Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: جو شخص رکوع و سجدہ پر قادر نہ ہو اس پر قیام فرض نہیں ہے تاہم اگر قیام کرے اور رکوع و سجود اشارہ سے ادا کرے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے جب دونوں صورتیں درست ہیں تو اختلاف کی گنجائش نہیں ہے۔(۱)
(۱) وإن عجز عن القیام والرکوع والسجود وقدر علی القعود یصلي قاعدا بإیماء ویجعل السجود أخفض من الرکوع، کذا في فتاوی قاضي خان حتی لو سوی لم یصح، کذا في البحر الرائق۔ وکذا لو عجز عن الرکوع والسجود وقدر علی القیام فالمستحب أن یصلي قاعدا بإیماء وإن صلی قائما بإیماء جاز عندنا، ہکذا في فتاویٰ قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع عشر: في صلاۃ المریض‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۶)
(وإن تعذر) لیس تعذرہما شرطاً بل تعذر السجود کافٍ (لا القیام أما قاعداً) لأن رکنیۃ القیام للتوصل إلی السجود فلا یجب دونہ وہو أفضل من الإیماء قائماً لقربہ من الأرض۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المریض‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۸)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:407
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: ایسی صورت میں مذکورہ شخص کو جس میں زیادہ سہولت ہو وہ افضل ہے البتہ اگر دونوں حالتیں برابر ہوں تو قعدہ افضل ہوگا جیسا کہ عام کتب فقہ میں اس کی صراحت ملتی ہے۔(۱)
(۱) وإن عجز عن القیام والرکوع والسجود وقدر علی القعود یصلي قاعدا بإیماء ویجعل السجود أخفض من الرکوع، کذا في فتاوی قاضي خان حتی لو سوی لم یصح، کذا في البحر الرائق۔ وکذا لو عجز عن الرکوع والسجود وقدر علی القیام فالمستحب أن یصلي قاعدا بإیماء وإن صلی قائما بإیماء جاز عندنا، ہکذا في فتاوی قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع عشر: في صلاۃ المریض‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۶)
(وإن تعذر) لیس تعذرہما شرطاً بل تعذر السجود کافٍ (لا القیام أما قاعداً) لأن رکنیۃ القیام للتوصل إلی السجود فلا یجب دونہ وہو أفضل من الإیماء قائماً لقربہ من الأرض۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المریض‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۸)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:406
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں جس رکن کی مکمل ادائیگی پر قدرت ہو اس رکن کو مکمل طور پر ادا کرنا ضروری ہے لہٰذا مذکورہ شخص قیام پر قدرت رکھتا ہے تو قیام ضروری ہے سجدہ پر قدرت ہے، سجدہ ضروری ہے رہا بیٹھنے کا مسئلہ وہ مشکل اور تکلیف دہ ہے تو ماثور و منقول طریقے کے برخلاف جس طرح ممکن ہو پیر پھیلا کر یا چار زانو بیٹھ کر نماز پڑھ سکے تو بیٹھ جائے یہ ضروری ہے اور اگر یہ بھی نہیں ہوسکتا تو کرسی پر بیٹھ جائے اور سجدہ کے لیے تختہ کی ضرورت نہیں بلکہ اشارہ سے سجدہ کرے۔(۱)
(۱) (وإن تعذرا) لیس تعذرہما شرطًا؛ بل تعذر السجود کافٍ (لا القیام أومأ)بالہمز (قاعدًا)، قولہ: (أومأ قاعدًا) لأن رکنیّۃ القیام للتوصّل إلی السجود فلا یجب دونہ وہو أفضل من الإیماء قائماً لقربہ من الأرض۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المریض‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۷، ۵۶۸)
وإذا لم یقدر علی القعود مستویا وقدر متکئا أو مستندا إلی حائط أو إنسان یجب أن یصلي متکئا أو مستندا، کذا في الذخیرۃ ولا یجوز لہ أن یصلي مضطجعا علی المختار، کذا في التبیین۔ وإن عجز عن القیام والرکوع والسجود وقدر علی القعود یصلي قاعدا بإیماء ویجعل السجود أخفض من الرکوع، کذا في فتاوی قاضي خان حتی لو سوی لم یصح، کذا في البحر الرائق۔ وکذا لو عجز عن الرکوع والسجود وقدر علی القیام فالمستحب أن یصلی قاعدا بإیماء وإن صلی قائما بإیماء جاز عندنا، ہکذا في فتاوی قاضي خان۔ والمومئی یسجد للسہو بالإیماء، کذا في المحیط ویکرہ للمومئی أن یرفع إلیہ عودا أو وسادۃ لیسجد علیہ فإن فعل ذلک ینظر إن کان یخفض رأسہ للرکوع ثم للسجود أخفض من الرکوع جازت صلاتہ، کذا في الخلاصۃ ویکون مسیئا، ہکذا في المضمرات، وإن کان لا یخفض رأسہ لکن یوضع العود علی جبہتہ لم یجز ہو الأصح فإن کانت الوسادۃ موضوعۃ علی الأرض وکان یسجد علیہا جازت صلاتہ، کذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع عشر: في صلاۃ المریض‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۶، ۱۹۷)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:405
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: ایسی عورت جس کو ہر وقت پیشاب کے قطرے آتے ہیں تو وہ معذور ہے مگر نماز معاف نہیں ہے اس کی نماز کا طریقہ یہ ہے کہ جب نماز کا وقت شروع ہوجائے تو وضو بناکر اور کپڑے بدل کر فرض، واجب، سنت اور نفل جتنی چاہئے نمازیں پڑھتی رہے خواہ نماز کی حالت میں پیشاب کے قطرے کیوں نہ نکلتے رہیں اور کپڑے پر بھی لگتے رہیں جب تک نماز کا وقت باقی رہے گا اس عورت کا وضو بھی باقی رہے گا اور جب وقت ختم ہوجائے گااس وقت وضو بھی ختم ہوجائے گا، اسی طرح جب دوسری نماز کا وقت شروع ہوجائے تب بھی ایسا ہی کرے۔(۱)
(۱) (وصاحب عذر من بہ سلس) بول لا یمکنہ إمساکہ (أو استطلاق بطن أو انفلات ریح أو استحاضۃ) أو بعینہ رمد أو عمش أو غرب، وکذا کل ما یخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرۃ (إن استوعب عذرہ تمام وقت صلاۃ مفروضۃ)۔ بأن لا یجد فی جمیع وقتہا زمنا یتوضأ ویصلی فیہ خالیا عن الحدث (ولو حکما) لأن الانقطاع الیسیر ملحق بالعدم (وہذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء کفی وجودہ في جزء من الوقت) ولو مرۃ (وفي) حق الزوال یشترط (استیعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقیقۃ) لأنہ الانقطاع الکامل۔ (وحکمہ الوضوء) لا غسل ثوبہ ونحوہ (لکل فرض) اللام للوقت کما في {لدلوک الشمس} (سورۃ الإسراء: ۷۸) (ثم یصلی) بہ (فیہ فرضا ونفلا) فدخل الواجب بالأولی (فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظہر حدثہ السابق، حتی لو توضأ علی الانقطاع ودام إلی خروجہ لم یبطل بالخروج ما لم یطرأ حدث آخر أو یسیل کمسألۃ مسح خفہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الحیض، مطلب: في أحکام المعذور‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۴ تا ۵۰۶)شرط ثبوت العذر ابتدائً أن یستوعب استمرارہ وقت الصلاۃ کاملا وہو الأظہر کالانقطاع لا یثبت ما لم یستوعب الوقت کلہ … المستحاضۃ ومن بہ سلسل البول … یتوضئون لوقت کل صلاۃ ویصلون بذلک الوضوء في الوقت ما شاؤوا من الفرائض والنوافل … ویبطل الوضوء عند خروج وقت المفروضۃ بالحدث السابق … إذا کان بہ جرح سائل وقد شد علیہ خرقۃ فأصابہا الدم أکثر من قدر الدم أو أصاب ثوبہ إن کان بحال لو غسلہ یتنجس ثانیا قبل الفراغ من الصلاۃ جاز أن لا یغسلہ وصلی قبل أن یغسلہ وإلا فلا ہذا ہو المختار۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السادس: في الدماء المختصۃ بالنساء‘‘: ج ۱، ص: ۹۵، ۹۶)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:404
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: جہاں تک پٹی ہے اس پر مسح کر لیں باقی حصے کو دھو لیں اگر سجدہ کرنا دشوار ہو، تو جھک کر اشارہ سے سجدہ کر لیں۔(۳)
(۳) و إنما یمسح إذا لم یقدر علی غسل ماتحتہا ومسحہ، بأن تضرر بإصابۃ الماء أو حلہا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الخامس: في المسح علی الخفین، الفصل الثاني: في نواقض المسح‘‘: ج ۱، ص: ۸۹)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:403
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: نماز ہر مسلمان عاقل بالغ پر فرض ہے یہ اتنا مؤکد فرض ہے کہ کسی صورت میں معاف نہیں ہے(۱) اگر کوئی کھڑا ہوکر نماز پڑھنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو، تو بیٹھ کر پڑھے اور بیٹھ کر پڑھنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو، تو لیٹ کر پڑھے، نماز پڑھنی لازمی ہے، اگر کوئی بے ہوش ہوجائے اور پھر تھوڑی دیر بعد ہوش آجائے جیسا کہ سوال میں مذکور ہے، تو اس صورت میں بھی نماز معاف نہیں ہے اگر ایک دو وقت نماز کے گذر جائیں اور وہ شخص بے ہوشی میں رہے تب بھی قضا لازم ہے۔
پس زید کے اس قول کا کوئی اعتبار نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نماز معاف کردی ہے یہ قول سراسر غلط ہے۔ ممکن ہو تو اپنی طاقت سے اس کو نماز پڑھنے کو کہا جائے نرمی کے ساتھ ورنہ اس کو نماز کی فرضیت واہمیت اور اس کے مفادات سے مطلع کردیا جائے اور اس کے ترک پر جو وعیدیں ہیں ان سے بھی باخبر کردیا جائے تبلیغ برابر کرتے رہنا چاہئے اس کو ہدایت ہوجائے تو بہتر ہے اور اگر اس کو ہدایت بھی نہ ہو، تو تبلیغ کرنے والوں کو اس کا اجر ضرور ملے گا (ان شاء اللہ)۔(۲)
زید اگر ایسا کہتا ہے اور نماز ترک کرتا ہے، تو سخت گناہگار ہے اور اس پر اندیشہ کفر کا ہے؛(۱) اس لیے زید کو چاہئے کہ فوراً استغفار کرے اور پابندی اوقات کے ساتھ نماز کا اہتمام کرے چھوٹی ہوئی نمازوں کی بھی قضا کرے اور اگر زید بے ہوشی کی حالت میں ایسے الفاظ کہتا ہے، تو عنداللہ کوئی گناہ نہیں۔(۲)
(۱) {إِنَّ الصَّلَاۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ کِتَابًا مَوْقُوتًاً} (سورۃ النساء: ۱۰۳)
(۲) {وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ أُمَّۃٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَأُولَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ} (سورۃ آل عمران: ۱۰۴)
(۱) من ترک الصلاۃ متعمداً فقد کفر جہارا۔ (سلیمان بن أحمد، معجم الأوسط: ج ۳، ص: ۳۴۳، رقم: ۳۳۸۸)
(۲) {وَلَا تَرْکَنُوا إِلَی الَّذِینَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ} (سورۃ ہود: ۱۱۳)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:402
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: جو مریض قیام سے عاجز ہے یعنی اگر قیام کرے تو گرجانے یا مرض بڑھ جانے کا یا جلد اچھا نہ ہونے کا اندیشہ ہے یا بے حد تکلیف قیام میں ہوتی ہے تو اس کے لیے بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز ہے؛ لیکن اگر کھڑے ہونے کی استطاعت ہے تو بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں ہے اگر تھوڑی دیر کھڑے ہونے کی طاقت ہے تو تھوڑی دیر کھڑا رہے پھر بیٹھ جائے۔(۱)
(۱) (وإن قدر علی بعض القیام) ولو متکئاً علی عصا أو حائط (قام) لزوما بقدر ما یقدر ولو قدر آیۃ أو تکبیرۃ علی المذہب لأن البعض معتبر بالکل۔ قولہ: (علی المذہب) في شرح الحلواني نقلا عن الہند واني لو قدر علی بعض القیام دون تمامہ أو کان یقدر علی القیام الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المریض‘‘: ج ۲، ص ۵۶۸)قید بتعذر القیام أي جمعیہ لأنہ لو قدر علیہ متکئاً أو متعمداً علی عصاً أو حائط لا یجزئہ إلا کذلک خصوصا علی قولہما … قال الہندواني: إذا قدر علی بعض القیام یقوم ذلک ولو قدر آیۃ أو تکبیرۃ ثم یقعد وإن لم یفعل ذلک خفت أن تفسد صلاتہ، ہذا ہو المذہب ولا یروي عن أصحابنا خلافہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المریض‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۸)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:401
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: قصر نماز کے لیے مسافت سفر کا ہونا لازم ہے، محض سفر کی نیت کرنا کافی نہیں ہے چوں کہ جس جگہ کا ارادہ تھاوہ جگہ مسافت قصر پر نہیں ہے اس لیے قصر کرنا جائز نہیں تھا اس لیے پڑھی گئی ظہر کی نماز کا اعادہ کرنا ضروری ہوگا۔ علامہ کاسانی نے لکھاہے کہ مسافر ہونے کے لیے تین شرطیں ہیں پہلی شرط یہ ہے کہ سفر کی نیت ہو اگر سفر کی نیت نہ ہو اور پوری دنیا کا چکر لگالے تو مسافر نہیں ہوگا دوسری شرط یہ ہے کہ مسافت سفر ہو اگر سفر کی نیت ہو لیکن مسافت سفر مکمل نہیں ہے تو وہ مسافر نہیں ہوگا، تیسری شرط ہے کہ اپنی آبادی سے نکل جائے محض ارادہ سفر قصر کے لیے کافی نہیں ہے۔
’’الحکم معلق بالسفر فکان المعتبر مسیرۃ ثلاثۃ أیام علی قصد السفر وقد وجد والثاني: نیۃ مدۃ السفر لأن السیر قد یکون سفرا وقد لا یکون؛ لأن الإنسان قد یخرج من مصرہ إلی موضع لإصلاح الضیعۃ ثم تبدو لہ حاجۃ أخری إلی المجاوزۃ عنہ إلی موضع آخر لیس بینہما مدۃ سفر ثم وثم إلی أن یقطع مسافۃ بعیدۃ أکثر من مدۃ السفر لا لقصد السفر فلا بد من النیۃ للتمییز۔ والثالث: الخروج من عمران المصر فلا یصیر مسافرا بمجرد نیۃ السفر ما لم یخرج من عمران المصر‘‘(۱)
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ: نیۃ المسافر‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۳۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:399
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: پنجاب سے جب تک آپ اپنے اصلی وطن پھوگانہ میں داخل نہ ہوں (دوسرے دیہاتوں میں پھرتے رہیں) تو آپ برابر قصر کرتے رہیں گے اور وطن اصلی میں داخل ہوتے ہی قصر ختم ہوکر پوری نماز لازم ہوگی۔(۱)
(۱) وإذا دخل المسافر مصرہ أتم الصلاۃ، وإن لم ینو الإقامۃ فیہ سواء دخلہ بنیۃ الاختیار أو دخلہ لقضاء الحاجۃ، کذا في الجوہرۃ النیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس عشر: في صلاۃ المسافر‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۲، مکتبہ فیصل، دیوبند)
(من خرج من عمارۃ موضع إقامتہ) قاصداً (مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیھا) … (صلی الفرض الرباعي رکعتین) … (حتی یدخل موضع مقامہ) أو ینوي إقامۃ نصف شھر) بموضع صالح لھا (فیقصر إن نوی في أقل منہ) أو … (بموضعین مستقلین)۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۹ - ۶۰۶)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:399
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق:مسافت سفر کی مقدار ظاہر الروایت کے مطابق درمیانی رفتار سے تین دن چلنا ہے۔ احناف کی متعدد کتابوں میں اس کی صراحت ہے۔
’’من خرج من عمارۃ موضع إقامتہ قاصدا مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیہا‘‘(۱)
’’السفر الذي یتغیر بہ الأحکام أن یقصد مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیہا‘‘(۲)
قدیم زمانوںمیں جب کہ عام طور پر لوگ پیدل یا اونٹوں کی سواری کیا کرتے تھے یہ اندازہ آسان تھا؛ لیکن اس زمانے میں جب کہ تین دن کا سفر تین گھنٹے؛ بلکہ اس سے بھی کم وقت میں طے کیا جاسکتا ہے تو یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ مسافت سفر کو موجودہ حالات میں کلو میٹر کے اعتبار سے طے کیا جائے اس لیے علمائے متاخرین نے فرسخ کے ذریعہ سے اس کی تعیین کی۔ یہ تعیین بھی اس زمانے میں کی گئی جب کہ گو سواری کی سہولت ہوگئی تھی لیکن آج کے حساب سے پھر بھی نہیں تھی؛ اس لیے جگہوں کے اختلاف کے ساتھ مختلف فرسخ سے تعیین کی گئی چناں چہ ۱۵؍ ۱۶؍ ۱۸؍ اور ۲۱؍ فرسخ کے اقوال پائے جاتے ہیں۔
’’قیل یقدر بواحد وعشرین فرسخا وقیل بثمانیۃ عشر وقیل بخمسۃ عشر وکل من قدر منہا اعتقد أنہ مسیرۃ ثلاثۃ أیام۔ أي بناء علی اختلاف البلدان فکل قائل قدر ما في بلدہ من أقصر الأیام أو بناء علی اعتبار أقصر الأیام أو أطولہا أو المعتدل منہا وعلی کل فہو صریح بأن المراد بالأیام ما تقطع فیہا المراحل المعتادۃ فأفہم‘‘(۳)
(۱) الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۹ تا ۶۰۳۔
(۲) المرغیناني الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۵۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۰۲۔
اب ضرورت ہوئی کہ ان میں سے کسی ایک کو متعین کیا جائے تو اس میں بھی اختلاف ہوگیا اور بعض نے ۱۸؍ فرسخ پر اور بعض نے ۱۵؍ فرسخ پر فتوی دیا۔’’واختلفوا في التقدیر قال أصحابنا: مسیر ثلاثۃ أیام سیر الإبل ومشی الأقدام وہو المذکور في ظاہر الروایات، وروي عن أبي یوسف یومان وأکثر الثالث، وکذا روي الحسن عن أبي حنیفۃ وابن سماعۃ عن محمد ومن مشایخنا من قدرہ بخمسۃ عشر فرسخا وجعل لکل یوم خمس فراسخ، ومنہم من قدرہ بثلاث مراحل‘‘(۱) زیادہ تر حضرات نے ائمہ خوارزم کے مفتی بہ قول ۱۵؍ فرسخ کو اختیار کیا ہے۔’’وفي النہایۃ الفتوی علی اعتبار ثمانیۃ عشر فرسخا، وفي المجتبی فتوی أکثر أئمۃ خوارزم علی خمسۃ عشر فرسخا‘‘(۲)پندرہ فرسخ کے اعتبار سے ۴۵؍ میل ہوتاہے اس لیے کہ تین میل کا ایک فرسخ ہوتا ہے۔یہاں تک کوئی اختلاف نہیں ہے۔’’وقیل: عشرۃ أیام بینہ وبین المدینۃ فرسخان ستۃ أمیال، ہذا ہو الصواب، والمیل ثلث فرسخ، والفرسخ اثنتی عشرۃ ألف خطوۃ، وقال السروجي: المیل أربعۃ آلاف ذراع بذراع محمد بن فرح الشاشي، قلت: العوام یسمون ذا الحلیفۃ آبار علی رضي اللّٰہ عنہ‘‘(۳)جن لوگوں نے ۴۸؍ میل نقل کیا ہے ممکن ہے کہ انہوں نے ۱۶؍ فرسخ والے قول کو درمیانی قول ہونے کی بناپر اختیار کیا ہو اس لیے انہوںنے ۴۸؍ میل کا قول نقل کیا ہے۔ ۴۸؍ میل شرعی کے اعتبار سے ۸۷؍ کلومیٹر ۷۸۲؍ میٹر ۴۰؍ سینٹی میٹر ہوتاہے اسی لیے بعض کتابوں میں یہ مسافت منقول ہے۔(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في بیان مایصیر بہ المقیم مسافراً‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۱۔(۲) ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنزالدقائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۸۔(۳) العیني، البنایۃ، ’’کتاب الحج: فصل المواقیت اللتي لا یجوز أن یجاورہا دخول الأفاقي مکۃ بدون أحرام‘‘: ج ۴، ص: ۱۵۷۔ایک مسئلہ جو ہمارے درمیان اختلاف کا باعث بنا ہے وہ میل شرعی اور میل انگریزی کا اعتبار کرنے کی بنا پر ہے۔ میل اور فرسخ میں کوئی اختلاف نہیں ہے جیسا کہ سوال میں دکھایا گیا ہے بلکہ میل سے انگریزی میل مراد ہے یا میل شرعی مراد ہے اس میں اختلاف ہے؟ بعض حضرات مفتیان کرام نے لکھاہے کہ اکابر علماء دیوبند نے میل انگریزی مراد لیا ہے۔ حضرت مفتی شفیع صاحب کی تحقیق کے مطابق جو انہوں نے اپنی کتاب اوزان شرعیہ میں ذکر کیا ہے یہ ہے:راجح اور صحیح مذہب امام اعظم کایہ ہے کہ کسی خاص مقدار کی تحدید میلوں وغیرہ سے نہ کی جائے بلکہ تین دن اور تین رات میں جس قدر مسافت انسان چل کر بآسانی طے کرسکے یا اونٹ کی سواری پر بآسانی طے کرے وہ مقدار مرادہے اس کے خلاف بعض فقہا نے فراسخ یا میلوں کی تعیین بھی فرمائی ہے حضرت امام مالک کا مذہب ہے کہ ۴۸؍ میل سے کم میں قصر نہ کرے اور یہی امام احمد کا مذہب ہے اور امام شافعی کی ایک روایت یہی ہے اور مشائخ متاخرین حنفیہ میں سے بعض نے اکیس فرسخ جس کے تریسٹھ میل ہوتے ہیںاور بعض نے ا ٹھارہ فرسخ جس کے چون میل ہوتے ہیں اور بعض نے پندرہ فرسخ جس کے پینتالیس میل ہوتے مسافت قصر قرار دی ہے۔ عمدۃ القاری میں اٹھارہ فرسخ پر فتوی نقل کیا ہے اور شامی، بحر نے بحوالہ مجتبی ائمہ خوارزم کا فتوی پندرہ فرسخ کی روایت ذکر کیا ہے۔ہندوستان کے عام بلاد چوں کہ تقریبا مساوی ہیں پہاڑی یا دشوار گزار نہیں ہیں؛ اس لیے علمائے ہندوستان نے میلوں کے ساتھ تعیین کردی ہے نیز محققین علمائے ہندوستان نے ۴۸؍ میل انگریزی کو مسافت قصر قرار دیا ہے جو اقوال فقہاء مذکورین کے قریب قریب ہے اور اصل مدار اس پر ہے کہ اتنی ہی مسافت تین دن تین رات میں پیادہ مسافر بآسانی طے کرسکتاہے اور فقہاء حنفیہ کے مفتی بہ اقوال میں سے جو فتوی ائمہ خوارزم کا پندرہ فرسخ کا نقل کیا گیا ہے وہ تقریبا اس کے بالکل مطابق ہے کیوں کہ پندرہ فرسخ کے ۴۵؍ میل شرعی اور ۴۸؍ میل انگریزی سے کچھ زیادہ متفاوت نہیں رہتے ہیں۔(۱)حضرت مفتی محمدشفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق سامنے آجانے کے بعد دو چیزیں طے ہوجاتی ہیں کہ ۱۵؍ فرسخ پر ہندوستان کے علماء نے فتوی دیا ہے؛ اس لیے دیگر اقوال غیر مفتی بہ ہوں گے۔ اور ۱۵؍ فرسخ کے ۴۵؍ میل ہوتے ہیں اس حد تک تقریبا اتفاق ہے۔ اب میل کی انگریزی اورشرعی تعیین میں اختلاف ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ پینتالیس میل سے یہاں پر میل شرعی مراد ہے۔ حضرت مفتی شفیع صاحب نے ۴۵؍ میل شرعی اور ۴۸؍ میل انگریزی کو قریب قریب بتایا ہے جس کی کلومیٹر 77.24.8512 یعنی سوا ستتر کلومیٹر ہے جسے آسانی کے لیے ۷۸؍ کلومیٹر لکھ دیا جاتا ہے۔ لیکن قابل تحقیق امر یہ ہے کہ حضرت مفتی شفیع صاحبؒ نے ۴۵؍ میل شرعی او ر ۴۸؍ میل انگریزی کو قریب قریب قرار دیا ہے جب کہ دونوں میں پانچ کلو میٹر کا فرق ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتاہے اس لیے کہ ۴۸؍ میل انگریزی کے سوا بیالیس میل شرعی بنتے ہیں جو ۴۵؍ میل شرعی سے پونے تین میل کم ہے اور کلو میٹر کے اعتبار سے یہ فرق تقریبا پانچ کلومیٹر کا بن رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ فرق معمولی نہیں ہے جسے نظر انداز کردیا جائے۔ ۴۵؍ میل شرعی کے انگریزی کے اعتبار سے، ہوتاہے ا س اعتبار سے ۸۲؍ کلو میٹر ۲۹۶؍ میٹر ہوتاہے؛ اس لیے محقق قول یہی معلوم ہوتا ہے کہ ۸۲؍ کلو میٹر پر عمل کیا جائے۔ فتاوی دار العلوم زکریا اور کتاب النوازل میں اسی قول پر فتوی دیا گیا ہے۔ مفتی شبیر صاحب نے بھی ۸۲؍ میل کا قول نقل کیا ہے چناں چہ وہ لکھتے ہیں: کہ عامۃ المشائخ کے اقوال میں سے کم از کم آخری قول اختیار کیا جائے یعنی ۱۵؍ فرسخ جس میں ۴۵؍ میل شرعی ہوتے ہیں جو ۸۲؍ کلو میٹر ۲۹۶؍ میٹر ہوتے ہیں اور ہم لوگ اسی مقدار پر فتوی لکھتے ہیں۔(۱) آپ نے ان کا قول ۸۷؍ کلو میٹر کا نقل کیا ہے جو درست نہیں ہے۔غور کریںتو بہت زیادہ اختلاف اب نہیں رہ گیا ہے ۷۸؍ کلو میٹر اور ۸۲؍ کلو میٹر دو قول ہے اس میں احو ط ۸۲؍ والے کو اختیار کرنا ہے اس لیے کہ اگر مسافت سفر اور مسئلہ قصر میں اختلاف ہوجائے تو اتمام کرنا بہتر ہے اس لیے زیادہ والے قول پر عمل کرنا بہتر ہے تاہم اگر کوئی ۷۸؍ والے قول پر عمل کرلے تو اس کی بھی گنجائش ہوگی اس لیے کہ وہ بھی محققین علماء کا متعین کیا ہوا ہے۔(۱) محمد شفیع العثمانی جواہر الفقہ اوزان شرعیۃ، ج۱، ص: ۴۳۵۔(۱) مفتی محمد شبیر احمد، فتاویٰ القاسمیۃ، ج۴، ص: ۶۰۷۔فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:394