Frequently Asked Questions
Fiqh
Ref. No. 2993/46-4765
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر عقد کرتے وقت ہی مبیع کی مجموعی قیمت اور اس کی ادائیگی کی مدت متعین طریقہ پر طے کردی جائے اور مدت بڑھنے پر کسی سود کا اضافہ نہ کیاجائے تو اس طرح قسطوں پر بیع و شراء کرنا جائز اور درست ہے۔ اور اگر عقد میں یہ طے ہوا کہ اتنی مدت کی قسط ادا نہ کرنے کی صورت میں ہر ماہ اضافی رقم دینی ہوگی تو ایسی صورت میں مدت متعینہ میں قسط کی ادائیگی لازم ہوگی، اور اگر مدت پوری ہوگئی اور قسط پوری نہ ہوئی تو اب اضافی رقم سود کی شکل میں ہر ماہ دینی ہوگی جو ناجائز ہے اس لئے یہ معاملہ ناجائز ہوجائے گا۔
البیع مع تاجیل الثمن وتقسیطہ صحیح ․․․․ یلزم أن تکون المدّة معلومة فی البیع التاجیل والتقسیط) شرح المجلة: ۱/۱۲۷، رقم المادة: ۲۴۵، ۲۴۶) ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Divorce & Separation
Ref. No. 2992/46-4764
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Shariah has given the power of divorce only to man, therefore only the man can divorce after the marriage or pronounce conditional divorce before marriage. And upon marriage conditional divorce takes place when the husband becomes the owner of the divorce. A woman cannot give divorce even after marriage and she has no right for conditional divorce before marriage. Before marriage, the man is not the owner of the divorce, so if he makes his prospective wife the owner of the divorce and gives the right to divorce, it will not be valid. Giving divorce with condition on any act other than marriage does not constitute divorce.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
Ref. No. 2988/46-4763
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کے تمام سوالات تفصیل طلب ہیں اور ان کے متعلق علماء دیوبند کی کتب متداولہ میں کافی و شافی جوابات موجود ہیں، تاہم چند مختصر نکات کو بیان کرنے کے بعد ہم حوالہ پیش کردیتے ہیں تاکہ آپ مزید تفصیل کے لئے بوقت ضرورت رجوع کرسکیں۔
1. اللہ تعالی نے جو کچھ فرمایا اس کے خلاف کرنے پر قادر ہے، مگر باختیار خود اس کو نہیں کرے گا ، مثلا فرعون پر ادخال نار کی وعید ہے مگر فرعون کو جنت میں داخل کرنے پر قادر ہے اگر چہ ہر گز اس کو جنت میں داخل نہیں کرے گا جیسا کہ خود اس نے متعدد بار قرآن میں فرمایا ہے؛ اس کو علم کلام کی اصطلاح میں امکان ذاتی اور امتناع بالغیر سے تعبیر کیاجاتاہے۔ (فتاویٰ رشیدیہ ص، جیسم بکڈپو113)
2-6. کے سوالات کے متعلق مختصر اً یہ سمجھیں کہ : ہر صفت کا ایک دائرہ کار ہوتاہے، جس میں وہ اپنا کام کرتی ہے، قدرت کا دائرہ کار مقدورات یعنی ممکنات ہیں، اس لئے اگر وہ محالات اور ممتنعات کی جانب متوجہ نہیں ہوتی تو اس کے کمال میں ہرگز کسی نقصان کا وہم بھی نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ محالات اس کے دائرہ کار میں داخل ہی نہیں ہیں، وہ اپنی حقیقت کے لحاظ سے کسی دائرہ خارج میں آنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے، یعنی کمال و نقصانِ فاعلیت ، اور کمال و نقصانِ مفعولیت دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے، اس حقیقت کو س پہونچنے کی بناء پر ایک شخص مقدوریت کے نقصان کو قادریت کا نقصان سمجھ بیٹھتاہے، موتِ خداوندی مقدور نہیں کیونکہ محال ہے، مگر اس سے اللہ کی قادریت میں کوئی فرق اورنقصان لازم نہیں آئے گا ۔(انتصار الاسلام از حضرت نانوتویؒ ص 32 مکتبہ دارالعلوم دیوبند)
3. اللہ کا نور اجزاء و حصص سے پاک ہے، اس لئے اللہ کے نور سے کسی کا پیداہونا بھی محال ہے، ہاں اللہ کے نور سے مراد اگر اللہ کے نور کے فیض سے پیداہونا ہے تو یہ ممکنات کے قبیل سے ہے، چنانچہ جن روایات میں پیغمبرکا نور سے پیدا ہونا بیان ہوا یا ان کو نور کہا گیا اس سے مراد بعینہ ذات نور خداوندی نہیں ہے بلکہ فیضِ نورخداوندی مراد ہے۔ (رسالہ بینات ، محرم الحرام 1402 مطابق نومبر 1981ء جلد 40، شمارہ 1 ص21تا 39 بنوری ٹاؤن) یہ اصول یاد رکھیں کہ جس چیز کے تسلیم کرنے سے ذات و صفات خداوندی میں فرق آجائے وہ محال ہے ، اور محال و ممتنع چیز باری تعالی کے لئے ثابت نہیں ہے، وہ ہر محال سے منزہ اور برتر ہے، ایسی چیزوں کو اللہ کی جانب منسوب کرنا سخت گستاخی کی بات ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ ج3 ص 35 مکتبہ محمودیہ)
7. کسی کا یہ کہنا کہ اگر اللہ تعالی شرک کے لئے کہتا تو میں شرک کرتا، یہ جملہ اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کرنے اور اس کے حکم کے زیر نگیں ہونے کو بتانے کے لئے ہے، اس لئے محض ایسا سوچنے یا زبان سے کہنے سے کوئی کافر نہیں ہوگا، اور تجدید ایمان و نکاح کی بھی حاجت نہیں ہوگی، اور شرک کی اجازت پر اللہ کی قدرت کا عقیدہ اپنی جگہ درست ہے جیساکہ تفصیل اس کی آچکی ہے۔
قدرت باری تعالیٰ پر مزید تفصیل کے لئے مندرجہ ذیل کتابوں کا مطالعہ کرسکتے ہیں: اتنصار الاسلام از حضرت نانوتوی ؒ ص 24 تا 33، بوادرالنوادر ج1 ص 207 تا 210 جسیم بکڈپو، فتاوی ٰ رشیدیہ ص 113 جسیم بکڈپو، فتاویٰ محمودیہ ج3 ص 35 مکتبہ محمودیہ، رسالہ بینات ، محرم الحرام 1402 مطابق نومبر 1981ء جلد 40، شمارہ 1 ص21تا 39 بنوری ٹاؤن
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبندربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 2959/45-4713
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سودی رقم کا حکم یہ ہے کہ بلانیتِ ثواب فقراء و مساکین وغیرہ پر صدقہ کردیاجائے ، اسی طرح اگر اس رقم سے اصلاحی کتابیں یا درسی کتابیں یا ضرورت کی اشیاء خرید کر غریب طلبہ میں تقسیم کردی جائیں اور ان کو مالک بنادیاجائے تو اس کی بھی گنجائش ہے ۔ سودی رقم بعینہ صرف کرنا لازم نہیں ہے۔
''والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، و إلا فإن علم عين الحرام فلا يحل له، وتصدق به بنية صاحبه''. (شامی، مطلب فيمن ورث مالاً حراماً، ٥/ ٥٥،ط: سعيد)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 2961/45-4712
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کوئی پورا جانور ایک ساتھ لیتاہے تو اس کو 13000 میں یعنی ایک ہزار کی رعایت کے ساتھ بیچنے والا بیچ دیگا، تاکہ خریدار اپنی قربانی ادا کرے اور اپنے اہل خانہ کو شریک کرلے۔ اور اگر ایک جانور میں مختلف لوگوں کو 2000 کے حساب سے شریک کرکے 14000 کا جانور قربانی میں ذبح کیاجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس لئے اس طرح کا اعلان نکالنے اور اس کے مطابق جانور بیچنے اور خریدنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2972/45-4709
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اولاد اس دنیا کی بہت بڑی نعمت ہے، اور شریعت میں زیادہ اولاد والا ہونا پسندیدہ ہے، نیز شریعت نے بلا کسی وجہ کے اسقاط حمل کو ممنوع قراردیاہے۔آپ کے بعض بچے صحتمند بھی ہیں اس لئے یہ خدشہ ظاہر کرنا کہ کہیں خدانخواستہ پیداہونے والا بچہ بھی اسی بیماری کا شکار ہو بے معنی ہوجاتاہے۔ اس لئے آپ صدقہ وخیرات کی کثرت رکھیں اور دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالی ہونے والے بچہ کو صحتمند بنائے۔صورت مسئولہ میں محض ایک خدشہ کی بناء پر اسقاط حمل کی اجازت نہیں ہے۔
"وذهب الحنفیة إلی إباحة إسقاط العلقة حیث أنهم یقولون بإباحة إسقاط الحمل ما لم یتخلق منه شيء ولم یتم التخلق إلا بعد مائة وعشرین یوماً، قال ابن عابدین: وإطلاقهم یفید عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذکورة علی إذن الزوج، وکان الفقیه علي بن موسی الحنفي یقول: إنه یکره فإن الماء بعد ما وقع في الرحم مآله الحیاة، فیکون له حکم الحیاة کما في بیضة صید الحرم، قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة علی حالة العذر أو أنها لا تأثم إثم القتل" (الموسوعة الفقهیة الکویتیة (۳۰/ ۲۸۵)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 2967/45-4707
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قربانی کے جانور کی کھال جب تک فروخت نہ کی جائے اس کا حکم مختلف ہے، خود قربانی کرنے والا اپنے استعمال میں لاسکتاہے اور کسی امیر و غریب کو ہدیہ کردے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ تاہم اگر اس کو فروخت کردیا گیا تو اس کی قیمت کا تصدق واجب ہوجاتاہے۔ اس لئے اگر کھال مسجد کو استعمال کے لئے دی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن عام طور پر مسجد کو کھال دینے کا مطلب ہوتاہے کہ متولی اس کھال کو بیچ کر اس کی رقم مسجد میں استعمال کرے اور ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ مسجد واجبی صدقہ کا مصرف نہیں ہے، واجبی صدقہ کا مصرف مستحق زکوٰة غریب شخص ہے یعنی اس کو تملیکاً دینا واجب ہے اور مسجد میں قیمت صرف کردینے سے تملیک شرعی کا تحقق نہیں ہوتاہے۔ اس لیے مسجد کے لئے کھال کا جمع کرنا ہی درست نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی قربانی کی کھال امام یا مؤذن یا کسی کو بھی ہدیہ کے طور پر دیدے اور وہ اس کو بیچ کر اپنے علاج وغیرہ میں استعمال کرے تو اس کی گنجائش ہے۔
وعند أبي يوسف لا ينفذ لما ذكرنا فيما قبل الذبح ويتصدق بثمنه؛ لأن القربة ذهبت عنه فيتصدق به ولأنه استفاده بسبب محظور وهو البيع فلا يخلو عن خبث فكان سبيله التصدق وله أن ينتفع بجلد أضحيته في بيته بأن يجعله سقاء أو فروا أو غير ذلك
(بدائع الصنائع، كتاب التضحية ، فصل في بيان ما يستحب قبل التضحية وبعدها وما يكره ، ج : 5 ص : 81 ط : دارالكتب العلمية)
وكذلك لا يشترى به اللحم، ولا بأس ببيعة بالدارهم ليتصدق بها، وليس له أن يبيعها بالدارهم لينفقه على نفسه، الخانية: أو عياله، م: ولو فعل ذلك تصدق بثمنها (التاتارخانیۃ كتاب الاضحية، الفصل: الانتفاع بالاضحية:440/17، فاروقية) (الهندية:كتاب الاضحية، الباب السادس، في بيان ما يستحب في الاضحية والاتنفاع بها:347/5، دار الفكر)’’(فإن بيع اللحم أو الجلد به) أي بمستهلك (أو بدارهم تصدق بثمنه)‘‘.( التنويرمع الدر: كتاب الاضحية:543/9، رشيدية)
’’لایصرف إلی بناء نحو مسجد إلخ‘‘. (قولہ:نحو مسجد کبناء القناط والسقیات إلخ) وکل مالاتملک فیہ‘‘.(التنویر مع الدر، کتاب الاضحیۃ:62/2،بیروت)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 2964/45-4706
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد کے لئے جو رقم چندہ سے جمع کی جائے اس میں دینےوالوں کی نیت خاص مسجد اور مصالح مسجد کے لئے ہی دینے کی ہوتی ہے، لہذا اس کو دوسرے مصارف میں لگانا چندہ دہندگان کے منشا کے منافی ہے، اس لئے اس رقم کو مسجد ہی میں لگایا جائے، تاہم جو رقم صراحت کے ساتھ دوسرے دینی کاموں کے لئے ہی جمع کی گئی ہو اس کو مسجد کمیٹی کے مشورہ سے مسجد کے تحت چلنے والے دوسرے دینی کاموں میں بھی لگایا جاسکتاہے۔ مسجد کے لئے جمع کی گئی رقم کو مسجد ہی میں استعمال کیاجائے گا اور اگر اس رقم کی فی الحال ضرورت نہ ہو تو بھی اس کو مسجد ہی کے آئندہ استعمال کے لئے محفوظ رکھاجائے گا اس رقم کو کسی دوسرے مصرف میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے یہاں تک کہ دوسری مسجد میں بھی لگانا درست نہیں ہے۔
"فإن شرائط الواقف معتبرة إذا لم تخالف الشرع وهو مالك، فله أن يجعل ماله حيث شاء ما لم يكن معصية وله أن يخص صنفا من الفقراء ولو كان الوضع في كلهم قربة." (شامی، کتاب الوقف ،ج:4 ص:343 ط:سعید)
"على أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة." ) شامی، كتاب الوقف ج:4،ص:445،ط:سعيد)
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: محمد اسعد
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 2968/45-4705
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔آپ نے جس سے دو سو روپئے لئے تھے، اس ی کو لوٹانا ضروری ہے، تاہم اگر کسی طرح بھی اس کا سراغ نہ ملے اور پیسے لوٹانے کی کوئی شکل نہ ہو تو اس شخص کی طرف سے دو سو روپئے صدقہ کردیں، تو اس طرح آپ بریء الذمہ ہوسکتے ہیں، تاہم خیال رہے کہ اگر کبھی بھی اس کا پتہ چل گیا یا ملاقات ہوگئی تو اس کودو سو روپئے لوٹانا ضروری ہوگا الا یہ کہ وہ صدقہ کی اجازت دیدے، اگر اجازت نہ دے گا تو اس کو دو سو روپئے لوٹانے ہوں گے اوراب وہ صدقہ آپ کی طرف سے شمارہو گا۔
ثم بعد تعريف المدة المذكورة الملتقط مخير بين أن يحفظها حسبة وبين أن يتصدق بها فإن جاء صاحبها فأمضى الصدقة يكون له ثوابها وإن لم يمضها ضمن الملتقط أو المسكين إن شاء لو هلكت في يده فإن ضمن الملتقط لا يرجع على الفقير وإن ضمن الفقير لا يرجع على الملتقط وإن كانت اللقطة في يد الملتقط أو المسكين قائمة أخذها منه، كذا في شرح مجمع البحرين. (الھندیة: (کتاب اللقطۃ، 289/2، ط: دار الفکر) (فينتفع) الرافع (بها لو فقيرا وإلا تصدق بها على فقير ولو على أصله وفرعه وعرسه ۔۔۔۔ (فإن جاء مالكها) بعد التصدق (خير بين إجازة فعله ولو بعد هلاكها) وله ثوابها (أو تضمينه۔ (الدر المختار: (279/4- 280، ط: دار الفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2966/45-4704
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال ایسے شخص کا سماجی بائیکاٹ ضروری ہے ، اس قدر گھناؤنی حرکت کے باوجود اس کے گھر آناجانا بڑی ہی بے غیرتی کی بات ہے، ایمان کا تقاضہ ہے کہ اس سنگین گناہ کے مرتکب کے ساتھ کوئی تعلق نہ رکھاجائے ، یہاں تک کہ جولوگ تعلق رکھتے ہیں ان کو بھی منع کیاجائے، اور اس شخص کی بیوی کو بھی سمجھایاجائےکہ وہ اب حرام کا مرتکب ہورہی ہے، اس کے لئے اپنے شوہرکے ساتھ رہنا قطعا ناجائز اورشرعی طور پر حرام ہے۔ پنچایت میں اس کو پیش کرکے اس سے توبہ کرائی جائے، اگر وہ بیوی کو طلاق دے کر الگ کردے اور اپنے گناہ پر نادم ہوکر توبہ کرلے اور پھر اس کے بائیکاٹ کو ختم کردیاجائے تو اس کی گنجائش ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند