Frequently Asked Questions
متفرقات
Ref. No. 41/926
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پگڑی کا شملہ لٹکانا اور نہ لٹکانا دونوں درست ہیں۔ نیز شملہ آگے لٹکانا اور پیچھے لٹکانا بھی ثابت ہے۔ آپ ﷺ شملہ پیچھے دونوں شانوں کے درمیان چھوڑتے تھے۔ (شعب الایمان للبیہقی)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 1016/41-170
In the name of Allah the most Gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
Yes, it is true. There is no Dam, Qaza or Kaffarah if a woman leaves out Tawafe Widaa due to the impurity of Haiz or Nifas.
قال في الفتح عن البدائع: وهذا حكم ترك الواجب في هذا الباب اهـ أي أنه إن تركه بلا عذر لزمه دم، وإن بعذر فلا شيء عليه مطلقاً( شامی 2/553 باب الجنایۃ فی الحج)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
بدعات و منکرات
Ref. No. 1062/41-231
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ قرآنی آیات و احادیث میں مذکور ادعیہ ماثورہ کے ذریعہ علاج بلاشبہ درست وجائز ہے۔ البتہ کالی مرغی کو کاٹ کر قبرستان میں دفن کرنا یا اس طرح کا کوئی اور عمل جائز نہیں ہے۔اس طرح علاج کرنے اور کرانے والے پر توبہ واستغفار لازم ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:لغت میں کسی چیز کی دل سے تصدیق کرنے کا نام ایمان ہے اور اسلام اطاعت وفرمانبرداری کا نام ہے، ایمان کا محل قلب ہے اور اسلام کا محل قلب اور سب اعضاء و جوارح لیکن شرعا ایمان بغیر اسلام کے اور اسلام بغیر ایمان کے معتبر نہیں یعنی اللہ اور اس کے رسول کی محض دل میں تصدیق کرلینا شرعا اس وقت تک معتبر نہیں جب تک زبان سے اس تصدیق کا اظہار اور اطاعت وفرماں برداری نہ کرے، اسی طرح زبان سے تصدیق کا اظہار یا فرماں برداری کا اقرار اس وقت تک معتبر نہیں جب تک دل میں اللہ اور اس کے رسول کی تصدیق نہ ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ لغت کے اعتبار سے ایمان اور اسلام الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں اور قرآن و حدیث میں اسی لغوی مفہوم کی بناء پر ایمان اور اسلام میں فرق کا ذکر بھی ہے، مگر شرعا ایمان بدون اسلام کے اور اسلام بدون ایمان کے معتبر نہیں (خلاصہ معارف القرآن) عرب کے محقق عالم دین شیخ عثیمن نے لکھتے ہیں کہ جب ایمان اور اسلام کا لفظ اکٹھے ہوں تو پھر اسلام سے ظاہر ی اعمال مراد لیے جاتے ہیں، جس میں زبان سے ادا ہونے والے کلمات اور اعضاء سے ہونے والے اعمال شامل ہیں اور یہ کلمات اور اعمال کامل ایمان والامومن یا کمزور ایمان والامومن بھی کر سکتا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے {قَالَتِ الْأَعْرَابُ أٰمَنَّاط قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْٓا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْإِیْمَانُ فِيْ قُلُوْبِکُمْط}(۱) اسی طرح منافق شخص کو ظاہر ی طور پر تو مسلمان کہا جاتا ہے، لیکن وہ باطنی طور پر کافر ہے اور ایمان سے مراد باطنی یا قلبی امور لیے جاتے ہیں اوریہ کام صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو حقیقی مومن ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ إِذَاذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ أٰیٰتُہٗ زَادَتْہُمْ إِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ ہجصلے ۲ الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ ہط ۳ أُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاط}(۲) اس اعتبار سے ایمان کا درجہ اعلی ہوگا لہٰذا ہر مومن مسلمان ہے، لیکن ہر مسلمان مومن نہیں ہے بہر حال اس طرح کی مختلف تعبیریں حضرات علماء سے منقول ہیں، لیکن اتنی بات طے ہے کہ ایمان کے لیے اسلام ضروری ہے اور اسلام کے لیے ایمان ضروری ہے، انسان کو اپنے ظاہر ی اعمال کے ساتھ باطنی اعمال اور قلبی یقین کو بھی مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔(۳)
(۱) سورۃ الحجرات: ۱۴۔
وذہب جمہور المحققین إلی أن الإیمان ہو التصدیق بالقلب، وإنما الإقرار شرط لإجراء الأحکام في الدنیا۔ (أبو حنیفہ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ’’بحث في أن الإیمان ہو التصدیق والإقرار‘‘: ص: ۱۴۳)
والإسلام ہو التسلیم والإنقیاد لأوامر اللّٰہ تعالیٰ فمن طریق اللغۃ فرق بین الإسلام والإیمان ولکن لا یکون إیمان بلا إسلام ولا یوجد إسلام بلا إیمان وہما کا لظہر مع البطن والدین اسم واقع علی الإیمان والإسلام والشرائع کلہا۔ (’’أیضاً‘‘: بحث في بیان معنی الإسلام ونسبتہ إلی الإیمان‘‘: ص: ۱۴۹)
حج و عمرہ
Ref. No. 1888/43-1758
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قانونی پابندیوں کا خیال رکھنا چاہئے، تاہم مذکورہ صورت میں طواف درست ہوجائے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس سلسلے میں مفتی کفایت اللہ صاحب کی تحریر بہت کافی وشافی ہے، وہ لکھتے ہیں:
چندن کا قشقہ لگانا اگر چہ ہندؤں کا قومی اور مذہبی شعار ہے لیکن اس میں شبہ ضرور ہے کہ آیا یہ فعل ان کا ایسا مذہبی شعار ہے جو مستلزم کفر ہو یا نہیں جولوگ اسے شعار کفر قرار دیں وہ ان لوگوں کی تکفیر کریں گے، لیکن مجھے تامل ہے میرے خیال میں یہ شعار کفر نہیں اگر چہ کافروں کا شعار ہے، اس کی مثال ڈاڑھی منڈانا،الٹی طرف گریبان بنانا ہے یاانگریزی ٹوپی پہن لیناہے کہ یہ قوم کفار کے قومی شعار ہیں، لیکن شعار کفر نہیں ہے، اسی طرح چندن کو بھی خیال کرتا ہوں ورنہ کم از کم اس میں شبہ ضرور ہے اور شبہ کی حالت میں تکفیر کی جرأت نہیں کرسکتا۔ (۱)
ماتھے پر چندن کا قشقہ لگانا غیر مسلموں کی تہذیب ہے اور یہ ان کا قومی شعار ہے، اس لئے مسلمانوں کے لئے چندن کا قشقہ لگانا درست نہیں ہے، حدیث میں غیر کی مشابہت اختیار کرنے اور غیرکی جماعت کو بڑھانے سے منع کیا گیا ہے ’’من تشبہ بقوم فہو منہم‘‘(۲) اس لئے اس عمل کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے، مسلمانوں کو غیر مسلموں کے ساتھ اتحاد ویگانکت پیدا کرنے کی اجازت ہے، لیکن ایسا اتحاد کہ اسلام مغلوب ومظلوم ہوجائے اور اسلامی تہذیب کی خلاف ورزی کرکے غیروں کے قومی شعار کو اپنایا جائے درست نہیں ہے۔
البتہ اگر کوئی شخص ماتھے پر چندن کا قشقہ لگائے تو اس کی تکفیر کی جائے گی یا نہیں؟ اس سلسلے میں مفتی صاحب کا بیان بہت واضح ہے، میرے خیال سے اگر وہ بغیر دباؤ کے لگانے کو غلط سمجھے، لیکن اپنی سیاسی مجبوری سمجھ کر لگالے تو اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی، لیکن اگر اسے اپنی رضا اور خوشی سے لگائے اور بجائے اپنے عمل پر نادم ہونے کے اس پر خوش ہو اور اس کے جواز کے حیلے بیان کررہا ہو تو ایسے شخص کو اپنے ایمان کی خیر منانی ہوگی، اس لئے کہ رضا بالکفر بھی کفر ہے اورمعصیت کو حلال سمجھنا بھی کفر ہے۔(۱)
(۱) مفتی کفایت اللّٰہ، کفایت المفتي: ج ۱۳، ص: ۱۸۰)
(۲) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الباس: باب في لبس الشھرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱۔
(۱) من اعتقد الحرام حلالاً أو علی القلب یکفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالحلال والحرام‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۴)
(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 173)
اسلامی عقائد
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایک طرف قرآن کریم کا عربی متن ہو اور دوسری طرف دوسری زبان میں قرآن کریم لکھا جائے تاکہ جو لوگ عربی زبان میں قرآن نہیں پڑھ سکتے ہیں وہ دوسری زبان میں قرآن پڑھ لیں یہ مسئلہ اہل علم کے درمیان مختلف فیہ ہے، بعض حضرات اسے ناجائز کہتے ہیں؛ اس لیے کہ قرآن کریم کو رسم عثمانی کے علاوہ میں لکھنا درست نہیں ہے، جب کہ بعض حضرات نے ضرورت اور تبلیغ دین کی اشاعت کے پیش نظر اس کی گنجائش دی ہے۔ فقہ اکیڈمی انڈیا نے چند شرائط کے ساتھ اس کی گنجائش دی ہے۔ فقہ اکیڈمی کی تجویز کے الفاظ ہیں: اصل تو یہ ہے کہ صرف عربی رسم الخط میں قرآن کریم کی اشاعت کی جائے؛ لیکن ضرورتاً عربی متن کے ساتھ درج ذیل شرائط کے ساتھ اشاعت کی گنجائش ہے۔
(الف) قرآن کریم کی ترتیب نہ بدلے۔ (ب) مخارج کا حتی الامکان لحاظ کیا ہے۔ (ج) عثمانی رسم الخط کی تمام خصوصیات کے لیے جامع مانع اصطلاحات وضع کر کے اس زبان کے رسم الخط کو مکمل کرنے کی پوری کوشش کی جائے۔(۱)
’’سئل الإمام الشہاب الرملي ہل تحرم کتابۃ القرآن العزیز بالقلم الہندي أو غیرہ فأجاب بأنہ لا یحرم لأنہ دلالۃ علی لفظہ العزیز ولیس فیہا تغییر لہ وعبارۃ الاتقان للسیوطي ہل یحرم کتابتہ بقلم غیر العربي، قال الزرکشي لم أرفیہ کلاما لأحد من العلماء ویحتمل الجواز لأنہ قد یحسنہ من یقرأہ والأقرب المنع والمعتمد الأول‘‘۔(۲) وافتی شیخنا الرملي بجواز کتابۃ القرآن بالقلم الہندي وقیاسہ جوازہ بنحوالترکي أیضا:(۳)
(۱) نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی کے فیصلے: ص: ۱۴۶
(۲) حاشیۃ الجمل علی شرح المنہج للجمل: ج ۱، ص: ۱۲۳۔
(۳) حاشیۃ الحیرمي: ج ۱، ص: ۳۷۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص61
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ان الفاظ کے ساتھ حدیث نہیں ملی۔ تاہم مضمون کے اعتبار سے یہ درست ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو نصف حسن دیاگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کامل حسن دیا گیا۔ مختلف روایتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل الحسن ہونا ذکر کیاگیا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہرنبی کو خوبصورت پیداکیا اور تمہارے نبی سب سے زیادہ خوبصورت تھے۔(۲)
’’قال ابن القیم في بدائع الفوائد: قول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن یوسف ’’أوتی شطر الحسن‘‘ قالت طائفۃ المراد منہ أن یوسف أوتی شطر الحسن الذي أوتیہ محمد فالنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم بلغ الغایۃ في الحسن ویوسف بلغ شطر تلک الغایۃ قالوا: ویحقق ذلک ما رواہ الترمذي من حدیث قتادۃ عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال: ’’ما بعث اللّٰہ نبیا إلا حسن الوجہ حسن الصوت وکان نبیکم أحسنہم وجہا وأحسنہم صوتا‘‘(۱) (قد أعطي شطر الحسن)، قال المظہر: أي: نصف الحسن۔ أقول: وہو محتمل أن یکون المعنی نصف جنس الحسن مطلقا، أو نصف حسن جمیع أہل زمانہ۔ وقیل بعضہ لأن الشطر کما یراد بہ نصف الشيء قد یراد بہ بعضہ مطلقا۔ أقول: لکنہ لا یلائمہ مقام المدح وإن اقتصر علیہ بعض الشراح، أللہم إلا أن یراد بہ بعض زائد علی حسن غیرہ، وہو إما مطلق فیحمل علی زیادۃ الحسن الصوري دون الملاحۃ المعنویۃ لئلا یشکل نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم وإما مقید بنسبۃ أہل زمانہ وہو الأظہر / وقد قال بعض الحفاظ من المتأخرین، وہو من مشایخنا المعتبرین: أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان أحسن من یوسف علیہ السلام إذ لم ینقل أن صورتہ کان یقع من ضوئہا علی جدران ما یصیر کالمرآۃ یحکی ما یقابلہ، وقد حکي عن صورۃ نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم؛ لکن اللّٰہ تعالی ستر عن أصحابہ کثیرا من ذلک الجمال الباہر، فإنہ لو برز لہم لم یطیقوا النظر إلیہ کما قالہ بعض المحققین: وأما جمال یوسف علیہ السلام فلم یستر منہ شيء اہـ‘‘(۲)
(۲)وفي حدیث أنس رضي اللّٰہ عنہ …… وقال في السماء الثالثۃ فإذا أنا بیوسف إذا ہو قد أعطي شطر الحسن فرحب بي ودعا لي بخیر الخ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الفتن: باب في المعراج‘‘: ج ۲، ص: ۵۲۸، رقم: ۵۸۶۳)
(۱) ابن القیم، بدائع الفوائد: ج ۳، ص: ۲۰۶۔
(۲) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الفتن: باب في المعراج‘‘: ج ۱۱، ص: ۱۴۹، رقم: ۵۸۶۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص105
حج و عمرہ
Ref. No. 2664/45-4191
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ باضابطہ لوگوں کو دعوت دے کر دعا کے لئے جمع کرنا مناسب نہیں ہے البتہ اگر کچھ لوگ جمع ہوگئے اور دعا کرلی گئی جس میں ایک اجتماعی شکل بن گئی تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔البتہ عمرہ یا حج پر جانے والے سے دعا کے لئے کہنا ثابت ہے۔ عمرہ کے لئے جانے سے پہلے انفرادی طور پر توبہ و استغفار کرناچاہئے اور کسی کے ساتھ بدسلوکی یا کسی کی حق تلفی ہوئی ہو تو اس کی معافی تلافی کی کوشش کرنی چاہئے۔ اجتماعی دعا کو ضروری سمجھنا یا اس کو عمرہ کی قبولیت کا ضامن سمجھنا نادانی اور کم عقلی ہے۔
عن العرباض بن ساریۃ رضي اللّٰہ عنہ قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذات یوم في خطبتہ…: إیاکم ومحدثات الأمور، فإن کل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (سنن أبي داؤد، رقم : ٤٦٠٧)
عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ۔ (صحیح مسلم، رقم : ١٧١٨)فقط
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند