نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسافر پر نماز جمعہ لازم نہیں اور اگر مسافر حاضر جمعہ ہوکر نماز جمعہ پڑھ لے، تو پھر ظہر اس پر لازم نہ رہے گی اس کا فرض اداء ہو جائے گا۔(۲)(۲) ولا تجب الجمعۃ علی مسافر ولا امرأۃ ولا مریض ولا عبد ولا أعمی، … فإن حضروا فصلوا مع الناس أجزأہم عن فرض الوقت۔ (المرغیناني، الہدایہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجمعۃ‘‘دارالکتاب، دیوبند: ج ۱، ص: ۱۶۹، )والجمعۃ فرض أکد من الظہر (علی) کل (من اجتمع فیہ سبعۃ شرائط) وہي (الذکورۃ) خرج بہ النساء (والحریّۃ) خرج بہ الأرقاء (والإقامۃ) خرج بہ المسافر … لقولہ علیہ السلام: الجمعۃ حق واجب علی کل مسلم في جماعۃ؛ إلا أربعۃ مملوک أو امراۃ أو صبي أو مریض وفي البخاري: إلا علی صبي أو مملوک أو مسافر۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘ دارالکتاب، دیوبند: ص: ۵۰۳، ۵۰۴)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 28

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز جمعہ فرض ہے اور اس کی فرضیت قرآن کریم سے اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور اجماع امت سے بھی ثابت ہے۔’’(ہي فرض) عین (یکفر جاحدہا) لثبوتہا بالدلیل القطعي قولہ: (بالدلیل القطعي) وہو قولہ تعالی: {یاَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْٓا إِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا إِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَط} (الجمعۃ:۹) وبالسنۃ والإجماع، قولہ: (کما حققہ الکمال) وقال بعد ذلک: وإنما أکثرنا فیہ نوعاً من الإکثار لما نسمع عن بعض الجہلۃ أنہم ینسبون إلی مذہب الحنفیۃ عدم افتراضہا الخ‘‘(۱)لہٰذا اگر امام جمعہ واجب کی نیت باندھے اور اسے واجب ہی سمجھ کر نماز پڑھائے تو یہ شرعاً درست نہیں ہے۔ اور دوسرے یہ کہ نہ اس کی فرضیت جمعہ ساقط ہوئی نہ اس کی اقتداء کرنے والے لوگوں کی، اب سب پر ظہر کا اعادہ لازم ہے صرف مقتدی کی نیت معتبر نہیں ہے۔(۲) البتہ اگر جمعہ کی  نماز کو فرض ہی سمجھتا ہو اور واجب کا صرف لفظ بولا ہے، تو نماز جمعہ سب کی درست ہے۔(۱)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳، ۴، مکتبہ زکریا، دیوبند۔(۲) قولہ: (أنہ وتر) أشار إلی أنہ لاینوي فیہ أنہ واجب للاختلاف فیہ، زیلعي أي لایلزمہ تعیین الوجوب، ولیس المراد منعہ من أن ینوي وجوبہ؛ لأنہ إن کان حنفیا ینبغي أن ینویہ لیطابق اعتقادہ، وإن کان غیرہ لاتضرہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، مطلب: في حضور القلب والخشوع‘‘: ج ۲، ص: ۹۷)

(۱) قولہ: (قرنہ بالیوم أو بالوقت أولا) … وہو أن یعلم بقلبہ أي صلاۃ یصلي یحسم مادۃ ہذہ المقالات وغیرہ؛ فإن العہدۃ علیہ لحصول التمییز بہ، وہو المقصود۔ (أیضاً: ج ۲، ص: ۹۶)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 27

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر حاملہ عورت کھڑی ہو کر نماز پڑھنے پر قادر نہ ہو اور خصوصا سجدہ کرنے سے عاجز اور معذور ہو تو کھڑی ہوکر نماز نہ پڑھنے کی صورت میں بیٹھ کر اور سجدہ نہ کر سکنے پر جس قدر بھی جھکنا ممکن ہو سکے جھک کر رکوع اور سجدہ کریں تاہم رکوع اور سجدہ میں واضح فرق ہونا چاہئے رکوع کے مقابلے میں سجدہ میں زیادہ جھکا جائے؛ نیز آپ کے والد بھی اگر کھڑے ہونے سے عاجز اور معذور ہیں تو ان کا بھی وہی حکم ہے جو اوپر ذکر ہوا ہے کہ وہ بیٹھ کر نماز ادا کر سکتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ نے فرمایا کہ کھڑے ہونے کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر اگر بیٹھنے کی بھی طاقت نہ ہو تو لیٹ کر نماز ادا کرلو، جیسا کہ امام بخاری نے روایت نقل کی ہے:

’’صل قائماً فإن لم تستطع فقاعداً فإن لم تستطع فعلی جنب‘‘(۱)

’’عن نافع، أن عبد اللّٰہ بن عمر کان یقول: إذا لم یستطع المریض السجود، أومأ برأسہ إیماء، ولم یرفع إلی جبہتہ شیئا‘‘(۲)

صاحب مراقی الفلاح نے لکھا ہے:

’’وإن عجز عن القیام والرکوع والسجود وقدر علی القعود یصلي قاعدا بإیماء ویجعل السجود أخفض من الرکوع، کذا في فتاوی قاضي خان‘‘(۳)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب تقصیر الصلاۃ: باب إذا لم یطق قاعداً صلی علی جنب‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۰، رقم: ۱۱۱۷۔

(۲) أخرجہ مالک بن أنس بن مالک، موطأ الإمام مالک:  ص: ۸۱، رقم: ۵۸۱۔

(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع عشر: في صلاۃ المریض‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۶۔

’’وفي الحموي فإن رکع جالسا ینبغي أن تحاذي جبہتہ رکبتیہ لیحصل الرکوع۔ ولعل مرادہ إنحناء الظہر عملا بالحقیقۃ لا أنہ یبالغ فیہ حتی یکون قریبا من السجود‘‘(۱)

(۱) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح: ج ۱، ص: ۲۲۹۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:418

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: پیشاب کے قطروں کی بیماری میں جب کہ آپ معذور کے حکم میں ہوں آپ پر ہر نماز کے وقت وضو کرنا اور پیشاب لگے ہوئے ناپاک کپڑے بدلنا ضروری ہے۔ پیشاب کے قطروں کے لیے جو پلاسٹک استعمال کرتے ہیں اگر قطرے اس میں آگئے تو اس کو اگلی نماز کے لئے بدلنا ضروری ہوگا۔ پیشاب کرنے کے بعد اچھی طرح سے پیشاب کی نالی میں موجود قطروں کو نکالنا لازم ہے، جب مکمل پیشاب کے قطرے نکل گئے تو اب اس کو سکھانے کی ضرورت نہیں ہے دھولینا بھی کافی ہے۔

(۲) اعضائے وضو کو ایک ایک بار دھونا فرض ہے اور تین تین بار دھونا سنت ہے، اس سے زیادہ ان گنت مرتبہ دھونا مکروہ ہے اور اسراف میں داخل ہے، وضو درست ہوجائے گا مگر بلاوجہ ایسا کرنا مکروہ ہوگا۔

(۳) ہونٹوں کا وہ حصہ جو منھ بند کرنے پر چھپ جاتاہے، اس پر ویسلین یا کوئی کریم استعمال  نہ کریں یہ نقصاندہ بھی ہے؛ البتہ اگر لگالیا اور منھ کے اندراس کا اثر حلق میں محسوس کیا توچوں کہ یہ مقدار بہت ہی قلیل ہے اور صرف اس کا اثر محسوس ہوا ہے اس لیے اس سے نماز میں کوئی خرابی لازم نہیں آئے گی، نماز درست ہوجائے گی۔ 

’’(وصاحب عذر من بہ سلس) بول لا یمکنہ إمساکہ (أو استطلاق بطن أو انفلات ریح أو استحاضۃ) أو بعینہ رمد أو عمش أو غرب، وکذا کل ما یخرج بوجع ولو من أذن وثدی وسرۃ (إن استوعب عذرہ تمام وقت صلاۃ مفروضۃ) بأن لا یجد في جمیع وقتہا زمناً یتوضأ ویصلی فیہ خالیاً عن الحدث (ولو حکماً)؛ لأن الانقطاع الیسیر ملحق بالعدم (وہذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء کفی وجودہ في جزء من الوقت) ولو مرۃً (وفي) حق الزوال یشترط (استیعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقیقۃ)؛ لأنہ الانقطاع الکامل۔ (وحکمہ الوضوء) لا غسل ثوبہ ونحوہ (لکل فرض) اللام للوقت کما في {لدلوک الشمس} (سورۃ الإسراء: ۷۸) (ثم یصلی) بہ (فیہ فرضاً ونفلاً) فدخل الواجب بالأولی (فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظہر حدثہ السابق، حتی لو توضأ علی الانقطاع ودام إلی خروجہ لم یبطل بالخروج ما لم یطرأ حدث آخر أو یسیل کمسألۃ مسح خفہ۔ وأفاد أنہ لو توضأ بعد الطلوع ولو لعید أو ضحی لم یبطل إلا بخروج وقت الظہر۔ (وإن سال علی ثوبہ) فوق الدرہم (جاز لہ أن لا یغسلہ إن کان لو غسلہ تنجس قبل الفراغ منہا) أي: الصلاۃ (وإلا) یتنجس قبل فراغہ (فلا) یجوز ترک غسلہ، ہو المختار للفتوی، وکذا مریض لا یبسط ثوبہ إلا تنجس فورا لہ ترکہ (و) المعذور (إنما تبقی طہارتہ في الوقت) بشرطین (إذا) توضأ لعذرہ و (لم یطرأ علیہ حدث آخر، أما إذا) توضأ لحدث آخر وعذرہ منقطع ثم سال أو توضأ لعذرہ ثم (طرأ) علیہ حدث آخر، بأن سال أحد منخریہ أو جرحیہ أو قرحتیہ ولو من جدری ثم سال الآخر (فلا) تبقی طہارتہ‘‘(۱)

’’شرط ثبوت العذر ابتدائً أن یستوعب استمرارہ وقت الصلاۃ کاملاً، وہو الأظہر، کالانقطاع لایثبت مالم یستوعب الوقت کلہ … المستحاضۃ ومن بہ سلس البول … یتوضؤن لوقت کل صلاۃ، ویصلون بذلک الوضوء في الوقت ماشاؤا من الفرائض و النوافل … ویبطل الوضوء عند خروج وقت المفروضۃ بالحدث السابق … إذا کان بہ جرح سائل وقد شد علیہ خرقۃً فأصابہا الدم أکثر من قدر الدرہم، أو أصاب ثوبہ إن کان بحال لوغسلہ یتنجس ثانیاً قبل الفراغ من الصلاۃ، جاز أن لا یغسلہ وصلی قبل أن یغسلہ وإلا فلا، ہذا ہو المختار‘‘(۲)

(۲) (والإسراف) ومنہ الزیادۃ علی الثلاث (فیہ) تحریمًا ولو بماء النہر، والمملوک لہ۔ أما الموقوف علی من یتطہر بہ، ومنہ ماء المدارس، فحرام۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

(۱) الحصکفي،  الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الحیض، مطلب: في أحکام المعذور‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۴ تا ۵۰۸۔

(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السادس: في الدماء المختصۃ بالنساء‘‘: ج ۱، ص: ۹۵، ۹۶۔

(قولہ: والإسراف) أي بأن یستعمل منہ فوق الحاجۃ الشرعیۃ، لما أخرج ابن ماجہ وغیرہ عن عبد اللہ بن عمرو بن العاص أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مر بسعد وہو یتوضأ فقال: ما ہذا السرف؟ فقال: أفي الوضوء إسراف؟ فقال: نعم، وإن کنت علی نہر جار، حلیۃ (قولہ: ومنہ) أي من الإسراف الزیادۃ علی الثلاث أي في الغسلات مع اعتقاد أن ذلک ہو السنۃ لما قدمناہ من الصحیح أن النہي محمول علی ذلک، فإذا لم یعتقد ذلک وقصد الطمأنینۃ عند الشک، أو قصد الوضوء علی الوضوء بعد الفراغ منہ فلا کراہۃ کما مر تقریرہ (قولہ: فیہ) أي في الماء (قولہ: تحریمًا إلخ) نقل ذلک في الحلیۃ عن بعض المتأخرین من الشافعیۃ وتبعہ علیہ في البحر وغیرہ، وہو مخالف لما قدمناہ عن الفتح من عدہ ترک التقتیر والإسراف من المندوبات، ومثلہ في البدائع وغیرہا، لکن قال في الحلیۃ: ذکر الحلواني أنہ سنۃ؛ وعلیہ مشی قاضي خان، وہو وجیہ۔ واستوجبہ في البحر أیضا، وکذا في النہر۔ قال: والمراد بالسنۃ المؤکدۃ لإطلاق النہي عن الإسراف، وجعل في المنتقی الإسراف من المنہیات فتکون تحریمیۃ لأن إطلاق الکراہۃ مصروف إلی التحریم، وبہ یضعف جعلہ مندوبا۔

أقول: قد تقدم أن النہي عنہ في حدیث فمن زاد علی ہذا أو نقص فقد تعدی وظلم محمول علی الاعتقاد عندنا، کما صرح بہ في الہدایۃ وغیرہا۔ وقال في البدائع: إنہ الصحیح، حتی لو زاد أو نقص واعتقد أن الثلاث سنۃ لا یلحقہ الوعید وقدمنا أنہ صریح في عدم کراہۃ ذلک یعني کراہۃ تحریم، فلاینافی الکراہۃ التنزیہیۃ، فما مشی علیہ ہنا في الفتح والبدائع وغیرہما من جعل ترکہ مندوبًا مبنی علی ذلک التصحیح، فیکرہ تنزیہًا، ولاینافیہ عدہ من المنہیات کما عد منہا لطم الوجہ بالماء، فإن المکروہ تنزیہًا منہی عنہ حقیقۃً اصطلاحًا، ومجازًا لغۃً کما في التحریر۔ وأیضًا فقد عدہ في الخزانۃ السمرقندیۃ من المنہیات، لکن قیدہ بعدم اعتقاد تمام السنۃ بالثلاث، کما نقلہ الشیخ إسماعیل، وعلیہ یحمل قول من جعل ترکہ سنۃً، ولیست الکراہۃ مصروفۃ إلی التحریم مطلقًا کما ذکرناہ آنفًا، علی أن الصارف للنہي عن التحریم ظاہر، فإن من أسرف في الوضوء بماء النہر مثلاً مع عدم اعتقاد سنیۃ ذلک نظیر من ملأ إناء من النہر ثم أفرغہ فیہ، ولیس في ذلک محذور سوی أنہ عبث لا فائدۃ فیہ، وہو في الوضوء زائد علی المأمور بہ؛ فلذا سمی في الحدیث إسرافًا‘‘(۱)

(۳) ثم القدر الذي یتعلق بہ الفساد ما یفسد الصوم عزی إلی غریب الروایۃ لأبي جعفر وہو قدر الحمصۃ من بین أسنانہ، أما من خارج فلو أدخل سمسمۃ فابتلعہا تفسد، وعن أبي حنیفۃ وأبي یوسف لا تفسد، ولو کانت بین أسنانہ فابتلعہا لا تفسد، ولو کان عین سکرۃ في فیہ فذابت فدخل حلقہ فسدت، ولو لم یکن عینہا بل صلی علی أثر ابتلاعہا فوجد الحلاوۃ لا تفسد، ولو لاک ہلیلجۃ فسدت کمضغ العلک، ولو لم یلکہا لکن دخل في جوفہ منہ شيء یسیر لا تفسد۔ وذکر شیخ الإسلام أکل بعض اللقمۃ وبقي في فیہ بعضہا فدخل في الصلاۃ فابتلعہ لا تفسد ما لم تکن ملأ الفم‘‘(۲)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب: في الإسراف في الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۹۔(۲) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، فصل: ویکرہ للمصلي، فصل: یکرہ للمصلي أن یعبث بثوبہ‘‘: ج ۱، ص: ۴۲۵۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:414

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر قطرات ٹپکنے کی بیماری مسلسل ہے اور اتنا وقفہ نہیں ملتا کہ وقت کی نماز بغیر عذر کے پڑھ سکے تو ایسے معذور شخص کے لیے یہ طریقہ درست ہے، ہر نماز کے لیے اس کو تبدیل کرلیا کرے۔ 

’’والمستحاضۃ ہي التي لا یمضی علیہا وقت صلاۃ إلا والحدث الذي ابتلیت بہ یوجد فیہ وکذا کل من ہو في معناہا وہو من ذکرناہ ومن بہ استطلاق بطن وانفلات ریح لأن الضرورۃ بہذا تتحقق وہي تعمم الکل‘‘(۲)

’’(کما) ینقض (لو حشا إحلیلہ بقطنۃ وابتل الطرف الظاہر) ہذا لو القطنۃ عالیۃ أو محاذیۃ لرأس الإحلیل، (قولہ: إحلیلہ) بکسر الہمزۃ مجری البول من الذکر بحر (قولہ: ہذا) أی النقض بما ذکر، ومرادہ بیان المراد من الطرف الظاہر بأنہ ما کان عالیا عن رأس الإحلیل أو مساویا لہ: أي ما کان خارجا من رأسہ زائدا علیہ أو محاذیا لرأسہ لتحقق خروج النجس بابتلالہ؛ بخلاف ما إذا ابتل الطرف وکان متسفلا عن رأس الإحلیل أي غائبا فیہ لم یحاذہ ولم یعل فوقہ، فإن ابتلالہ غیر ناقض إذا لم یوجد خروج فہو کابتلال الطرف الآخر‘‘(۱)(۲) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ: باب الحیض والإستحاضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۹۔(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب: في ندب مراعاۃ الخلاف إذا لم یرتکب مکروہ مذہبہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۰، ۲۸۱۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:413

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: واقعی طور پر اگر جماعت میں شریک ہونے والے کچھ یا سبھی حضرات جذامی سے نفرت کرتے ہوں تو اس کو چاہیے کہ کنارے میں کھڑا ہوجائے مگر جماعت سے نماز پڑھنی چاہئے کہ اس میں ثواب بھی زیادہ ہے اور ادا واجب بھی ہے۔(۱)

(۱) والجماعۃ سنۃ مؤکدۃ للرجال … وأقلہا اثنان، … (وقیل: واجبۃ وعلیہ العامۃ) أي: عامۃ مشایخنا وبہ جزم في التحفۃ وغیرہا، قال في البحر: وہو الراجح عند أہل المذہب، (فتسن أو تجب) ثمرتہ تظہر في الإثم بترکہا مرۃ علی الرجال العقلاء البالغین الأحرار القادرین علی الصلاۃ بالجماعۃ من غیر حرج۔ (الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۷ - ۲۹۱)الجماعۃ سنۃ مؤکدۃ … قولہ: (وذکر ہو وغیرہ) قال في النہر: وفي المفید الجماعۃ واجبۃ وسنۃ لوجوبہا بالسنۃ … فمنہا: أن أقلہا إثنان واحد مع الإمام في غیر الجمعۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۱ تا ۴۰۴)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:412

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر واقعی طور پر زید مریض ہے اور اس کو نیند نہیں آتی اور نیند کی گولی یا کیپسول استعمال کرنے پڑتے ہیں اور اس کو اس سے نیند آجاتی ہے اور نیند کی وجہ سے نماز باجماعت فوت ہوجائے تو زید کو چاہئے کہ جب سوکر اٹھے تو فوراً نماز ادا کرلیا کرے اس صورت میں اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ ترک جماعت کا گناہ زید کے ذمہ پر نہ ہوگا۔ 

’’من نام عن صلاۃ أو نسیہاً فلیصلہا إذا ذکرہا فإن ذلک وقتہا‘‘(۱)

مگر سونے کی عادت ڈال لینا کہ ترک جماعت کا باعث بنے گناہ سے خالی نہ ہوگا زید کو چاہئے کہ ایسا معمول بنائے کہ نماز کے وقت تک سوکر اٹھ جائے اور جماعت میں شریک ہوجائے۔(۱) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب من نام عن الصلاۃ أو نسیہا‘‘: ج ۱، ص: ۵۰، رقم: ۶۹۷۔عن أنس بن مالک أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من نسي صلاۃً فلیصلہا حاشیہ… إذا ذکرہا لاکفارۃ لہا إلا ذلک۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب من نام عن الصلاۃ أو نسیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۹، رقم: ۴۴۲)عن أبي ہریرۃ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حین قفل من غزوۃ خیبر، سار لیلہ حتی إذا أدرکہ الکري عرس، وقال لبلال: اکلأ لنا اللیل، فصلی بلال ماقدر لہ، ونام رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأصحابہ، فلما تقارب الفجر استند بلال إلی راحلتہ مواجہ الفجر، فغلبت بلالا عیناہ وہو مستند إلی راحلتہ، فلم یستیقظ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ولا بلال، ولا أحد من أصحابہ حتی ضربتہم الشمس، فکان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أولہم استیقاظا، ففزع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقال: أي بلال، فقال بلال: أخذ بنفسي الذي أخذ، بأبي أنت وأمي یارسول اللّٰہ بنفسک، قال: اقتادوا، فاقتادوا رواحلہم شیئاً، ثم توضأ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وأمر بلالا فأقام الصلاۃ، فصلی بہم الصبح، فلما قضی الصلاۃ قال: من نسي الصلاۃ فلیصلہا إذا ذکرہا، فإن اللّٰہ قال: {أقم الصلاۃ لذکري} (سورۃ طہ: ۱۴) قال یونس: وکان ابن شہاب: یقرؤہا للذکري۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ: باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ واستحباب تعجیل قضائہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۸، رقم: ۶۸۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:411

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: ’’ومن جن أو أغمی علیہ یوماً ولیلۃ قضی الخمس وإن زاد وقت صلاۃ سادسۃ لا للحرج‘‘(۱)

اس سے مسئلہ واضح ہوگیا ہے کہ چوبیس گھنٹہ سے زیادہ بے ہوش رہا اور چھ نمازیں یا اس سے زیادہ فوت ہوگئیں تو قضاء لازم نہیں ہے اور بصورت لزوم قضاء اگر بحالت مرض فوت شدہ نمازوں کو اشارہ سے پڑھ لیگا تو نماز ادا ہوجائے گی۔(۲)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المریض، مطلب: في الصلاۃ في السفینۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۷۳۔(۲) ومن أغمي علیہ خمس صلوات قضی، ولو أکثر لایقضي، والجنون کالإغماء وہو الصحیح، ثم الکثرۃ تعتبر من حیث الأوقات عند محمد رحمہ اللّٰہ تعالیٰ وہو الأصح، ہذا إذا دام الإغماء ولم یفق في المدۃ أما إذا کان یفیق ینظر فإن کان لإفاقتہ وقت معلوم مثل أن یخف عنہ المرض  عند الصبح مثلاً فیفیق قلیلاً ثم یعاودہ فیغمی علیہ تعتبر ہذہ الإفاقۃ فیبطل ماقبلہا من حکم الإغماء إذا کان أقل من یوم ولیلۃ، وإن لم یکن لإفاقتہ وقت معلوم لکنہ یفیق بغتۃ فیتکلم بکلام الأصحاء، ثم یغمي علیہ فلا عبرۃ بہذہ الإفاقۃ، کذا في التبیین۔ ولو أغمی علیہ بفزع من سبع أو آدمي أکثر من یوم ولیلۃ یسقط عنہ القضاء بالإجماع۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع عشر: في صلاۃ المریض‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۷، ۱۹۸)(ومن جن أو أغمی علیہ) ولو بفزع من سبع أو آدمي (یوماً ولیلۃً قضی الخمس وإن زاد وقت صلاۃ) سادسۃ (لا) للحرج۔ ولو أفاق في المدۃ، فإن لإفاقتہ وقت معلوم قضی وإلا لا (زال عقلہ ببنج أو خمر) أو دواء (لزمہ القضاء وإن طالت) لأنہ بصنع العباد کالنوم۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المریض‘‘: ج ۲، ص: ۵۷۳، ۵۷۴)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:410

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز کے جو ار کان اصل ہیئت کے مطابق ادا کرنے کی استطاعت ہو ان کو اصل طریقہ کے مطابق ہی ادا کرنا ضروری ہے اور جوار کان ادا کرنے پر بالکل قدرت نہ ہو جیسے مذکورہ صورت ہے انہیں کرسی پر بھی ادا کیا جاسکتا ہے، تاہم رکوع کے مقابلہ سجدہ کے لیے زیادہ جھکے اتنا کافی ہے، دوسری کرسی پر سجدہ کرنا غیر ضروری اور خلاف سنت ہے اس سے پرہیز کرے۔(۱)

(۱) (وإن تعذرا) لیس تعذرہما شرطا؛ بل تعذر السجود کاف (لا القیام أومأ) بالہمز (قاعدا)؛ قولہ: (أومأ قاعداً) لأن رکنیۃ القیام للتوصل إلی السجود فلا یجب دونہ وہو أفضل من الإیماء قائماً لقربہ من الأرض۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃالمریض‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۷، ۵۶۸)وإذا لم یقدر علی القعود مستویا وقدر متکئا أو مستندا إلی حائط أو إنسان یجب أن یصلی متکئا أو مستندا، کذا في الذخیرۃ ولا یجوز لہ أن یصلي مضطجعا علی المختار، کذا في التبیین۔ وإن عجز عن القیام والرکوع والسجود وقدر علی القعود یصلی قاعدا بإیماء ویجعل السجود أخفض من الرکوع، کذا في فتاوی قاضي خان حتی لو سوی لم یصح، کذا في البحر الرائق، وکذا لو عجز عن الرکوع والسجود وقدر علی القیام فالمستحب أن یصلي قاعدا بإیماء وإن صلی قائما بإیماء جاز عندنا، ہکذا فی فتاوی قاضي خان۔ والمومئی یسجد للسہو بالإیماء، کذا في المحیط ویکرہ للمومئی أن یرفع إلیہ عودا أو وسادۃ لیسجد علیہ فإن فعل ذلک ینظر إن کان یخفض رأسہ للرکوع ثم للسجود أخفض من الرکوع جازت صلاتہ، کذا في الخلاصۃ ویکون مسیئا ہکذا فی المضمرات، وإن کان لا یخفض رأسہ؛ لکن یوضع العود علی جبہتہ لم یجز ہو الأصح، فإن کانت الوسادۃ موضوعۃ علی الأرض وکان یسجد علیہا جازت صلاتہ، کذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع عشر: في صلاۃ المریض‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۶، ۱۹۷)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:409

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: معذور مسجد میں آگیا تو جماعت کے ساتھ کیوں نماز نہیں پڑھ سکتا اس کی وضاحت کی جائے تاہم جماعت کے بعد نماز پڑھنی چاہئے جماعت ہوتے ہوئے معذور کا الگ نماز پڑھنا عذر کی وجہ سے بھی مناسب نہیں لیکن اگر پڑھ لی گئی تو نماز ہو جائے گی۔(۱)

(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من سمع المنادي فلم یمنعہ من اتباعہ، عذر، قالوا: وما العذر؟ قال: خوف أو مرض، لم تقبل منہ الصلاۃ التي صلی۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب في التشدید في ترک الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۱، رقم: ۲۶۶)

والجماعۃ سنۃ مؤکدۃ للرجال۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۷)

قال في شرح المنیۃ: وکذا الأحکام تدل علی الوجوب من أن تارکہا من غیر عذر یعزر، وترد شہادتہ، ویأثم الجیران بالسکوت عنہ۔ (حلبی کبیر: ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في الإمامۃ‘‘: ص: ۴۰۲)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:408