Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:تکبیر پڑھتے وقت اگر آگے بڑھنے اور پیچھے ہٹنے کی ضرورت ہے تو جائز ہے، (۱) بلا وجہ ایسا کرنا خلاف اولیٰ ہے؛ لیکن اس سے نماز میں کوئی خلل پیدا نہیں ہوگا۔
(۱) ویستقبل غیر الراکب القبلۃ بہما ویکرہ ترکہ تنزیہا (قولہ: غیر الراکب) عبارۃ الإمداد: إلا أن یکون راکباً مسافراً لضرورۃ السیر الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في أول من بنی المنائر للأذان‘‘: ج ۲، ص: ۵۵، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص196
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو شخص خطبہ کے وقت یا نماز جمعہ میں تشہد تک شریک ہو جائے ایسا شخص جمعہ کی نماز میں شامل ہو جائے، اور جمعہ کی نماز پوری کرے ظہر نہیں۔(۱)
(۱) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من أدرک من الجمعۃ رکعۃ فلیصل إلیہا أخری۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب إقامۃ الصلوات والسنۃ فیہا، باب ما جاء فیمن أدرک من الجمعۃ رکعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۷۸، رقم: ۱۱۲۱)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أدرک رکعۃ الجمعۃ فقد أدرکہا ولیضف إلیہا أخری۔ (أخرجہ الدار قطني، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۳، رقم: ۱۶۰۸)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص42
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: روشنی اور تاریکی دونوں حالتوں میں نماز پڑھنا شرعاً بلاکراہت درست ہے(۲) اور نماز میں خشوع وخضوع اور دنیاوی باتوں سے دھیان ہٹا کر اللہ رب العزت کی طرف ذہن کو پورے طور پر متوجہ کرنا مطلوب شرعی ہے۔ {الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَا تِھِمْ خَاشِعُوْنَہلا ۲ }(۳) تاہم مقتدیوں کو جس میں سہولت ہو وہی اختیار کیا جائے اگر کسی چیز سے نقصان کا اندیشہ ہو تو کچھ روشنی رکھنی چاہئے۔
(۲) عن عائشۃ زوج النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہا قالت: کنت أنام بین یدی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ورجلاي في قبلتہ، فإذا سجد غمزنی فقبضت رجلي فإذا قام بسطتہما قالت: والبیوت یومئذ لیس فیہا مصابیح۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ: ’’کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ علی الفراش‘‘ ج۱، ص: ۵۶، رقم ۳۸۲)
(۳) سورۃ المؤمنون: ۲۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص156
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: معنی میں ایسی خرابی نہیں آئی کہ اس سے نماز فاسد ہو اس لیے نماز فاسدہ نہیں ہوئی۔(۱)
(۱) ولو زاد کلمۃ أو نقص کلمۃ أو نقص حرفا، أو قدمہ أو بدلہ بآخر نحو : من ثمرہ إذا أثمر واستحصد تعالی جد ربنا انفرجت بدل انفجرت أیاب بدل أواب لم تفسد ما لم یتغیر المعنی إلا ما یشق تمییزہ کالضاد والظاء فأکثرہم لم یفسدہا۔
(قولہ: أو بدلہ بآخر) ہذا إما أن یکون عجزا کالألثغ وقدمنا حکمہ فی باب الإمامۃ، وإما أن یکون خطأ، وحینئذ فإذا لم یغیر المعنی، فإن کان مثلہ في القرآن نحو : (إن المسلمون) لا یفسد، وإلا نحو (قیامین بالقسط)، وکمثال الشارح لا تفسد عندہما، وتفسد عند أبي یوسف، وإن غیر فسدت عندہما؛ وعند أبي یوسف إن لم یکن مثلہ في القرآن، فلو قرأ (أصحاب الشعیر) بالشین المعجمۃ فسدت اتفاقا، وتمامہ في الفتح (قولہ: نحو من ثمرہ إلخ) لف ونشر مرتب (قولہ: إلا ما یشق إلخ) ( الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، ج۲، ص۳۹۵، ۳۹۶، زکریا)۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص274
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: عشاء کے مذکورہ نفل ہوں یا دیگر نوافل بیٹھ کر پڑھنے میں آدھا ثواب ملتا ہے، اگرچہ ان نوافل کا آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیٹھ کر پڑھنا بھی ثابت ہے۔(۲)
(۲) ویتنفل مع قدرتہ علی القیام قاعداً لا مضطجعاً إلا بعذر ابتداء وکذا بناء الشروع بلا کراہۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج۲، ص: ۴۸۳، ۴۸۴، زکریا دیوبند)
وفي التجنیس: الأفضل أن یقوم فیقرأ شیئاً ثم یرکع لیکون مواقفاً للسنۃ … ففی صحیح مسلم عن عبد اللّٰہ بن عمرو قلت : حدثت یا رسول اللّٰہ (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) انک قلت صلاۃ الرجل قاعداً علی نصف الصلاۃ وأنت تصلی قاعداً قال أجل لست کأحد منکم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۳۷، مکتبہ: سعید کراچی پاکستان)
ویجوز أن یتنفل القادر علی القیام قاعداً بلا کراہۃ في الأصح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع، في النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۳، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص383
متفرقات
Ref. No. 950 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ہاں، دفن کرسکتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 41/1085
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
While doing tawaf it is Makrooh (disliked) looking at Kaba. One should look to his front only.
During tawaf one has to act like he is in namaz; as he is recommended to look at the place of sajda during namaz.
لقوله عليه السلام: "الطواف حول الكعبة مثل الصلاة إلا أنكم تتكلمون فيه فمن تكلم فيه فلا يتكلمن إلا بخير" (حاشیۃ الطحطاوی 1/82)
And Allah knows the best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 1786/43-1533
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
You did not specify which serials make people convert to Islam. However, in this regard, it should be kept in mind that only the goal and the result should not be good, but also the steps to achieve this goal should be good and in accordance with Shariah. Serials usually contain a lot of obscene and prohibited materials. So watching such serials should be avoided according to shari'ah.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس سلسلے میں کفایت المفتی میں درج ہے: گرنتھ صاحب کو سجدہ کرنا یا پھول چڑھانا مسلمانوں کے لئے حرام ہے، اسلام نے دوسرے مذاہب کے پیشواؤں کی توہین کرنے اور ان کو برا کہنے سے منع کیا ہے، ان کی تعظیم کا حکم نہیں دیا ہے، خصوصا ایسی تعظیم جو عبادت کے درجے تک پہونچی ہو کسی طرح جائز اور مباح نہیں ہوسکتی ہے۔(۲)
اسلام میں مجسموں کی حیثیت بت کی ہے اور بت کی تعظیم کفر ہے، یہ ایک متفقہ مسئلہ ہے، اب یہاں دیکھنا ہے مجسموں پر ہار ڈالنا کیا کوئی قانونی مجبوری ہے یا باہمی رواداری ہے، اگر کوئی قانونی یا سیاسی مجبوری ہو، تو ناجائز اور غلط سمجھتے ہوئے ہار ڈالا جاسکتا ہے، جب کہ اس پر توبہ واستغفار بھی کرنا چاہئے اور اگر یہ کوئی قانونی مجبوری نہیں ہے تو محض اپنے آپ کو سیکولر دکھانے کے لئے حرام کاموں پر جرأت نہیں کرنی چاہئے او راگر کوئی شخص مجسموں پر ہار ڈالتا ہے اسے غلط سمجھتے ہوئے تو اس کا یہ عمل غلط ہوگا، لیکن اس کی بنا پر اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی اور اگر اس کا یہ عمل مجسموں کی تعظیم کے پیش نظر ہو تو بت کی تعظیم کی وجہ اس کا یہ عمل دائرہ کفر میں آئے گا، جب کہ غالب گمان یہ ہے کہ سیاسی لیڈران اپنے سیکولر کردار کو ظاہر کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں، مجسموں کی تعظیم کے پیش نظر ایسا نہیں کرتے ہیں۔ (۱
(۲) مفتی کفایت اللّٰہ، کفایت المفتی: ج ۱۳، ص: ۱۷۱۔
(۱) إذا سجد واحد لہؤلاء الجبابرۃ فہو کبیرۃ من الکبائر وہل یکفر؟ قال بعضہم: یکفر مطلقا، وقال أکثرہم: ہذا علی وجوہ إن إراد بہ العبادۃ یکفر وأن أراد التحیۃ لم یکفر، ویرحم علیہ ذلک۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۲)
دار العلوم وقف دیوبند
(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 174)
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:عورتوں کے مزارات پر جانے کی، ان کی نوحہ و گریہ کرنے کی وجہ سے پہلے ممانعت تھی، بعد میںاجازت دیدی گئی تھی۔ بخاری شریف میں حدیث موجود ہے، لیکن محرم کے ساتھ ہو، بے پردگی نہ ہو، مردوں سے اختلاط نہ ہو، ان شرائط کی پابندی ضروری ہے۔(۱) مزارات کا طواف قطعا ناجائز ہے اسی طرح سجدہ کرنا قطعاً جائز نہیں ہے کہ اس سے تو اندیشہ کفر ہے اور الٹے پاؤں واپس لوٹنا بھی بے اصل وبیجا احترام ہے۔(۲)
(۱) (قولہ وقیل تحرم علی النساء إلخ) قال الرملي أما النساء إذا أردن زیارۃ القبور إن کان ذلک لتجدید الحزن والبکاء والندب علی ما جرت بہ عادتہن فلا تجوز لہن الزیارۃ، وعلیہ حمل الحدیث، لعن اللّٰہ زائرات القبور، وإن کان للاعتبار والترحم والتبرک بزیارۃ قبور الصالحین فلا بأس إذا کن عجائز ویکرہ إذا کن شواب کحضور الجماعۃ في المساجد۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الجنائز: فصل السلطان أحق بصلاتہ، الصلاۃ علی المیت في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۲)
وقیل تحرم علی النساء والأصح أن الرخصۃ ثابتۃ۔ (أیضاً:)
عن أنس بن مالک -رضي اللّٰہ عنہ-، قال: مر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم بامرأۃ تبکي عند قبر، فقال: اتقی اللّٰہ واصبري، قالت: إلیک عني فإنک لم تصب بمصیبتي ولم تعرفہ، فقیل: لہا إنہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فأتت باب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلم تجد عندہ بوّابین، فقالت: لم أعرفک، فقال: إنما الصبر عند الصدمۃ الأولی۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الجنائز: باب زیارۃ القبور‘‘: ج ۱، ص:۱۷۱، رقم: ۱۲۸۳)
أما علی الأصح من مذہبنا وہو قول الکرخي وغیرہ من أن الرخصۃ في زیارۃ القبور ثابتۃ للرجال والنساء جمیعا فلا إشکال۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’حرم المدینۃ ومکۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۲۹)
وفي السراج وأما النساء إذا أردن زیارۃ القبور إن کان ذلک لتجدید الحزن والبکاء والندب کما جرت بہ عادتہن فلا تجوز لہن الزیارۃ، وعلیہ یحمل الحدیث الصحیح ’’لعن اللّٰہ زائرات القبور‘‘ وإن کان للاعتبار والترحم والتبرک بزیارۃ قبور الصالحین من غیر ما یخالف الشرع ’’فلا بأس بہ إذا کن عجائز‘‘ وکرہ ذلک للشابات کحضورہن في المساجد للجماعات اہـ۔ ’’العیني في شرح البخاري‘‘۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح: ج ۱، ص: ۶۲۰)
(۲)ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص380