Frequently Asked Questions
طلاق و تفریق
Ref. No. 40/1029
الجواب وباللہ التوفیق:
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ احکام شرعیہ سے ناواقفیت قابل قبول عذر نہیں ہے؟ لہذا صورت مسئولہ میں شرعی اعتبار سے فقہ حنفی میں تین طلاقیں واقع ہوگئیں۔ اب واپسی کی کوئی شکل نہیں ہے۔ عورت عدت گزار کر کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1069/41-229
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ جمعہ کے صحیح ہونے کے لئے شہر، قصبہ یا قریہ کبیرہ کا ہونا ضروری ہے۔ چھوٹے گاؤں میں جمعہ کی نماز درست نہیں ہے۔ بڑے گاؤں کی تشریح میں علماء نے قریب تین ہزار کی آبادی کی بات لکھی ہے۔ آپ نے گاؤ ں کے جو احوال لکھے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ چھوٹا گاؤں ہے جس میں جمعہ درست نہیں ہے ۔
بہتر ہوگا کہ کسی قریبی مستند ادارے کے دو مفتیان کرام سے گاؤں کا معائنہ کرادیا جائے ؛ معائنہ کے بعد وہ حضرات جو فرمائیں اسی پر عمل کرلیاجائے۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ امانت علی قاسمی
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1278/42-617
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پہلی طلاق کے بعد رجوع کرکے آپ ساتھ رہتے رہے، پھر آپ نے اب دوسری طلاق دی ہے، تو گرچہ پہلی طلاق یاد نہیں تھی لیکن یہ دوسری طلاق بھی واقع ہوگئی۔ اب پھر رجوع کرکے اپنی بیوی کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔البتہ اس کا خیال رکھیں کہ آئندہ صرف ایک طلاق اور باقی ہے، اگر آپ نے تیسری طلاق بھی دیدی تو آپ کی بیوی سے آپ کا نکاح مکمل طور پر ختم ہوجائے گا اور دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوگا۔ اس لئے اگر آئندہ پھر کبھی ایسی نوبت آئے تو آپسی مصالحت سے اس کو حل کرنے کی کوشش کریں اور طلاق ہرگز نہ دیں۔ الطلاق مرتان، فامساک بمعروف او تسریح باحسان الی قولہ فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ (القرآن: 229/2)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1402/42-817
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر مقتدی نے امام کو قیام کی حالت میں پایا اور امام قرات نہیں کررہاہے تو مقتدی ثنا پڑھ کرامام کے پیچھے خاموش کھڑا رہے۔ اور امام کے ساتھ نماز پڑھتارہے۔ پھر امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی چھوٹی رکعت ادا کرنے کے لئے کھڑا ہو تو تعوذ وتسمیہ اور قرات سے شروع کرے، اور ثنا نہ پڑھے۔
(منها) أنه إذا أدرك الإمام في القراءة في الركعة التي يجهر فيها لا يأتي بالثناء. (الفتاوی الھندیۃ، الفصل السابع فی المسبوق واللاحق 1/90)
فقلنا: بأن المسبوق يأتي بالثناء متى دخل مع الإمام في الصلاة حتى يقع الثناء في محله وهو ما قبل أداء الأركان، واعتبرنا الحكم فيما أدرك، وفيما يقضي في حق القراءة، فجعلنا ما أدرك صلاته وما يقضي أول صلاته، فتجب القراءة عليه، فيما يقضي؛ لأن القراءة ركن لا تجوز الصلاة بدونها (المحیط البرھانی فی الفقہ النعمانی، الفصل الثالث والثلاثون فی حکم، 2/209)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 1893/43-1785
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وہ اخراجات جوپیداوار حاصل کرنے کے لئے زراعت کے امور میں سے ہوتے ہیں، وہ اخراجات عشر ادا کرنے سے پہلے منہا نہیں کیے جائیں گے۔البتہ پیداوار تیار ہونے کے بعد اس کی کٹائی اور اس کے بعد پیداوار کو منڈی تک پہنچانے وغیرہ کے اخراجات عشر ادا کرنے سے پہلے منہا کیے جاسکتے ہیں ۔
ٹھیکے پر لینے کی صورت میں اگر کل پیداوار ٹھیکے دار کی ہوگی تو اسی پر عشر ادا کرنا لازم ہوگا، اور اس میں وہی تفصیل ہے جو ابھی بیان ہوئی، اور ٹھیکہ چونکہ امورزراعت میں سے نہیں ہے، ،اس لئے ٹھیکہ کی قیمت منہا کی جائے گی۔ زمین کے مالک پر بصورت تکمیل نصاب، زکوۃ واجب ہوگی۔
"إذا كانت الأرض عشريةً فأخرجت طعاماً وفي حملها إلى الموضع الذي يعشر فيه مؤنة فإنه يحمله إليه ويكون المؤنة منه) الفتاویٰ التاتارخانیہ, کتاب العشر،الفصل السادس فی التصرفات فیما یخرج من الارض، ج: 3، صفحہ:292، ط: زکریا(
قبل رفع مؤن الزرع) بضم الميم وفتح الهمزة جمع المؤنة وهي الثقل والمعنى بلا إخراج ما صرف له من نفقة العمال والبقر وكري الأنهار وغيرها مما يحتاج إليه في الزرع..." الخ) مجمع الأنہر 1 / 216، باب زکاۃ الخارج، ط: دار احیاء التراث العربی(
'' والعشر على المؤجر كخراج موظف، وقالا: على المستأجر كمستعير مسلم۔ وفي الحاوي : وبقولهما نأخذ……..
(قوله: وبقولهما نأخذ) قلت: لكن أفتى بقول الإمام جماعة من المتأخرين كالخير الرملي في فتاواه وكذا تلميذ الشارح الشيخ إسماعيل الحائك مفتي دمشق وقال: حتى تفسد الإجارة باشتراط خراجها أو عشرها على المستأجر كما في الأشباه، ۔۔۔۔۔۔ فإن أمكن أخذ الأجرة كاملة يفتى بقول الإمام، وإلا فبقولهما لما يلزم عليه من الضرر الواضح الذي لايقول به أحد''۔ (الدر المختار مع رد المحتار: کتاب الزکاة، باب العشر، فروع فی زکاة العشر(2/ 334)، ط: سعید(
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
آداب و اخلاق
Ref. No. 2002/44-1952
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اذان کے لئے صالح اور متقی شخص کا انتخاب کرنا چاہئے، اس کے اثرات مرتب ہو ں گے۔ مؤذن کو مزید کسی بزرگ اور کسی بااثر شخصیت سے ملاقات کرائیں شاید ان کی بات سمجھ میں آجائے۔ جب کوئی حیلہ کارگر نہ ہو تو انتظامیہ سے کہیں کہ اس کی جگہ کسی دوسرے متقی اور صالح شخص کو مؤذن مقرر کرے۔
وینبغی أن یکون المؤذن رجلاً عاقلاً صالحاً تقیاً عالماً بالسنۃ ......... ویکرہ اذان الفاسق ولایعاد ھکذا فی الذخیرۃ۔ (عالمگیریۃ ص ۶۰، ج ۱)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے ایمان و عدم ایمان کے بارے میں رجحانات مختلف ہیں نیز کوئی صحیح روایت اس مسئلہ میں نہیں ملتی؛ اس لئے مختار مسلک توقف کا ہے کہ یہ مسئلہ ایمانیات و اعمال سے متعلق نہیں ہے، آخرت میں اس کے بارے میں کسی سے کوئی سوال نہ ہوگا؛ اس لئے اس کی تحقیق نہ کرتے ہوئے خاموشی اختیار کی جائے۔(۱)
(۱) فقد صرح النووي والفخر الرازي بأن من مات قبل البعثۃ مشرکاً فہو في النار، وعلیہ حمل بعض المالکیۃ ما صح من الأحادیث في تعذیب أہل الفترۃ بخلاف من لم یشرک منہم ولم یوجد بل بقي عمرہ في غفلۃ من ہذا کلہ ففیہم الخلاف، وبخلاف من اہتدی منہم بعقلہ کقس بن ساعدۃ وزید بن عمرو بن نفیل فلا خلاف في نجاتہم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب النکاح: باب نکاح الکافر، مطلب: في الکلام علی أبوي النبي وأہل الفترۃ‘‘: ج۳، ص: ۱۸۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 197
اسلامی عقائد
Ref. No. 2438/45-3693
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بہتاہوا خون نجس ہے، اور نجس سے علاج کرنا جائز نہیں ہے، اس لئے مذکورہ پیر کا یہ عمل فاسقانہ ہے، اس سے علاج کرانا بھی درست نہیں ہے۔ پیر کا اپنے مرید کو پان چباکر دینا جائز ہے، اگر مرید کی طبیعت اس پان کو کھانا گوارا کرے تو اس کو استعمال کرسکتاہے، اس لئے کہ آدمی کا جھوٹا پاک ہے۔ البتہ اگر کوئی فاسق آدمی ہو تو اس کا جھوٹا استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔
قُلْ لَّآ اَجِدُ فِيْ مَآ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلٰي طَاعِمٍ يَّطْعَمُهٗٓ اِلَّآ اَنْ يَّكُوْنَ مَيْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِيْرٍ فَاِنَّهٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ (القرآن: سورۃ الانعام ١٤٥)
فسوٴر آدمي مطلقاً ولو جنبا أو کافرًا۔۔۔۔۔ طاہر الفم ۔۔۔۔۔ طاہر (درمختار)
الاسرار المرفوعة: (209/1، ط: موسسة الرسالة)
وَأَمَّا مَا يَدُورُ عَلَى الْأَلْسِنَةِ مِنْ قَوْلِهِمْ سُؤْرُ الْمُؤْمِنِ شِفَاءٌ فَصَحِيحٌ مِنْ جِهَةِ الْمَعْنَى لِرِوَايَةِ الدَّارَقُطْنِيِّ فِي الْأَفْرَادِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ مَرْفُوعًا مِنَ التَّوَاضِعِ أَنْ يَشْرَبَ الرَّجُلُ مِنْ سُؤْرِ أَخِيهِ أَيِ الْمُؤْمِن.
کشف الخفاء: (555/1)
قال ابن نجم لیس بحدیث نعم رواہ الدارقطني عن ابن عباس بلفظ: من التواضع أن یشرب الرجل من سوٴر أخیہ،
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2570/45-3938
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آیت سجدہ کی تلاوت کرنے یا سننے سے سجدہٴ تلاوت واجب ہوتا ہے، صرف ترجمہ یا تفسیر پڑھنے سے اور سننے سے سجدہٴ تلاوت واجب نہیں ہوتا ہے۔ لہذا جتنی آیات سجدہ پڑھی ہیں اتنے سجدے ہی واجب ہوں گے، ان آیات کا ترجمہ و تفسیر سے مزید کوئی سجدہ واجب نہ ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسی صورت اختیار کی جائے کہ تعلیم وغیرہ کا نقصان نہ ہو، اگر امامت وتعلیم کا متبادل نظم ہو سکے، تو جماعت میں جانے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن مذکورہ شخص اگر ملازم ہے، تو شرائط ملازمت کی پابندی ضروری ہے۔ (۱)
(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال تدارس العلم ساعۃ من اللیل خیر من إحیائہا، رواہ الدارمي۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب العلم: الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۳۶، رقم: ۲۵۶)
وعن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مر بمجلسین في مسجدہ فقال کلاہما علی خیر وأحدہما أفضل من صاحبہ أما ہٰؤلاء فیدعون اللّٰہ ویرغبون إلیہ فإن شاء أعطاہم وإن شاء منعہم وأما ہٰؤلاء فیتعلمون الفقہ أو العلم ویعلّمون الجاہل فہم أفضل وإنما بعثت معلماً ثم جلس فیہم۔ رواہ الدارمي۔ (’’أیضاً‘‘: رقم: ۲۵۷)
(فہم أفضل) لکونہم جامعین بین العبادتین وہما الکمال والتکمیل فیستحقون الفضل علی جہۃ التبجیل۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم، الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۴۷۰، رقم: ۲۵۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص325