تجارت و ملازمت

Ref. No. 2661/45-4189

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  : اگر سب کچھ پہلے ہی طے کردیاجائے، اور اس کی کاغذی کارروائی پوری کرلی جائے تاکہ  بعد میں کوئی نزاع  پیدا نہ ہو تو یہ معاملہ درست ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: وضو کے دوران ناک میں پانی ڈالنے کے لیے استنشاق کا لفظ آتا ہے، استنشاق کے معنی آتے ہیں: سانس کے ذریعہ ناک میں پانی چڑھانا، ’’إدخال الماء في الأنف بنفس‘‘(۱)

(۱) بدرالدین العینی، عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري، باب غسل الوجہ بالیدین من غرفۃ، ج۲، ص:۳۷۳، الاستنشاق ھو إدخال الماء في أنفہ بأن جذبہ بریح أنفہ۔ کذا في الحاشیۃ۔ (أخرجہ  النسائي، في سننہ، کتاب الطہارۃ، باب الوضوء ثلثا ثلثا، إیجاد الاستنشاق، ج۱، ص:۱۲، رقم:۱۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص124

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحت سوال آپ پر غسل واجب نہیں، ایسی صورت میں وضو کرلینا کافی ہے۔ وسوسہ کو جگہ نہ دیں، آپ اطمینان والی صورت اپنائیں۔(۱)

(۱) و صاحب عذر من بہ سلس بول لا یمکنہ إمساکہ أو استطلاق بطن أو انفلات ریح أو استحاضۃ إن استوعب عذرہ تمام وقت صلوۃ مفروضۃ بأن لا یجد في جمیع وقتھا زمنا یتوضأ و یصلي فیہ خالیا عن الحدث ولو حکما الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب في أحکام المعذور‘‘ج۱، ص:۵۰۴)؛  و صاحب عذر من بہ سلس بول… و حکمہ الوضوء لکل فرض ثم یصلي بہ فیہ فرضا و نفلا، فإذا خرج الوقت بطل أي ظھر حدثہ السابق الخ۔ (ایضاً، ص:۵۰۵)؛ و إن کان العذر من أحد السبیلین کالاستحاضۃ و سلس البول و خروج الریح یتوضأ لکل فرض و یصلي ما شاء من النوافل۔ (علاء الدین الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’فصل بیان ما ینقض الوضوء‘‘ج۱، ص:۱۲۷مکتبۃ زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص310

خوردونوش

Ref. No. 2742/45-4281

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مارکیٹ میں موجود ملکی وغیرملکی مصنوعات کے بارے میں احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ استعمال کرنے سے پہلے ان کے مشمولات کو چیک کرلیاجائے، اگر شامل اشیاء واضح طور پر درج نہ ہوں بلکہ کوڈ کی شکل میں لکھی ہوں تو کوڈ کا مطلب نیٹ سے چیک کرلیا جائے اس سے معلوم ہوجائے گا۔ البتہ  یہ جان لینا چاہئے کہ تمام اشیاء خوردنی اصلا حلال  اور جائز ہیں جب تک کہ تحقیق کے ذریعہ کسی ناجائز یا ناپاک چیز کی آمیزش کا یقینی علم نہ ہوجائے۔اور جن چیزوں کے بارے میں شبہہ ہو ان سے بچنا بہرحال بہتر ہے ۔   

الأصل في الأشیاء الإباحۃ۔ (قواعد الفقہ اشرفي ۵۹)

من شک في إنائہ، أوثوبہ، أوبدنہ أصابتہ نجاسۃ أو لا، فہو طاہر مالم یستیقن، وکذا الآبار، والحیاض، والحباب الموضوعۃ في الطرقات، ویستقي منہا الصغار، والکبار، والمسلمون، والکفار، وکذا ما یتخذہ أہل الشرک، أوالجہلۃ من المسلمین کالسمن، والخبز، والأطعمۃ، والثیاب۔ (شامي، کتاب الطہارۃ، قبیل مطلب في أبحاث الغسل، زکریا۱/۲۸۳-۲۸۴، کراچي ۱/۱۵۱)

إن النجاسۃ لما استحالت وتبدلت أوصافہا، ومعانیہا خرجت عن کونہا نجاسۃ؛ لأنہا اسم لذات موصوفۃ فتنعدم بانعدام الوصف وصارت کالخمر إذا تخللت۔ (بدائع الصنائع، کتاب الطہارۃ، الدباغۃ، زکریا ۱/۲۴۳، کراچي۱/۸۵)

ثم اعلم أن العلۃ عند محمدؒ ہي التغیر وانقلاب الحقیقۃ، وإنہ یفتیٰ بہ للبلویٰ کما علم مما مرَّ، ومقتضاہ عدم اختصاص ذلک الحکم بالصابون فیدخل فیہ کل ما کان فیہ تغیر وانقلاب حقیقۃ، وکان فیہ بلویٰ عامۃ۔ (شامي، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، زکریا۱/۵۱۹، کراچي۱/۳۱۶)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2762/45-4311

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ۔ محض صدقے کی نیت کرنے سے جانور متعین نہیں ہوتا جب تک خریدتے وقت صدقہ کی نیت نہ کی ہو مذکورہ صورت میں آپ جانور کو اپنے استعمال میں بھی لا سکتے ہیں کوئی حرج نہیں ہے، اگر وسعت ہو تو صدقہ کر دینا ثواب ہوگا تاہم آپ صدقہ ہی کرنا لازم نہیں ہے۔

قولہ شراہا لہا) لوجوبہا علیہ ...... فلو کانت فی ملکہ فتوی أن یضحی بہا أو اشتراہا ولم یتوا لاضحیۃ وقت الشراء ثم نوی بعد ذلک لا یجب لأن النیۃ لم تقارن الشراء فلا تعتبر، بدائع۔ (رد المحتار: ٦، ص: ٣٢١، دار الفکر بیروت)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: چھوٹی ہوئی ایک رکعت پڑھنے کے بعد بیٹھنا چاہئے، البتہ دونوں رکعتیں پڑھنے کے بعد بیٹھا، تو بھی استحسانا نماز درست ہوجائے گی۔ اس کے خلاف کوئی حدیث ملی ہو تو مع حوالہ ارسال کریں۔(۲)

(۲) ومنہا: أنہ یقضی أول صلاتہ في حق القراء ۃ، وآخرہا في حق التشہد، حتی لو أدرک رکعۃ من المغرب قضی رکعتین وفصل بقعدۃ فیکون بثلاث قعدات، وقرأ في کل فاتحۃً وسورۃً، و لو ترک القراء ۃ في إحداہما تفسد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس… في الإمامۃ، الفصل السابع في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۹، زکریا دیوبند)
قولہ: (وتشہد بینہما) قال في شرح المنیۃ: ولو لم یقعد جاز استحساناً لا قیاساً ولم یلزمہ سجود السہو لکون الرکعۃ أولیٰ من وجہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب فیما لو أتی بالرکوع والسجود أو بہما مع الإمام أو قبلہ أو بعدہ‘‘:  ج ۲، ص: ۳۴۷، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص37

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: واضح رہے کہ روشنی ہو یا اندھیرا دونوں میں نماز پڑھنا جائز ہے۔ مرد ہو یا عورت دونوں اندھیرے میں نماز پڑھ سکتے ہیں جس طرح اجالے میں نماز پڑھنا جائز ہے اسی طرح اندھیرے میں بھی نماز پڑھنا جائز ہے، ہاں اگر کسی کو اندھیرے میں وحشت ہورہی ہو یا قبلہ کا رخ یقینی طور پر معلوم نہ ہو سکے تو روشنی میں نماز پڑھنا بہتر ہے۔ بخاری شریف میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے اندھیرے میں نماز پڑھنے کے سلسلہ میں ایک روایت منقول ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لیٹی ہوئی تھی اور میرے دونوں پیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلہ کی جانب میں تھے جب آپ سجدہ کرتے تو آپ اشارہ کرتے تو میں اپنے دونوں پیروں کو سمیٹ لیتی جب آپ قیام میں جاتے تو میں پیروں کو پھیلا لیتی پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اس وقت گھروں میں چراغ نہیں ہوتے تھے۔
’’عن عائشۃ زوج النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہا قالت: کنت أنام بین یدي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم، و رجلاي في قبلتہ، فإذا سجد غمزني فقبضتُ رجليَّ، فإذا قام بسطتُھما،  قالت: والبیوت یومئذ لیس فیہا مصابیح‘‘(۱
’’أما باللیل فیصلي قائماً لأن ظلمۃ اللیل تستر عورتہ‘‘(۱)
’’وان علم بہ في صلوتہ أو تحول رایہ … ولو بمکۃ أو مسجد مظلم ولا یلزمہ قرع أبواب ومس جدران۔ وفي الشامیۃ تحتہ:  في الخلاصۃ إذا لم یکن في المسجد قوم والمسجد في مصر في لیلۃٍ مظلمۃٍ (قولہ ومس جدران) لأن الحائط لو کانت منقوشۃ لا یمکنہ تمییز المحراب من غیرہ، وعسی أن یکون ثم ھامۃ مؤذیۃً … وھذا إنما یصح في بعض المساجد فأما في الأکثر فیمکن تمییز المحراب من غیرہ في الظلمۃ بلا إیذاء‘‘(۲)
’’رجل صلی في المسجد في لیلۃ مظلمۃ بالتحري، فتبین أنہ صلی إلی غیر القبلۃ، جازت صلاتہ؛ لأنہ لیس علیہ أن یقرع أبواب الناس للسؤال عن القبلۃ‘‘(
۳)
مذکورہ عربی عبارتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اندھیرے میں نماز پڑھنا مکروہ نہیں ہے؛ بلکہ حدیث سے ثابت ہے، البتہ نمازی اگر اپنی اور دوسروں کی سہولت کے لیے تھوڑی بہت روشنی کرلے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ مناسب اور بہتر ہے تاکہ اندھیرے میں کوئی موذی جانور تکلیف نہ دے سکے یا قبلہ اندھیرے کی وجہ سے مشتبہ نہ ہو جائے۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ ، باب الصلاۃ علی الفراش‘‘: ج ۱، ص: ۵۶،رقم۳۸۲۔
(۱)الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’مطلب في النظر إلی وجہ الأمرد‘‘ ج۲، ص۸۵، زکریا دیوبند
(۲) الحصکفي،  الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب شروط الصلاۃ، مطلب مسائل التحري في القبلۃ‘‘: ج ۲، ص:۱۱۶، ۱۱۷، زکریا۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۲، زکریا دیوبند۔

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص149

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں نماز درست ہوگئی اس لیے کہ ’’من قبلہ‘‘ کواگر زائد ما ن لیا جائے تو معنی میں فساد نہیں لازم آتاہے اور دونوں صورت میں مطلب قریب قریب ہے۔ پہلی صورت میں مطلب ہے کہ رسول جو اللہ کی طرف سے نازل ہوا اس پر ایمان لائے اور مسلمان بھی ایمان لائے اور دوسری صورت میں مطلب ہوگا کہ رسول پر جو نازل ہو ا اس پر ایمان لائے اور مومنین اس پر ایمان لائے۔ معلوم ہوا کہ معنی میں تغیر فاحش نہیں ہے اس لیے نماز درست ہوگئی اعادہ کی ضرروت نہیں ہے۔
’’ومنہا: ذکر کلمۃ مکان کلمۃ علی وجہ البدل۔ إن کانت الکلمۃ التي قرأہا مکان کلمۃ یقرب معناہا وہي في القرآن لاتفسد صلاتہ، نحو: إن قرأ مکان العلیم الحکیم …، وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ: ’’وعداً علینا إنا کنا غافلین‘‘ مکان (فاعلین) ونحوہ مما لو اعتقدہ یکفر تفسد عند عامۃ مشایخنا، وہو الصحیح من مذہب أبي یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی، ہکذا في الخلاصۃ‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص269

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نفل نماز جماعت سے پڑھنا مکروہ ہے، بعض حضرات نے تداعی کے ساتھ اور بعض نے دونوں صورتوں میں مکروہ قرار دیا ہے۔ حضرت مدنیؒ کا تفرد ہے باقی علمائے دیوبند اس کے قائل نہیں ہیں، جمہور فقہا کی رائے کراہت ہی کی ہے۔(۱)

(۱) واعلم أن النفل بالجماعۃ علی سبیل التداعي مکروہ۔ (إبراہیم حلبي، حلبي کبیري، ’’تتمات من النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۲، سہیل اکیڈمی پاکستان)
ولا یصلی الوتر ولا التطوع بجماعۃ خارج رمضان أي یکرہ ذلک علی سبیل التداعي بأن یقتدي أربعۃ بواحد۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’قبیل باب إدراک الفریضۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۰)
فتاویٰ رشیدیۃ: ج ۲،ص: ۵۵؛ وامداد الفتاویٰ: ج ۱، ص: ۳۰۰؛ وکفایت المفتي: ج ۳، ص: ۳۸۶؛ وفتاویٰ محمودیہ،: ج ۹، ص: ۲۰۹۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص379

متفرقات

Ref. No. 38 / 1045

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ان کی کتاب تاریخ اسلام معتبر کتاب ہے۔ مولانا اہل حق میں سے تھے، وہ ایک کامیاب اور تحقیقی مزاج رکھنے والے ایک باکمال مصنف تھے، کسی قسم کا شبہ نہ کریں۔ ان کی کتاب کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ جہاں شبہ ہو عبارت مع حوالہ نقل کر کے مسئلہ دریافت کرلیا کریں۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند