Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:تین دن سے ناپاک مانا جائے گا اور تین دن کی نمازوں کا اعادہ کیا جائے گا۔(۲)
(۲) و یحکم بنجاستھا مغلظۃ من وقت الوقوع إن علم، و إلا فمذ یوم و لیلۃ إن لم ینتفخ ولم یتفسخ، و ھذا في حق الوضوء والغسل۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، فصل في البئر، ج ۱، ص:۳۷۵)، و تنجسھا أي البئر من وقت الوقوع إن علم و إلا فمنذ یوم و لیلۃ إن لم ینتفخ، و إن انتفخ أو تفسخ فمنذ ثلاثۃ أیام و لیالیھا۔ (محمد بن فرامرز، دررالحکام شرح غرر الأحکام، فصل بئر دون عشر في عشر وقع فیھا نجس،ج ۱، ص:۲۶)؛ و إن لم ینتفخ الواقع أو لم یتفسخ و من ثلاثہ أیام ولیالیھا إن اننتفخ أو تفسخ۔ (عبدالرحمن بن محمد، مجمع الأنہر في شرح ملتقی الأبحر، کتاب الطہارۃ، فصل تنزح البئر لوقوع نجس، ج۱، ص:۵۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص467
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ذکرو اذکار بلا وضو جائز ہے؛ مگر بہتر اور افضل یہ ہے کہ یہ اذکار ووظائف بھی وضو کے ساتھ کرے، تاکہ اجرو ثواب میں اضافہ ہو، نیز شیطانی وساوس سے باوضو شخص کی حفاظت ہوتی ہے تاکہ یہ بھی نصیب ہو جائے۔(۱)
(۱)و یجوز لہ الذکر والتسبیح والدعاء۔ (ابراہیم بن محمد، مجمع الأنہر في شرح ملتقی الأبحر ،فصل، ج۱، ص:۴۳)؛ و الحائض أوالجنب إذا قال: الحمد للّٰہ علی قصد الثناء لا بأس بہ۔ (علی بن عثمان، الفتاویٰ السراجیہ، طہارۃ، ’’باب الحیض والنفاس،‘‘ج۱،ص:۷۹)(شاملۃ)؛ و أما الأذکار فلم یر بعضھم بمسہ باساً۔ والأولیٰ عند عامۃ المشائخ لا یمس إلا بحائل کما في غیرہ۔ (بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ،’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض والاستحاضہ،فروع فیما یکرہ للحائض والجنب‘‘،ج۱،ص:۶۵۰)
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص137
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: دودھ پاک ہے؛ لہٰذا دودھ پلانے سے وضو نہیں ٹوٹے گا کیوںکہ ناپاک چیز کے جسم سے نکلنے سے وضو ٹوٹتا ہے؛ البتہ اگر نماز میں ہو، بچہ دودھ پی لے اور دودھ نکل آئے، تو نماز فاسد ہوجائے گی؛ اس لیے کہ دودھ پلانا عمل کثیر ہے اور اگر دودھ نہ نکلے، تو نماز فاسد نہ ہوگی۔
و ینقضہ خروج کل خارج منہ(۳) و ینقضہ خروج نجس منہ أي ینقض الوضوء خروج نجس منہ أو مص ثدیھا ثلاثا أو مرۃ و نزل لبنھا أو مسھا بشھوۃ أو قبلھا بدونھا فسدت۔ وفي المحیط إن خرج اللبن فسدت لأنہ یکون إرضاعا۔(۴) المرأۃ إذا ارضعت ولدھا في الصلوٰۃ تفسد صلاتھا ولو جاء الصبي وارتضع من ثدیھا وھي کارھۃ فنزل لبنھا فسدت صلاتھا، و إن مص مصۃ أو مصتین ولم ینزل لبنھا لم تفسد صلاتھا۔ صبي مص ثدي امرأۃ مصلیۃ إن خرج اللبن فسدت و إلا فلا۔(۱)
(۳) ابن عابدین رد المحتا ر، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب نواقض الوضوء،‘‘ج۱، ص:۲۶۰
(۴) ابن عابدین ،ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ و مایکرہ فیھا، مطلب في المشي في الصلاۃ،‘‘ ج ۲، ص:۳۹۰
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، النوع الثاني، في الأفعال المفسدۃ للصلاۃ،‘‘ ج ۱، ص:۱۶۲
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص237
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق: سوال میں جو حالات لکھے ہیں ان کے پیش نظر امام موصوف نے اگر مذکورہ عمل کیا تو کوئی غلطی یا شرعی جرم نہیں کیا نکتہ چینی کرنے والے یا امام سے مذکورہ وجہ کی بناء پر معافی کا مطالبہ کرنے والے غلطی پر ہیں امام واجب التعظیم ہے۔ مذکورہ مطالبہ امام کی حرمت اور عزت کے منافی اور غیر شرعی ہے جو موجب گناہ ہے۔ امام مذکور کے پیچھے نماز پڑھنی بلاشبہ جائز اور درست ہے۔(۱)
(۱) ولو أم قوما وہم لہ کارہون، إن) الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ فیکرہ لہ ذلک تحریما؛ لحدیث أبي داؤد: لا یقبل اللّٰہ صلاۃ من تقدم قوما وہم لہ کارہون،(وإن ہو أحق لا)، والکراہۃ علیہم، (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۹۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص97
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں باہمی مشورے سے جو امام صاحب کا تقرر کیا گیا ہے وہ بالکل صحیح اور درست کیا ہے مرحوم امام صاحب کے کسی وارث کے لیے اس میں دخل دینا اور اپنے تقرر پر اصرار کرنا یا اپنا کوئی حق سمجھنا جائز نہیں ہے اہل محلہ پر ان کا تقرر ضروری نہیں ہے امامت کے لیے جو زیادہ مفید اور لائق ہو اسی کو امام بنانا چاہئے اس لیے بشرط صحت سوال نئے امام کا جو تقرر کیا گیا ہے وہ درست ہے۔(۱)
(۱) ولایۃ الأذان والإقامۃ لباني المسجد مطلقًا وکذا الإمامۃ لوعدلا، مطلقًا أي عدلا أولا، وفي الأشباہ ولد الباني وعشیرتہ أولٰی من غیرہم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب ہل باشر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم الأذان بنفسہ‘‘: ج۲، ص: ۷۱، دارالفکر)
الأولٰی بالإمامۃ أعلمہم بأحکام الصلاۃ ہکذا فيالمضمرات وہو الظاہر ہکذا في البحر الرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۲، دارالفکر)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص311
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مذکورہ میں دونوں صورتیں درست ہیں، امام بھی آگے بڑھ سکتاہے اور مقتدی بھی پیچھے ہوسکتے ہیں، ایسے مقامات میں عام طورپر ایسا کرسکتے ہیں کہ مقتدی کو آہستہ سے کھینچ کر پیچھے کردیا جائے شرط یہ ہے کہ مقتدی کی نماز کے فساد کا اندیشہ نہ ہو۔(۲)
(۲) إذا اقتدی بإمام فجاء آخر یتقدم الإمام موضع سجودہ کذا في مختارات النوازل۔…وفي القہستاني عن الجلابي أن المقتدي یتأخر عن الیمین إلی خلف إذا جاء آخر۔اہـ وفي الفتح: ولو اقتدی واحد بآخر فجاء ثالث یجذب المقتدي بعد التکبیر ولو جذبہ قبل التکبیر لا یضرہ، وقیل یتقدم الإمام اہـ۔ ومقتضاہ أن الثالث یقتدي متأخرا ومقتضی القول بتقدم الإمام أنہ یقوم بجنب المقتدي الأول۔ والذي یظہر أنہ ینبغي للمقتدي التأخر إذا جاء ثالث فإن تأخر وإلا جذبہ الثالث إن لم یخش إفساد صلاتہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص423
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: راجح قول کے موافق چوں کہ دونوں سجدے نماز کے فرض ہیں اس لیے ایک سجدہ فرض چھوٹ گیا اور فرض کے چھوٹ جانے سے نماز کا اعادہ فرض ہوتا ہے پس سجدہ سہو اس کے لیے ناکافی ہے اور اعادہ اس نماز کا فرض ہے۔(۲)
(۲) ومنہا السجود والسجود الثاني فرض کالأول بإجماع الأمۃ کذا في الزاہدي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ، ومنہا: السجود‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۷، زکریا)
وتکرارہ تعبد أي تکرار السجود أمر تعبدي أي لم یعقل معناہ علی قول أکثر المشایخ تحقیقاً للابتلاء وقیل ثني ترغیما للشیطان حیث لم یسجد مرۃ فنحن نسجد مرتین۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، بحث الرکوع والسجود‘‘: ج۲، ص: ۱۳۵)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص336
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز استسقاء کا طریقہ یہ ہے کہ لوگ کسی میدان یا عیدگاہ میں جمع ہو جائیں، لباس معمولی ہو، نئے کپڑے بدل کر نہ جائیں، کسی غیر مسلم کو ساتھ نہ لیں، بوڑھے جوان سب ہی جمع ہوں، جمع ہونے سے قبل جس کے ذمہ قرض یا حقوق کسی کے ہوں ان کی ادائیگی کی حتی الامکان کوشش کریں، جمع ہو کر دو رکعت نماز بغیر اذان اور اقامت کے جماعت سے پڑھیں، امام دونوں رکعتوں میں قرأت جہری کرے، نماز کے بعد امام دو خطبے پڑھے جس طرح عید کے دن دو خطبے پڑھے جاتے ہیں اس کے بعد امام قبلہ کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو کر اللہ تعالیٰ سے پانی برسنے کی دعاء کرے اور استغفار کریں اور سب نمازی بھی انتہائی خشوع وخضوع اور گریہ وزاری کے ساتھ دعا کریں، تین روز تک ایسا ہی کریں(۱) امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ امام پہلا خطبہ پڑھ کر چادر کو بھی پلٹے، یعنی داہنا رخ بائیں جانب نیچے کا اوپر اور اوپر کا نیچے کرلے۔ فتویٰ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے ہی قول پر ہے۔(۲)
(۱) باب الاستسقاء۔ ہو دعاء واستغفار لأنہ السبب لإرسال الأمطار بلا جماعۃ مسنونۃ، بل ہي جائزۃ و بلا خطبۃ وقالا: تفعل کالعید، وہل یکبر للزوائد؟ خلاف و بلا قلب رداء خلافاً لمحمد و بلا حضور ذمي وإن کان الراجح أن دعاء الکافر قد یستجاب استدراجاً، وأما قولہ تعالیٰ {وما دعاء الکافرین إلا في ضلال} (سورۃ الغافر: ۵۰) ففي الآخرۃ۔ شروح۔ مجمع۔ وإن صلوا فرادی جاز … ویخرجون ثلاثۃ أیام متتابعات مشاۃ في ثیاب غسیلۃ أو مرقعۃ متذللین متواضعین خاشعین للّٰہ ناکسین رؤوسہم، ویقدمون الصدقۃ في کل یوم قبل خروجہم، ویجددون التوبۃ، ویستغفرون للمسلمین، ویستسقون بالضعفۃ والشیوخ۔ (الحصکفي: الدرالمختار مع رد المحتار’’کتاب الصلاۃ، باب الاستسقاء‘‘: ج ۳، ص: ۷۰- ۷۲، زکریا دیوبند)
(۲) واختار القدوري قول محمد، لأنہ علیہ الصلاۃ والسلام فعل ذلک نہر۔ وعلیہ الفتوی کما في شرح درر البحار۔ قال في النہر: وأما القوم فلا یقلبون أردیتہم عند کافۃ العلماء، خلافاً لمالک۔ (الحصکفي: رد المحتار مع الدرالمختار ’’کتاب الصلاۃ، باب الاستسقاء‘‘: ج ۳، ص: ۷۱، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص392
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1003
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں آیت کریمہ مذکورہ کے چھوڑنے کی وجہ سے معنی میں ایسا تغیر پیداہوگیا جس سے سورت کا مقصد ہی فوت ہوگیا، اس لئے نماز فاسد ہوگئی۔ نماز کااعادہ لازم ہے۔ ولوزاد کلمۃ او نقص کلمۃ او نقص حرفا او قدمہ او بدلہ بآخر۔۔۔۔ لم تفسد مالم یتغیرالمعنی (شامی ج1 ص633)
جس نماز میں ایسا ہوا ہے اسی نماز میں احتیاطا تین دن اعلان کردیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو معلوم ہوجائے اور وہ اعادہ کرلیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 38 / 1072
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: مذکورہ مسئلہ کی دوصورتیں ہیں: (1) بیٹا کماکر باپ کو دیتا ہے اور صراحۃ ً یا عرفاً باپ کو مالک بناتا ہے۔ (2) کماکر باپ کو دیتا ہے اور باپ کو مالک نہیں بناتا ہے۔ ؛ پہلی صورت میں وہ مال باپ کی ملکیت ہے اور اس میں وراثت جاری ہوگی، اور دوسری صورت میں وہ خود بیٹے کی ملکیت ہے۔ (مشکوۃ شریف، ہدایہ)۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند