تجارت و ملازمت

Ref.  No.  3013/46-4802

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کرنسی کی آن لائن خریدوفروخت  'بیع صرف' کہلاتی ہے، بیع صرف میں ایک اہم شرط یہ ہوتی ہے کہ معاملہ نقد ہو، ادھار معاملہ ناجائز ہوتاہے۔ اس لئے اگر آن لائن خریدوفروخت کے اندر  ایک ہی مجلس میں دونوں فریق اپنی اپنی کرنسی پر قبضہ کرلیں تو کاروبار کی یہ صورت جائز ہے ، اور اس کی آمدنی بھی حلال ہے۔ تاہم چونکہ آن لائن کرنسی کا معاملہ عموما ادھار ہی ہوتاہے اس  اگر یہ معاملہ ادھار ہوا تو بیع صرف فاسد ہوگی اور معاملہ سودی ہوکر حرام ہوجائے گا۔جواز کی شرائط کے ساتھ آپ خود آن لائن کرنسی خرید کر مہنگے داموں پر بیچیں یا  کسی کو (ماہانہ یا سالانہ ) اجرت پر رکھ کر یہ کام کرائیں دونوں صورتیں جائز ہیں۔  سودی معاملات میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔

"(هو) لغةً: الزيادة. وشرعاً: (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنساً بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة، (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزناً، (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق)، وهو شرط بقائه صحيحاً على الصحيح، (إن اتحد جنساً وإن) وصلية (اختلفا جودةً وصياغةً) ؛ لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء، (فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافاً أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس (صح)." شامی، کتاب البیوع، باب الصرف، ج: 5، صفحہ:  257، ط: ایچ، ایم، سعید)

"(وأما شرائطه) فمنها قبض البدلين قبل الافتراق."(الھندیۃ، كتاب الصرف، الباب الأول في تعريف الصرف وركنہ وحكمہ وشرائطہ، ج:3، صفحہ :217، ط: دار الفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref.  No.  3012/46-4800

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حرمت مصاہرت کے ثبوت کے لئے یقینی طور پر حرارت کے احساس کے ساتھ  شہوت کاپایا جانا ضروری ہے، شبہہ اور جھوٹے اقرارسے حرمت مصاہرت کا تحقق نہیں ہوگا، لہذا اگر شہوت پیدا نہیں ہوئی تھی   یقینی طور پر تو ایسی صورت میں حرمت ثابت نہیں ہوگی، اور خالہ کی لڑکی سے رشتہ جائز ہوگا۔ سوال میں اگر آپ غلط بیانی کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے سخت مواخذہ کا اندیشہ ہے، اس لئے صحیح صورت  حال سامنے رکھ کر ہی عملی اقدام کریں۔

قوله: بحائل لا يمنع الحرارة) أي ولو بحائل إلخ، فلو كان مانعا لا تثبت الحرمة، كذا في أكثر الكتب، وكذا لو جامعها بخرقة على ذكره، فما في الذخيرة من أن الإمام ظهير الدين أنه يفتى بالحرمة في القبلة على الفم والذقن والخد والرأس، وإن كان على المقنعة محمول على ما إذا كانت رقيقة تصل الحرارة معها بحر.(قوله: وأصل ماسته) أي بشهوة قال في الفتح: وثبوت الحرمة بلمسها مشروط بأن يصدقها، ويقع في أكبر رأيه صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقاه أو يغلب على ظنهما صدقه، ثم رأيت عن أبي يوسف ما يفيد ذلك. اهـ"(شامی، كتاب النكاح،  فصل في المحرمات (3/ 33)، ط. سعيد)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref.  No.  3014/46-4801

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  راشد کے مکان کا ایک حصہ  جوبہن کی زمین پر بناہوا ہے،وہ  بہن نے بیچ دیا ہے اورخریدنےوالے نے اس کو وقف کردیاہے، تو ایسی صورت میں راشد پر لازم ہوگا کہ وقف کی زمین کو خالی کرے۔ وقف زمین کو بیچنا جائز نہیں ہے اس لئے راشد سےاس زمین کی قیمت نہیں لی جاسکتی  ہے۔

وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما". (الفتاوى العالمگيرية: 2/ 350، ط دار الفكر)

’’شرط الواقف كنص الشارع، أي في المفهوم والدلالة و وجوب العمل به‘‘. (حاشية ابن عابدين، 4/433 ط: سعید)

"والحاصل أن ههنا مسألتين: الأولى أن بيع الوقف باطل ولو غير مسجد خلافا لمن أفتى بفساده." (حاشية ابن عابدين، كتاب البيوع، باب بيع الفاسد 5/57 ط: سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 3010/46-4803

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

 All Shias are not infidels, but those whose beliefs are in accordance with the beliefs of the people of Islam are Muslims, and those who do not hold the beliefs of the people of Islam are called infidels. Among the Shias those who are out of faith, their beliefs are clearly against the Qur'an and Sunnah. They believe that Hazrat Jibreel betrayed the revelation; they believe that the Qur'an is distorted and the Qur'an is not safe. How can they be called Muslims with these beliefs?  Ahle-Sunnat consider these shia kafir. And the Shias who do not hold these beliefs are yet Muslims.

However, it is also worth noting that these people hide their blasphemous beliefs as taqiyyah, and say that doing taqiyyah, - lying and hiding their blasphemous beliefs - is not only permissible but is part of their worship and religion. The belief of the Shias about Imamat is also a revolt against seal of the Prophet and it is an open conspiracy against Islam, and it is also disbelief.

When you read about them, you will realize how different their beliefs are from the beliefs of Ahle-Sunnat. Therefore, marriage with them is not permissible. Yes, the Shias whose beliefs are in accordance with the basic beliefs of the people of Islam and but they disagree on a few things, they are not infidels, but they will definitely be called the misguided due to these wicked things, therefore marriage with such people will be permitted in Sharia, however. For the sake of expediency, they have been forbidden to marry; otherwise there is a threat and fear of corruption after marriage.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Divorce & Separation

Ref. No. 3009/46-4792

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق کا محض خیال آنا اور اس پر طلاق کی نیت کرلینا وقوع طلاق کے لئے کافی نہیں ہے۔ وقوع طلاق کے لئے زبان سے الفاظ کا ادا کرنا ضروری ہے۔ اگر صریح لفظ طلاق کے لئے استعمال کیاجائے تو اس میں نیت کی ضروررت نہیں ہوتی اور اگر کوئی لفظ کنائی بولا تو اس میں طلاق دینے کی نیت ہو گی تو طلاق ہوتی ہے ورنہ نہیں ۔ پس صورت مسئولہ میں چونکہ کسی لفظ کا تلفظ نہیں کیا اس وجہ سے صرف طلاق کا خیال آنے اور اس پر نیت کرلینے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اس لئے آپ کی نیت طلاق کی ہو یا تعلیق طلاق کی بلاتلفظ کے دونوں غیرمعتبر ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Divorce & Separation

Ref. No. 3008/46-4794

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق کالفظ دیکھنا اور اس پر طلاق کی نیت کرنا وقوع طلاق کے لئے کافی نہیں ہے۔ وقوع طلاق کے لئے زبان سے الفاظ کا ادا کرنا ضروری ہے۔ اگر صریح لفظ طلاق کے لئے استعمال کیاجائے تو اس میں نیت کی ضروررت نہیں ہوتی اور اگر کوئی لفظ کنائی بولاجائے تو اس میں طلاق دینے کی نیت ہو گی تو طلاق ہوتی ہے ورنہ نہیں ۔ پس صورت مسئولہ میں چونکہ کسی لفظ کا تلفظ نہیں کیا  ، دوسرے کی طلاق کو دیکھ کر اس میں اپنی بیوی کو طلاق دینے کی نیت کرنا معتبر نہیں ہے، اس لئے وسوسہ سے باہر نکلئے اور آئندہ اس طرح کی باتوں پر دھیان نہ دیجئے، آپ کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے۔ ایسی ویڈیو اور آڈیو محفوظ کرنے اور چلانے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref.  No.  3007/46-4791

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔

اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوںکہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔  ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔  ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔

 صورت مسئولہ میں شوہر نے تعلیق نہیں کی ہے، تعلیق الگ ہے اور طلاق الگ ہے۔ ماں کی ناراضگی کو بتاتے ہوئے ان سے تنجیزا تین طلاقیں دی ہیں۔ یہ تعلیق، طلاق کو ماں کے نظریہ پر محمول کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ ماں سے ناراضگی کے اظہار کے لئے ہے۔ اس لئے اس تعلیق کا طلاق سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ طلاق فوری طور پر واقع ہوگئی ہے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref.  No.  3006/46-4793

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر سوال میں مذکورہ امور واقعی ہیں تو یقینا یہ امور غیرشرعی ہونے کے ساتھ  غیراخلاقی بھی ہیں۔ نیز دعا و تعویذ میں شرکیہ کلمات اور غیراللہ کے نام سے استعانت وغیرہ امور حرام بھی ہیں، اس لئے ایسے عامل سے علاج کرانا جائز نہیں ہے۔

وأما ما کان من الآیات القرآنیۃ والأسماء والصفات الربانیۃ والدعوات المأثورۃ النبویۃ فلا بأس بل یستحب سواء کان تعویذا أو فیہ أو نشرۃ وأما علی لفۃ العبرانیۃ نحوہا فیمتنع لاحتمال الشرک فیہا‘‘ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’الفصل الثاني: کتاب الطب والرقي‘‘: ج ۷، ص: ۱۸۱، رقم: ۴۵۵۳۔)  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2963/46-4761

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  میت کی جائداد  میں اس کے ورثاء کا حق شرعی طور پر ثابت ہوتاہے، اس میں کسی کے دعوی کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ ہر تقسیم کرنے والے پر لازم ہے کہ وراثت تقسیم کرتے وقت تمام حقداروں کو ان کا حق  تقسیم کرے، اور صرف اپنا حق وصول کرے، دیگر ورثہ کا حق چھوڑدے ۔  اگر کوئی جائداد پہلےسے تقسیم شدہ  نہیں ہے تو اب جلد از جلد اس کو تقسیم کرلیا جائے۔ صورت مسئولہ میں دادا کو جو پشتینی زمین ورثہ میں ملی  ہے اس میں ان کی تمام اولاد کا حق ہے۔ اس لئے جس طرح دو بیٹے وراثت کے مستحق ہیں ان کی چار بیٹیاں بھی وراثت کی مستحق ہیں۔ اب جبکہ دادا کے انتقال کے بعد تمام  چچا اور پھوپھی  بھی مرچکے ہیں تو ان کا جو حق بنتاہے اس کو ان کی اولاد کے حوالہ کردیاجائے وہ آپس میں شرعی طور پر تقسیم کرلیں گے۔ ان کے نام دنیاوی کاغذات میں گرچہ شامل نہ ہوں  مگر اللہ کے یہاں ان کا حق متعین ہے، اس کو دنیا کے رسم و رواج سے ختم نہیں کیاجاسکتاہے۔ اس لئے پھوپھیوں کی اولاد کو ان کا حق دیاجائے اور ان کو بتایاجائے کہ یہ آپ کا شرعی حق ہے، اور مقدار یہ ہے ، اور ان کو اپنے حصے پر قبضہ کا مکمل اختیار دیدیاجائے۔ اس کے باوجود جو ان میں سے لینے سے انکار کرے تو پھر  اس کا حصہ دیگر ورثاء میں شرعی طریقہ پر تقسیم کردیاجائے۔ ح جولوگ ناحق دوسروں کا مال کھائیں گے اور وراثت کی تقسیم شریعت کے مطابق  نہیں کریں گے ان سے قیامت میں بازپرس ہوگی۔  

قال اللہ تعالیٰ:{ يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (11} [النساء: 11] "عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «ألا من ظلم معاهدا، أو انتقصه، أو كلفه فوق طاقته، أو أخذ منه شيئا بغير طيب نفس، فأنا حجيجه يوم القيامة»" سنن أبي داود (3/ 171) قالَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - : "(وَإِنْ أَخْرَجَتْ الْوَرَثَةُ احَدَهُمْ عَنْ عَرَضٍ أَوْ عَقَارٍ بِمَالٍ، أَوْ عَنْ ذَهَبٍ بِفِضَّةٍ، أَوْ بِالْعَكْسِ) أَيْ عَنْ فِضَّةٍ بِذَهَبٍ (صَحَّ قَلَّ، أَوْ كَثُرَ) يَعْنِي قَلَّ مَا أَعْطَوْهُ أَوْ كَثُرَ؛ لِأَنَّهُ يُحْمَلُ عَلَى الْمُبَادَلَةِ؛ لِأَنَّهُ صُلْحٌ عَنْ عَيْنٍ وَلَا يُمْكِنُ حَمْلُهُ عَلَى الْإِبْرَاءِ إذْ لَا دَيْنَ عَلَيْهِمْ وَلَا يُتَصَوَّرُ الْإِبْرَاءُ عَنْ الْعَيْنِ۔ "تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (5/ 49) وقال العلامۃ الشبلی –رحمہ اللہ- : " قَالَ الْأَتْقَانِيُّ مَعْنَى التَّخَارُجِ أَنْ يُصَالِحَ بَعْضُ الْوَرَثَةِ مِنْ نَصِيبِهِ عَلَى شَيْءٍ فَيَخْرُجُ مِنْ الْبَيْنِ وَإِنَّمَا أَخَّرَ هَذَا الْفَصْلَ لِقِلَّةِ وُقُوعِهِ؛ لِأَنَّ كُلَّ أَحَدٍ لَا يَرْضَى بِأَنْ يَخْرُجَ مِنْ الْبَيْنِ بِشَيْءٍ يَأْخُذُهُ؛ لِأَنَّ الظَّاهِرَ أَنَّ الَّذِي يَأْخُذُهُ دُونَ نَصِيبِهِ. اهـ. (قَوْلُهُ وَلَا يُتَصَوَّرُ الْإِبْرَاءُ) أَيْ؛ لِأَنَّ الْإِبْرَاءَ عَنْ الْأَعْيَانِ غَيْرِ الْمَضْمُونَةِ لَا يَصِحُّ. اهـ " حاشية الشلبي (5/ 49)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حج و عمرہ

Ref.  No.  3005/46-4807

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی عورت کا  بغیر محرم مرد کےسفر شرعی پر جانا جائز نہیں ہے،  وہ عورت جو بغیر محرم مرد کے سفر کرتی ہے، اس کے لئے حدیث میں سخت  ممانعت  وارد ہے، اس لئے جب تک محرم مرد یعنی عورت کا بھائی ، باپ چچا یا شوہر وغیرہ ساتھ میں نہ ہو اس کا سفر کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لئے ابھی اپنی بیوی کو ماں اور بھائی کے ساتھ ہرگز نہ بھیجیں، جب استطاعت ہوجائے تو اپنی بیوی کے ساتھ خود آپ جائیں یا کسی محرم مرد کو اس کے ساتھ بھیج دیں۔ عمرہ کا سفر ایک مبارک سفر ہے، غیرشرعی طریقہ پر عمرہ پر جانا ہرگز مناسب نہیں ہے۔"عن عبد الله بن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر، تسافر مسيرة ثلاث ليال، إلا ومعها ذو محرم۔ (الصحیح لمسلم، 1/433، کتاب الحج، ط: قدیمی)" عن ابن عباس رضي الله عنهما، أنه: سمع النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: «لا يخلونّ رجل بامرأة، ولا تسافرنّ امرأة إلا ومعها محرم»، فقام رجل فقال: يا رسول الله، اكتتبتُ في غزوة كذا وكذا، وخرجت امرأتي حاجةً، قال: «اذهب فحجّ مع امرأتك»". (صحيح البخاري (4/ 59(ومنها المحرم للمرأة) شابة كانت أو عجوزا إذا كانت بينها وبين مكة مسيرة ثلاثة أيام هكذا في المحيط، وإن كان أقل من ذلك حجت بغير محرم كذا في البدائع (الھندیۃ: (218/1، ط: دار الفکر)

والمحرم في حق المرأۃ شرط، شابۃ کانت أو عجوزا۔ -إلی قولہ-: والمحرم الزوج ومن لا یجوز لہ مناکحتہا علی التأبید برضاع، أو صہریۃ۔(الفتاوی التاتارخانیة: (474/3، ط: زکریا)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند