طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ووٹ ایک طرح کی شہادت ہے، جہاں تک ممکن ہو ووٹ ضرور ڈالنا چاہیے(۲) ووٹ ڈالنے کے بعد انگلی پر جو سیاہی لگائی جاتی ہے، وہ جلدی ختم نہیں ہوتی؛ اس لیے اس کے رہتے ہوئے وضو درست ہوگا۔(۳)

(۲)قال النووي۔۔۔ رحمہ اللہ تعالیٰ: أجمعوا علی أن من وعد انساناً شیئا  لیس بمنھی عنہ فینبغي أن  یفي بوعدہ۔ (ملا علی قاری، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الآداب، باب المزاح،‘‘ج۹، ص:۱۱۴)

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص138

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:گلوکوز چڑھانے کی وجہ سے اگر سرنچ کی نلکی میں اس قدر خون آجائے کہ اگر وہ سرنچ میں نہ ہوتا، تو باہر بہہ جاتا؛ اس سے وضو ٹوٹ جائے گا اور اگر اس قدر خون نہیں ہے یا بالکل بھی نہیں ہے، تو گلوکوز چڑھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔ الوضوء مما خرج ولیس مما دخل(۱) القراد إذا مص عضو انسان فامتلأ دما، إن کان صغیرا لا ینقض وضوؤہ، کما لو مصت الذباب أو البعوض، و إن کان کبیرا ینقض، وکذا العلقۃ إذا مصت عضو إنسان حتی امتلأت من دمہ انتقض وضوؤہ (۲)

(۱) الزیلعي، نصب الرایہ ، ’’باب ما یوجب القضاء والکفارۃ،‘‘ ج۲، ص:۴۵۴
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الخامس: في نواقض الوضوء، و منھا ما یخرج من غیر السبیلین،‘‘ ج ۱، ص:۶۲

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص239

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مسجد کی انتظامیہ کمیٹی کے فیصلہ پر عمل کرنا ضروری ہے اور انتظامیہ کو ہی فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے جس اخلاقی جرم کا سوال میں ذکر ہے اس میں اختلاف ہے صورت حال پورے طور پر واضح نہیں نیز اخلاقی جرم امام صاحب کے بیٹے کا ہے نہ کہ امام صاحب کا اس لیے جن لوگوں نے نماز ان کی اقتداء میں پڑھ لی ان کی نماز درست ہوگئی ہے؛ لیکن اس طرح کے امور سے مسجد کی بدنامی ہے اس لیے منتظمہ کمیٹی نے جو فیصلہ کیا ہے یا کرے گی اس پر عمل کرنا چاہئے امام و مؤذن کو بھی فیصلہ کے قبول کرنے میں تامل نہ ہونا چاہئے۔(۱)

(۱) (لو أم قوما وہم لہ کارہون فہو من ثلاثۃ أوجہ: إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أو کانوا أحق بالإمامۃ منہ یکرہ، وإن کان ہو أحق بہا منہم ولا فساد فیہ، ومع ہذا یکرہونہ لایکرہ لہ التقدم لأن الجاہل والفاسق یکرہ العالم والصالح، قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن سرکم أن تقبل صلاتکم فلیؤمکم علماؤکم فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم، وفي روایۃ فلیؤمکم خیارکم۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب بیان الأحق بالإمامۃ‘‘، ج۱، ص: ۱۴۳)    …

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص312

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں مسجد کو قطب نما رکھ کر صحیح کرلیا جائے اور دیکھا جائے کہ اگر قطب نما سے زیادہ فرق معلوم ہوتا ہو تو پھر سمت قبلہ کو صحیح کرکے مسجد میں صفیں بچھائی جائیں خواہ وہ صفیں ٹیڑھی ہی ہوجائیں اگر کوئی زیادہ فرق نہ ہو؛ بلکہ یوں ہی معمولی سا فرق ہو تو مسجد کی صفوں کو ٹیڑھی نہ کی جائے بلکہ صفیں سیدھی کرکے بچھائی جائیں۔(۱)

(۱) اتفقوا علی أن القبلۃ في حق من کان عین الکعبۃ فیلزمہ التوجہ إلی عینہا … ومن کان خارجاً من مکۃ فقبلتہ جہۃ الکعبۃ وہو قول عامۃ المشایخ ہو الصحیح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ: الباب الثالث في شروط الصلوۃ، الفصل الثالث في استقبال القبلۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۲۰، زکریا دیوبند)
فمن کان بحضرۃ الکعبۃ یجب علیہ إصابۃ عینہا ومن کان غائباً منہا ففرضہ جہۃ الکعبۃ … وقبلۃ أہل المشرق ہي جہۃ المغرب۔ (إبراہیم الحلبي، الحلبی کبیری، ’’کتاب الصلوۃ: وأما الشرط الرابع، وہو استقبال القبلۃ‘‘: ص: ۱۹۱، دارالکتاب دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص427

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر جوتا پاک ہو تو ایسے جوتے کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ ؓسے جوتا پہن کر نماز پڑھنا ثابت ہے، تاہم مسجد میں جوتے کے ساتھ نماز پڑھنا موجودہ ماحول میں درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد میں فرش نہیں تھا؛ بلکہ مسجد میں سنگ ریزے تھے؛ ا س لیے وہاں پر آپ جوتے میں نماز پڑھتے تھے؛ لیکن آج کل مساجد میں فرش، ٹائلس اور عمدہ قالین بچھی ہوئی ہوتی ہے مسجد میں جوتا لے کر جانے میں مسجد کی تلویث کا اندیشہ ہے۔ نیز یہ آپسی نزاع کا باعث بن سکتاہے؛ اس لیے کہ عام طورپر لوگ مسجد میں جوتا لے کر داخل نہیں ہوتے؛ بلکہ ہمارے عرف میں مسجد میں جوتا پہن کر جانا اگر چہ جوتا پاک ہو احترام مسجد کے خلاف تصور کیا جاتا ہے اب اگر کوئی ایک آدمی جوتا پہن کر مسجد میں داخل ہوگا تو دوسرے لوگوں کو اعتراض ہوگا اور یہ نزاع کا باعث بنے گا؛ اس لیے مسجد میں جوتا پہن کر نماز نہیں پڑھنی چاہیے؛ ہاں! مسجد کے علاوہ کسی جگہ جوتے پہن کر نماز پڑھنے کی ضرورت ہو تو نماز پڑھ سکتے ہیں۔
’’(قولہ: وصلاتہ فیہما) أي في النعل والخف الطاہرین أفضل؛ مخالفۃً للیہود، تتارخانیۃ۔ وفي الحدیث: صلوا في نعالکم، ولاتشبہوا بالیہود رواہ الطبراني کما في الجامع الصغیر رامزًا لصحتہ۔ وأخذ منہ جمع من الحنابلۃ أنہ سنۃ، ولو کان یمشي بہا في الشوارع؛ لأنّ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وصحبہ کانوا یمشون بہا في طرق المدینۃ ثم یصلون بہا۔ قلت: لکن إذا خشی تلویث فرش المسجد بہا ینبغي عدمہ وإن کانت طاہرۃً۔ و أما المسجد النبوي فقد کان مفروشًا بالحصی في زمنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بخلافہ في زماننا، ولعل ذلک محمل ما في عمدۃ المفتي من أن دخول المسجد متنعلًا من سوء الأدب   تأمل‘‘(۱)
’’فروع: یکرہ اشتمال الصلاۃ علی الصماء والاعتجار والتلثم والتنخم وکل عمل قلیل بلا عذر‘‘(۲)
’’أخبرنا أبو مسلمۃ سعید بن یزید الأزدي، قال: سألت أنس بن مالک: أکان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلي في نعلیہ؟ قال: ’’نعم‘‘(۱) وقد علمت أن النعال غیر المداس المعروف الآن في بلادنا، والصلاۃ في المداس ربما لا تصح؛ لأن
القدم تبقی فیہا معلّقۃ، ولا تقع علی الأرض، فلا تتم السجدۃ۔ ثم في الشامي: أن الصلاۃ في النعلین مستحبۃ، وفي موضع آخر: أنہا مکروہۃ تنزیہًا۔ قلتُ: بل ہي مباح، وحقیقۃ الأمر عندي: أن موسی علیہ الصلاۃ والسلام لما ذہب إلی الطور {نُوْدِيَ ٰیمُوْسٰیہط ۱۱ إِنِّيْٓ أَنَا رَبُّکَ فَاخْلَعْ نَعْلَیْکَج} (سورۃ طہ: ۱۱، ۱۲) حملہ الیہود علی النہی مطلقًا، فلم یجوزوا الصلاۃ في النعلین بحال، وغلطوا فیہ فأصلَحہُ الشرع وکشف عن حقیقتہ من أنہا جائزۃ فیہما، وما زعموہ باطل، ولذا ورد في بعض الروایات: خالفوا الیہود فعلم أن الأمر بالصلاۃ فیہما علی ما في بعض الروایات، إنما ہي لأجل تقریر مُخالفتہم، لا لأنہا مطلوبۃ في نفسہا‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘:  مطلب في أحکام  المساجد، فروع: یکرہ اشتمال الصماء والاعتجار، ج ۲، ص: ۴۲۹
(۲) أیضًا۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ في  النعال‘‘: ج۱، ص: ۵۶، رقم: ۳۸۶۔
(۲) الکشمیری، فیض الباري شرح صحیح البخاري، ’’کتاب الصلاۃ:  باب الصلاۃ في النعال‘‘: ج ۲، ص:۳۵، شیخ الہند دیوبند۔

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص338

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: نفل زائد اور مستحب نماز ہوتی ہے اس کا پڑھنا ضروری نہیں ہے، نفل نماز کا حکم یہ ہے کہ پڑھ لیا جائے تو باعث اجر و ثواب ہے، اور ہماری فرض نمازوں میں جو کمی رہ جاتی ہے یہ نفل ہمارے فرض کے ثواب کی تکمیل کا ذریعہ بنتی ہے؛ اس لیے روزانہ کچھ نہ کچھ نوافل پڑھتے رہنا چاہئے اور اُن کا شوق رکھنا چاہئے؛ جیساکہ امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: قیامت کے دن بندے سے جس چیز کا سب سے پہلے حساب لیا جائے گا وہ نماز ہوگی، اگر اس نے نماز مکمل طریقے سے ادا کی ہوگی تو نفل نماز علیحدہ لکھی جائے گی، اور اگر مکمل طریقے سے ادا نہ کی ہوگی تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہے گا کہ: دیکھو، کیا میرے بندے کے پاس نفل نمازیں ہیں، تو ان سے فرض کی کمی کو پورا کرو، پھر باقی اعمال کا بھی اسی طرح حساب ہوگا۔
’’عن تمیم الداري، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: أول ما یحاسب بہ العبد یوم القیامۃ صلاتہ، فإن أکملہا کتبت لہ نافلۃ، فإن لم یکن أکملہا، قال اللّٰہ سبحانہ للملائکتہ: انظروا، ہل تجدون لعبدي من تطوع؟ فأکملوا بہا ما ضیع من فریضتہ، ثم تؤخذ الأعمال علی حسب ذلک‘‘(۱)
مذکورہ حدیث میں نوافل کی واضح اہمیت وافضلیت بیان کی گئی ہے اور اس میں دعوت فکر ہے ایسے حضرات کے لیے جو سنن ونوافل کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں، انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اور بندگی کے لیے پیدا کیا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اللہ رب العزت کا شکر گزار بندہ بنے اور اپنے رب کے حضور فرض نماز کے علاوہ بھی شکرانے کے طور پر زیادہ سے زیادہ نوافل ادا کرے تاکہ اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہو جائے اور دنیا و آخرت کی تمام مشکلات اس کے لیے آسان ہو جائیں۔
نیز آپ نے پوچھا ہے کہ نفل نماز میں لمبی رکعتیں اور تلاوت میں دلچسپی کی بنا پر قرآن کریم دیکھ کر پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟ اس سلسلے میں یاد رکھیں کہ آپ تمام فرض، واجب اور نفل نمازوں میں قرآن کریم کا وہی حصہ تلاوت کریں جو آپ کو زبانی یاد ہے۔ مزید سورتیں اور آیات یاد کرنے کی کوشش کریں۔ اگر نوافل میں طویل تلاوت کا دل چاہ رہا ہو تو ہر رکعت میں وہ تمام آیات اور چھوٹی سورتیں تلاوت کر لیں جو آپ کو یاد ہیں۔
اگر آپ قرآن کریم دیکھ کر تلاوت کریں گے تو آپ کی نماز فاسد ہو جائیگی اس لیے کہ فقہائے احناف کے نزدیک نماز میں مصحف (قرآن کریم) سے دیکھ کر تلاوت کرنا، صفحہ پلٹنا اور رکوع و سجود کے لیے مصحف (قرآن کریم) کو ایک طرف رکھنا عملِ کثیر ہے اور عملِ کثیر سے نماز فاسد جاتی ہے۔ جیسا کہ صاحب ہدایہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
’’إذا قرأ الإمام من المصحف فسدت صلاتہ، عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ وقالا: ہي تامۃ، لأنہا عبادۃ انضافت إلی عبادۃ، إلا أنہ یکرہ، لأنہ یشبہ بصنع أہل الکتاب، ولأبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ أن حمل المصحف والنظر فیہ وتقلیب الأوراق عمل کثیر، ولأنہ تلقن من المصحف فصار کما إذا تلقن من غیرہ، وعلی ہذا لا فرق بین المحمول والموضوع، وعلی الأول یفترقان‘‘(۱)
خلاصہ: امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک فرائض ونوافل تمام نمازوں میں قرآن سے دیکھ کر قرات کرنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے اور صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک کراہت کے ساتھ نماز ہو جاتی ہے، مگر احناف کا فتویٰ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول پر ہے۔

(۱) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’باب ما جاء في أول ما یحاسب بہ‘‘: ج ۱ ، ص: ۱۰۳ رقم: ۱۴۲۶۔)
(۱) المرغیناني، الہدایۃ، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا: ج ۱، ص: ۱۳۷-۱۳۸۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص395

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 986 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

صاحب نصاب کو زکوۃ دینی درست نہیں، اگر زکوٰۃ دیدی گئی تو ادا نہیں ہوگی۔ ایسے شخص کو امداد و تعاون کی رقم دینی نہ چاہیے۔ شامی

واللہ تعالی اعلم

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

 

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as hereunder:

He wrote in his profile "Fazile Deoband from Jamia Deneeiyat". Jamia Deeniyat offers courses in the distance mode of learning; every muslim male or female can join it to seek Islamic knowledge without regard to Maslak and school of thoughts, and also get certificate after completion of the course. Joining this distance learning course does not necessarily mean that they fully agree with the thoughts and schools of Ulamae Deoband. And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 967

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: بشرط صحت سوال اگر زید کے والد کے وارثین میں کل تین ہی افراد ہیں تو کل جائداد کو چار حصوں میں  تقسیم کرکے دو حصے زید کو اور  ایک وہ حصہ جو اس بہن کے حصہ میں آتا ہے جو مصالحت کرچکی ہے زید ہی کو دے کر یعنی زید کو کل تین حصے ملیں گے، باقی ایک حصہ مطالبہ کرنے والی بہن کو دیدیا جائے۔ بہن جس پر راضی ہو وہی صورت اختیار کریں ۔   واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Miscellaneous

Ref. No. 38 / 1079

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Some ulama hold photographic imaging, video imaging and the like to be forbidden while others say that today’s digital photography is not that photography which is impermissible in Islam, hence digital photography is not Haram.

Therefore, we say it is better to avoid all kinds of photographic and video imaging. And also it should not be used for Tableeghi Islamic purposes.  

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband