قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کے لیے جو اعضاء ذکر کئے گئے ہیں، جیسے: ہاتھ، پنڈلی ، وجہ وغیرہ اس بارے میں مفسرین کے دو قول ہیں:
 ایک یہ کہ ان اعضاء کو انسانی اعضاء پر قیاس نہ کیا جائے؛ بلکہ ان سے مراد وہ اعضاء نورانی ہیں جو شان الٰہی کے موافق ہوں(۱) اور دوسرے یہ کہ ایسے اعضاء بول کر ذات خداوند کی بعض صفات مراد ہیں، بہر کیف انسانی اعضاء کی طرح اللہ تعالیٰ کے اعضاء ہوں یہ مراد نہیں ہے؛ اس لیے کوئی تشبہ جسم وغیرہ میں پیدا نہیں ہوتا۔(۲)
 

(۱) وإنما یسلک في ہذا المقام مذہب السلف من ائمۃ المسلمین قدیماً وحدیثاً وہو إمرارہا کما جائت من غیر تکییف ولا تشبیہ ولا تعطیل۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ الأعراف: ۵۴‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس عقیدہ میں حضرات سلف کے مسلک پر ہوں کہ نصوص اپنی حقیقت پر ہیں مگر ’’کنہ‘‘ اس کی معلوم نہیں۔ (أشرف علي التھانوي، إمداد الفتاویٰ: ج ۶، ص: ۴۲۵)
(۲) وأما ما قال المتأخرون من ائمتنا في تلک الآیات یؤولونہا بتأویلات صحیحۃ سائغۃ في اللغۃ والشرع بأنہ یمکن أن یکون المراد من الاستواء الاستیلاء ومن الید القدرۃ إلی غیر ذلک تقریبا إلی أفہام القاصرین فحق أیضا عندنا۔ (خلیل أحمد سہارنفوري، المہند علی المفند: ص: ۱۲)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص63

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرات صحابہؓ کی تعداد کے سلسلہ میں قرآن وحدیث میں کوئی واضح صراحت نہیں ملی۔ حافظ ابن صلاح نے مقدمہ ابن صلاح میں امام ابوزرعہ رازی کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ صحابہ کرامؓ کی مجموعی تعداد ایک لاکھ چودہ ہزار تھی۔ ’’قبض رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن مأۃ ألف وأربعۃ عشر ألفا من الصحابۃ ممن روي عنہ وسمع منہ وفي روایۃ ممن رآہ وسمع منہ‘‘(۱) البتہ حافظ عراقی نے لکھا ہے کہ حضرات صحابہؓ کو شمار کرنا اور ان کی تعداد متعین کرنا دشوار ہے، اس لیے کہ وہ حضرات ملکوں میں منتشر تھے۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں کعب بن مالک کے تبوک میں پیچھے رہ جانے کے قصہ کے ذیل میں لکھا ہے کہ ’’أصحاب رسول اللّٰہ کثیر لایجمعھم کتاب حافظ‘‘(۲)

(۱) إبراہیم بن موسیٰ الشافعي، مقدمہ ابن الصلاح۔ (النوع التاسع والثلاثون: ج ۲، ص: ۵۰۱)
(۲) أحمد بن علي بن محمد، الإصابۃ في تمییز الصحابۃ: ج ۱، ص: ۸۷۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص107

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ مرض میں پانی اس کے لیے مضر نہیں ہوتا جیسا کہ سوال سے ظاہر ہوتا ہے۔ صرف طہارت میں شبہ ہو تا ہے تو اس شخص کے لیے وضو کرنا ہی ضروری ہے ۔طہارت کے بعد آپریشن ہوا تھا، تو پہلی طہارت زائل ہو گئی ہے؛ ہاں اگر طہارت یعنی وضو آپریشن کے بعد کیا تھا یا اس کے بعد وضو کرتے رہے، تو وہ معذور کے حکم میں ہے ایک وقت کی جتنی نمازیں چاہیں پڑھ لیں، شبہ نہ کریں۔ جب تک عذر باقی رہے ہر وقت کے داخل ہونے پر وضوء کرلیں؛ ہاں اس کے علاوہ کوئی ناقض وضوء پیش آئے، تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا؛ لیکن پیشاب کے قطرے آتے رہنے سے پورے وقت وضو ہی کا حکم رہے گا۔(۱)

(۱)صاحب عذر من بہ سلس بول لا یمکنہ إمساکہ، الخ، إن استوعب عذرہ تمام وقت صلوۃ مفروضۃ بأن لا یجد في جمیع وقتھا زمنا یتوضأ و یصلي فیہ خالیا عن الحدث ولو حکما۔ (ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب في أحکام الآئسۃ،ج۱، ص:۵۰۴)، من بہ سلس البول والرعاف الدائم والجرح الذي لا یرقاء یتوضؤون لوقت کل صلوٰۃ فیصلون بذلک الوضوء في الوقت ما شاؤا من الفرائض والنوافل۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، کتاب الطہارات، فصل: في الاستحاضۃ، ج۱،ص:۱۸۱)؛ و یصلون بہ فرضا و نفلا، و یبطل بخروجہ فقط، و ھذا إذا لم یمض علیھم وقت فرض إلا وذلک الحدث یوجد فیہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، کتاب الطہارۃ، باب الحیض، ج۱، ص:۳۷۵)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص411

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:اگر تالاب دہ در دہ ہے اور اس میں کوئی ظاہری نجاست بھی نہیں ہے، تو اس سے وضو کرنا اور نماز پڑھنا درست ہے۔(۲)

(۲)والغدیر العظیم الذي لا یتحرک أحد طرفیہ بتحریک الطرف الآخر، إذا وقعت نجاسۃ في أحد جانبیہ، جاز الوضوء من الجانب الآخر… و بعضھم قدروا بالمساحۃ عشرا في عشر بذراع الکرباس توسعۃ للأمر علی الناس، و علیہ الفتویٰ۔ (المرغینانی، الہدایہ، کتاب الطہارۃ ، ج۱، باب الماء الذي یجوز بہ التوضؤ مالا یجوز بہ، ص:۳۶،۳۷)، الماء الراکد إذا کان کثیراً، فھو بمنزلۃ الجاري…قال أبوسلیمان الجوزجاني: إن کان عشراً في عشر، فھو مما لا یخلص۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث: في المیاہ، النوع الثانی : الماء الراکد، ج۱، ص:۷۰)؛ والمعنی لا تجوز الطھارۃ بماء قلیل وقع فیہ نجس مالم یکن غدیراً، أو لم یکن عشراً في عشر۔ (عبدالرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، ج۱، ص:۴۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص459

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسواک پاکی کے لیے ہوتی ہے۔ ناپاکی سے پاکی حاصل ہی نہیں ہوسکتی؛ لہٰذا اس پانی میں کوئی کراہت نہیں آئے گی، پھر بھی احتیاط اسی میں ہے کہ مسواک لوٹے میں نہ ڈالی جائے؛ بلکہ الگ سے پانی ڈال کر مسواک کو تر کر لیا جائے۔(۱)

(۱)وھو من قضبان أشجار لھا رائحۃ طیبۃ۔ ( عالم بن العلاء، تاتارخانیہ ’’کتاب الطہارۃ، فصل الوضوء‘‘  ج۱،ص۲۲۲)؛ و ینبغی أن یکون السواک من أشجار مِرّۃ لا یطیب نکھۃ الفم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول في الوضوء، الفصل الثاني في سنن الوضوء، منہا السواک،‘‘ ج۱،  ص۵۷)؛ و روي ابن ماجہ من حدیث عائشۃؓ أیضا۔ کنت أصنع لہ ثلاثۃ آنیۃ مخمرۃ إناء لطھورہ و إناء لسواکہ۔ و إناء لشرابہ۔ (بدرالدین العینی، البنایۃ شرح الھدایۃ،’’ کتاب الطہارۃ، سنن الوضوء‘‘ج۱، ص:۲۰۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص128

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:باتھ روم ایک گندی اور برہنگی کی جگہ ہے، دورانِ غسل بات چیت کرنا، دعا اور ذکر کرنا مکروہ ہے، اس لیے کسی کتاب کا مطالعہ کرنا بھی مکروہ ہوگا۔
و یستحب أن لا یتکلم بکلام قط من کلام الناس أو غیرہ۔(۳) و یستحب أن لا یتکلم بکلام مطلقا، أما کلام الناس فلکراھتہ حال الکشف۔(۴)

(۳)محمد بن محمد ، غنیۃ المستملي شرح منیۃ المصلي،ص: ۴۵
(۴) ابن عابدین،رد المحتار ’’کتاب الطہارۃ، مطلب: سنن الغسل‘‘ ج ۱، ص:۲۹۱

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص316

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں اگر واقعی طور پر وہ امام مذکورہ اوصاف اپنے اندر رکھتا ہے تو وہ شخص گناہگار ہے، اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے اور اگر قرأت میں فحش غلطیاں ہوجاتی ہیں کہ جن سے نماز ہی فاسد ہوجائے تو ایسے امام کے پیچھے نماز صحیح نہیں ہوگی کسی اچھے عالم، دیندار، متقی لائق امامت کو امام بنانا چاہئے تاکہ فریضۂ نماز عمدہ اور بہترین طریقہ پر ادا ہوسکے۔(۱)

(۱) صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ وقال الشامي تحتہ قولہ: نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولٰی من الإنفراد لکن لاینال کما ینال خلف تقي ورع وکذا في البحر الرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)
والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدا للقراء ۃ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن وجہا۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص215

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ختم قرآن پر لین دین کی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ پہلے سے لینا دینا مقرر کرلیا جائے یا مقرر تو صراحتا نہ کرے، لیکن اس جگہ پر لین دین کو لازمی و ضروری سمجھا جاتا ہو کہ اگر ایسا نہ ہوا رسوائی بدنامی اور لعن طن ہو تو ’’المعروف کا لمشروط‘‘ کے قاعدے کے مطابق یہ مقرر ہی کرنا ہوا، ایسی صورت میں یہ لین دین ہدیہ نہ ہوکر اجرت ہوجائے گی خواہ اس کا نام ہدیہ ہی رکھا جائے اور یہ لین دین شرعا ناجائز ہے اس کا مرتکب گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے اس کی امامت مکروہ ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ لین دین صراحتاً یا رواجا مقرر نہ ہو یا سنانے والا صراحتاً طے کردے کہ میں کچھ نہ لوں گا یا مقتدی صراحت کردے ایسی صورت میں اگر لین دین ہو تو واقعی ہدیہ تحفہ ہی ہے اور اس کے لین دین میں کوئی مضائقہ نہیں اور ایسی صورت میں لینے دینے والے کی امامت بھی بلاشبہ درست ہے۔(۱)
’’کذا صرح بہ العلامہ ابن العابدین في رد المحتار ورسم المفتي والفقہاء ٔالآخرون في الکتب الأخری‘‘

(۱) الہبۃ عقد مشروع لقولہ علیہ السلام تہادوا تحابّوا وعلی ذلک انعقد الإجماع۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الہبۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۸۳، مکتبہ فیصل دیوبند)
وقال في الشامي: أما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ الخ بل مشی في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص299

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دو بارہ اقامت کی ضرورت نہیں(۲) بعد میں آنے والے شخص کے لیے جماعت میں شرکت درست نہیں ہوگی۔اس لیے کہ وہ جماعت پہلی جماعت میں جو کمی ہوتی ہے اس کی تلافی کے لیے ہے اور آنے والے شخص کی نماز مستقل نماز ہے۔ (۳)

(۲) (فروع) صلی السنۃ بعد الإقامۃ أو حضر الإمام بعدہا لا یعیدہا، بزازیۃ۔ وینبغي إن طال الفصل أو وجد ما یعد قاطعاً کأکل أن تعاد۔(ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان،مطلب في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۷۱، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
(۳) ومن المشائخ من قال: یلزمہ أن یعید ویکون الفرض ہو الثاني، والمختار أن الفرض ہو الأول والثاني جبر للخلل الواقع فیہ بترک الواجب۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري، ’’الفائتۃ من الفرائض تعدیل الأرکان‘‘: ص: ۲۵۷)
والمختار أنہ أي الفعل الثاني جابر للأول بمنزلۃ الجبر بسجود السہو وبالأول یخرج عن العہدۃ وإن کان علی وجہ الکراہۃ علی الأصح۔ (الحصکفي، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج  ۲، ص: ۱۴۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص196

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: قعدہ اخیرہ کے بعد اگر امام سہواً کھڑا ہوجائے تو مسبوق کو اس زائد نماز میں اقتداء جائز نہیں ہے اگر اقتدا کیا تو مسبوق کی نماز فاسد ہوجائیگی۔
’’قال في الدر ولو قام إمامہ لخامسۃ فتابعہ، إن بعد القعود تفسد، قولہ تفسد أي صلاۃ المسبوق لأنہ اقتداء في موضع الإنفراد الخ‘‘(۱)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ … مطلب فیما لو أتی بالرکوع والسجود أو بہما الخ‘‘: ج۲، ص: ۳۵۰۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص43