Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:عدت پوری ہونے پراس طرح کی رسمیں غیروں سے مسلمانوں میں آئی ہیں جو کہ غیر شرعی ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔(۱)
(۱) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب اللباس: باب في لبس الشہرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱)
قال القاري: أي من شبہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ أو بالفساق أو الفجار أو بأہل التصوف والصلحاء والأبرار فہو منہم، أي في الإثم أو الخیر عند اللّٰہ تعالیٰ۔ (بذل المجہود، ’’کتاب اللباس: باب في لبس الشہرۃ‘‘: ج ۵، ص: ۴۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص469
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں،(۱) اس کا نہ ماننے والا بلا شبہ حق پر ہے۔(۲)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
(۲) کم من مباح یصیر بالالتزام من غیر لزوم مکروہا۔ (سیاحۃ الفکر لمولانا، عبد الحي: ص: ۷۲)
وکل ہذہ بدع ومنکرات لا أصل لہا في الدین ولا مسند لہا في الکتاب والسنۃ ویجب علی أہل العلم أن ینکروہا۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، معارف السنن، ’’باب التشدید في البول‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۶)
من أحدث فی الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰)
من أحدث في الإسلام حدثاً۔ فعلیہ {لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَہلا ۱۶۱}۔ (ابن حجر العسقلاني، المطالب العالیہ، رقم: ۲۹۸۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص514
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:شرم وحیاء کے ذریعہ انسان کو خیر وبھلائی حاصل ہوتی ہے آدمی منکرات ولغویات سے بچا رہتا ہے؛ لیکن جب حیاء نہ رہے تو اس شخص سے خیر رخصت ہو جاتی ہے اور شر اپنا ٹھکانہ مضبوط کر لیتا ہے، حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً ایک روایت نقل کی ہے: نبوت کے کلام سے لوگوں نے جو آخری بات پائی ہے وہ یہ ہے کہ ’’جب تجھے حیاء نہ رہے تو جو مرضی ہو کر‘‘۔
’’عن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إن مما أدرک الناس من کلام النبوۃ الأولیٰ إذا لم تستحي فاصنع ما شئت‘‘(۱)
الحاصل: مذکورہ عبارت جو عوام کے درمیان زبان زد ہے وہ کسی کا مقولہ نہیں؛ بلکہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے؛اس لئے اس کو لوگوں کا مقولہ سمجھنا صحیح نہیں ہے۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأدب: باب إذا لم تسحتي فاصنع ما شئت‘‘: ج ۲، ص: ۹۰۴، رقم: ۶۱۲۰۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص104
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ماجد کانام عبداللہ اور والدہ کا نام آمنہ تھا، دادا کا نام عبدالمطلب اور دادی کا نام فاطمہ بنت عمر تھا، نانا کا نام وہب اورنانی کا نام مبرہ بنت عبدالعُزیٰ تھا۔ (۱)
(۱) أبو البرکات، أصح السیر، ’’نسب رسول اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم‘‘: ص: ۷۷؍ یا ص: ۸۰)
سلسلۂ نسب یہ ہے محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب الخ۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم، مصنفہ علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ؛ علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ۔
وہب بن عبد مناف کی صاحبزادی جن کا آمنہ تھا۔ ج ۱، ص: ۱۰۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص198
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اپنے گھر کے قریب کسی جگہ دینی بات اس انداز پر سننے کے لئے جانا کہ کسی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو اور پردہ وغیرہ کا پورا انتظام ہو اس میں کوئی حرج نہیں(۱)، لیکن عفت وپاکدامنی کی حفاظت بہر حال مقدم ہے۔(۲)
(۱) قالت النساء للنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم غلب علینا الرجال فاجعل لنا یوماً من نفسک فوعدہن یوماً لقیہن فیہ فوعظہن۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب العلم: باب ہل یجعل للنساء یوم علی حدۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰، رقم: ۱۰۱)
(۲) {وَقَرْنَ فِيْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاھِلِیَّۃِ الْأُوْلٰی} (سورۃ الأحزاب: ۳۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص318
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2659/45-4187
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی حدیث پر عمل کرنے سے پہلے اس کی اسنادی حیثیت کو پرکھنا اور جانچنا انتہائی ضروری ہے، حدیث کا ثبوت اور آپ ﷺ سے اس کا اتصال جس قدر قوی ہوگا اسی قدر اس کی حیثیت قوی ہوگی۔ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے سے متعلق حضرت عبادہ بن صامتؓ کی جو حدیث نقل کی جاتی ہے، وہ حدیث قوی نہیں ہے بلکہ اس میں کافی اضطراب پایاجاتاہے، اس وجہ سے وہ حدیث قابل عمل نہیں ہے۔ اور امام کے پیچھے قراءت نہ کرنے کا حکم قرآن کریم اور صحیح احادیث میں موجود ہے۔ خلفائے راشدین، ستر بدری صحابہ کے افعال اور ان کے علاوہ، دیگر صحابہ کرام کے آثارسے یہ بات ثابت ہے کہ مقتدیوں کو امام کے پیچھے قرأت کرنا منع ہے۔
وَاِذَا قُرِئ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہُ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ (الاعراف:۲۰۴)
قال النّبي صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم :إذا صلیتم فأقیموا صفوفکم، ثم لیوٴمکم أحدکم فإذا کبر فکبروا، فإذا قال:غیر المغضوب علیہم ولا الضالین ،فقولوا: آمین… وعن قتادة وإذا قرأ فأنصتوا۔ (مسلم:رقم:404، دار إحیاء التراث العربي)
عن أبي موسیٰ قال: علمنا رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم :إذا قمتم إلی الصلاة فلیوٴمکم أحدکم ،وإذا قرأ الإمام فأنصتوا
(مسند احمد رقم:۱۹۲۸۴، دارإحیاء التراث العربي)
قال (عبدالرحمن بن زید):أخبرني أشیاخنا أن علیا رضي اللّٰہ عنہ قال:من قرأ خلف الإمام فلا صلاة لہ، قال:وأخبرني موسٰی بن عقبة: أن رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم وأبو بکر وعمر وعثمان کانوا ینہون عن القراء ة خلف الإمام (مصنف عبدالرزاق: رقم:۲۸۱۰، المکتب الإسلامي، بیروت)
عن عبادة بن الصامت قال: کنا خلف النّبي صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم في صلاة الفجر، فقرأ، فثقلت علیہ القراء ة ،فلما فرغ قال: لعلکم تقروٴون خلف إمامکم ، قلنا :نعم! یا رسول اللّٰہ ! قال:لا تفعلوا إلا بفاتحة الکتاب، فإنہ لا صلاة لمن لم یقرأبہا (أبوداوٴد:رقم:۸۲۳، دارالفکر)
فہذہ ثمانیة وجوہ من اضطرابہ في الإسناد رفعاً ووقفا وانقطاعا واتصالا (معار ف السنن:۳/۲۰۳، ط:دار الکتاب دیوبند)
وأمااضطراب متنہ فہو کذلک علی وجوہ … ثم قال :فہذہ ثلاثة عشر لفظا فی حدیث عبادہ (معارف السنن: ۳/۲۰۵)
وہذا الحدیث معلل عند أئمة الحدیث بأمور کثیرة ضعفہ أحمد وغیرہ من الأئمة الخ (فتاوی ابن تیمیہ:۲۳/۲۸۶)
وقال النیموي:حدیث عبادة بن الصامت في التباس القراءة قد روی بوجوہ کلّہا ضعیفة۔(آثارالسّنن:۱/۷۹)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
کسی شخص کو حدث اکبر لاحق ہو، تواس پر غسل فرض ہوگا(۱) ایک حدیث میں ہے۔، ’’من توضأ یوم الجمعۃ فبھا ونعمت، ومن اغتسل فالغسل أفضل(۲) ‘‘ یعنی جس نے جمعہ کے دن وضو کیا اس نے ٹھیک کیا اور جس نے غسل کیا تو اس نے افضل کام کیا۔ رہا سوال میں مذکور حدیث کا جواب، تو اس کے متعلق اسی جگہ حاشیہ میں اس کی تفصیل درج ہے، وہ یہ ہے۔ ’’قال النووی: المراد بالوجوب وجوب اختیار، کقول الرجل لصاحبہ: حقک واجب عليّ قالہ ملا علی القاري وقال محمد في موطأہ: أخبرنا محمد بن أبان بن صالح عن حماد عن ابراہیم النخعي قال أي حماد سالتہ عن الغسل یوم الجمعۃ، والغسل من الحجامۃ، والغسل في العیدین؟ قال إن اغتسلت فحسن، و إن ترکت فلیس علیک فقلت لہ ألم یقل رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم من راح إلی الجمعۃ فلیغتسل قال بلی ولکن؛ لیس من الأمور الواجبۃ و إنما ھو کقولہ تعالی: ’’و اشھدوا إذا تبایعتم‘‘ الآیۃ ویؤیدہ ما أخرج أبوداود عن عکرمۃ أن ناسا من أھل العراق جاووا فقالوا یا ابن عباس أتری الغسل یوم الجمعۃ واجبا؟ فقال لاولکنہ طھور وخیر لمن اغتسل ومن لم یغتسل فلیس علیہ بواجب الخ‘‘(۱)
(۱) و أربعۃ سنۃ، و ھما غسل یوم الجمعۃ و یوم العیدین الخ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الثاني: في الغسل أما أنواع الغسل‘‘ ج۱، ص:۶۷) ؛ ( وسن) (للجمعۃ والعیدین) (الحصکفي، مجمع الأنہر، ’’کتاب الطہارۃ‘‘ ج۱، ص:۳۹)
(۲)أخرجہ الترمذي، في سننہ، ابواب الجمعۃ، باب في الوضو، یوم الجمعۃ‘‘ج۱، ص:۱۱۱،رقم:۴۹۷(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(۱)أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الجمعۃ، باب فضل الغسل یوم الجمعۃ الخ‘‘ج۱، ص:۱۲۱، ’’باب فضل الغسل یوم الجمعۃ و ھل علی الصبي شہود یوم الجمعۃ أو علی النساء‘‘ج۱، ص:۱۲۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص308
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: التحیات پڑھ کر خاموش بیٹھا رہے، اور بہتر ہے کہ التحیات ٹھہرٹھہر کر پڑھے کہ اما م کے سلام پھیرنے کا وقت ہوجائے۔ جب امام سلام پھیرلے، تو کھڑا ہو اور اپنی نماز مکمل کرے۔(۳)
(۳) ومنہا أن المسبوق ببعض الرکعات یتابع الإمام في التشہد الأخیر، وإذا أتم التشہد لا یشتغل بما بعدہ من الدعوات، ثم ماذا یفعل؟ تکلموا فیہ … والصحیح أن المسبوق یترسل في التشہد حتی یفرغ عند سلام الإمام۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السابع في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۹، زکریا دیوبند)
ولو فرغ المؤتم قبل إمامہ سکت اتفاقاً؛ وأما المسبوق فیترسل لیفرغ عند سلام إمامہ، وقیل یتم، وقیل یکرر کلمۃ الشہادۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب مہم في عقد الأصابع عند التشہد‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۰، ۲۲۱، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص35
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں نماز کی حالت میں زید کا کپڑوں کے ساتھ کھیلنا مکروہ تحریمی ہے، جیسا کہ فتاویٰ ہندیۃ میں ہے۔
’’یکرہ للمصلي أن یعبث بثوبہ أو لحیتہ أو جسدہ، وإن یکف ثوبہ بأن یرفع ثوبہ من بین یدیہ أو من خلفہ إذا أراد السجود۔ کذا في معراج الدرایۃ‘‘(۱)
البتہ اگر کسی عذر اور ضرورت کی وجہ سے کپڑا درست کرنا پڑے تو اس صورت میں مکروہ نہیں ہے؛ جیسا کہ فقہاء نے لکھا ہے۔
’’کل عمل ہو مفید لا بأس بہ للمصلی‘‘(۲) کہ ہر وہ عمل جو مفید ہو اس کے کرنے میں نمازی کے لئے کوئی حرج نہیں ہے اور جو مفید نہ ہو وہ کام کرنا مکروہ ہے ’’وما لیس بمفید یکرہ‘‘(۳)
خلاصہ: نماز نہایت ہی خشوع وخضوع کے ساتھ پڑھنی چاہئے نماز کی حالت میں بلا ضرورت کپڑے وغیرہ کے ساتھ کھیلنا مکروہ تحریمی ہے؛ زید کو اس فعل سے اجتناب کرنا چاہئے، بعض مرتبہ مسلسل کپڑے سے کھیلنے کی بنا پر (عمل کثیر کی وجہ سے) نماز بھی فاسد ہو جاتی ہے۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ وما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۴۔
(۲) أیضاً:۱۶۴ (۳) أیضاً:۱۶۴
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص147
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں نماز فاسد ہوگئی اس لیے کہ معنی بدل گئے ہیں۔ عالمگیری میں ہے۔
’’منہا: زیادۃ حرف۔ إن زاد حرفا، فإن کان لا یغیر المعنی لا تفسد صلاتہ عند عامۃ المشائخ الخ … وإن غیر المعنی الخ … تفسد صلاتہ ہکذا في الخلاصۃ‘‘(۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في الصلاۃ،… الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷۔
قال في البزازیۃ: ولو زاد حرفاً لایغیر المعنی لاتفسد عندنا وإن غیر أفسد۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، فروع مشي المصلی مستقبل القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۳۱)
أحدہا أن تکون الکلمۃ الزائدۃ موجودۃ في القرآن، ان کان لایغیر المعنی لاتفسد صلاتہ بالاجماع وان غیر المعنی تفسد صلاتہ۔ (محمود بن أحمد، المحیط الرباني في الفقہ النعماني، ’’الفصل الخامس في حذف حرف‘‘: ج ۱، ص: ۳۲۸)
والقاعدۃ عند المتقدمین أن ما غیر المعنی تغییرا یکون اعتقادہ کفراً یفسد في جمیع ذلک، سواء کان في القرآن أولا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص267