اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس سلسلے میں مفتی کفایت اللہ صاحب کی تحریر بہت کافی وشافی ہے، وہ لکھتے ہیں:

چندن کا قشقہ لگانا اگر چہ ہندؤں کا قومی اور مذہبی شعار ہے لیکن اس میں شبہ ضرور ہے کہ آیا یہ فعل ان کا ایسا مذہبی شعار ہے جو مستلزم کفر ہو یا نہیں جولوگ اسے شعار کفر قرار دیں وہ ان لوگوں کی تکفیر کریں گے، لیکن مجھے تامل ہے میرے خیال میں یہ شعار کفر نہیں اگر چہ کافروں کا شعار ہے، اس کی مثال ڈاڑھی منڈانا،الٹی طرف گریبان بنانا ہے یاانگریزی ٹوپی پہن لیناہے کہ یہ قوم کفار کے قومی شعار ہیں، لیکن شعار کفر نہیں ہے، اسی طرح چندن کو بھی خیال کرتا ہوں ورنہ کم از کم اس میں شبہ ضرور ہے اور شبہ کی حالت میں تکفیر کی جرأت نہیں کرسکتا۔ (۱)

ماتھے پر چندن کا قشقہ لگانا غیر مسلموں کی تہذیب ہے اور یہ ان کا قومی شعار ہے، اس لئے مسلمانوں کے لئے چندن کا قشقہ لگانا درست نہیں ہے، حدیث میں غیر کی مشابہت اختیار کرنے اور غیرکی جماعت کو بڑھانے سے منع کیا گیا ہے ’’من تشبہ بقوم فہو منہم‘‘(۲) اس لئے اس عمل کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے، مسلمانوں کو غیر مسلموں کے ساتھ اتحاد ویگانکت پیدا کرنے کی اجازت ہے، لیکن ایسا اتحاد کہ اسلام مغلوب ومظلوم ہوجائے اور اسلامی تہذیب کی خلاف ورزی کرکے غیروں کے قومی شعار کو اپنایا جائے درست نہیں ہے۔

البتہ اگر کوئی شخص ماتھے پر چندن کا قشقہ لگائے تو اس کی تکفیر کی جائے گی یا نہیں؟ اس سلسلے میں مفتی صاحب کا بیان بہت واضح ہے، میرے خیال سے اگر وہ بغیر دباؤ کے لگانے کو غلط سمجھے، لیکن اپنی سیاسی مجبوری سمجھ کر لگالے تو اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی، لیکن اگر اسے اپنی رضا اور خوشی سے لگائے اور بجائے اپنے عمل پر نادم ہونے کے اس پر خوش ہو اور اس کے جواز کے حیلے بیان کررہا ہو تو ایسے شخص کو اپنے ایمان کی خیر منانی ہوگی، اس لئے کہ رضا بالکفر بھی کفر ہے اورمعصیت کو حلال سمجھنا بھی کفر ہے۔(۱)

 

(۱) مفتی کفایت اللّٰہ، کفایت المفتي: ج ۱۳، ص: ۱۸۰)

(۲) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الباس: باب في لبس الشھرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱۔

(۱) من اعتقد الحرام حلالاً أو علی القلب یکفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالحلال والحرام‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۴)

(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 173)

 

 

 

اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق: آدمی کے مرنے کے بعددو فرشتے اس کی قبر میں آتے ہیں اور چند سوالات کرتے ہیں یہ منکر نکیر ہیں، ان کو منکر نکیر اس لئے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ہنسنے، مسکرانے سے اور انسانوں پر ترس کھانے سے انکار کر دیا ہے ۔حدیث میں کہ جب کسی بندۂ مؤمن کاانتقال ہوتا ہے اور اس کے رشتہ دار اس کو قبر میں دفن کرکے چلے جاتے ہیں، تو اس کے پاس دو سیاہ نیلی فام فرشتے آتے ہیں، ان میں سے ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہا جاتا ہے اور اس سے سوال کرتے ہیں کہ تم اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو بندہ مومن کہے گا کہ یہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ منکرنکیراس کی تصدیق کریں گے تم نے صحیح جواب دیا پھر اس کی قبر ہر طرف سے ستر ہاتھ کشادہ کر دی جاتی ہے اور قیامت تک کے لئے ہر طرح کی راحتوں اور روشنیوں سے قبر کو بھر دیا جاتاہے وہ شخص کہتا ہے مجھے اپنے رشتہ داروں میں جانے دو تاکہ میں اپنی سر گزشت سنا سکوں تو وہ فرشتے کہتے ہیں اس طرح سو جا جس طرح ایک دلہن سو جاتی ہے اس کو اس کے محبوب شوہر کے علاوہ کوئی بیدار نہیں کرتا ہے اسی طرح تمہیں بھی کوئی بیدار نہیں کرے گا اور اگر کافریا منافق بندہ ہوتا ہے تو ہر سوال کے جواب میں ہائے ہائے کرتا ہے اور کہتا ہے میں تو اس طرح زندگی گزاررہا تھا جس طرح میں نے لوگوں کو زندگی گزارتے دیکھا مجھے کچھ بھی نہیں معلوم پس قبر اس کے لئے اتنی تنگ ہوجائے گی کہ ایک پسلی دوسری پسلی میں گھس جائے گی۔ ’’والمنکر مفعول من أنکر بمعنی نکر إذا لم یعرف أحدا ، النکیرفعیل بمعنی مفعول من نکر بالکسر إذا لم یعرفہ أحد کلاہما ضد المعروف، سمیا بہما لأن المیت لم یعرفہماو لم یر صورۃ مثل صورتہما‘‘(۱) (۱) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان، باب إثبات عذاب القبر، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۳۲۰، رقم: ۱۳۰۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص270

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایک طرف قرآن کریم کا عربی متن ہو اور دوسری طرف دوسری زبان میں قرآن کریم لکھا جائے تاکہ جو لوگ عربی زبان میں قرآن نہیں پڑھ سکتے ہیں وہ دوسری زبان میں قرآن پڑھ لیں یہ مسئلہ اہل علم کے درمیان مختلف فیہ ہے، بعض حضرات اسے ناجائز کہتے ہیں؛ اس لیے کہ قرآن کریم کو رسم عثمانی کے علاوہ میں لکھنا درست نہیں ہے، جب کہ بعض حضرات نے ضرورت اور تبلیغ دین کی اشاعت کے پیش نظر اس کی گنجائش دی ہے۔ فقہ اکیڈمی انڈیا نے چند شرائط کے ساتھ اس کی گنجائش دی ہے۔ فقہ اکیڈمی کی تجویز کے الفاظ ہیں: اصل تو یہ ہے کہ صرف عربی رسم الخط میں قرآن کریم کی اشاعت کی جائے؛ لیکن ضرورتاً عربی متن کے ساتھ درج ذیل شرائط کے ساتھ اشاعت کی گنجائش ہے۔

(الف) قرآن کریم کی ترتیب نہ بدلے۔ (ب) مخارج کا حتی الامکان لحاظ کیا ہے۔ (ج) عثمانی رسم الخط کی تمام خصوصیات کے لیے جامع مانع اصطلاحات وضع کر کے اس زبان کے رسم الخط کو مکمل کرنے کی پوری کوشش کی جائے۔(۱)
’’سئل الإمام الشہاب الرملي ہل تحرم کتابۃ القرآن العزیز بالقلم الہندي أو غیرہ فأجاب بأنہ لا یحرم لأنہ دلالۃ علی لفظہ العزیز ولیس فیہا تغییر لہ وعبارۃ الاتقان للسیوطي ہل یحرم کتابتہ بقلم غیر العربي، قال الزرکشي لم أرفیہ کلاما لأحد من العلماء ویحتمل الجواز لأنہ قد یحسنہ من یقرأہ والأقرب المنع والمعتمد الأول‘‘۔(۲) وافتی شیخنا الرملي بجواز کتابۃ القرآن بالقلم الہندي وقیاسہ جوازہ بنحوالترکي أیضا:(۳)

(۱) نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی کے فیصلے: ص: ۱۴۶
(۲) حاشیۃ الجمل علی شرح المنہج للجمل: ج ۱، ص: ۱۲۳۔
(۳) حاشیۃ الحیرمي: ج ۱، ص: ۳۷۴۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص61

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ان الفاظ کے ساتھ حدیث نہیں ملی۔ تاہم مضمون کے اعتبار سے یہ درست ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو نصف حسن دیاگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کامل حسن دیا گیا۔ مختلف روایتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل الحسن ہونا ذکر کیاگیا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہرنبی کو خوبصورت پیداکیا اور تمہارے نبی سب سے زیادہ خوبصورت تھے۔(۲)
’’قال ابن القیم في بدائع الفوائد: قول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن یوسف ’’أوتی شطر الحسن‘‘ قالت طائفۃ المراد منہ أن یوسف أوتی شطر الحسن الذي أوتیہ محمد فالنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم بلغ الغایۃ في الحسن ویوسف بلغ شطر تلک الغایۃ قالوا: ویحقق ذلک ما رواہ الترمذي من حدیث قتادۃ عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال: ’’ما بعث اللّٰہ نبیا إلا حسن الوجہ حسن الصوت وکان نبیکم أحسنہم وجہا وأحسنہم صوتا‘‘(۱) (قد أعطي شطر الحسن)، قال المظہر: أي: نصف الحسن۔ أقول: وہو محتمل أن یکون المعنی نصف جنس الحسن مطلقا، أو نصف حسن جمیع أہل زمانہ۔ وقیل بعضہ لأن الشطر کما یراد بہ نصف الشيء قد یراد بہ بعضہ مطلقا۔ أقول: لکنہ لا یلائمہ مقام المدح وإن اقتصر علیہ بعض الشراح، أللہم إلا أن یراد بہ بعض زائد علی حسن غیرہ، وہو إما مطلق فیحمل علی زیادۃ الحسن الصوري دون الملاحۃ المعنویۃ لئلا یشکل نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم وإما مقید بنسبۃ أہل زمانہ وہو الأظہر / وقد قال بعض الحفاظ من المتأخرین، وہو من مشایخنا المعتبرین: أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان أحسن من یوسف علیہ السلام إذ لم ینقل أن صورتہ کان یقع من ضوئہا علی جدران ما یصیر کالمرآۃ یحکی ما یقابلہ، وقد حکي عن صورۃ نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم؛ لکن اللّٰہ تعالی ستر عن أصحابہ کثیرا من ذلک الجمال الباہر، فإنہ لو برز لہم لم یطیقوا النظر إلیہ کما قالہ بعض المحققین: وأما جمال یوسف علیہ السلام فلم یستر منہ شيء اہـ‘‘(۲)

(۲)وفي حدیث أنس رضي اللّٰہ عنہ …… وقال في السماء الثالثۃ فإذا أنا بیوسف إذا ہو قد أعطي شطر الحسن فرحب بي ودعا لي بخیر الخ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الفتن: باب في المعراج‘‘: ج ۲، ص: ۵۲۸، رقم: ۵۸۶۳)

(۱) ابن القیم، بدائع الفوائد: ج ۳، ص: ۲۰۶۔
(۲) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الفتن: باب في المعراج‘‘: ج ۱۱، ص: ۱۴۹، رقم: ۵۸۶۳۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص105



 

حج و عمرہ

Ref. No. 2664/45-4191

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  باضابطہ لوگوں کو دعوت دے کر دعا کے لئے جمع کرنا   مناسب نہیں ہے البتہ  اگر کچھ لوگ جمع ہوگئے اور دعا کرلی گئی جس میں ایک اجتماعی شکل بن گئی  تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔البتہ عمرہ یا حج پر جانے والے سے دعا کے لئے کہنا ثابت ہے۔   عمرہ کے لئے جانے سے پہلے انفرادی طور پر  توبہ و استغفار کرناچاہئے اور کسی کے ساتھ بدسلوکی یا کسی کی حق تلفی ہوئی ہو تو اس کی معافی تلافی کی کوشش کرنی چاہئے۔ اجتماعی دعا کو ضروری سمجھنا یا اس کو عمرہ کی قبولیت کا ضامن سمجھنا نادانی اور کم عقلی ہے۔  

عن العرباض بن ساریۃ رضي اللّٰہ عنہ قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذات یوم في خطبتہ…: إیاکم ومحدثات الأمور، فإن کل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (سنن أبي داؤد، رقم : ٤٦٠٧)

عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ۔ (صحیح مسلم، رقم : ١٧١٨)فقط

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:صورت مسئولہ میں اگر پانی کا رنگ، بو، اور مزہ پورے طور پر تبدیل نہ ہوا ہو، تو اس سے وضو وغسل دونوں جائز ہیں۔(۱)

(۱)ولا بماء قلیل وقع فیہ نجس مالم یکن غدیراً أو لم یکن عشراً في عشر۔ (عبدالرحمٰن بن محمد، مجمع الأنہر في شرح ملتقی الأبحر، فصل الطہارۃ بالماء المطلق، ج۱،ص:۴۶-۴۷)؛ و قال في شرحہ ’’مجمع الانہر‘‘ والمعنی لا تجوز الطھارۃ بماء قلیل وقع فیہ نجس مالم یکن غدیراً، أو لم یکن عشراً في عشر۔ (ابراہیم بن محمد الحلبی، مجمع الأنہر، ج ۱، ص:۴۷)؛ والغدیر العظیم الذي لا یتحرک أحد طرفیہ بتحریک الطرف الآخر إذا وقعت نجاسۃ في أحد جانبیہ، جاز الوضوء من الجانب الآخر… و بعضھم قدروا بالمساحۃ عشرا في عشر بذراع الکرباس توسعۃ للأمر علی الناس، و علیہ الفتویٰ۔ (المرغینانی، الہدایہ کتاب الطہارۃ، باب الماء الذي یجوز بہ الوضوء ومالا یجوز بہ، ج ۱،ص:۳۶-۳۷)؛ و الماء الراکد إذا کان کثیراً، فھو بمنزلۃ الجاري، لا یتنجس جمیعہ بوقوع النجاسۃ في طرف منہ، إلا أن یتغیر لونہ أو طمعہ أو ریحہ… قال ابوسلیمان الجوزجاني: إن کان عشراً في عشر، فھو مما لا یخلص۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث: في المیاہ، النوع الثانیي: الماء الراکد، ج ۱، ص:۷۰)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص458

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:افیون، بھنگ، چرس، تمباکو وغیرہ ناپاک نہیں ہیں؛(۲) اس لیے اس پانی سے وضو و غسل وغیرہ درست ہے۔(۳)

(۲)و کذا یجوز بماء خالطہ طاھر جامد مطلقاً کأشنان و زعفران و فاکھۃ و ورق شجر۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب في أن التوضي من الحوض أفضل، ج۱،ص:۳۳۴)، و تجوز الطھارۃ بماء خالطہ شیء طاھر، فغیر أحد أو صافہ کماء المد، والماء الذی یختلط بہ الأشنان أو الصابون أو الزعفران بشرط أن تکون الغلبۃ للماء من حیث الأجزاء۔ (ابراہیم الحبلي، غنیۃ المستملي في شرح منیۃ المصلي، ’’فصل في بیان أحکام المیاہ‘‘، ص:۷۸)(دارالکتاب دیوبند)
(۳)و تجوز الطھارۃ بالماء المطلق کماء السماء … و إن غیر طاھر بعض أو صافہ کالتراب والزعفران والأشنان والصابون (إبراہیم بن محمد،ملتقی الأبحر، ’’کتاب الطہارۃ، فصل تجوز الطہارۃ‘‘ج۱، ص:۲۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص127

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس سلسلے میں پہلے تو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ عمل ناجائز اور حرام ہے، شریعت نے جنسی تسکین کے لیے دو راستے مقرر کئے ہیں ایک نکاح کا اور دوسرا باندی سے جماع کا۔ اس وقت جنسی تسکین کی ایک ہی صورت جائز ہے کہ نکاح کے ذریعہ جنسی ضرورت پوری کی جائے اور اگر نکاح ممکن نہ ہوتو روزہ کے ذریعہ اپنی جنسی ضرورت کو کم کیا جائے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے {إلا علی أزواجہم أو ماملکت أیمانہم فإنہم غیر ملومین فمن ابتغی وراء ذلک فأولئک ہم العادون‘‘ (۱)
اگر کوئی اس طرح مصنوعی کھلونے سے جنسی ضرورت پوری کرتا ہے اور اس کو انزال ہوجائے تو غسل واجب ہوگا۔ (۲)
نیز  مصنوعی کھلونے سے جنسی عمل کیا اس طورپر کہ مرد نے اپنا حشفہ مصنوعی فرج میں داخل کیا اور انزال نہیں ہوا، تو اس پر غسل واجب نہیں ہوگا اوراگر عورت نے مصنوعی کھلو نے کے حشفہ کو قضاء شہوت کے لیے اپنی شرم گاہ میں داخل کیا اور اس سے اس کو تسکین ملی تو اگر چہ انزال نہیں ہوا، اس پر غسل واجب ہوجائے گا۔ (و) لا عند (إدخال إصبع ونحوہ) کذکر غیر آدمي وذکر خنثی ومیت وصبي لایشتہی وما یصنع من نحو خشب (في الدبر أو القبل) علی المختار ... (بلا إنزال) لقصورالشہوۃ أما بہ فیحال علیہ ۔۔۔۔ في ردالمحتار: قال
في التجنیس: رجل أدخل إصبعہ في دبرہ وہو صائم اختلف في وجوب الغسل والقضاء. والمختار أنہ لا یجب الغسل ولا القضاء؛ لأن الإصبع لیس آلۃ للجماع فصار بمنزلۃ الخشبۃ، ذکرہ في الصوم، وقید بالدبر؛ لأن المختار وجوب الغسل في القبل إذا قصدت الاستمتاع؛ لأن الشہوۃ فیہن غالبۃ فیقام السبب مقام المسبب دون الدبر لعدمہا۔ نوح أفندی‘‘’’وکذا الاستمناء بالکف
وإن کرہ تحریما لحدیث ناکح الید ملعون، ولو خاف الزنی یرجی أن لا وبال علیہ ... بقي ہنا شيء وہو أن علۃ الإثم ہل ہي کون ذلک استمتاعا بالجزء کما یفیدہ الحدیث، وتقییدہم کونہ بالکف ویلحق بہ ما لو أدخل ذکرہ بین فخذیہ مثلا حتی أمنی، أم ہي سفح الماء وتہییج الشہوۃ في غیر محلہا بغیر عذر کما یفیدہ قولہ و أما إذا فعلہ لاستجلاب الشہوۃ إلخ؟ لم أرمن صرح بشيء من ذلک والظاہر الأخیر؛ لأن فعلہ بید زوجتہ ونحوہا فیہ سفح الماء لکن بالاستمتاع بجزء مباح کما لو أنزل بتفخیذ أو تبطین بخلاف ما إذا کان بکفہ ونحوہ، وعلی ہذا فلو أدخل ذکرہ في حائط أو نحوہ حتی أمنی أو استمنی بکفہ بحائل یمنع الحرارۃ یأثم أیضا، ویدل أیضا علی ما قلنا ما في الزیلعي حیث استدل علی عدم حلہ بالکف بقولہ تعالی ’’والذین ہم لفروجہم حافظون‘‘ (۱) الآیۃ وقال فلم یبح الاستمتاع إلا بہما أي بالزوجۃ والأمۃ اہ فأفاد عدم حل الاستمتاع أي قضاء الشہوۃ بغیرہما ہذا ما ظہر لي واللہ سبحانہ أعلم‘‘ (۲)
 

(۱)المؤمنون، آیت: ۶
(۲) ابن عابدین، ردالمحتار ’’مطلب رطوبۃ الفرج‘‘ ج۱۰،ص:۳۰۴-۳۰۶
(۱)المؤمنون: ۵(۲) ابن عابدین، رد المحتار’’باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ، مطلب في حکم الاستمناء بالکف‘‘ج۳، ص: ۳۷۱

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص314

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: تجوید کے خلاف قرآن کریم پڑھنے یا انتظامی مصلحت کی بنا پر اہل محلہ کے مشورہ پر متولی نے جب امامت سے سبکدوش کر دیا، تو مذکورہ شخص کا زبردستی امامت کرنا، آپسی انتشار پھیلانا شرعاً درست نہیں ہے؛ اس لیے متولی کو صحیح قرآن پڑھنے والے شخص کو امام مقرر کرنا چاہئے اور مذکورہ شخص کی قرأت اگر مفسد نماز نہیں ہے، تو اس کے پیچھے اداء کی گئیں نمازیں درست ہیں۔(۱)

(۱) والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدً للقراء ۃ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن خلقاً ثم الأحسن وجہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
الأولیٰ بالإمامۃ أعلمہم بأحکام الصلاۃ ہکذا في المضمرات وہو الظاہر ہکذا في البحرالرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)
قال في الخانیہ والخلاصۃ الأصل فیما إذا ذکر حرفا مکان حرف وغیرالمعنی إن أمکن الفصل بینہما بلا مشقۃ تفسد وإلا یمکن إلا بمشقۃ کالظاء مع الضاد المعجمتین والصاد مع السین المہملتین والطاء مع التاء قال أکثرہم لاتفسد وفي خزانۃ الأکمل قال القاضي أبوعاصم: إن تعمد ذلک تفسد وإن جری علی لسانہ أولا یعرف التمییز لاتفسد وہو المختار۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ،  باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا‘‘: ج۲، ص: ۳۹۶)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص214

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: امامت کے لیے جھگڑا نہیں کرنا چاہئے اکابر ملت اور سلف صالحین کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے امام بننے سے گریز کیا اور اپنے بجائے ایسے لوگوں کو امامت کے لیے بڑھا دیا کہ جو بزرگی اور تقوے میں ان کے برابر نہیں تھے۔(۲)

(۲) فإن تساووا فأورعہم، لقولہ علیہ السلام: من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۵۸، زکریا دیوبند)
الأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ، فقط صحۃ وفساداً بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ وحفظہ قدر فرض وقیل واجب وقیل سنۃ۔ (ابن عابدین، الرد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴، زکریا دیوبند)
{یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِط قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰہِ وَالرَّسُوْلِج فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِکُمْص وَاَطِیْعُوااللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗٓ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَہ۱ } (سورۃ الأنفال: ۱)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص298