قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 2094/44-2143

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر گھر میں کوئی محرم نہیں ہے تو عورت کے لئے بلند آواز سے  تلاوت کرنے کی اجازت ہے، لیکن اگر عورت ایسی جگہ ہے کہ  بلند آواز سے تلاوت کرنے میں اس کی  آواز  غیر محرم کے کان میں پڑنے کا اندیشہ ہو تو پھراس کی اجازت نہ ہو گی۔ عورت کی آواز فتنہ کا باعث ہوسکتی ہے، اس لئے غیرمحرم تک آواز نہیں پہونچنی چاہئے۔

مسألة): قال فى النوازل: نغمة المرأة عورة، و لهذا قال عليه السلام: التسبيح للرجال و التصفيق للنساء، قال ابن الهمام: و على هذا لو قيل: إن المرأة إذا جهرت بالقراءة في الصلاة فسدت كان متجهًا ."(التفسير المظهري 1 / 1311)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد
ہمارے ایک مربی ومشفق عالم باعمل کا انتقال ہوگیا ہے اور میں نے جوش عقیدت ومحبت میں آپ کی شان میں چند کلمات لکھے، جن پر ہمارے بعض احباب کا کہنا ہے کہ ایسا لکھنا جائز نہیں حرام ہے، تم نے کفر شرک والا کام کیا ہے، وہ کلمات یہ ہیں ’’یعقوب علیہ السلام نے {إِنَّمَآ أَشْکُوْا بَثِّيْ وَحُزْنِيْٓ إِلَی اللّٰہِ} (سورۃ یوسف: ۸۶) کی دھیمی دھیمی صدا بلند کی، ایوب علیہ السلام نے {رَبَّہٗٓ أَنِّيْ مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ ہجصلے ۸۳ } (سورۃ الأنبیاء: ۸۳) کا ورد کیا، آدم ثانی سیدنا نوح علیہ السلام نے {رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْأَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًاہ۲۶} (سورۃ نوح: ۲۶) کا نعرہ لگا کر ظالمین کی صفوں کو درھم برھم کردیا۔ مگر یہ انسان عجیب وغریب تھا، جس کی زبان پر نہ رنجوری کا شکوہ، نہ دشمنوں کے لئے دعاء بد، نہ خلوتوں میں خدائے قہار کے سامنے شر پسندوں کی شکایت؛ بلکہ صبر ورضا کا پیکر، سکوت کا لق ودق صحراء، سوز وساز کا خاموش دریا، بن کر اپنے قلب پر آلام واحزان کا بوجھ لیے ہوئے دنیا سے چلاگیا۔ {فإنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون} تو شرع کی روشنی میں کہاں تک میرے لیے ان الفاظ کا لکھنا درست ہے۔ یا اس کا کیا حکم ہے بالبسط جواب تحریر فرمائیں نوازش ہوگی ۔ فقط: والسلام المستفتی: نظام الدین خاں، پرتابگڑھی

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ بات صحیح نہیں ہے کہ فرشتے اللہ تعالی کی عبادت نہیں کرتے ہیں؛ بلکہ فرشتوں کوتو اللہ تعالی نے اپنی عبادت کے لئے ہی پیدا کیا ہے ، فرشتے ہر وقت اللہ تعالی کی عبادت میں لگے رہتے ہیں؛ اللہ تعالی کی بالکل نافرمانی نہیں کرتے ہیں،بلکہ نافرنی فرشتوں کی طبیعت اور خلقت میں ہے ہی نہیں {لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ أَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَہ۶}(۱)  فرشتے اللہ تعالی کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کام کرتے ہیں جن کا ان کو حکم دیا جاتا ہے۔ فرشتے تمام قسم کی عبادت انجام دیتے ہیں، قرآن وحدیث میں ان کی مختلف عبادت کا تذکرہ ہے، مختلف خدمتوں اور اللہ تعالیٰ کے احکامات وتعلیمات کو نافذ کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تعلیمات اور احکامات کی با لکل مخالفت نہیں کرتے ہیں، فرشتوں کی عبادت کا یہ بھی حصہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے آگے نہیں بڑھتے ہیں اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے امر پر کوئی اعتراض کرتے ہیں؛ بلکہ جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہو اسے کر گزرتے ہیں، {لا یَسْبِقُوْنَہٗ بِالْقَوْلِ وَھُمْ بِأَمْرِہٖ یَعْمَلُوْنَہ۲۷}(۲) فرشتے باتوں میں بھی اللہ تعالیٰ سے سبقت نہیں کرتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔ خاص طور پر فرشتوں کی جن عبادتوں کا تذکرہ ہے، اس میں تسبیح ہے، فرشتے کثرت سے اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں {یُسَبِّحُوْنَ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ لا یَفْتُرُوْنَہ۲۰}(۳) فرشتے رات دن اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور وہ نہیں تھکتے۔ اسی طرف فرشتے صف لگا کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں؛ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا کہ اس طرح صف لگاؤ جس طرح صحابہؓ صف لگا تے ہیں صحابہؓ نے پوچھا کہ صحابہؓ کس طرح صف لگاتے ہیں تو آپ نے فرمایا صفوں کو مکمل کرتے ہیں اور مل مل کر کھڑے ہوتے ہیں۔(۴) اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان پر ایک کعبہ بنایا ہے جس کو بیت المعمور کہا جاتا ہے، مشہور روایت معراج کے سلسلے میں ہے کہ آپ نے فرمایا پھر مجھے ساتویں آسمان پر بیت المعمور لے جایا گیا یہ وہ جگہ ہے جہاں روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور جو ایک مرتبہ داخل ہوتا ہے اس کو دوبارہ موقع نہیں ملتا ہے اس کے ضمن میں ابن کثیر نے لکھا ہے کہ فرشتے بیت المعمور میں عبادت کرتے ہیں اور طواف کرتے ہیں جس طرح خانہ کعبہ کا مسلمان طواف کرتے ہیں۔(۱)

(۱) التحریم: ۶۔                 (۲) الانبیاء: ۲۷۔        (۳) الانبیاء:۲۰۔
(۴) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’باب إقامۃ الصفوف‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۸، رقم: ۹۹۱۔
(۱) تفسیر ابن کثیر، في ضمن آیۃ ، والبیت المعمور‘‘: ج ۷، ص: ۴۲۹۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص262
 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بھات میں اگر غیر شرعی امر کا ارتکاب نہ ہو اور ماموں کی طرف سے شادی کے موقع پر تعاون ہو، تو اس میں کوئی حرج نہیں؛ لیکن اس کا التزام بھی درست نہیں ہے کہ اگر ماموں یہ تعاون نہ کرسکے، تو اسے مطعون ومتہم کیا جائے۔ یہ ایک رسم ہے جس کا ترک کرنا لازم ہے۔(۱)

(۱) عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص469

حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ بات بلا تحقیق اور غلط ہے؛ بلکہ آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال مدینہ سے واپسی پر مقام ابواء میں ہوا، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر چھ سال کی ہوئی تو مدینہ سے واپس آتے ہوئے مقام ابواء میں آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہو گیا۔(۱) اور وہیں مدفون ہوئیں ام ایمن رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر مکہ مکرمہ آئیں۔(۲) (۱) ابو البرکات عبد الرؤف، اصح السیر ،ص: ۲۸۔ (۲) سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم: ج ۱، ص: ۱۱۲؛ مصنفہ: علامہ سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ؛ علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص198

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دینی کام کرنے کی تو غیر شادی شدہ کو بھی اجازت ہے(۳) لیکن پردہ کا پورا لحاظ رہے بغیر محرم یا غیر محرم کے ساتھ سفر نہ ہو(۴) اور کسی طرح بھی کسی فتنہ کا گمان نہ ہو، شرعی حدود میں رہ کر دین کا کام کیا جائے، مثلاً: گھر میں بچوں کو پڑھانا یا وہ قریبی عورتیں جو حدود شرع میں رہ کر آسکیں انھیں دین کی دیگر باتیں بتانا وغیرہ، لیکن واضح رہے کہ عورت کی عفت کی حفاظت شرعاً انتہائی اہمیت کی حامل ہے، عفت کو خطرہ میں ڈال کر کسی کام کی شریعت اجازت نہیں  دیتی خواہ وہ کام بظاہر کتنا ہی بہتر معلوم ہو۔(۱)

(۳) {مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثٰی وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃًج} (سورۃ النحل: ۹۷)
(۴) وعن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تسافر إمرأۃ مسیرۃ یوم ولیلۃ إلا ومعہا ذو محرم۔ (مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الحج: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۱، رقم: ۲۵۱۵)
(۱) {وَقَرْنَ فِيْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاھِلِیَّۃِ الْأُوْلٰی} (سورۃ الأحزاب: ۳۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص318

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2660/45-4188

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  رفع یدین یعنی نماز کی حالت میں تکبیر کہتے وقت دونوں ہاتھوں کو کانوں کی لو تک اٹھانا، وتر اور عیدین کی نماز کے علاوہ عام نمازوں میں  صرف تکبیر تحریمہ کہتے وقت ہی رفعِ یدین کرنا مسنون ہے، اور یہ مسئلہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ سے مختلف فیہ ہے،حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بعض صحابہ کرام رفع یدین کرتے تھے اوربعض نہیں کرتے تھے۔اسی وجہ سے ائمہ مجتہدین  میں بھی اس مسئلہ میں اختلاف ہواہے،امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ترکِ رفع یدین والی روایات کوراجح قراردیاہے،کئی اکابر صحابہ کرام کامعمول ترکِ رفع کاتھا، اوریہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاآخری عمل ہے، اور پہلے رفع یدین کرتے تھے اور پھر بعد میں رفع یدین نہیں کرتے تھے، اس کا صاف مطلب یہی ہو اکہ بعد والا عمل آپ کا ناسخ ہے اور جو کچھ اب تک ہوا وہ منسوخ ہے۔اس لئے  احناف کے نزدیک تکبیر تحریمہ کے علاوہ مواقع پر  ترکِ رفع یدین ہی  سنت ہے۔ دلائل حسب ذیل ہیں:

۔۔  "حدّثنا إسحاق، حدثنا ابن إدریس قال: سمعت یزید بن أبي زیاد عن ابن أبي لیلی عن البراء قال: رأیت رسول  الله صلی  الله علیه وسلم رفع یدیه حین استقبل الصلاة، حتی رأیت إبهامیه قریبًا من أذنیه ثم لم یرفعهما". (مسند أبي یعلی الموصلي ۲/ ۱۵۳، حدیث: ۱۶۸۸، طحاوي شریف ۱/ ۱۳۲، جدید برقم: ۱۳۱۳، أبوداؤد، ۱/ ۱۰۹، جدید برقم: ۷۴۹)

۔۔   "عن عقلمة عن عبد الله بن مسعود عن النبي صلی  الله علیه وسلم أنه کان یرفع یدیه في أوّل تکبیرة ثم لایعود". (شرح معاني الآثار، للطحاوي ۱/ ۱۳۲، جدید ۱/ ۲۹۰، رقم: ۱۳۱۶)

۔۔  "عن المغیرة قال: قلت لإبراهيم: حدیث وائل أنه رأی النبي صلی الله علیه وسلم یرفع یدیه إذا افتتح الصلاة وإذا رکع وإذا رفع رأسه من الرکوع، فقال:إن کان وائل رآه مرةً یفعل ذلك فقد رآه عبد الله خمسین مرةً لایفعل ذلك". (شرح معاني الآثار، للطحاوي ۱/ ۱۳۲، جدید ۱/ ۲۹۰، برقم: ۱۳۱۸)    

۔۔   "عن جابر بن سمرة قال: خرج علینا رسول  الله صلی  الله علیه وسلم فقال: مالي أراکم رافعی أیدیکم کأنها أذناب خیل شمس اسکنوا في الصلاة". (صحیح مسلم  ۱/  ۱۸۱)

5۔۔ "عن  علقمة قال: قال عبد الله بن مسعود ألا أصلي بکم صلاة رسول  الله صلی  الله علیه وسلم، فصلی فلم یرفع یدیه إلا في أول مرة". ( جامع الترمذي  ۱/ ۵۹، جدید برقم: ۲۵۷، أبوداؤد شریف ۱/ ۱۰۹، جدید برقم: ۷۴۸)

۔۔  " عن علقمة قال: قال عبد الله بن مسعود ألاَ أصلّي بکم صلاة رسول  الله صلی الله علیه وسلم قال:  فصلی فلم یرفع یدیه إلا مرةً واحدةً". (سنن النساائي  ۱/ ۱۲۰، جدید رقم: ۱۰۵۹، أبوداؤد قدیم ۱/ ۱۰۹، جدید برقم: ۷۴۸، ترمذي قدیم    ۱/ ۵۹، جدید رقم: ۲۵۷)
7۔۔  "عن علقمة عن عبد الله بن مسعود قال: صلیت خلف النبي صلی  الله علیه وسلم، وأبي بکر وعمرفلم یرفعوا أیدیهم إلا عند افتتاح الصلاة." (السنن الکبری للبیهقي ۲/ ۸۰، ۲/ ۷۹، نسخه جدید دارالفکر بیروت ۲/ ۳۹۳ برقم: ۲۵۸۶)    

۔۔   "عن إبراهيم عن الأسود قال: رأیت عمر بن الخطاب یرفع یدیه في أول تکبیرة، ثم لایعود، قال: ورأیت إبراهيم والشعبی یفعلان ذلك". (طحاوي شریف ۱/ ۱۳۳، جدید ۱/ ۲۹۴ برقم: ۱۳۲۹)

9۔۔  "عن عاصم بن کلیب الجرمي عن أبیه قال: رأیت علی بن أبي طالب رفع یدیه في التکبیرة الأولی من الصلاة المکتوبة ولم یرفعهما فیما سوی ذلك". (مؤطا إمام محمد/ ۹۲

10۔۔  "عن مجاهد قال: صلّیت خلف ابن عمر فلم یکن یرفع یدیه إلا في التکبیرة الأولی من الصلاة، فهذا ابن عمر قد رأی النبي صلی  الله علیه وسلم یرفع، ثمَّ قد ترک هو الرفع بعد النبي صلی  الله علیه وسلم فلایکون ذلك إلا وقد ثبت عنده نسخ ما قدرأی النبي صلی  الله علیه وسلم فعله وقامت الحجة علیه بذلك". (طحاوي شریف  ۱/ ۱۳۳، جدید ۱/ ۲۹۲ برقم: ۱۳۲۳)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:پالش اتارکر صرف ہاتھ دھولینے سے غسل صحیح ہوجائے گا۔ دوبارہ غسل کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی(۲) اور اگر پالش نہ اترے، تو وضو اور غسل صحیح نہیں ہوگا۔(۳)

(۲) إن صلبا منع وھو الأصح، صرح بہ في شرح المنیۃ و قال: لامتناع نفوذ الماء مع عدم الضرورۃ والحرج الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار،’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل‘‘ج۱، ص:۲۸۹۔
(۳)منھا محل الفرض یجب غسلہ، و إلا فلا، کذا في فتح القدیر بل یندب غسلہ، …کذا في البحرالرائق في (فتاوی ما وراء النھر) إن بقي من موضع الوضوء قدر رأس إبرۃ، أو لزق بأصل ظفرہ طین یابس أو رطب لم یجز الخ  (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول: في الوضوء، الفرض الثاني: غسل الیدین‘‘ج۱، ص:۴) ؛ و قال في شرحھا ولأن الماء ینفذہ لتخللہ و عدم لزوجتہ و صلابتہ، والمعتبر في جمیع ذلک: نفوذ الماء و وصولہ إلی البدن۔ الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ج۱، ص:۵۴) ؛ وھو إسالۃ الماء علی جمیع ما یمکن إسالتہ علیہ من البدن من غیر حرج مرۃ واحدۃ، حتی لو بقیت لمعۃ لم یصبھا الماء لم یجز الغسل  (ابن نجیم، البحر الرائق،’’کتاب الطہارۃ‘‘ج۱، ص:۴۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص309

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس کو امام کے پیچھے صرف ایک رکعت ملی، وہ امام کے ساتھ قعدہ اخیرہ میں صرف تشہد پر اکتفاء کرے، امام کے سلام سے فارغ ہونے کے بعد مقتدی کھڑا ہو اور اپنی دوسری رکعت اسی طرح ادا کرے جس طرح چھوٹی ہے، یعنی ثناء وتعوذ وتسمیہ پڑھے، سورہ فاتحہ شروع کردے اور کوئی سورہ یاچند آیات پڑھے، پھر رکوع وسجدہ کرے اور بیٹھ جائے، تشہد پڑھے اور تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو، سورہ فاتحہ پڑھے، کوئی سورہ یا چند آیات پڑھے اور پھر رکوع وسجدہ کرے اور اب سیدھا چوتھی رکعت کے لیے کھڑا ہوجائے اور صرف سورہ فاتحہ پڑھے، سورہ نہ ملائے اور رکوع وسجدہ کے بعد قعدہ اخیرہ کرے جس میں تشہد، درودشریف اور دعاء کے بعد سلام پھیردے۔(۱)
’’فمدرک رکعۃ من غیر فجر یأتي برکعتین بفاتحۃ وسورۃ وتشھد بینھما، وبرابعۃ الرباعي بفاتحۃ فقط ولایقعد قبلھا‘‘(۱)

(۱) ومنہا: أنہ لا یقوم إلی القضاء بعد التسلیمتین، بل ینتظر فراغ الإمام، کذا في البحر الرائق … ومنہا أنہ یقضی أول صلاتہ في حق القراء ۃ، وآخرہا في حق التشہد … ولو أدرک رکعۃ من الرباعیۃ، فعلیہ أن یقضي رکعۃ یقرأ فیہا الفاتحۃ والسورۃ، ویتشہد ویقضي رکعۃ أخریٰ کذلک، ولا یتشہد، وفي الثالثۃ بالخیار، والقراء ۃ أفضل، ہکذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السابع  في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۹، زکریا دیوبند)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب فیما لو أتی بالرکوع والسجود أو بہما مع الإمام أو قبلہ أو بعدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۷، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص36

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت میں مسئولہ میں اگر کوئی شخص بغیر ٹوپی اوڑھے ہوئے نماز پڑھتا ہے تو نماز ہو جاتی ہے، اعادہ کی ضرورت نہیں ہے؛ البتہ فقہا نے لکھا ہے کہ بغیر کسی عذر کے محض غفلت اور سستی وتساہل میں بغیر ٹوپی کے کوئی نماز پڑھتا ہے تو یہ خلاف ادب اور مکروہ ہے؛ اس لیے اسے ایسے فعل سے اجتناب کرنا چاہئے۔
’’عن ہشام بن حسان عن الحسن قال: أدرکنا القوم ہم یسجدون علی عمائمہم، ویسجد أحدہم ویدیہ في قمیصہ‘‘(۱)
وکرہ صلاتہ حاسراً أي کاشفاً رأسہ للتکاسل ولا بأس بہ للتذلل‘‘(۲)
’’وتکرہ الصلاۃ … مکشوف الرأس‘‘(۳)

ان کا دعوی کہ ٹوپی پہننے کا ثبوت قرآن وحدیث سے نہیں ہے۔ غلط ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمامہ اور ٹوپی اوڑھنے کا ثبوت ملتا ہے، اس لیے بغیر علم کے کسی چیز کا اقرار وانکار کرنا صحیح نہیں ہے ان کو چاہیے کہ اپنے مقامی علماء سے رجوع کریں اور دینی معلومات حاصل کریں۔ ٹوپی اوڑھنے کے سلسلہ میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے: ’’عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یلبس قلنسوۃ بیضاء‘‘(۴)
(۱) أخرجہ عبد الرزاق، في مصنفہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب السجود علی العمامۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۰، رقم: ۱۵۶۶۔
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، : ۲،ص: ۴۰۷؛وجماعۃ من علماء الہندیۃ والفتاوی الھندیۃ: ج ۱، ص: ۱۶۵۔
(۳) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي مع مراقي الفلاح: ص: ۳۵۹۔
(۴) مجمع الزوائد: ج ۵، ص: ۱۲۱۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص148