طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: ایسا کرنا احتیاط کے خلاف ہے۔ بعض صورتوں میں ناپاکی کا اندیشہ ہے؛ اس لیے پہلے ڈبہ کو دھو لینا چاہیے۔ اگر غالب گمان فرش کی ناپاکی کا ہو، تو بالٹی کا پانی ناپاک ہوجائے گا۔(۱)

(۱) ولا بأس بالوضوء والشرب من حب یوضع کوزہ في نواحي الدار مالم یعلم تنجسہ ۔۔۔ إلی: مالم یتیقن النجاسۃ۔ (احمد بن اسماعیل الحنفي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، کتاب الطہارۃ، قبیل: فصل في بیان السؤر،ص:۲۸)؛ والکوز الذي یوضع في نواحي البیت لیغترف بہ من الحب فإن لہ أن یشرب و یتوضأ منہ مالم یعلم أن بہ قذراً (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث: في المیاہ، الفصل الثاني: فیما لا یجوز بہ التوضؤ، ج۱، ص:۷۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص420

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:اگر کنواں شرعی حوض کی طرح دہ در دہ نہ ہواور وہ ناپاک ہو جائے، تو ایک ہی دفعہ میں سارا پانی نکالنا ضروری نہیں ہے، اگر تھوڑا تھوڑا پانی کر کے کئی مرتبہ میں پانی نکالا جائے اور اندازے کے مطابق پورا پانی نکل جائے، تو کنواں پاک ہو جا ئے گا اور پورا پانی جب تک نہ نکلے، اس وقت اس پانی سے دھوئے ہوئے کپڑے اور برتن ناپاک ہوں گے اور ان کپڑوں کو پہن کر جو نماز پڑھی گئی ہے، وہ نماز بھی لوٹائی جائے گی۔(۱)

(۱)و لو نزح بعضہ ثم زاد في الغد نزح قدر الباقي في الصحیح خلاصۃ قولہ ’’خلاصۃ‘‘ و مثلہ في الخانیۃ، وھو مبني علی أنہ لا یشترط التوالي وھو المختار: (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، فصل في البئر،ج ۱، ص:۳۶۹)؛ و لا یشترط التوالي في النزح حتی لو نزح في کل یوم دلو، جاز۔(ابن نجیم، البحر الرائق، کتاب الطہارۃ، ج۱، ص:۲۰۹)؛  وکذلک اختلفوا في التوالي في النزح، فبعضھم شرطوا التوالي، و بعضھم لم یشترطوا، ثم علی قول من لم یشترط التوالي إذا نزح بعض الماء في الیوم، ثم ترکوا النزح، ثم جاؤوا من الغد فوجدوا الماء قد ازداد فعند بعضھم ینزح کل ما فیہ، و عند بعضھم مقدار ما بقي عند ترک النزح من الأمس، وفي الفتاویٰ العتابیۃ: ھو الصحیح۔ (عالم بن علاؤ الدین الحنفي،الفتاویٰ التارخانیہ، کتاب الطہارۃ، الفصل الرابع، في المیاہ التي یجوز الوضوء بھا، ج۱، ص:۳۲۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص468

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فقہاء کا متفقہ اصول یہ ہے کہ اگر تفسیر کی عبارت و الفاظ زیادہ ہوں، تو بغیر وضو چھونا جائز ہے اور اگر قرآن کی عبارت و الفاظ تفسیر سے زیادہ ہوں، تو اس کو بغیر وضو چھونا جائز نہیں ہے؛ لہٰذا معارف القرآن اور جلالین جیسی کتابوں کو بغیر وضو چھونا جائز ہے۔ اگرچہ بہتر یہ ہے کہ وضو کے ساتھ چھوا جائے۔(۱)

(۱) (ولو قیل بہ) أي بھذا التفصیل بأن یقال۔ إن کان التفسیر أکثر لا یکرہ و إن کان القرآن أکثر یکرہ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار،’’کتاب الطہارۃ، مطلب یطلق الدعاء علی ما یشمل الثناء،‘‘ ج۱، ص:۳۲۰)؛ و قال الحلواني۔ إنما قلت ھذا العلم بالتعظیم فإني ما أخذت الکاغذ إلا بطھارۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض،‘‘ ج۱، ص:۳۵۰) ؛  و  قد جوز بعض أصحابنا مس کتب التفسیر للمحدث ولم یفصلوا بین کون الأکثر تفسیراً ولو قیل بہ إعتباراً للغالب لکان حسناً۔ (طحطاوی، حاشیہ الطحطاوی، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض والنفاس والاستحاضۃ،‘‘ ج۱، ص:۱۴۴)
 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص138

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ٹخنے سے نیچے پائجامہ رکھنا سخت گناہ ہے؛ لیکن اس سے وضو نہیں ٹوٹتا؛ اس لیے کہ وضو کسی چیز کے نکلنے سے ٹوٹتاہے۔ عن أبي ھریرۃ أن رسول اللّٰہ ﷺ قال: لا ینظر اللّٰہ یوم القیامۃ إلیٰ من جر إزارہ بطرا۔
و عن أبي ھریرۃ عن النبي ﷺ قال: ما أسفل من الکعبین من الإزار في النار۔(۲)عن ابن عمر قال قال رسول اللّٰہ ﷺ :من جر ثوبہ من الخیلاء لم ینظر اللّٰہ إلیہ یوم القیامۃ۔ (۳)عن أبي أمامۃ الباھلي۔۔۔ فقلت الوضوء یارسول اللّٰہ؟ و قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم : إنما علینا الوضو مما یخرج لیس مما یدخل۔(۴)

(۲)أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب اللباس، باب ما أسفل من الکعبین ففی النار،‘‘ ج۲، ص:۸۶۱
(۳)أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب اللباس والزینۃ، باب تحریم جر الثوب خیلاء،‘‘ ج۲، ص:۱۹۵
(۴) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ، فصل: و أما بیان ما ینقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۱۱۹

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص238

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس سلسلہ میں مسجد کی کمیٹی کو ضابطہ بنا لینا ضروری ہے ضابطہ بناتے وقت مسجد کی آمد اور اس کے اخراجات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے مثلاً حج فرض کے لیے رخصت ملے گی حج نفل کے لیے رخصت کی صورت میں تنخواہ وضع ہوگی یا کسی صورت کا بہر صورت مناسب متبادل نظم کرنا ضروری ہوگا پھر اسی ضابطہ کے مطابق عمل کیا جانا چاہئے۔(۱)

(۱) نقل في القنیۃ عن بعض الکتب أنہ ینبغي أن یسترد من الإمام حصۃ مالم یؤم فیہ، قال ط: قلت: وہو الأقرب لغرض الواقف۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الوقف، مطلب اشتری بمال الوقف، داراللوقف یجوز‘‘: ج۶، ص: ۶۲۹، زکریا دیوبند)
 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص312

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو بچے بہت زیادہ چھوٹے ہوں اور ان کو بالکل شعور نہ ہو ماں باپ سے علیحدہ نہ رہ سکتے ہوں، پیشاب وغیرہ کا خیال نہ رکھنے ہوں اتنے چھوٹے بچوں کو مسجد لانا درست نہیں ہے۔ حدیث میں اس قدر چھوٹے بچوں کو لانے سے منع کیا گیا ہے۔
’’إن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: جنبوا مساجدکم صبیانکم، ومجانینکم، وشرائکم، وبیعکم، وخصوماتکم، ورفع أصواتکم، وإقامۃ حدودکم، وسل سیوفکم، واتخذوا علی أبوابہا المطاہر، وجمروہا في الجمع‘‘(۱)
جو بچے شعور و ادراک رکھتے ہیں اور تنہا اسکول یا مدرسہ پڑھنے جاتے ہیں ایسے بچوں کو مسجد میں  لانا درست ہے تاکہ وہ مسجد کے ماحول سے مانوس ہوں اور ابتداء سے ہی نماز کی عادت بن جائے یہی وجہ ہے کہ بالغ ہونے سے پہلے سات سال کی عمر کے بچوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی تعلیم دینے کا حکم دیا ہے؛ اس لیے ایسے بچوں کو مسجد میں لانا بچوں کو مسجد کے ماحول سے مانوس کرنے کے لیے بہتر قدم ہے۔ اب دوسرا مسئلہ ہے کہ بچے نماز کی صفوں میں کہاں کھڑے ہوں گے اس سلسلے میں حکم یہ ہے کہ اگر صرف ایک بچہ ہے تو وہ مرد حضرات کے ساتھ صفوں میں کھڑا ہوگا اور اگر بچے متعدد ہوں تو بچوں کی صف مرد حضرات کی صف سے پیچھے لگائی جائے گی۔
’’(قولہ: و یصف الرجال ثم الصبیان ثم النساء)؛ لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: لیلیني منکم أولو الأحلام والنہي … و لم أر صریحًا حکم ما إذا صلی ومعہ رجل و صبيّ، و إن کان داخلاً تحت قولہ: ’’و الإثنان خلفہ‘‘ و ظاہر حدیث أنس أنہ یسوی بین الرجل و الصبي و یکونان خلفہ؛ فإنہ قال: فصففت أنا و الیتیم ورائہ، و العجوز من ورائنا، و یقتضی أیضًا أن الصبيّ الواحد لایکون منفردًا عن صف الرجال بل یدخل في صفہم، وأن محلّ ہذا الترتیب إنما ہو عند حضور جمع من الرجال و جمع من الصبیان فحینئذ تؤخر الصبیان‘‘(۱)
’’عن أنس بن مالک أن جدتہ ملیکۃ دعت رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لطعام صنعتہ لہ فأکل منہ ثم قال قوموا فلأصل لکم قال أنس: فقمت إلی حصیر لنا قد اسود من طول ما لبس فنضحتہ بماء فقام رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وصففت والیتیم ورائہ والعجوز من ورائنا فصلی لنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رکعتین ثم انصرف‘‘(۲)
لیکن اگر بچے شرارتی ہوں اور اندیشہ ہے کہ بچوں کو علا حدہ صف میں کھڑا کرنے کی صورت میں بچے شرارت اورشور کریں گے جس کی وجہ سے بڑوں کی نمازوں میں بھی خلل واقع ہوگا، تو ایسی صورت میں بچوں کے لیے علا حدہ صف لگانے کے بجائے مردوں کی صف میں ہی کھڑا کیا جائے  تاکہ بچوں کی شرارت سے دیگر نمازیوں کی نماز میں خلل واقع نہ ہو۔ مختلف حضرات فقہا نے اس کی صراحت کی ہے کہ شرارت کرنے کی صورت میں بچوں کے لیے علیحدہ صف نہ لگائی جائے؛ بلکہ ان کو اپنی صفوں میں کھڑا کیا جائے۔
’’(قولہ: ذکرہ في البحر بحثًا) قال الرحمتي: ربما یتعین في زماننا إدخال الصبیان في صفوف الرجال، لأنّ المعہود منہم إذا اجتمع صبیّان فأکثر تبطل صلاۃ بعضہم ببعض و ربما تعدّی ضررہم إلی إفساد صلاۃ الرجال، انتہی‘‘(۱)
اگر نابالغ بچے ایک سے زائد ہوں تو ان کی صف مردوں کی صف کے پیچھے ہونی چاہیے یہ حکم بطور استحباب یا بطور سنت ہے بطور وجوب نہیں ہے۔(۲)
عید وغیرہ کے موقع پر جہاں ازدحام زیادہ ہو وہاں پر مردوں کی صف میں بچوں کو کھڑا کر سکتے ہیں بچوں کو پیچھے کرنا ضروری نہیں ہے اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ بچے اگر بڑوں کی صف میں ہوں گے تو بڑوں کی نماز بھی فاسد ہوجائے گی یہ غلط تصور ہے اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ ہاں درمیان صف میں کھڑا کرنے میں ممکن ہے کہ بچے کے شرارت کریں اور ادھر ادھر حرکت کرنے کی وجہ سے ساتھ میں پڑھنے والے نمازیوں کی نماز میں خلل واقع ہو؛ اس لیے بہتر ہے کہ ایسے بچوں کو مردوں کی صف میں ہی کنارے میں کھڑا کیا جائے۔

(۱) أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’أبواب المساجد والجماعات، باب مایکرہ في المساجد‘‘: ج۱ ، ص: ۵۴، رقم: ۷۵۰۔
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۳، ص: ۴۱۶۔
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الصلوۃ علی الحصیر‘‘: ج۱، ص:۵۵، رقم: ۳۸۰۔
(۱) الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۷۱۔
(۲) ’’ثم الترتیب بین الرجال و الصبیان سنۃ لا فرض ہو الصحیح‘‘۔ (إبراہیم بن محمد الحلبي، غنیۃ المتملی شرح منیۃ المصلي: ص: ۴۸۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص424

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  نماز پاک اور صاف جگہ پر پڑھی جائے اگر بیڈ پاک اور صاف ہو، تو اس پرنماز پڑھنا درست ہے، دوسرے یہ کہ جس گدے پر نماز پڑھی جائے وہ ایسا نرم نہ ہو کہ اس پر سر ٹک نہ سکے، اگر گدا ایسا سخت ہے کہ اس پر سجدہ کے وقت سر ٹک جاتا ہے، گد گدا پن نہیں رہتا، تو اس پر نماز درست ہے اور بہتر یہ ہے کہ زمین پر بغیر موٹے گدے کے نماز پڑھیں۔(۱)

(۱) ویفترض السجود علی مایجد الساجد حجمہ بحیث لوبالغ لاتسفل رأسہ أبلغ مما کان حال الوضع … وتستقر علیہ جبہتہ فیصح السجود۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ:  باب شروط الصلاۃ‘‘: ص: ۲۳۱، مکتبہ شیخ الہند، دیوبند)
ولو سجد علی الحشیش أو التبن أو علی القطن أو الطنفسۃ أو الثلج إن استقرت جبہتہ وأنفہ ویجد حجمہ یجوز وأن لم یستقر لا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع: في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ، ومنہا: السجود‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۷، زکریا دیوبند)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص337

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نماز استسقاء باجماعت پڑھنا مستحب ہے اور صاحبین ؒکے نزدیک سنت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نماز باجماعت پڑھنا ثابت ہے؛ اس کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ امام ایک دن متعین کرے وہاں دو رکعت بغیر اذان واقامت کے پڑھائے، جہراً قرأت کرے، نماز کے بعد دو خطبہ دے، اور خطبہ میں چادر پلٹے پھر قبلہ رو کھڑے ہو کر دعاء مانگے، استسقاء کے لیے تین روز نکلنا مستحب ہے۔
’’فالحاصل أن الأحادیث لما اختلفت في الصلاۃ بالجماعۃ وعدمہا علیٰ وجہ لا یصح بہ إثبات السنیۃ لم یقل أبو حنیفۃ بسنیتہا، ولا یلزم منہا قولہ بأنہا بدعۃ کما نقلہ عنہ بعض المتعصبین، بل ہو قائل بالجواز اھـ۔ قلت : والظاہر أن المراد بہ الندب والاستحباب لقولہ في الہدایۃ۔ قلنا: إنہ فعلہ علیہ السلام مرۃ وترکہ أخری فلم یکن سنۃ اھـ۔ أن السنۃ ما واظب علیہ، والفعل مرۃ مع الترک أخری یفید الندب۔ تأمل۔ قولہ: کالعید أي بأن یصلي بہم رکعتین یجہر فیہما بالقراء ۃ بلا أذان ولا إقامۃ، ثم یخطب بعدہا قائماً علی الأرض معتمداً علیٰ قوس أو سیف أو عصا خطبتین عند محمد وخطبۃ واحدۃ عند أبي یوسف…… خلافاً لمحمد فإنہ یقول: یقلب الإمام ردائہ إذا مضی صدر من خطبتہ‘‘(۱)
’’ویستحب الخروج لہ أي للاستسقاء ثلاثۃ أیام متتابعات‘‘(۲)

(۱)ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب الاستسقاء: ج ۳، ص: ۷۰ -۷۱، زکریا، دیوبند۔)
(۲)حسن بن عمار الشرنبلالي، المراقي مع الحاشیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الاستسقاء‘‘: ص: ۵۴۹، دارالکتاب۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص393

 

نکاح و شادی

Ref. No. 978

الجواب وباللہ التوفیق

کسی مسلمان لڑکے کا نکاح کسی ہندو لڑکی  کے ساتھ جائز ومنعقد نہیں ہوتا۔ قرآن کریم میں ہے: ولا تنکحوا المشرکات حتی یؤمن الآیۃ ۔۔ وکذا فی الدرالمختار۔ لہذا مذکورہ نکاح بالکل ناجائز و حرام ہے، نکاح منعقدہی  نہیں ہوگا۔ بہتر ہے کہ مذکورہ شخص کو اس گناہ کبیرہ اور اس پر مرتب ہونے والے اللہ کے غضب سے متعلق خوب اچھے انداز میں سمجھایا جائے ؛اللہ کرے کہ وہ باز آجائے۔ واللہ تعالی اعلم

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام سفر

Ref. No. 857/41-000

الجواب وباللہ التوفیق      

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں چونکہ آپ کا ارادہ مسافت سفر کا نہیں ہے، اس لئے آپ مقیم ہیں، نماز میں اتمام کریں۔ہاں اگر 36 میل سفر کرنے کے بعد 40 میل کا سفر کیا ، اور اب گھر لوٹنا ہے تو چونکہ مسافت سفر پوری ہے ، اسلئے واپسی میں آپ مسافر شمار ہوں گے اور قصر کریں گے۔

(من خرج من عمارة موضع إقامته) (قاصدا) ولو كافرا، ومن طاف الدنيا بلا قصد لم يقصر، (قوله قاصدا) أشار به مع قوله خرج إلى أنه لو خرج ولم يقصد أو قصد ولم يخرج لا يكون مسافرا ح. (شامی 2/122)

لا يصح القصر إلا إذا نوى السفر، فنية السفر شرط لصحة القصر باتفاق، ولكن يشترط لنية السفر أمران: أحدهما: أن ينوي قطع تلك المسافة بتمامها من أول سفره، فلو خرج هائماً على وجهه لا يدري أين يتوجه لا يقصر، ولو طاف الأرض كلها، لأنه لم يقصد قطع المسافة۔ (الفقہ علی المذاھب الاربعۃ 1/429)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند