Frequently Asked Questions
متفرقات
Ref. No. 1156/42-395
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ کھیل جوا اور قمار پر مشتمل ہے، کہ پیسے سب ٹیموں نے ادا کئے مگر ہارنے والی ٹیموں کو کچھ نہیں ملا اور ان کا پیسہ جیتنے والوں کو دیدیا گیا ۔ اس لئے یہ شرطیہ کھیل درست نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1390/42-821
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ امام کے سلام پھیرنے کے بعد امام ومقتدی سب کی نماز پوری ہو جاتی ہے۔ نماز کے بعد دعا مانگنا حدیث سے ثابت ہیں اور قبولیت دعا کے مواقع میں سے ہے۔ یہ دعا جہری بھی ہوسکتی ہے اور سری بھی، انفرادی بھی اور بوقت ضرورت اجتماعی بھی۔ البتہ سرا اور انفرادی طور پر دعا مانگنا افضل ہے۔ جماعت کے بعد دعا مانگنے یا نہ مانگنے کے سلسلے میں امام و مقتدی آزاد ہیں۔ دعا نہ کرنے پر امام یا مقتدیوں پر اعتراض کرنا غلط ہے۔ اسی طرح دعا شروع کرنے یا نہ کرنے میں امام کی اقتداء کا التزام خلاف سنت ہے۔ اگر لوگ اس کو ضروری سمجھیں تو امام کا دعا کی ابتداء میں الحمد للہ یا آخر میں یا ارحم الراحمین کہنے کا اہتمام قابل ترک ہے۔ ائمہ حضرات کی ذمہ داری ہے کہ عوام الناس کو صحیح مسئلہ سے آگاہ کرتے رہا کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1520/43-1017
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی عمل پر طلاق کو دل ہی دل میں معلق کرنے سے تعلیق درست نہیں ہوتی اور اس سے بلاتکلم کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے اگر آپ نے زبان سے کچھ نہیں بولا ، صرف دل میں نیت کرلی تو بیوی کے بولنے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔ طلاق کے لئے کسی لفظ کا ہونا ضروری ہے صریح ہو یا کنائی۔ دل میں اس طرح کی بات آنا وسوسہ کی حیثیت رکھتا ہے اوروسوسہ سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔
وقال الليث: الوسوسۃ حديث النفس وإنما قيل موسوس؛ لأنه يحدث بما في ضميره وعن أبي الليث لا يجوز طلاق الموسوس يعني المغلوب في عقله عن الحاكم هو المصاب في عقله إذا تكلم تكلم بغير نظام (البحر، اکثر التعزیر 5/51) (شامی، باب المرتد 4/224)
(قوله فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية الی قولہ - - - أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت (شامی، باب صریح الطلاق 3/252)
رجل قال: إن كذبت فامرأتي طالق فسئل عن أمر فحرك رأسه بالكذب لا يحنث في يمينه ما لم يتكلم كذا في فتاوى قاضي خان. (الھندیۃ، الفصل الثالث فی تعلیق الطلاق بکلمۃ ان 1/448
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مردوں سے کوئی چیز مانگنا قطعاً درست نہیں ہے۔ البتہ اگر یہ دعا کی جائے کہ اے اللہ اپنے نیک بندوں اور ان کے اعمال خیر کی برکت سے دعا قبول فرما اور دعا صرف اللہ تعالیٰ سے ہو، تو جائز ہے۔(۱)
(۱) إن الناس قد أکثروا من دعاء غیر اللّٰہ تعالیٰ من الأولیاء الأحیاء منہم والأموات وغیر ہم، مثل یا سیدي فلان أغثني، ولیس ذلک من التوسل المباح في شيء، …… وقد عدہ أناس من العلماء شرکاً۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ المائدۃ: ۲۷-۳۷‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۸) {وَلَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَالَا یَنْفَعُکَ وَلَایَضُرُّکَج فَاِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّکَ إِذًا مِّنَ الظّٰلِمِیْنَہ۱۰۶} (سورۃ یونس: ۱۰۶)
متفرقات
Ref. No. 1740/43-1511
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ موجودہ کورونا کی صورت حال سے فتنہ احلاس مراد لینا درست نہیں ہے۔ کورونا ایک وبائی صورت حال ہے جس کو طاعون یا جیسی دوسری وبائی صورت حال سے تشبیہ دے سکتے ہیں لیکن فتنہ احلاس سے تعبیر نہیں کرسکتے ہیں۔ اس لئے کہ فتنہ احلاس کی تفسیر خود آپ ﷺ نے کی ہے جس میں جنگ اور لوٹ مار کی کثرت کوبیان کیا ہے اور جنگ کی طوالت کی طوالت کی وجہ سے لوگ گھر میں ٹاٹ کی طرح پڑے رہیں گے۔ فتنہ احلاس میں وبائی امراض کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہے۔
قال فی عون المعبود: (كنا قعودا) أي قاعدين (فذكر) النبي (الفتن) أي الواقعة في آخر الزمان (فأكثر) أي البيان (في ذكرها) أي الفتن (حتى ذكر) النبي (فتنة الأحلاس) قال في النهاية الأحلاس جمع حلس وهو الكساء الذي يلي ظهر البعير تحت القتب شبهها به للزومها ودوامها، (هي) أي فتنة الأحلاس (هرب) بفتحتين أي يفر بعضهم من بعض لما بينهم من العداوة والمحاربة قاله القارىء (وحرب) في النهاية الحرب بالتحريك نهب مال الإنسان وتركه لا شيء له انتهى (عون المعبود شرح ابی داؤد، باب ذکر الفتن ودلائلھا 11/208)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2096/44-2145
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر ایپ شیئر مارکیٹ سے جڑا ہوا ہے ، اور پیسے ایسی کمپنی میں آپ نے لگائے جس کا کام جائز ہے اور رقم متعین نہیں ہے بلکہ فائدہ اور نقصان میں شریک ہیں تو ایسا فائدہ لینا جائز ہے، لیکن اگرآپ کی کمپنی نفع میں متعین رقم دیتی ہے تو یہ جائز نہیں ہے۔ اور اس میں پیسے لگانا بھی جائز نہیں ہے ۔ اس لئے اس ایپ کو استعمال کرنے سے گریز کرنا ضروری ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس تقریب میں رسم ورواج کو بڑا دخل ہے، ایصال ثواب کے لیے دعوت دے کر لوگوں کو جمع کرنے کی کیا ضرورت ہے، یہ تداعی غیر مقصود کے لیے ہے خود پڑھ کر بخش سکتے ہیں یہ طریقہ نام ونمود سے دور اور اموات کے لیے زیادہ نفع بخش ہے۔(۲)
(۲) إن ختم القرآن جہراً بالجماعۃ ویسمي بالفارسیۃ ’’ستپارہ خواندن مکروہ‘‘۔ (تالیفات رشیدیہ: ص: ۱۴۳)
وعن علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یوشک أن یأتي علی الناس زمان لا یبقی من الإسلام إلا اسمہ، ولا یبقی من القرآن إلا رسمہ۔ مساجدہم عامرۃ وہي خراب من الہدیٰ، علمائہم أشر من تحت أدیم السماء، مَن عندہم یمدح الفتنۃ۔ (شعب الإیمان للبیہقي، ’’فصل قال وینبغي لطالب العلم أن یکون تعلمہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص470
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن پاک میں فرمان الٰہی ہے {قل إنما أنا بشر مثلکم یوحی إلي}(۱) کہ اے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم! ان سے کہہ دیجئے کہ میں بھی تمہارے جیسا ایک انسان ہوں (فرق یہ ہے کہ) مجھ پر وحی آتی ہے۔ اس آیت سے نفی ہو رہی ہے اس کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سراپا نور تھے، اگر سراپا نور تھے، تو پھر بول وبراز کے کیا معنی، حالانکہ عادت انسانی کے مطابق آپ کو بھی بول وبراز ہوتا تھا؛ البتہ بول وبراز کی پاکی ناپاکی کے بارے میں علماء متقدمین ومتاخرین نے بحث کی ہے یہ ان کا مقام ہے ہمیں اس پر توقف کرنا چاہیے، یہ مسئلہ مدار ایمان نہیں ہے۔ واعظوں کا مجامع میں اس مسئلہ کو بیان کرنا ہر گز مناسب نہیں ہے؛ اس لئے احتراز ضروری ہے، جس نے ایسا کیا غلطی کی اس کا اعادہ نہ ہونا چاہئے۔(۲)
(۱) سورۃ النساء: ۱۷۔
(۲) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: سئلت ما کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعمل في بیتہ قالت: کان بشراً من البشر یفلی ثوبہ ویحلب شاتہ ویخدم نفسہ۔ (أخرجہ أحمد بن حنبل، في مسندہ، ’’حدیث عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا‘‘: ج ۷، ص: ۳۶۵؛ بحوالہ: کفایت المفتي: ج ۱، ص: ۳۷۶)
صح بعض أئمۃ الشافعیۃ طہارۃ بولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وسائر فضلاتہ وبہ قال أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ: کما نقلہ في المواہب اللدنیۃ عن شرح البخاري للعیني وصرح بہ البیري في شرح الأشباہ وقال الحافظ ابن حجر تظافرت الأدلۃ علی ذلک وعد الأئمۃ ذلک من خصائصہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ونقل بعضہم عن شرح المشکاۃ للملا علی القاري إنہ قال: اختارہ کثیر من أصحابنا واطال في تحقیقہ في شرحہ علی الشمائل في باب ما جاء في تعطرہ علیہ الصلوۃ والسلام۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مطلب في طہارۃ بولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘‘‘ : ج ۱، ص: ۳۱۸)
روي إنہ قال حجمت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وشربت الدم من الحجمۃ وقلت یا رسول اللّٰہ شربتہ، فقال: ویحک یا سالم أما علمت أن الدم حرام لا تعد۔ (أبوالحسن علي بن محمد، أسد الغابۃ: ج ۲، ص: ۱۵۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص200
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:دین کا سیکھنا جس طرح مردوں پر فرض ہے اسی طرح عورتوں کے لیے بھی دین کا سیکھنا فرض ہے، عہد نبوی میں عورتیں مسجد میں آتی تھیں اور دین کی باتیں سیکھتی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے لیے ایک دن مخصوص کردیا تھا جس میں آپ ان سے خطاب کرتے تھے،(۱) جس سے معلوم ہوتاہے کہ ہمیں عورتوں کی دینی تعلیم وتربیت کے حوالے سے حساس رہنا چاہیے غافل نہیں اور ایسا نظام جو مناسب اور قابل عمل ہو اس کو اختیار کرنا چاہیے، اس لیے تبلیغی جماعت کے جو اصول ہیں ان کی رعایت کے ساتھ تبلیغی جماعت میں سفر کرنے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے، اس لیے کہ اپنی اصلاح کی کوشش کرنا یہ ضرورت میں داخل ہے جس کے لیے محرم کے ساتھ سفر کرنے کی اجازت معلوم ہوتی ہے(۲) جہاں تک یہ سوال ہے کہ عورتوں کا تبلیغ کے لیے سفر کرنا ثابت نہیں تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ یہ سفر تبلیغ کے لیے نہیں؛بلکہ تعلیم و تربیت کے لیے ہے، اور عہد نبوی میں عورتوں کاجہاد کے لیے سفر کرنااور پانی وغیرہ کا نظم کرنا زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا؛ بلکہ بسا اوقات جنگ میں حصہ لینا بھی ثابت ہے جب کہ جہادکا سفرجہا داور تبلیغ دونوں کے لیے ہوتاتھا یہی وجہ ہے کہ اکابر علماء کرام نے شرائط کے ساتھ عورتوں کے تبلیغ میں جانے کو جائزقرار دیا ہے۔ حضرت مفتی محمود صاحب گنگوہی فرماتے ہیں: تبلغی جماعت کا مقصد دین سیکھنا، اس کو پختہ کرنا اور دوسروں کو دین سیکھنے، پختہ کرنے کے لیے آمادہ کرنا ہے اور اس جذبہ کو عام کرنے کے لیے طویل طویل سفر بھی اختیار کیے جاتے ہیں جس طرح مرد اپنے دین کو سمجھنے اور پختہ کرنے کے محتاج ہیں عورتیں بھی محتاج ہیں اور گھروں میں عامۃ اس کا انتظام نہیں ہے اس لیے اگر لندن یا کسی بھی دور دراز مقام پر محرم کے ساتھ حدود شرع کی پابندی کا لحاظ رکھتے ہوئے جائیں اور کسی کے حقوق تلف نہ ہوں تو شرعا اس کی اجازت ہے؛ بلکہ دینی اعتبار سے مفید اور اہم ہے۔(۳)
مفتی احمد خاں پوری صاحب نے اپنے ایک فتوی میں مطلقا جواز نقل کیا ہے اور ایک دوسرے تفصیلی فتوی میں دونوں آراء کو نقل کرنے کے بعد جواز کے پہلو کو راجح قرار دے کر حضرت مولانا یوسف صاحب کی ایک تحریر نقل کی ہے: مستورات کی تبلیغی جماعت میں مجھے بذات خود اپنی اہلیہ اور بیٹی کے ساتھ شرکت کا موقع ملا، مستورات کے تبلیغی عمل کا میں نے خود مشاہدہ کیا جس میں شریعت کے تمام احکام کی مکمل پابندی کی جاتی ہے اور پردے کے تمام احکامات کو ملحوظ رکھا جاتا ہے مستورات کی تبلیغ کے سلسلے میں تبلیغی جماعت کے ا کابرین نے جو شرائط رکھے ہیں وہ مکمل شریعت کے مطابق ہیں اور ان شرائط کی پابندی نہ کرنے والی مستورات کو تبلیغی عمل میں شرکت کی اجازت نہیں ہے ان تمام امور کے بعد میری سمجھ سے یہ بات بالاتر ہے کہ مستورات کی تبلیغی جماعت میں شرکت کے عدم جواز کا فتوی کیوں دیا جاتا ہے میری رائے میں مستورات کا اس طرح تبلیغ کے لیے جانا درست ہے، مستورات کی جماعتوں کی وجہ سے ہزاروں عورتوں کی اصلاح ہوگئی ہے اور بہت سی عورتیں جو بے حجاب کھلے بندوں بے پردہ نکلتی تھیں اور قرآن کریم نے جس کوتبرج الجاہلیۃ کہا ہے اس کا پورا پورا مظاہرہ کرتی تھیں الحمد للہ مستورات کو دیکھ کر ان کے پاس بیٹھ کر اور ان کی دینی باتیں سن کر ان کی اصلاح ہوگئی ہے؛ اس لیے اس ناکارہ کے نزدیک تو شرائط مرتبہ کے مطابق نہ صرف مستورات کا تبلیغ میں نکلنا جائز ہے بلکہ ضروری ہے۔(۱)
مفتی رشید احمد صاحب طویل بحث کرکے ’’بصیرت فقیہ‘‘ عنوان قائم کرتے ہوئے رقم طراز ہیں؛
بصیرت فقہیہ:
حضرات فقہاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی عبارات مذکورہ سے ثابت ہوا کہ امور دینیہ کے لئے خواتین کے خروج کی ممانعت قرآن وحدیث میں منصوص نہیں؛بلکہ ان حضرات نے اپنے زمانے کے حالات اور شیوع فتن و فسادات کی وجہ سے اصول شریعت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی آراء وانظار کا اظہار فرمایا ہے؛ لہٰذا ان حضرات کا فیصلہ کوئی نص قطعی اور حرف آخر نہیں؛ بلکہ تغیر زمانہ سے اس میں ترمیم کی گنجائش ہے۔
دور حاضر میں غلبہ جہل اور دین سے بے اعتنائی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ خواتین کے لئے ضروریات شرعیہ سے خروج کو مطلقاً ممنوع و حرام قرار دینا اور کسی بھی ضرورت شرعیہ کے لئے خروج کی اجا زت نہ دینا اقامت دین کی بجائے ہدم دین ہے؛چنانچہ اسی کے پیش نظر مجموع النوازل میں مسائل شرعیہ معلوم کرنے کی ضرورت سے خروج کی اجازت دی گئی ہے۔(۱)
(۱) قالت النساء للنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم غلب علینا الرجال فاجعل لنا یوماً من نفسک فوعدہن یوماً لقیہن فیہ فوعظہن۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب العلم: باب ہل یجعل للنساء یوم علی حدۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰، رقم: ۱۰۱)
(۲) وعن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تسافر إمرأۃ مسیرۃ یوم ولیلۃ إلا ومعہا ذو محرم۔ (مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الحج: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۱، رقم: ۲۵۱۵)
(۳) فتاوی محمودیہ، ’’عورتوں کے لیے تبلیغی سفر‘‘: ج ۴، ص: ۲۶۶۔
(۱) محمود الفتاویٰ: ج ۲، ص: ۲۰۷۔
(۱) احسن الفتاویٰ: ج ۸، ص: ۵۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص319