نکاح و شادی

Ref.  No.  3046/46-4861

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  نکاح کے درست ہونے کے لیے ایجاب وقبول  کا ایک ہی مجلس میں ہونا شرط ہے اور ویڈیو کال میں لڑکا اپنی جگہ اور لڑکی اپنی جگہ بیٹھ کر ایجاب و قبول کرتے ہیں جس میں ایک مجلس نہیں پائی جاتی ہے ، اس لئے شرط کے مفقود ہونے کی وجہ سے یہ نکاح درست نہیں ہوتاہے۔ البتہ اس کے جواز کی ایک صورت یہ ہے کہ لڑکا یا لڑکی میں سے کوئی ایک فون پر  کسی شخص کو اپنا وکیل بنادے  جو دوسرے فریق کے پاس موجود ہو اور وہ وکیل شرعی گواہوں (یعنی دو مسلمان عاقل بالغ مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں) کی موجودگی میں فریقِ اول (غائب) کی طرف سے ایجاب کرلے اور دوسرا فریق اسی مجلس میں قبول کرلے تو اتحادِ مجلس کی شرط پوری ہونے کی وجہ سے یہ نکاح صحیح ہوجائے گا۔

ومنها) أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد، وكذا إذا كان أحدهما غائباً لم ينعقد حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين: زوجت نفسي من فلان وهو غائب فبلغه الخبر فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانةً وهي غائبة فبلغها الخبر فقالت: زوجت نفسي منه لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين وهذا قول أبي حنيفة ومحمد -رحمهما الله تعالى - ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب؛ جاز لاتحاد المجلس من حيث المعنى". (الفتاوى الهندية (1/ 269)

ثم النكاح كما ينعقد بهذه الألفاظ بطريق الأصالة ينعقد بها بطريق النيابة، بالوكالة، والرسالة؛ لأن تصرف الوكيل كتصرف الموكل، وكلام الرسول كلام المرسل، والأصل في جواز الوكالة في باب النكاح ما روي أن النجاشي زوج رسول الله صلى الله عليه وسلم أم حبيبة - رضي الله عنها - فلا يخلو ذلك إما أن فعله بأمر النبي صلى الله عليه وسلم أو لا بأمره، فإن فعله بأمره فهو وكيله، وإن فعله بغير أمره فقد أجاز النبي صلى الله عليه وسلم عقده، والإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة". (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 231)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 3045/46-4867

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تحلیل وتحریم کا اختیار اللہ تعالیٰ کو ہے ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی وجہ سے شہد نہ کھانے کی قسم کھا لی تھی تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آیت نازل فرمائی (یا ایہا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک) اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی  حلال کردہ چیز کو حرام کرنے سے منع کیا گیا اس لیے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی ادارے یا فرد کو تحلیل وتحریم کا اختیار دینا ناجائز اور حرام ہے اور اگر اس کا اعتقاد بھی رکھا جائے تو یہ کفر ہے، اسی طرح ہر مسلمان کا فریضہ ہے کہ قرآن وحدیث کو اپنے جھگڑے میں حکم اور فیصل بنائے خود قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس کی تاکید فرمائی ہے، لیکن جہاں پر اسلامی اصولوں پر مبنی عدالت نہ ہو تو ملکی دستور کے مطابق جس حد تک اپنے مذہب پر عمل کی آزادی ہے خاص طور پر عائلی مسائل میں دار القضاء میں فیصلہ کرانا چاہئے شرعی حکم پر عمل کے امکان کے باوجود جان بوجھ کر غیر شرعی فیصلہ کرانا یہ گناہ اور ایمان کی کمزوری کی علامت ہے۔ فلا وربک لایؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم (القرآن)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Masajid & Madaris

Ref. No. 3044/46-4866

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لڑکیوں کو دینی تعلیم دینا بہت  ضروری ہے، مگر ان کے لئے مدرسہ  چلانے والوں کو بہت احیتاط کی ضرورت ہوتی ہے جو عام طور پر نہیں ہوتی ہے، اور دینی ادارہ میں بے پردگی پر کوئی خاص توجہ نہ دینا افسوس کی بات ہوتی ہے۔ اگر معقول پردہ کے ساتھ، خواتین اساتذہ  پڑھائیں تو زیادہ بہتر ہے اور اگر مرد حضرات پڑھائیں تو لڑکیوں کی نگرانی کے لئے اندر ایک عورت ہو اور مرد استاذ سے لڑکیوں کا کوئی تعلق یا بات چیت نہ ہو  ورنہ آہستہ آہستہ یہ بات چیت بے تکلفی میں بدل جائے گی ۔  اگر اس طرح کوئی مدرسۃ البنات چلائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ چھٹی ہونے پر والد یا محرم سرپرست بچیوں کو اپنے ساتھ لائیں اور لیجائیں ، اس کا بھی اہتمام ہو۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Business & employment

Ref. No. 3043/46-4865

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس ایپ کے ذریعہ اگر سوال کا جواب دے کر پیسہ کمایا جاتاہے اور اس میں پیشگی کچھ جمع نہیں کرنا پڑتاہے تو جس طرح آف لائن سوال کا جواب دے کر انعام کمانا جائز ہے اسی طرح یہ بھی جائز ہوگا، صرف آن لائن ہونے سے کوئی فرق نہیں آئے گا، تاہم اس کو دوسروں تک پہونچاکر اس سے جو پیسے دوسروں کے کمانے سے آپ کو حاصل ہوں گے وہ اجرت (دلالی)  غیر متعین  ہے۔ لہذا وہ  رقم لینا آپ کے لئے جائز نہیں ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref.  No.  3041/46-4863

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں شہاب الدین مرحوم کی کل  جائداد منقولہ وغیرمنقولہ کو اس کی تمام اولاد اور موجودہ بیوی کے درمیان اس طرح تقسیم کیاجائے گا کہ کل مال کا ثمن یعنی آٹھواں حصہ مرحوم کی بیوی کو دینے کے بعد مابقیہ جائدادکو اس کی تمام اولاد میں للذکر مثل حظ الانثیین کے حساب سے تقسیم کریں گے۔ چنانچہ تمام ترکہ کو 80 حصوں میں تقسیم کرکے فاطمہ بیوی کو 10 حصے، چاروں بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو 14 حصے اور دو بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو سات حصے دیں گے۔

پھر فاطمہ کا انتقال ہوا تو فاطمہ کا کل ترکہ جو اس کی ملکیت میں ہے یا  جو اس کو اپنے مرحوم شوہر سے ملا ہے  سب کو اس کے دو حقیقی بیٹوں اور ایک حقیقی بیٹی کے درمیان للذکر مثل حظ الانثیین کے حساب سے تقسیم کریں گے، اورسوتیلی ماں(فاطمہ) کے ترکہ میں سے  سوتیلے(مریم کے) بیٹوں کا شرعی قانون کے مطابق کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ چنانچہ فاطمہ کا کل ترکہ اگر 10 ہے جو شوہر سے ملا ہے تو  بیٹوں کو چارچار  اور بیٹی کو دو حصے ملیں گے۔

 پھر جب سعیدہ کا انتقال ہوا  تو اس کی پوری ملکیت اور جو کچھ اس کو اپنے مرحوم باپ سے اور پھر مرحومہ ماں سے ملا ہے ان سب کو اس کے دو حقیقی بھائیوں کے درمیان  برابر برابر تقسیم کریں گے،اور سوتیلے بھائیوں کو  سوتیلی بہن کے ترکہ سے کچھ نہیں  ملے گا۔ چنانچہ سعیدہ کو اپنے باپ سے سات حصے اور ماں سے دو حصے ملے تھے، تو اگر اس کے پاس کل نو حصے ہیں تو دونوں بھائی نصف نصف لے لیں گے۔

اگر اب تک میراث تقسیم نہیں ہوئی ہے تو موجود وارثین کے درمیان اس کو اس طرح تقسیم کرسکتے ہیں کہ کل ترکہ کے 320 حصے کریں، جن میں سے غلام محمد کو 56 حصے، احمد شیخ کو 56 حصے، عبدالعزیز کو 90 حصے، ضیاء الدین کو 90 حصے اور شریفہ کو 28 حصے دیدئے جائیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3040/46-4854

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

In Islam, it is not forbidden for women to pursue medical education or practice medicine; in fact, it can be considered necessary to some extent, as you have highlighted in relation to certain needs. However, there are specific guidelines in Islam regarding women's education. One of the key conditions is that modesty (hijab) must be maintained, mixed-gender environments should be avoided, and unnecessary interactions with non-mahram men — including unnecessary conversations or interactions — should be completely avoided.

As you are about to complete your education and currently completing your internship, you can continue your studies. As you have mentioned, you do not maintain friendly relationships with male healthcare workers, and so, if it becomes necessary to interact with male doctors or male patients for medical purposes, this can be permissible within the context of your education, provided it is done with the utmost professionalism and necessity.

وفي رد المحتار وأما فرض الكفاية من العلم فهو كل عالم لا يستغني عنه في قوام امور الدنيا كالطب والحساب والنحو‘‘ (رد المحتار: 1، ص: 42)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband 

Hadith & Sunnah

Ref. No. 3038/46-4852

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  فجر کی نماز طلوع آفتاب سے اتنی دیر پہلے پڑھنی چاہئے کہ مسنون قراءت کے ساتھ نماز پڑھنے کے بعد اگر نماز میں کسی فساد کا  علم ہو اور نماز  کے اعادہ کی ضرورت پڑے تو وقت کے اندر ہی نماز کا اعادہ ممکن ہو۔ عام طور پر فجر میں مسنون قراءت کرنے کے لئے دس  سے پندرہ منٹ  درکار ہوتے ہیں۔ اس لئے فجر کی نماز طلوع آفتاب سے کم از کم پچیس منٹ قبل پڑھنی چاہئے۔ اتنی تاخیر کردینا کہ نماز میں شبہہ ہوجائے یا نماز فاسد ہونے کی صورت میں اعادہ کا وقت باقی نہ رہے ، بالکل مناسب نہیں ہے۔ لیکن اگر تاخیر سے نماز ہوتی ہے  اور مسنون قراءت کے ساتھ ہوتی ہے مگر مسنون قراءت کے ساتھ اعادہ کا وقت باقی نہیں رہتاہے تو ایسا کرنا مناسب نہیں لیکن یہ وعید میں داخل نہیں ہوگا، کیونکہ اس نے نماز میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے۔    

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Marriage (Nikah)

Ref. No. 3036/46-4853

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر لڑکی والے  کسی قسم کی زبردستی اور خاندانی دباؤ کے بغیر اپنی خوشی و رضامندی سے لڑکے والوں کے متعلقین کو بھی  دعوت پر  بلائیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔  لڑکے والوں کو  چاہیے کہ بارات کی دعوت میں اتنے افراد کو لے کر جائیں جتنے افراد کو لڑکی والوں نے اپنی وسعت کے مطابق دعوت دی ہو، اس لیے پچیس پچاس افراد کو ان کی رضامندی سے لے جانے میں کوئی سنت کی خلاف ورزی نہیں ہوگی۔ لڑکی والوں کی رضامندی  سے افراد کی تعیین کی جائے اور ان پر زیادہ بوجھ نہ ڈالاجائے۔اسی طرح منگنی کے موقع پر چند افراد( جس تعداد  پر لڑکی والے راضی ہوں )لے جانے میں کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔ مفتی کفایت اللہ صاحب نے لکھا ہے کہ: ’’لڑکی والوں کی طرف سے باراتیوں کو یا برادری  والوں کو کھانا دینا لازم یا مسنون اور مستحب نہیں ہے ، اگر  بغیرالتزام کے وہ اپنی مرضی سے کھانا دیدیں تو مباح ہے، نہ دیں تو کوئی الزام نہیں'' ۔ (کفایت المفتی، 7/471، باب العرس والولیمہ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref.  No.  3032/46-4842

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد کی زمین جو مسجدسے علیحدہ ہواور مسجد کے لیے وقف ہو اور واقف نے اس بات کی تصریح کردی ہو کہ اس کی آمدنی سے مسجد کی  جملہ ضروریات کو پورا کیا جائے تو  اس زمین پر مسجد بنانا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ واقف کے منشاء کے خلاف ہے۔ اس لئے مصالح مسجد کے لئے وقف شدہ زمین پر مسجد  نہیں بنائی جائے گی۔  البتہ اگر بڑی مسجد  کی آمدنی کے دیگر ذرائع موجود ہوں اور اس کے پاس اتنا مال ہو کہ اس کو اس وقف شدہ  زمین کی آمدنی کی  نہ تو فی الحال ضرورت ہے اور نہ ہی  آئندہ ضرورت پیش آنے کے امید ہے ،نیز اس زمین کی آمدنی کے ضائع ہونے یا غیر مصرف میں خرچ  ہونے کا اندیشہ ہے تو ایسی صورت میں  اس زمین پر مسجد بنانا جائزہوگا۔

إن ‌شرائط ‌الواقف ‌معتبرةٌ إذا لم تخالف الشرع وهو مالكٌ، فله أن يجعل ماله حيث شاء ما لم يكن معصية وله أن يخصّ صنفاً من الفقراء، وكذا سيأتي في فروع الفصل الأول أنّ قولهم: شرط الواقف كنصّ الشارع أي في المفهوم والدلالة، ووجوب العمل به.  قلت: لكن لا يخفى أن هذا إذا علم أنّ الواقف نفسه شرط ذلك حقيقةّ، أما مجرد كتابة ذلك على ظهر الكتب كما هو العادة فلا يثبت به الشرط، وقد أخبرني بعض قوّام مدرسة إنّ واقفها كتب ذلك ليجعل حيلةً لمنع إعارة من يخشى منه الضياع والله سبحانه أعلم .

(رد المحتار ، کتاب الوقف، مطلب متی ذکر للوقف مصرفاً....،ج:۴،ص:۳۶۶،ط:سعید)

البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناء ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعاً لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصحّ أنه لا يجوز كذا في الغياثية. (الھندیۃ، کتاب الوقف، الباب الثانی فی مایجوز وقفہ ومالایجوز، ج:۲،ص:۳۶۲،ط:رشیدیہ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 3020/46-4818

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   پورا سوال پڑھنے سے یہ معلوم ہوا کہ آپ نے ایک مرتبہ اپنی بیوی کو فون پر کہا ہے کہ میں تم کو چھوڑرہاہوں۔ پس اس کہنے کی وجہ سے ایک طلاق واقع ہوگئی تھی، اگر اس طلاق کے بعد آپ نے قولی یا عملی رجعت نہیں کی اور عورت کی عدت پوری ہوگئی تو نکاح آپ دونوں کا ختم ہوگیا ۔ اب اس لڑکی سے دوبارہ نئے مہر کے ساتھ نکاح کرکے دونوں ایک ساتھ میاں بیوی کے طور پر رہ سکتے ہیں۔ خیال رہے کہ  یہ جملہ 'میں تم کو چھوڑرہاہوں " آپ نے عدت کے دوران  جتنی بار بولا ہے اتنی ہی طلاقیں واقع ہوں گی۔ اگر آپ نے ایک طلاق دی ہے تو آئندہ نکاح کے بعد دو طلاق کا مزید اختیار باقی ہے، اس لئے آئندہ احتیاط کریں اور طلاق دینے سے بچیں۔  لیکن اگر دوران عدت کئی مرتبہ یہ جملہ بولا ہے تو اس کی تفصیل لکھ کر دوبارہ سوال کیاجاسکتاہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند