نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسلمانوں کی تمام عبادات نماز روزہ وغیرہ کا مقصد اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے نماز جائز طریقہ پر پڑھی جائے تو رضاء الٰہی کا سبب ہے اور اگر شرعی طریقہ پر نہ پڑھی جائے تو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہے پس اصل مقصد رضاء الہٰی ہے اور شرعی مسئلہ یہ ہے کہ جہاں نماز جمعہ درست نہیں وہاں عیدین بھی درست نہیں ہے(۲) اس لئے مذکورہ جگہ میں عیدین  درست نہیں اگر سہولت ہو اورکوئی پڑھنا چاہے تو قریب کے قصبہ میں نماز پڑھ لے نہ پڑھنے والوں پر کوئی گناہ نہیں اس لئے کہ ان پر نماز واجب نہیں ہے۔(۲) (تجب صلاتہما) في الأصح (علی من تجب علیہ الجمعۃ بشرائطہا) المتقدمۃ (سوی الخطبۃ) فإنہا سنۃ بعدہا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین‘‘: ج ۳، ص: ۴۵، ۴۶)تجب صلاۃ العید علی کل من تجب علیہ صلاۃ الجمعۃ، کذا في الہدایۃ، ویشترط للعید ما یشترط للجمعۃ، إلا الخطبۃ، کذا في الخلاصۃ فإنہا سنۃ بعد الصلاۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع عشر في صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۱)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 231

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: عیدگاہ میں جگہ کم ہونے کی وجہ سے قبرستان میں بھی نمازیوں کی صفیں لگتی ہیں تو وہاں نماز عیدین پڑھنے والوں کو احتیاط رکھنی چاہئے کہ بالکل ایسی قبر کے سامنے نہ کھڑے ہوں جو واضح طور پر دکھائی دیتی ہو اور اگر شہر کی مسجدوں میں بھی نماز ہوتی ہے تو بہتر ہے کہ قبرستان میںنماز پڑھنے کے بجائے مساجد میں نماز پڑھ لی جائے، حسب ضرورت مساجد میں  عیدین کی نمازیں بالکل درست ہیں یہ کہنا غلط ہے کہ جو لوگ مساجد میں نماز عیدین ادا کرتے ہیں ان کی نماز نہیں ہوتی۔(۱)(۱) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أنہم أصابہم مطر في یوم عید فصلی بہم النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلاۃ العید في المسجد۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب یصلي بالناس في المسجد إذا کان یوم مطر‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۴، رقم: ۱۱۶۰)عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: أصاب الناس مطر في یوم عید علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فصلی بہم في المسجد۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما جاء في صلاۃ العید في المسجد إذا کان مطر‘‘: ص: ۹۳، رقم: ۱۳۱۳)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 230

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: عیدین کی نماز عیدگاہ میں ادا کرنا سنت ہے تاہم ضرورت یا عذر کی وجہ سے مدرسہ کے احاطہ ومسجد دونوں جگہ پر علیحدہ علیحدہ نمازیں درست ہیں۔(۱)(۱) لو صلی العید في الجامع ولم یتوجہ إلی المصلیٰ، فقد ترک السنۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق: ج ۲، ص: ۲۷۸)(و الخروج إلیہا) أي الجبانۃ لصلاۃ العید (سنۃ وإن وسعہم المسجد الجامع) ہو الصحیح۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین‘‘: ج ۳، ص: ۴۹)الخروج إلی الجبانۃ في صلاۃ العید سنۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب السابع عشر في صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۱)عن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یخرج یوم الفطر والأضحیٰ إلی المصلیٰ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب العیدین: باب الخروج إلی المصلیٰ بغیر منبر‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۱، رقم: ۹۵۶)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 229

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز عیدین جامع مسجد میں ادا کرنا بھی درست ہے، لیکن مسنون و افضل صحرا میں ادا کرنا ہے اگر عیدگاہ میں واقعی امام بدعتی ہے تو دوسری جگہ جنگل میں نماز ادا کرلیں ورنہ تو جامع مسجد میں ہی ادا کریں۔’’(ثم خروجہ) (… ما شیاً إلیٰ الجبانۃ) وہي المصلیٰ العام … (والخروج إلیہا) أي الجبانۃ لصلاۃ العید (سنۃ وإن وسعہم المسجد الجامع) ہو الصحیح، وفي الشامیۃ، وفي الخلاصۃ والخانیۃ السنۃ أن یخرج الإمام إلی الجبانۃ، ویستخلف غیرہ لیصلي في المصر بالضعفاء بناء علیٰ أن صلاۃ العیدین في موضعین جائزۃ بالإتفاق‘‘(۱)(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین‘‘: ج ۳، ص: ۴۸، ۴۹۔وقال البدر العیني یجوز الإقتداء بالمخالف وکل بر وفاجر ما لم یکن مبتدعاً بدعۃ بکفر بہا، و ما لم یتحقق من إمامہ مفسداً لصلاتہ في اعتقادہ، وإذا لم یجد غیر المخالف فلا کراہۃ في الاقتداء بہ، والاقتداء بہ أولیٰ من الإفراد علی أن الکراہۃ لا تنافي الثواب۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، فصل: في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۴)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 228

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱) عیدالفطر یا عید الاضحی کی نماز عید گاہ کے علاوہ دوسری جگہ ہوسکتی ہے اور آپ B کے زمانہ میں بھی عید الفطر وعید الاضحی کی نماز عید گاہ کے علاوہ میں ہوتی تھی۔(۲) عید گاہ سے پہلے دوسری مساجد میں عید کی نماز بلا کراہت درست ہے۔ مسنون عید گاہ وہ ہے جو شہراور آبادی سے باہر ہو اگر عیدگاہ آبادی میں آگئی، تو وہ مسنون عیدگاہ سے خارج ہوگئی اس میں نماز پڑھنا اور دیگر مساجد میں نماز پڑھنا برابر ہے(۱) اگر عیدگاہ سے قبل عید کی نماز ادا کرلی، تو اس جگہ کے لوگوں کے لیے قربانی کرنا درست ہے۔(۳) جی وہ شخص قربانی کرسکتا ہے۔’’عن أبي اسحاق أن علیا أمر رجلا فصلی بضعفۃ الناس یوم العید في المسجد رکعتین‘‘(۲)’’قال الشیخ ظفر أحمد العثماني: وإن نظرنا إلی أنہ لم یثبت مانع صریح من التعدد فالأظہر الجواز مطلقا و العید فیہ سواء إلا أنہ یستحب أن لا تؤدي بغیر حاجۃ إلا في موضع واحد خروجا من الخلاف‘‘(۳)’’وتجوز إقامۃ صلاۃ العید في موضعین، و أما إقامتہا في ثلاثۃ مواضع فعند محمد رحمہ اللّٰہ تعالیٰ تجوز‘‘(۴)(۱) مولانا أشرف علي تھانوي، امداد الفتاویٰ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجمعہ والعیدین‘‘دار الکتاب، دیوبند: ج ۱، ص: ۶۴۳۔(۲) علی متقی، کنزالعمال:دار الکتب العلمیۃ، بیروت ،ج ۳،ص: ۳۳۷۔(۳) ظفر أحمد عثماني، إعلاء السنن: مکتبہ فیصل، دیوبند، ج ۷، ص: ۷۳۔(۴) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع عشر في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۱۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 226

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: قیدیوں پر جمعہ وعیدین واجب نہیں ہیں؛ لیکن اگر وہ جیل شہر یا فناء شہر میں واقع ہے اور اس جیل میں موجود تمام مسلمانوں کو خواہ قیدی ہوں تو قیدیوں کے لیے جیل میں جمعہ وعیدین کی نماز باجماعت پڑھنا جائز ہوگا انتظامی مصلحت کی وجہ سے باہر کے لوگوں کا  داخلہ ممنوع ہونا مانع نہ ہوگا۔’’وشرط لافتراضہا إقامۃ بمصر … وصحۃ … وحریۃ … وذکرۃ … وعدم حبس‘‘(۱)’’وقال أیضاً قدر تہ علی المشي وعدم حبس وعدم خوف‘‘(۲)(۱) الحصکفی، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۲۶ تا ۲۹۔(۲) اأیضاً: ج ۳، ص: ۲۹۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 225

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر واقعی طور پر وہاں نمازعید ادا کرنے کی جگہ ہے، تو وہاں پر نماز عید ادا کرنا درست ہے، بشرطیکہ وہاں پر گاؤں میں نماز جمعہ اور عیدین کی شرطیں پائی جاتی ہوں یعنی وہ گاؤں شرعاً بڑا گاؤں شمار ہوتا ہو۔(۱)(۱) (ویشترط لصحتہا) سبعۃ أشیاء: الأول: (المصر وہو ما لا یسع أکبر مساجدہ أہلہ المکلفین بہا) وعلیہ فتویٰ أکثر الفقہاء مجتبی لظہور التواني في الأحکام، وظاہر المذہب أنہ کل موضع لہ أمیر وقاض یقدر علی إقامۃ الحدود کما حررناہ فیما علقناہ علی الملتقی۔ وفي القہستاني: إذن الحاکم ببناء الجامع في الرستاق إذن بالجمعۃ اتفاقاً علی ماقالہ السرخسي وإذا اتصل بہ الحکم۔ صار مجمعا علیہ فلیحفظ۔قولہ: (ویشترط الخ)، قال في النہر: ولہا شرائط وجوبا وأداء منہا: ما ہو في المصلیٰ۔ ومنہا ماہو في غیرہ والفرق أن الأداء، لا یصح بانتفاء شروطہ، ویصح بانتفاء شروط الوجوب ونظمہا بعضہم فقال: وحر صحیح بالبلوغ مذکر … مقیم وذو عقل لشرط وجوبہا، ومصر وسلطان ووقت وخطبۃ … وإذن کذا جمع لشرط أدائہا۔ (الحصکفی، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۵ تا ۷)شرط أدائہا المصر وہو کل موضع لہ أمیر وقاض ینفذ الأحکام ویقیم الحدود أو … مصلاہ، قولہ: (أو مصلاہ) أي مصلي المصر؛ لأنہ من توابعہ، فکان في حکمہ، والحکم غیر مقصور علی المصلي بل یجوز في جمیع أفنیۃ المصر؛ لأنہا بمنزلۃ المصر في حوائج أہلہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۵ تا ۲۴۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 224

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: عیدین میں امت مسلمہ کے تہوار اور دینی جشن ہونے کا تقاضا اور اس کی شان یہ ہی ہے کہ نماز کا اجتماع کسی کھلے میدان میں ہو اس لیے عام معمول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ہی تھا کہ نمازِ عید عیدگاہ میں ہی ہوتی تھی؛ تاہم اگر بارش وغیرہ کوئی عذر ہو، تو مسجد میں ادا کرنا جائز اور درست ہوگا، جیسے حالات ہوں اور ضرورت ہو اس کے مطابق گنجائش اور درست ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کی وجہ سے مسجد میں عید کی نماز پڑھائی ہے۔(۱)

(۱) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أنہ أصابہ مطر في یوم عید فصلی بہم النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلاۃ العید في المسجد۔ (أخرجہ أبو داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب یصلي بالناس في المسجد إذا کان یوم مطر‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۴، رقم: ۱۱۶۰)عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: أصاب الناس مطر في یوم عید علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فصلی بہم في المسجد۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما جاء في صلاۃ العید في المسجد إذا کان مطر‘‘: ج ۱، ص: ۹۳، رقم: ۱۳۱۳)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 223

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: عذر اور مجبوری کی وجہ سے ایسا کرنا جائز ہے۔(۱)(۱) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أنہ أصابہم مطر في یوم عید فصلی بہم النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلاۃ العید في المسجد۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب یصلي بالناس في المسجد إذا کان یوم مطر‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۴، رقم: ۱۱۶۰)عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: أصاب الناس مطر في یوم عید علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فصلی بہم في المسجد۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما جاء في صلاۃ العید في المسجد إذا کان مطر‘‘، دار الاشاعت، دیوبند: ج ۱، ص: ۹۳، رقم: ۱۳۱۳)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 223

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 3320/46-9134

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس کو اپنے بالغ ہونے کی عمر یاد   نہ ہو اس کو 15 سال کی عمر سے بالغ سمجھاجائے گا۔ اس لئے اسلامی کیلنڈر کے حساب سے 15 سال کی عمر سے جو نمازیں چھوٹ گئی ہیں ان کی قضا لازم ہے۔ اگر نمازیں کبھی پڑھ لیتا ہو اور کبھی چھوڑ دیتاہو تو اس کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ ان نمازوں کی قضا کرتارہے تاآنکہ یقین ہوجائے کہ فوت شدہ تمام نمازیں ادا ہوگئی ہیں۔ اور تاریخ بتاریخ تمام نمازوں کی قضا کرلے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ گزشتہ ایام کی قضا نمازیں محض توبہ کرنے  یا نماز کا  پابندہونے سے ذمہ سے ساقط نہیں ہوں گی، ان کو ادا کرنا لازم ہے۔ اور جو اب تک کوتاہی ہوئی اس پر توبہ واستغفار کرنا بھی لازم ہے۔ اور نماز وں کا حساب کرنے میں اسلامی کیلنڈر کو معیار بنایاجائے ۔

"كثرت الفوائت نوى أول ظهر عليه أو آخره.۔ ۔ ۔ (قوله: كثرت الفوائت إلخ) مثاله: لو فاته صلاة الخميس والجمعة والسبت فإذا قضاها لا بد من التعيين؛ لأن فجر الخميس مثلاً غير فجر الجمعة، فإن أراد تسهيل الأمر، يقول: أول فجر مثلاً، فإنه إذا صلاه يصير ما يليه أولاً، أو يقول: آخر فجر، فإن ما قبله يصير آخراً، ولايضره عكس الترتيب؛ لسقوطه بكثرة الفوائت". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 76)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند