Frequently Asked Questions
Hadith & Sunnah
Ref. No. 1077/41-268
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
If a Taweez is consisting of Allah’s name or Quranic verses and it is sewn in cloth and packed carefully then one can go to bathroom or washroom while wearing it. Likewise if the taweez is placed inside the wallet and is fully covered, then too it is allowable to go to washroom along with the wallet though it is not recommended.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
Ref. No. 1404/43-1312
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ماں کا یہ جملہ کفریہ ہے، تجدید ایمان اورتجدید نکاح لازم ہے۔ عورت توبہ کرے اور آئندہ اس طرح کے کلمات ہرگز نہ نکالے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حج و عمرہ
Ref. No. 1894/43-1780
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قانونی پابندیاں کسی نہ کسی وجہ سے ہوتی ہیں، حکومتی قوانین کی خلاف ورزی درست نہیں ہے، اس لئے اس طرح کی دھوکہ دہی سے احتراز لازم ہے، جان و مال، عزت و آبرو کی حفاظت ضروری ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Taharah (Purity) Ablution &Bath
Ref. No. 2041/44-2017
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
It is obligatory to do the masah (wipe) of your head during ablution (wuzu), because it is an essential part of wuzu, so it will be necessary to wipe it in any possible way. And if there is a bandage on the entire head, you should wipe over the bandage and it will be sufficient. And Place your hand over your forehead and recite 'Ya qawiyyu' eleven times after each prayer. Keep your heart and mind calm and focus on the remembrance of Allah, no need to indulge so much in worldly affairs. Pay full attention to your prayers, recitation of the Holy Quran and seeking forgiveness. May Allah bless you and grant you recovery!
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:در منثور و بیہقی وغیرہ میں حضرت ابن عباسؓ کے اس اثر کو مکمل بیان کیا گیا ہے اور حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’تحذیر الناس‘‘ میں اس پر تفصیل کے ساتھ کلام فرمایا ہے جس کے مطالعہ کے بعد ان شاء اللہ تعالیٰ کوئی اعتراض باقی نہ رہے گا۔ (۱)
(۱) أخبرنا أحمدبن یعقوب الثقفي، ثنا عبید بن غنام النخعي، أنبأ علي بن حکیم، ثنا شریک، عن عطاء بن السائب، عن أبي الضحی،عن إبن عباس رضي اللّٰہ عنہما، أنہ قال: {اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَھُنَّط} قال سبع أرضین في کل أرض نبي کنبیکم و آدم کآدم، ونوح کنوح، وإبراہیم کإبراہیم، وعیسیٰ کعیسیٰ۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم، ’’کتاب التفسیر: تفسیر سورۃ الطلاق‘‘: ج۲، ص: ۵۳۵، رقم: ۳۸۲۲؛ ہکذا في الأسماء والصفات للبیہقي، ’’باب بدأ الخلق‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 198
مساجد و مدارس
Ref. No. 2323/44-3487
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ محلہ والوں کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی مسجد کی تمام ضروریات کا خیال رکھیں، تاہم مسجد کے لئے ان سے زبردستی چندہ لینا جائز نہیں ہوگا۔ اگرچندہ اس طرح ہو کہ مسجد کی ضروریات ان کے سامنے رکھی جائیں اور کہاجائے کہ مسجد کمیٹی نے یہ طے کیا ہے کہ محلہ کے افراد یہ طے شدہ رقم دیدیں تو ضرروریات پوری ہوسکتی ہیں، اس لئے ہم آپ سے یہ چندہ کرنے آئے ہیں، توامید ہے کہ اس طرح محلہ والے چندہ دینے کے لئے تیار ہوجائیں گے۔ اور اگر کچھ افراد چندہ نہ دیں تو ان کو چھوڑدیاجائے، ان سے بالکل بھی تعرض نہ کیا جائے ، ان سے زبردستی کرنا یاکسی بھی طرح ان کو اذیت دینا شرعا جائز نہیں ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2569/45-3936
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو کاروبار شریعت میں ناجائز ہے، اس میں گو کہ بظاہر ہزار فائدے نظر آئیں مگر حقیقت میں ان میں خیر نہیں ہوتی، ایک مسلمان جیسے مسلمان کا خیر خواہ ہوتا ہے غیر مسلم کا بھی اس کو خیر خواہ ہونا چاہئے، اس لئے کسی غیر مسلم کو بھی ناجائز کام کی رہنمائی کرنا اور اس پر اجرت لینا جائز نہیں ہے، اگر غیر مسلم کی اعانت کی اور اس نے اس حرام کاروبار دلانے پر اجرت دی تو اس کا لینا جائز نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اللہ تعالیٰ سے دعا مسجد میں اور مسجد سے باہر درست ہے، کھڑے ہوکر بھی دعا کرنا صحیح ہے۔ مذکورہ طریقہ پر دعا کرنے میں کوئی وجہ ممانعت نہیں، البتہ اسے شرعی لازمی حکم سمجھنا درست نہیں۔(۱)
(۱) {فَإِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلٰوۃَ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِکُمْج} (سورۃ النساء: ۱۰۳)
{وَذَا النُّوْنِ إِذْ ذَّھَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْہِ فَنَادٰی فِي الظُّلُمٰتِ أَنْ لَّا ٓ إِلٰہَ إِلَّا ٓ أَنْتَ سُبْحٰنَکَصلیق إِنِّيْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ہجصلے ۸۷ فَاسْتَجَبْنَا لَہٗلا وَنَجَّیْنٰہُ مِنَ الْغَمِّ ط وَکَذٰلِکَ نُنْجِی الْمُؤْمِنِیْنَہ۸۸} (سورۃ الأنبیاء: ۸۷ -۸۸)
وعبد اللّٰہ الخطمي رضي اللّٰہ عنہ قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا أراد أن یستودع الجیش قال: استودع اللّٰہ دینکم وأمانتکم وخواتیم أعمالکم: رواہ أبو داود۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب أسماء اللّٰہ تعالیٰ: باب الدعوات في الأوقات، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص326
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:ناپاک کپڑے سے نجاست کو زائل کر دیا جائے، تو وہ پاک ہو جاتا ہے، اصل مقصود نجاست کو بالکلیہ زائل کرنا ہے، اگر کوئی نجاست ایسی ہو جو کھرچنے سے زائل ہو جاتی ہو اور اس کا اثر بالکل ختم ہو جاتا ہو، تو صرف کھرچنے سے بھی کپڑا پاک ہو جاتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ایسی ہی نجاست کا ذکر ہے(۲) اور جو نجاست کھرچنے سے ختم نہ ہوتی ہو اس کو ختم کرنے کے لیے کپڑے کا دھونا ضروری ہوتا ہے ،عام طور پر تین مرتبہ دھونے سے نجاست ختم ہو جاتی ہے اس لیے کپڑے کو تین مرتبہ دھونا چاہیے۔
واشنگ مشین یا بالٹی میں ایک کپڑا یا متعدد کپڑے ڈالے جائیں، پھر ان کو نکال لیا جائے اور اس پانی کو بہا دیا جائے، پھر دوسرا پانی لیا جائے اور اس میں کپڑے ڈالے جائیں اس طرح تین مرتبہ پانی میں کپڑے ڈالے جائیں۔ ایسا نہ ہو کہ ایک کپڑا پانی میں ڈال کر نکال لیا اور پھر اسے نچوڑا اور پھر اسی پانی میں دوسرا کپڑا ڈال دیا جائے نیز ہر مرتبہ کپڑے نچوڑنا بھی ضروری ہے۔ اگر واشنگ مشین میں پانی کم ہو، تو احتیاط اس میں ہے کہ دو بارہ پانی ڈالیں یا بالٹی میں کپڑے کو ڈال کر پاک کر لیا جائے۔(۱)
(۲) عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنھا قالت: ربما فرکتہ من ثوب رسول اللّٰہ ﷺ بیدي، (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ابواب الطہارۃ وسننھا، باب في فرک المني من الثوب،ج۱،ص:۴۱)؛ و یطھر البدن والثوب والخف و إذا أصابہ مني بفرکہ إن کان یابسا وبغسلہ إن کان رطباً۔ (ابن نجیم،البحر الرائق، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، ج۱، ص:۳۸۹)
(۱)و یطھر متنجس بنجاسۃ مرئیۃ بزوال عینھا و لو بمرۃ علی الصحیح ولا یضر بقاء أثر شق زوالہ و غیر المرئیۃ بغسلھا ثلاثاً والعصر کل مرۃ … و یطھر المني الجاف بفرکہ عن الثوب والبدن و یطھر الرطب بغسلہ ( الشرنبلالي، نورالإیضاح، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس والطہارۃ عنہا،ص:۵۳-۵۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص421
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:وہ پانی طاہر ہے، اس سے کھانا بنانے نہانے کی گنجائش ہے اور مطہر نہیں ہے، اس لیے بہشتی زیور میں کراہت لکھی گئی ہے؛ لہٰذا کوئی بات قابل اعتراض نہیں ہے۔(۱)
(۱) اتفق أصحابنا رحمھم اللّٰہ أن الماء المستعمل لیس بطھور، حتی لا یجوز التوضي بہ، فلا یجوز غسل شيء من النجاسات بہ… واختلفوا في طھارتہ، قال محمد رحمہ اللہ: وھو طاھر غیر طھور، وھو روایۃ عن أبي حنیفہؒو علیہ الفتویٰ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیہ، کتاب الطہارۃ، الفصل الرابع، في المیاہ التي یجوز الوضوء بہا، ج۱،ص:۳۴۴)؛ و ھو (أي الماء المستعمل) طاھر، ولو من جنب، وھو الظاھر، لکن یکرہ شربہ والعجن بہ تنزیھاً للاستقذار۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب في تفسیر القربۃ والثواب، ج۱، ص:۳۵۲)؛ و اتفق أصحابنا رحمھم اللہ: أن الماء المستعمل لیس بطھور حتی لا یجوز التوضؤ بہ، واختلفوا في طھارتہ، قال محمد رحمہ اللّٰہ : ھو طاہر، وھو روایۃ عن أبي حنیفۃؒ و علیہ الفتویٰ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیہ، کتاب الطہارۃ، الفصل الثانی فیما لایجوز بہ التوضوء، ج ۱،ص:۷۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص469