نکاح و شادی
اگر لڑکا اپنی ہونے والی بیوی یعنی لڑکی کی موجودگی میں لڑکی کی ماں سے پوچھے کے آپ اپنی بیٹی کا مجھ سے نکاح کر دیں اس وقت دو مسلمان مرد بھی موجود ہوں جبکہ لڑکی کی ماں کہے کہ ابھی منگنی کر لیں نکاح تین ماہ بعد کر لیں گیں. اس پر کیا حکم لگے گا لڑکی چپ رہے جبکہ وہ دل میں کہے کہ وہ چپ نکاح قبول کرنے کی نیت سے ہے. کیا نکاح ہو جائے گا

اسلامی عقائد

Ref. No. 1988/44-1935

بسم اللہ الرحمن الرحیم: مروجہ تمام بینک سودی نظام پرقائم ہیں، اور شریعت میں سودی حسابات کے تمام کام حرام ہیں، اس لئے بینک میں سودی لین دین  سے متعلق جملہ امور ناجائز ہیں ۔ تاہم اگر کوئی پہلے سے بینک میں ملازمت پر ہے تو اس  کے لئے بہتر ہے کہ دوسری ملازمت  کی تلاش بھی کرتارہے۔  

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ  فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ}[البقرة:278، 279] {وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ}[المائدة:2]

’’عن جابر رضي الله عنه، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه» ، وقال: «هم سواء».‘‘ (الصحیح لمسلم، 3/1219، باب لعن آكل الربا ومؤكله، ط:دار احیاء التراث-بیروت) (مشکاة المصابیح، باب الربوا، ص:243، ط:قدیمی)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 2270/44-2431

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر پلاٹ خریدتے وقت ہی بیچنے کی نیت  تھی  تو پھر اس کی وجہ سے وہ پلاٹ  ایک تجارتی سامان ہے، لہذا  تجارتی سامان کی موجودگی میں جس کی قیمت ڈیڑھ لاکھ روپئے ہیں، اس کو زکوۃ کی رقم دینا درست نہیں  ہے، اور اگر  خریدتے وقت بیچنے کی نیت نہیں  تھی تو اب  بعد میں بیچنے کی نیت کرنے سے وہ سامان ِ تجارت نہیں بنے گا ،  لہذا عورت کو اس پلاٹ کی وجہ سے صاحب نصاب نہیں کہاجائے گا اس لئے اس کو زکوۃ دینا جائز ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ اللہ تعالیٰ ساتویں آسمان پر ہیں اور سب فرشتے اس کے لیے نماز پڑھتے ہیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرشتوں کی نماز کیسی ہوتی ہے؟ تو اس پر حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا: کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے میرا سلام فرمادیجئے اور بتلادیجئے کہ آسمان دنیا کے فرشتے اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے رہیں گے اور بس ’’سبحان ذي الملک والملکوت‘‘ پڑھتے رہیں گے اور دوسرے آسمان والے فرشتے رکوع میں رہیں گے اور ’’سبحان ذي العزۃ والجبروت‘‘ پڑھتے رہیں گے اور تیسرے آسمان کے فرشتے حالت قیام میں رہیں گے اور کہتے رہیں گے ’’سبحان الحي الذي لایموت‘‘(۱)

(۱) علاء الدین بن حسام الدین، الہندي، کنزالعمال، ’’کتاب العظمۃ: من قسم الأفعال‘‘: ج ۱۰،ص: ۱۶۵، رقم: ۲۹۸۱۹۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص256

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:منڈھا کرنا درحقیقت ایک ہندوانہ رسم ہے جس میں شادی سے ایک دن پہلے لڑکے والوں اور لڑکی والوں کی طرف سے نائی جوڑا او رمہندی لے کر ایک دوسرے کی طرف بھیجاجاتا ہے اور اس کی آمدکے اہتمام میں دعوت ہوتی ہے اگر اس طرح کی چیز یں اور رسمیں شامل ہوں تو یہ ناجائز ہے(۱) اور اگر ان رسوم ورواج کے طور پر نہ ہو؛ بلکہ شادی سے پہلے ہی مہمان آجاتے ہیں؛ اس لیے کہ مزید کچھ قریبی رشتہ داروں کی دعوت کر دی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۲) بارات کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے، یہ بھی زمانہ قدیم کی رسم ہے جب راستے پر خطر ہوا کرتے تھے اس وقت کی ضرورت تھی جس میں خاندان اورمحلہ کے ایک ایک آدمی شریک ہوتے تھے، اب ایسا کچھ نہیں ہے، بارات کا ثبوت احادیث سے نہیں ہے بس چند لوگ جائیں اور رخصتی لے کر آجائیں، اتنے زیادہ لوگوں کا جانا جس کی وجہ سے لڑکی والوں پر بوجھ پڑ جائے درست نہیں ہے(۳) کھڑے ہو کر کھانا کھلانا اور کھانا مہذب تہذیب کی بد تہذیبی ہے جس میں کھانے کا احترام مفقود ہو جاتا ہے اور انسان او رحیوان کی تمیز ختم ہو جاتی ہے کیوں کہ کھڑے ہو کر اور چل پھر کر کھانا درحقیقت جانوروں کا طریقہ ہے؛ اس لیے کھڑے ہو کر کھانا کھلانا اور کھانا مکروہ اور ناپسندیدہ عمل ہے، بیٹھنے کا اہتمام کرنا چاہیے (۴) ولیمہ مسنون ہے جس میں کوئی تعداد مسنون نہیں ہے اس لیے جس قدر افراد کی دعوت کی جائے ولیمہ ادا ہو جائے گا اس میں غرباء ومساکین کی دعوت ضروری نہیں ہے ہاں ایسے موقع پر غرباء مساکین کو بھی شریک کرنا باعث خیر ہے؛ لیکن ان کی دعوت نہ کرنے کی وجہ سے ولیمہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے لیکن اگر وہ غرباء رشتہ دارہوں تو محض ان کی غریبی کی وجہ سے ان کو نظر انداز کردینا ناپسندیدہ عمل ہے۔(۵) ماقبل کے جواب سے وضاحت ہوگئی ہے۔

’’أن جاء عبد الرحمن علیہ أثر صفرۃ، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: تزوجت؟، قال: نعم، قال: ومن؟، قال: امرأۃ من الأنصار، قال: کم سقت؟، قال: زنۃ نواۃ من ذہب -أو نواۃ من ذہب-، فقال لہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أولم ولو بشاۃ(۲) عن عبد اللّٰہ بن عمرو، أن رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم - قال: من کان یؤمن باللّٰہ والیوم الآخر فلیکرم ضیفہ،(۳) عن أنس، أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہی أن یشرب الرجل قائما فقیل: الأکل؟ قال: ذاک أشر: ہذا حدیث صحیح۔(۱)

(۱) لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحدود: باب التعزیر‘‘: ج ۶، ص: ۱۰۶)
(۲) وشر الأمور محدثاتہا، وکل بدعۃٍ ضلالۃ۔وفي روایۃ: وشر الأمور محدثاتہا، وکل محدثۃٍ بدعۃ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۲۳، ص: ۲۴۱، رقم: ۱۴۹۸۳)
 أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب النکاح: باب الولیمۃ ولو بشاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۷۷، رقم: ۵۱۶۸۔
(۳) أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’الجزء الحادي عشر، مسند عبد اللّٰہ‘‘: ج ۱۱، ص: ۱۹۱، رقم: ۶۶۲۱۔
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الأشربۃ، باب ما جاء في النہي عن الشرب قائماً‘‘: ج ۲، ص: ۱۰، رقم: ۱۸۷۹۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص465
 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’عید مبارک‘‘ لفظ کے ساتھ عید کے دن کسی کو مبارکباد دینا مباح ہے،(۳) اگرچہ اس بارے میں اقوال مختلف ہیں ’’واختلف في قول الرجل لغیرہ یوم العید: تقبل اللّٰہ منا ومنک الخ‘‘(۴)

۳) إن من المستحبات التزین وأن یظہر فرحا وبشاشۃ ویکثر من الصدقۃ حسب طاقتہ وقدرتہ، وزاد في القنیۃ استحباب التختم والتبکیر وہو سرعۃ الانتباہ والابتکار، وہو المسارعۃ إلی المصلی وصلاۃ الغداۃ في مسجد حیہ والخروج إلی المصلی ماشیا والرجوع في طریق آخر والتہنئۃ بقولہ: تقبل اللّٰہ منا ومنکم إلخ۔ (إبن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۱)
(۴)حلبي کبیر: ص :۵۷۳


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص508

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگروہ صدق دل سے آئیں اور ان کی ہدایت کی امید ہو یا ان کے شر کا اندیشہ نہ ہو، تو ان کو قرآن کی تعلیم دینے میں حرج نہیں ہے(۱)۔ اور ان کو تعلیم دینے کے لیے کسی ماہر اور سنجیدہ عالم کا ہونا ضروری ہے۔ تاہم اگر ان کی بدنیتی واضح ہوجائے یا ان سے کسی شر کا اندیشہ ہو، تو گریز کرنا چاہئے۔

(۱) إذا قال الکافر من أہل العرب أو من أہل الذمۃ علمني القرآن فلا بأس بأن یعلمہ ویفقہہ في الدین قال القاضي علي السغدي إلا أنہ لا یمس المصحف فإن اغتسل ثم مسہ فلا بأس بہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الکراہیۃ: فصل في البیع‘‘: ج ۸، ص: ۳۷۳)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص56

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2589/45-4117

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    مرحوم کی کل جائداد 12 حصوں میں تقسیم ہوگی، جن میں سے ماں کو دو حصے،  اور دونوں بھائیوں کو  پانچ پانچ حصے ملیں گے،  اور علاتی بہن کو کوئی حصہ نہیں ملے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند


 

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق :کتا نجس ہے، اگر اس کے اوپر کوئی ظاہری نجاست نہ لگی ہو تو وہ اوپر سے پاک ہے، اس لیے اگر کپڑے اس سے لگ جائیں تو پاک ہی رہیں گے ناپاک نہیں ہوں گے۔(۲)

(۲)وقع الکلب في بئر تنجس أصاب فمہ الماء أو لم یصب، ولو ابتل فانتفض فأصاب ثوبا أکثر من الدرھم أفسدہ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر،کتاب الطہارات، باب الماء الذي یجوز بہ الوضوء و مالا یجوز، ج۱، ص:۹۸)؛ و أما شعر الحیوان غیر مأکول اللحم المتصل بہ فاتفق الفقھاء علی طھارتہ واستثنیٰ الحنفیۃ الخنزیر۔ (وزارۃ الأوقاف- الکویت، الموسوعۃ الفقہیہ، حکم شعر الحیوان الحي،ج،۲۶، ص:۱۱۱)؛ وإذا نام الکلب علی حصیر المسجد، إن کان یابسا لا یتنجس، و إن کان رطبا ولم یظھر أثر النجاسۃ فکذلک۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ،کتاب الطہارۃ، الباب السابع في النجاسۃ، الفصل الثاني في الأعیان النجسۃ، ج۱، ص:۱۰۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص410

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قضاء حاجت کی جگہ شیاطین کا بسیرا ہوتا ہے اور دعا پڑھ کر بیت الخلا جانے سے آدمی شیطان کے وساوس سے محفوظ رہتا ہے اس لیے اگرگھر میں اٹیچ بیت الخلا ہو، تو بیت الخلاء میں شیطان کا بسیرا ہوسکتا ہے؛ لیکن اس کا اثر گھر پر نہیں پڑتا ہے اور جولوگ بیت ا لخلا دعا پڑھ کر جاتے ہیں وہ بھی شیطانی وساوس سے محفوظ رہتے ہیں۔

’’عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ قال: (إن ہذہ الحشوش محتضرۃ، فإذا دخلہا أحدکم فلیقل: اللہم إني أعوذ بک من  الخبث والخبائث)، فأخبر في ہذا الحدیث أن الحشوش مواطن للشیاطین، فلذلک أمر بالاستعاذۃ عند دخولہا،(۱) ومن ہذا قول رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إن ہذہ الحشوش محتضرۃ أي یصاب الناس فیہا وقد قیل إن ہذا أیضا قول اللّٰہ -عز وجل- {کل شرب محتضر} (سورۃ القمر: ۲۸) أي یصیب منہ صاحبہ۔ مالک عن یحیی بن سعید أنہ قال أسری برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فرأی عفریتا من الجن یطلبہ بشعلۃ من نار کلما التفت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رآہ فقال لہ جبریل أفلا أعلمک کلمات تقولہن إذا قلتہن طفئت شعلتہ وخر لفیہ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بلی فقال جبریل فقل أعوذ بوجہ اللّٰہ الکریم وبکلمات اللّٰہ التامات اللاتی لا یجاوزہن بر ولا فاجر من شر ما ینزل من السماء وشر ما یعرج فیہا وشر ما ذرأ في الأرض وشر ما یخرج منہا ومن فتن اللیل والنہار ومن طوارق اللیل والنہار إلا طارقا یطرق بخیر یا رحمن‘‘(۲)
(۲) روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان گھر میں داخل ہوتے وقت دعا پڑھ لیتا ہے، تو اللہ تعالیٰ کے ضمان میں آجاتا ہے اور شیطان کہتا ہے کہ اب میں تمہارے ساتھ رات نہیں گزار سکتا لیکن جب آدمی بغیر دعا کے گھر میں داخل ہوتا ہے، تو شیطان کہتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ رات گزاروں گا؛ اس لیے گھر میں داخل ہوتے وقت دعا کا اہتمام کرنا چاہیے۔
’’وروینا عن أبي أمامۃ الباہلی، واسمہ صدي بن عجلان عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ثلاثۃ کلہم ضامن علی اللّٰہ عز وجل: رجل خرج غازیا في سبیل اللّٰہ عز وجل فہو ضامن علی اللّٰہ عز وجل حتی یتوفاہ فیدخلہ الجنۃ أو یردہ بما نال من أجر وغنیمۃ، ورجل راح إلی المسجد فہو ضامن علی اللّٰہ تعالی حتی یتوفاہ فیدخلہ الجنۃ أو یردہ بما نال من أجر وغنیمۃ، ورجل دخل بیتہ بسلام فہو ضامن علی اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ حدیث حسن، رواہ أبو داود بإسناد حسن، ورواہ آخرون۔ ومعنی ضامن علی اللّٰہ تعالیٰ: أي صاحب ضمان، والضمان: الرعایۃ للشيء، کما یقال: تامر، ولابن: أي صاحب تمر ولبن۔ فمعناہ: أنہ في رعایۃ اللّٰہ تعالٰی، وما أجزل ہذہ العطیۃ، اللہمَّ ارزقناہا‘‘۔
’’وروینا عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: سمعت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: إذا دخل الرجل بیتہ فذکر اللّٰہ تعالٰی عند دخولہ وعند طعامہ قال الشیطان: لا مبیت لکم ولا عشاء، وإذا دخل فلم یذکر اللّٰہ تعالٰی عند دخولہ، قال الشیطان: أدرکتم المبیت، وإذا لم یذکر اللّٰہ تعالٰی عند طعامہ قال: أدرکتم المبیت والعشاء‘‘(۱)
(۳) بیت الخلا کے لٹکے کپڑے یا وہاں گرے خواتین کے با لوں پرشیطان کا جادو کرنا کوئی ضروری نہیں ہے؛ بلکہ جو لوگ اس طرح کا عمل کراتے ہیں وہ اس طرح کی چیزوں کو استعمال کرتے ہیں؛ اس لیے بہتر ہے کہ بال وغیرہ کو محفوظ مقام پر دفن کردیا جائے؛ لیکن شیطان کا ان بالوں پر تصرف کرنا کوئی ضروری نہیں ہے؛ اس لیے کہ شیطان، جنات اس کے بغیر بھی تصرف پر قادر ہو جاتے ہیں۔
(۴) میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی اگر رہتی ہے، تو ضروری نہیں کہ یہ جادو ہی کا اثر ہو، گھر میں حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب ؒ کی منزل، اسی طرح معوذتین اور سورہ بقرہ کا اہتمام کریں، اگر جادو وغیرہ کا کوئی اثر ہوگا، تو زائل ہوجائے گااور اگر اس کے بعد بھی نااتفاقی ختم نہ، تو بہتر  ہوگا کہ دونوں خاندانوں کے بزرگوں کے سامنے مسئلہ کو پیش کیا جائے وہ حضرات طرفین کی بات کو سن کر جو فیصلہ کریں اس پر دونوں حضرات عمل کریں ’’إن شاء اللّٰہ‘‘ نااتفاقی ختم ہوجائے گی۔
 

(۱) شرح صحیح البخاري لابن بطال: ج ۱۰، ص: ۹۰۔
(۲)  ابن عبدالبر، الاستذکار: ج ۸، ص: ۴۴۳۔
(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب ا لأذکار للنووي:ج ، ص: ۲۴، رقم: ۶۰۔(کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص119