Frequently Asked Questions
بدعات و منکرات
Ref. No. 2568/45-3928
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عمرہ پر جانے سے پہلے آدمی کے ذمہ جو حقوق واجبہ ہیں ان کی ادائیگی کی کوشش کرے، اور قرض وغیرہ جو کچھ بھی ذمہ میں ہو، اس کو اداکرے، پھر اگر گنجائش ہو تورشتہ دار، دوست و احباب کی دعوت کرنا تاکہ سب سے ملاقات ہوجائے فی نفسہ جائز ہے، اور دعوت میں سلیقہ مندی کا مظاہرہ ہو ، کوئی ایسا کام نہ ہو کہ بعض دوسرے رشتہ داروں کی ایذا کا سبب بنے، لیکن چونکہ آج کل ان دعوتوں میں بہت سی خرابیاں در آئی ہیں ، اور آئندہ مزید مفاسد پیداہونے کا اندیشہ ہے، اس لئے اس کا ترک مناسب معلوم ہوتاہے۔ عمرہ ایک اہم عبادت ہے، ریا اور نام و نمود اس کے ثواب کو خاکستر کرسکتاہے۔تاہم اگر کسی نے دعوت کے اصول وآداب کی رعایت کے ساتھ دعوت کردی تو تحفہ کے لین دین سے اجتناب کرنا چاہئے کہ کہیں یہ آئندہ چل کر رسم نہ بن جائے ۔ جب کوئی چیز رسم بن جاتی ہے تو اس کا ترک کرنا انتہائی دشوار ہوجاتاہے۔
وفی الدر المختار(۴۷۱/۲): ویستأذن ابویہ ودائنہ وکفیلہ ویودع المسجد برکعتین ومعارفہ ویستحلھم ویلتمس دعائھم۔
وفی احیاء العلوم (۱۷/۲): امّا الدعوۃ: فینبغی للداعی ان یعمد لدعوتہ الاتقیاء دون الفساق قال ﷺ اکل طعامک الابرار فی دعائہ لبعض من دعالہ… وینبغی ان لایھمل اقاربہ فی ضیافتہ فإن اھمالھم ایحاش وقطع رحم وکذلک یراعی الترتیب فی اصدقائہ ومعارفہ فإن فی تخصیص البعض ایحاشا لقلوب الباقین وینبغی ان لا یقصد بدعوتہ المباھاۃ والتفاخر بل استمالۃ قلوب الاخوان والتسنن بسنۃ رسول اﷲ ﷺ فی اطعام الطعام وادخال السرور علی قلوب المؤمنین۔ (نجم الفتاوی جلد 3)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:احکامِ الٰہی پر عمل پیرا ہونا انسان پر لازم وفرض ہے اور ان سے اعراض شرعاً وعقلاً ناجائز ہے وہ طریقے اپنانا جن سے احکام الٰہی پر عمل میں مدد ملے یا دوسروں کو اس سے فائدہ پہونچے یہ بھی انسان پر لازم ہے کہ خود بھی رضائے الٰہی کے حصول کے مختلف طریقے ہیں جس نے جس کو بہتر سمجھا اس پر زور ڈالا اور لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کیا بس۔ مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تبلیغ کے معروف طریقے کو اصلاح النفس کے لئے بہتر سمجھا، تو اسی کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا اور اس کے اصول مرتب کئے جو اس طریقہ کو بہتر سمجھے اس پر عمل کرے، اگر اس سے اصلاح کا ارادہ ونیت ہو، تو یہ باعث اجرو ثواب ہے اور اگر اس طریقہ کے علاوہ کوئی دیگر طریقہ اختیار کرے، تو اس میں مضائقہ نہیں بنیت صالحہ چلہ لگادے، تو ثواب ہوگا اور ترک پر کوئی گناہ نہیں؛ اس لئے اس کو مستحب کا درجہ دیا جاسکتا ہے، چالیس دنوں کو تفسیر احوال میں خصوصی دخل ہے۔(۱)
(۱) {وَوٰعَدْنَا مُوْسٰی ثَلٰثِیْنَ لَیْلَۃً وَّأَتْمَمْنٰھَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّہٖٓ أَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃًج} (سورۃ الأعراف: ۱۴۲)
عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ، قال: حدثنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وہو الصادق المصدوق إن أحدکم یجمع خلقہ في بطن أمہ في أربعین یوما، ثم یکون علقۃ مثل ذلک، ثم یکون مضغۃ مثل ذلک، ثم یرسل اللّٰہ إلیہ الملک فینفخ فیہ الروح ویؤمر بأربع: یکتب رزقہ وأجلہ وعملہ وشقي أو سعید، فوالذي لا إلہ غیرہ، وإن أحدکم لیعمل بعمل أہل الجنۃ حتی ما یکون بینہ وبینہا إلا ذراع ثم یسبق علیہ الکتاب، فیختم لہ بعمل أہل النار فیدخلہا، وإن أحدکم لیعمل بعمل أہل النار حتی ما یکون بینہ وبینہما إلا ذراع، ثم یسبق علیہ الکتاب، فیختم لہ بعمل أہل الجنۃ، فیدخلہا، قال أبو عیسی: ہذا حدیث حسن صحیح۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب القدر، باب ما جاء أن الأعمال بالخواتیم‘‘: ج ۲، ص: ۳۵، رقم: ۲۱۳۷)
عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی للّٰہ أربعین یوما في جماعۃ یدرک التکبیرۃ الأولی کتب لہ برائتان: برائۃ من النار وبرائۃ من النفاق۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ، باب في فضل التکبیرۃ الأولی‘‘: ج ۱، ص: ۵۶، رقم: ۲۴۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص327
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:جس زمین پر پیشاب کیا گیا ہو؛ اگر وہ زمین خشک ہوجائے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر پیشاب کی بدبو نہ ہو، تو وہ زمین پاک ہے۔(۲)
(۲) و إذا ذھب أثر النجاسۃ (أي ریحھا و لونھا)عن الأرض و جفت جازت الصلوۃ علیھا دون التیمم منھا۔ (الشرنبلالی، نورالایضاح،کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس والطہارۃ عنہا ،ص:۵۴)؛ وتطھر الأرض المتنجسۃ بالجفــاف إذا ذھــب أثر النجــاسۃ فتجــوز الصلوۃ علیھا۔(ابن نجیم، البحر الرائق،کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، ج۱، ص:۳۹۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص422
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: ایسی صورت میں مسئلہ تویہی ہے کہ کنویں کا کل پانی نکال دیا جائے؛ لیکن اگر کنواں بڑا ہو کہ جس کی وجہ سے تمام پانی کا نکالنا دشوار ہو، تو پھر اس میں سے دو سو سے تین سو کے درمیان ڈول نکال دیئے جائیں،تو کنواں پاک ہو جاتا ہے، تو صورت مسئولہ عنہا میں اگر مذکورہ کنویں کا سوت بھی بڑا ہے اور تین سو ڈول بھی نکال دیے، تو کنواں پاک ہو گیا، شبہ نہ کیا جائے۔(۱)
(۱)و إن تعذّر نزح کلھا لکونھا معینا فبقدر ما فیھا وقت إبتداء النزح، قالہ الحلبي یؤخذ ذلک بقول رجلین عدلین لھما بصارۃ بالماء بہ یفتی، و قیل یفتی بمائۃ إلی ثلاث مائۃ، و ھذا أیسر۔، قولہ (وقیل الخ) جزم بہ في الکنز والملتقی وھو مروي عن محمد، و علیہ الفتویٰ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، فصل في البئر، ج ۱، ص:۳۷۰؍۳۷۱)؛ و ثم في کل موضع وجب نزح جمیع الماء، ینزح حتی یغلبھم الماء، وفي الینابیع : ھو الصحیح، وفي الفتاوی العتابیۃ : و عن أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ إذا نزح مائتان أو ثلاث مائۃ، فقد غلبھم الماء، وھو المختار۔ (الفتاویٰ التاتارخانیہ، کتاب الطہارۃ، الفصل الرابع، في المیاہ التي یجوز الوضوء بھا، ج۱، ص:۳۲۶)، و إذا وجب نزح جمیع الماء، ولم یکن فراغھا لکونھا معیناً، یُنزح مائتا دلو، ھکذا في التبیین، و ھذا أیسر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الطہارۃ، النوع الثالث: ماء الآبار، ج۱، ص:۷۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص470
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر ڈکار میں منہ بھر کر قے ہوجائے، تو وضو ٹوٹ جائے گا۔
اگر منہ بھر کر نہ ہو، تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔ منہ بھر کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس کو منہ میں روکنا چاہے، تو روکنا مشکل ہو۔ ’’و ینقضہ (الوضوء) قئ ملأ فاہ بأن یضبط بتکلف من مرۃ أي صفراء أو علق أي سوداء؛ و أما العلق النازل من الرأس فغیر ناقض أو طعام أو ماء إذا أوصل إلی معدتہ و إن لم یستقر، وھو نجس مغلظ لو من صبي ساعۃ ارتضاعہ ھو الصحیح لمخالطۃ النجاسۃ، ذکرہ الحلبي۔ (۱) قال الحسن اذا تناول طعاماً أو ماء ثم قاء من ساعتہ لا ینتقض وضوء ہ لأنہ طاھر حیث لم یستحل والذي اتصل بہ قلیل شيء فلا یکون نجسا۔(۲)
(۱) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب: نواقض الوضوء،‘‘ ج۱،ص:۲۶۵-۲۶۶
(۲)طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’فصل نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۸۸
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص239
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ امام کی امامت درست ہے مگر یہ عمل منصب امامت کے خلاف ہے ۔ آئندہ پرہیز کریں؛ کیوں کہ کافر کی عیادت اور تعزیت کی تو فقہاء نے اجازت دی ہے مگر ان کی آخری رسومات میں شرکت کو ناجائز کہا ہے اور نہ ہی ان کی مذہبی رسومات میں شریک ہونے کی اجازت دی ہے، البتہ نفسِ شرکت درست ہے، جب کہ مذہبی رسوم میں شرکت نہ ہو۔(۲)
(۲) لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل بر وفاجر وصلوا علی کل بر وفاجر الخ، … وقال في مجمع الروایات وإذا صلی خلف فاسق أو مبتدع یکون محرزاً ثواب الجماعۃ الخ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)
{وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍ مِّنْھُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖط} (سورۃ التوبہ: ۸۴)
والمراد لا نقف عند قبرہ للدفن أو للزیارۃ الخ۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني: ج ۷، آیت: ۸۴)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص313
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مؤذن کا اگلی صف میں کھڑا ہونا ضروری نہیں ہے اور اگلی صف میںکھڑے ہونے کو لازم سمجھنا بھی درست نہیں اگر اگلی صف میں جگہ نہ ہو اور مؤذن دوسری تیسری، چوتھی صف میں کھڑے ہوکر تکبیر پڑھے تو جائز اور درست ہے اس میںکوئی کراہت نہیں، مؤذن اپنا مصلی بچھا کر جگہ متعین کرے اور پھر اس پر جھگڑا کرے یہ درست نہیں؛ لیکن اگر مؤذن اس جگہ کے لیے جھگڑا نہیں کرتا تو دوسروں کو بھی چاہئے کہ اس کی نشان زدہ جگہ پر اعتراض نہ کریں اس لیے کہ پہلے آکر مسجد میں کسی جگہ رومال وغیرہ رکھ کر نشان زد کرنا درست ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۱)
(۱) قولہ وتخصیص مکان لنفسہ لأنہ یخلّ بالخشوع کذا في القنیۃ أي لأنہ إذا اعتادہ ثم صلی في غیرہ یبقی بالہ مشغولا بالأوّل بخلاف ما إذا لم یألف مکاناً معیناً، قولہ ولیس لہ الخ … قال في القنیۃ: لہ في المسجد موضع معیّن یواظب علیہ وقد شغلہ غیرہ، قال الأوزاعي: لہ أن یزعجہ ولیس لہ ذلک عندنا، أي لأن المسجد لیس ملکاً لأحد قلت: وینبغي تقییدہ بما إذا لم یقم عنہ علی نیۃ العود بلا مہلۃ کما لوقام للوضوء مثلا ولا سیّما إذا وضع فیہ ثوبہ لتحقق سبق یدہ تأمل۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب مایفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا، مطلب في الغرس في المسجد‘‘: ج۲، ص:۴۳۶)
وعندي في النہي عن توطین الرجل مکاناً معیناً في المسجد وجہ وہو أنہ إذا وطن المکان المعین في المسجد یلازمہ فإذا سبق إلیہ غیرہ یزاحمہ ویدفعہ عنہ وہو لایجوز لقولہ علیہا السلام إلا مني مناخ من سبق فکما ہو حکم منی فہو حکم المسجد فمن سبق إلی موضع منہ فہو أحق بہ فعلی ہذا لو لازم أحد أن یقوم خلف الإمام قریباً منہ لأجل حصول الفضل وسبق إلیہ من القوم أحد لایزاحمہ ولا یدافعہ فلا یدخل في ہذا النہي۔ (خلیل أحمد سہارنفوري، بذل المجہود، ’’کتاب الصلوۃ: باب صلاۃ من لایقبح صلبہ في الرکوع والسجود‘‘: ج۲، ص: ۷۶، رقم: ۸۶۱، مکتبہ میرٹھ)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص427
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسجد میں بچھائے جانے والے فوم اور ہٹ لون اگر اتنے سخت ہوں کہ سجدہ کرتے وقت پیشانی اس پر ٹک جاتی ہو اور فوم بلا زور لگائے نہ دبتا ہو جس طرح کی روئی کانیا اور ڈنلپ (dunlop) کا گدا دبتا ہے۔ تو ایسے ہٹ لون یا فوم پر نماز پڑھنافی نفسہ جائز ہے، ہاں اگر فوم اتنا موٹااورنرم ہو کہ بلا زور لگائے دب جاتا ہو تو اس پر سجدہ درست نہیں ہوگا اس صورت میں سجدے کی جگہ پرایسے فوم کو نہ رکھا جائے؛ بلکہ سجدہ کسی گرم چادر وغیرہ پر کرلیا جائے۔
’’من ھنا یعلم الجواز علی الطراحۃ القطن: فإن وجد الحجم جاز وإلا فلا‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج۲، ص: ۲۰۶۔
یجوز السجود علی الحشیش والتبن والقطن والطنفسۃ إن وجد حجم الأرض وکذا الثلج الملبد فإن کان یغیب فیہ وجہہ ولا یجد الحجم لا۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۱، ص:۳۱۱)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص340
فقہ
Ref. No. 984 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
اگر علاج کے لئے مذکورہ صورت ضروری ہواور ماہر ڈاکٹر اس کا فیصلہ کرے تو صرف اس علاج کے لئے مذکورہ صورت اختیار کرنے کی گنجائش ہے۔ کذا فی الشامی۔ واللہ اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زیب و زینت و حجاب
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ضرورت کی وجہ سے پردہ کے اہتمام کے ساتھ تجارت کی گنجائش ہے۔ اور جو خوشبو خود ہی آجائے اس پر بھی وہ مستحق مواخذہ نہیں ہے۔ فتنہ اور اس کے اسباب سے حفاظت ضروری ہے۔ واللہ تعالی اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند