انسانوں کی طرح ہوتی ہے، نیز فرشتے نور سے پیدا کئے گئے ہیں، مسلم شریف کی روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خلقت الملائکۃ من نور وخلق الجان من مارج من نار، وخلق آدم مما وصف لکم‘‘ (۲) فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا، جنات کو آگ کے شعلہ سے اور آدم علیہ السلام کو اس شئی سے پیدا کیا گیا ہے جس کی صفت اللہ تعالیٰ نے تمہیں بیان فرمائی ہے (یعنی خاک سے)۔ (۱) ناصر الدین عبد اللّٰہ، تفسیر البیضاوي، ’’سورۃ البقرۃ: ۳۰‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۲۔ (۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الزہد والرقائق، باب في أحادیث متفرقۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۱۳، رقم: ۲۹۹۶۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص261

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بزرگوں سے محبت، دین کی علامت ہے، دینی تقاضا یہ ہے کہ اللہ والوں سے محبت کی جائے، اللہ والوں سے محبت، نیکی اس لیے ہے کہ ان سے تعلق اللہ کی وجہ سے ہے؛ لیکن وہ قابل محبت اور محبوب اس لیے بنتے ہیں کہ اللہ کو مانتے تھے اور اللہ کی مانتے تھے؛ اس لیے اللہ والوں سے سچی محبت یہی ہے کہ ان کے طریقے پر چلا جائے ان کی تعلیمات اور ارشادات پر عمل کیا جائے(۱) یہ طاق وغیرہ بنوانا بطور یادگار جائز نہیں ہے آئندہ لوگ بدعتیں کرنے لگیں گے؛ بلکہ اپنے دل کے طاق میں ان کے طریقوں کو سجایا جائے۔(۲)

(۱) {فَبَشِّرْ عِبَادِ ہلا ۱۷الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ أَحْسَنَہٗط} (سورۃ الزمر: ۱۷)
(۲)من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ ( مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص:۲۷، رقم: ۱۴۰)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص378