Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر یقینی طور سے معلوم ہے کہ منی ہے، تو غسل ہی کرے پسینہ کی وجہ سے منی سمجھنے لگے تو اس کا علاج نہیں ہے، ویسے اگر شبہ ہو اور معاملہ مشتبہ بھی ہو جائے، تو احتیاطاً غسل کرلے۔(۲)
(۲) و فرض لإنزال مني … ولرؤیۃ مستیقظ لم یتذکر الاحتلام بللاً ولو مذیاً خلافاً لہ(خلافاً لہ) أي لأبي یوسف۔ لہ أن الأصل براء ۃ الذمۃ، فلا یجب إلا بیقین، وھو القیاس، ولھما أن النائم غافل، والمني قد یرق بالھواء، فیصیر مثل المذي، فیجب علیہ احتیاطاً۔ (الحصکفی، مجمع الأنہر فی شرح ملتقی الأبحر، ’’کتاب الطہارۃ‘‘ ج ۱، ص:۳۹بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان) و إن شک أنہ مني أو مذي،…قال أبویوسف رحمہ اللّٰہ: لا یوجب الغسل حتی تیقن بالاحتلام، و قالارحمھما اللّٰہ: یجب الغسل۔ (عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’کتاب الطہارۃ، و مما یتصل بخروج المنی مسائل الاحتلام‘‘ ج۱، ص:۲۸۵مکتبۃ زکریا دیوبند) ؛ وقولہ : (خرج رؤیۃ السکران والمغمی علیہ المذي) … والفرق أن النوم مظنۃ الاحتلام، فیحال علیہ، ثم یحتمل أنہ مني رق بالھواء أو للغذاء، فاعتبرناہ منیاً، احتیاطاً۔(ابن عابدین، رد المحتار مع الدر، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في تحریر الصاع والمد والرطل‘‘ ج۱۱، ص:۳۰۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص300
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ امام کے جو حالات سوال میں مذکور ہیںان سے مسلمانوں کے درمیان اختلاف وانتشار اور لڑائی وغیرہ پیدا ہوتی ہے، امام صاحب پر لازم ہے کہ اس طرح کے عمل کو ترک کردیں ورنہ اپنا کوئی دوسرا نظم کر لیں امامت کا منصب انتہائی اہم ہے۔ مقتدیوں کو بھی لازم ہے کہ حقائق پر ہی کوئی فیصلہ کریں۔(۲)
(۲) ویکرہ تقدیم العبد والأعرابي والفاسق لأنہ لا یتہم لأمر دینہ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۰؛ وإبراہیم الحلبي، وحلبی کبیري، ’’ ‘‘: ص: ۳۱۷؛ وابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الإمامۃ، مطلب: البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص90
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:لوگوں میں نماز کی طرف سے تساہل عام ہوتا جا رہا ہے طلوعِ آفتاب وغیرہ کے اوقات کا پورا خیال نہیں رہتا، اگر طلوعِ آفتاب کے وقت نماز پڑھی جائے، تو وہ نماز ادا نہیں ہوتی جب کہ نماز پڑھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ میری نماز ادا ہوگئی ہے اس لیے نماز کو فساد سے بچانے کے لیے اس اعلان میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔(۱)
(۱) عن موسیٰ بن علي عن ابیہ، قال: سمعت عقبۃ بن عامر الجہني یقول ثلاث ساعات کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ینہانا أن نصلي فیہن أو أن نقبر فیہن موتانا حین تطلع بازغۃ حتی ترتفع وحین یقوم قائم الظہیرۃ حتی تمیل الشمس وحین تضیف الشمس للغروب حتی تغرب۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ: کتاب المساجد، ومواضع الصلاۃ: باب الأوقات التي نہي عن الصلاۃ فیہا، ج ۱، ص: ۲۳۵، رقم: ۸۳۱؛ وأحمد بن حنبل في مسند: ج ۴، ص: ۱۵۲، رقم: ۱۷۴۱۵)؛ وعن ابن عمر أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: قال لا یتحری أحدکم فیصلی عند طلوع الشمس ولا عند غروبہا۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ’’کتاب مواقیت الصلاۃ: باب لاتتحری الصلاۃ قبل غروب الشمس‘‘ ج ۱، ص: ۸۲، رقم: ۵۸۵)؛ وعن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا طلع حاجب الشمس فأخرو الصلاۃ حتی ترتفع إذا غاب حاجب الشمس فأخرو الصلاۃ حتی تغیب۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب مواقیت الصلوۃ: باب الصلوۃ بعد الفجر حتی ترتفع الشمس‘‘: ج ۱، ص: ۸۲، رقم: ۵۸۳)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 65
نماز / جمعہ و عیدین
فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 325
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مغرب کی نماز میں امام صاحب نے جو لفظ ’’رب‘‘ چھوڑ دیا، تو معنی میں تبدیلی ہوگئی اور ترجمہ اس طرح ہوگیا، پس اِس گھر کی عبادت کرو، تو اس میں غیر اللہ کی عبادت کا ہونا ترجمہ سے ظاہر ہوا ’’ولو زاد کلمۃ أو نقص کلمۃ الخ لم تفسد مالم یتغیر المعنی‘‘(۱) عبارتِ مذکورہ سے واضح ہو گیا کہ جب تک معنی تبدیل نہ ہوں تو نماز درست ہے، لیکن یہاں معنی میں تبدیلی ہوگئی اس بنا پر نماز صحیح نہیں ہوئی پس ایسی صورت میں نماز کا اعادہ لازم ہے۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب: مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۵، ۳۹۶، زکریا دیوبند۔)
ومنہا حذف حرف: إن کان الحذف علی سبیل الایجاز والترخیم، فإن وجد شرائطہ …… فإن کان لا یغیر لا تفسد صلاتہ …… وإن غیر المعنیٰ تفسد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص258
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ’’نقل في الاختیار عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أنہ علیہ السلام کان یصلي قبل العشاء أربعا ثم یصلي بعدھا أربعا ثم یضطجع۔ ونقلہ عنہ أیضاً في امداد الفتاح ثم قال: وذکر في المحیط إن تطوع قبل العصر بأربع و قبل العشاء بأربع فحسن، لأن النبي ﷺ لم یواظب علیھا‘‘(۱)
اس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء سے قبل چار رکعت نماز پڑھی ہے؛ اگرچہ اس پر مواظبت نہیں فرمائی ہے؛ اس لیے فقہاء نے اس کو مستحب یا سنت غیر موکدہ کہا ہے۔(۲)
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۸، زکریا بکڈپو دیوبند)
(۲) وفي الإمداد عن الاختیار: یستحب أن یصلی قبل العشاء أربعاً، وقیل رکعتین؛ وأربعاً بعدھا وقیل رکعتین، والظاہر أن الرکعتین المذکورتین غیر المؤکدتین۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۲، زکریا بکڈپو دیوبند)
عن عبد اللّٰہ بن مغفل المزني أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: بین کل أذانین صلاۃ ثلٰثاً لمن شاء۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’باب کم بین الأذان والإقامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۷، نعیمیہ دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص373
بدعات و منکرات
Ref. No. 975 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
جائز ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔جن لوگوں کے اندر صحیح و غلط پہچاننے کی صلاحیت ہوان کے لئے جماعت اسلامی کی کتابیں و رسائل کا پڑھنا ومطالعہ کرنا درست ہوگا، لیکن جو لوگ ایسی اہلیت نہ رکھتے ہوں ، اورعقیدہ کے مسائل سے واقف نہ ہوں ان کے لئے احتراز ہی بہتر ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 38 / 1011
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: کوئی دوسرا شخص بھی اذان ثانی دے سکتا ہے۔واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 39/1143
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہمارے اصحاب کا اگر کوئی قول کسی آیت کے خلاف ہے تو ظاہر ہے اس کا مطلب یہ نہیں لیا جاسکتا ہے کہ ان ماہرین کی نظر یہاں تک نہیں پہونچی ہوگی بلکہ یہ سمجھا جائے گا کہ ان کو اس آیت کے منسوخ ہونے کا علم حاصل ہوگیا تھا اس لئے انھوں نے آیت پر عمل نہیں کیا اور ان کا قول آیت کے بظاہر خلاف ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے وہ آیت کے خلاف نہیں ہے ۔ یا بعض مرتبہ ایسا ہوا کہ دو آیتوں میں تعارض ہوگیا اورانکا تاریخ نزول کا ہمیں علم نہیں تو اب ان میں سے کس پر عمل کیا جائے اس میں ہمارے اصحاب کا قول یقینا الگ ہوگا اور بظاہر آیت کے خلاف معلوم ہوگا حالانکہ جب ان آیتوں پر عمل کرنا تاریخ نزول کا صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے ممکن نہیں رہا تو کسی اور قول کا قائل ہونا امر لابدی ہے تاکہ اس سلسلہ میں دیگر نصوص کو ترجیح حاصل ہو۔ جب اس طرح سے دوسری نصوص کو ترجیح دی جائے گی تو اس کے نتیجے میں احناف کے قول اور آیت میں تعارض ختم ہوگا اور موافقت کی راہ خود بخود نکل آئے گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند