Frequently Asked Questions
مساجد و مدارس
Ref. No. 2964/45-4706
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد کے لئے جو رقم چندہ سے جمع کی جائے اس میں دینےوالوں کی نیت خاص مسجد اور مصالح مسجد کے لئے ہی دینے کی ہوتی ہے، لہذا اس کو دوسرے مصارف میں لگانا چندہ دہندگان کے منشا کے منافی ہے، اس لئے اس رقم کو مسجد ہی میں لگایا جائے، تاہم جو رقم صراحت کے ساتھ دوسرے دینی کاموں کے لئے ہی جمع کی گئی ہو اس کو مسجد کمیٹی کے مشورہ سے مسجد کے تحت چلنے والے دوسرے دینی کاموں میں بھی لگایا جاسکتاہے۔ مسجد کے لئے جمع کی گئی رقم کو مسجد ہی میں استعمال کیاجائے گا اور اگر اس رقم کی فی الحال ضرورت نہ ہو تو بھی اس کو مسجد ہی کے آئندہ استعمال کے لئے محفوظ رکھاجائے گا اس رقم کو کسی دوسرے مصرف میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے یہاں تک کہ دوسری مسجد میں بھی لگانا درست نہیں ہے۔
"فإن شرائط الواقف معتبرة إذا لم تخالف الشرع وهو مالك، فله أن يجعل ماله حيث شاء ما لم يكن معصية وله أن يخص صنفا من الفقراء ولو كان الوضع في كلهم قربة." (شامی، کتاب الوقف ،ج:4 ص:343 ط:سعید)
"على أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة." ) شامی، كتاب الوقف ج:4،ص:445،ط:سعيد)
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: محمد اسعد
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 2968/45-4705
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔آپ نے جس سے دو سو روپئے لئے تھے، اس ی کو لوٹانا ضروری ہے، تاہم اگر کسی طرح بھی اس کا سراغ نہ ملے اور پیسے لوٹانے کی کوئی شکل نہ ہو تو اس شخص کی طرف سے دو سو روپئے صدقہ کردیں، تو اس طرح آپ بریء الذمہ ہوسکتے ہیں، تاہم خیال رہے کہ اگر کبھی بھی اس کا پتہ چل گیا یا ملاقات ہوگئی تو اس کودو سو روپئے لوٹانا ضروری ہوگا الا یہ کہ وہ صدقہ کی اجازت دیدے، اگر اجازت نہ دے گا تو اس کو دو سو روپئے لوٹانے ہوں گے اوراب وہ صدقہ آپ کی طرف سے شمارہو گا۔
ثم بعد تعريف المدة المذكورة الملتقط مخير بين أن يحفظها حسبة وبين أن يتصدق بها فإن جاء صاحبها فأمضى الصدقة يكون له ثوابها وإن لم يمضها ضمن الملتقط أو المسكين إن شاء لو هلكت في يده فإن ضمن الملتقط لا يرجع على الفقير وإن ضمن الفقير لا يرجع على الملتقط وإن كانت اللقطة في يد الملتقط أو المسكين قائمة أخذها منه، كذا في شرح مجمع البحرين. (الھندیة: (کتاب اللقطۃ، 289/2، ط: دار الفکر) (فينتفع) الرافع (بها لو فقيرا وإلا تصدق بها على فقير ولو على أصله وفرعه وعرسه ۔۔۔۔ (فإن جاء مالكها) بعد التصدق (خير بين إجازة فعله ولو بعد هلاكها) وله ثوابها (أو تضمينه۔ (الدر المختار: (279/4- 280، ط: دار الفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2966/45-4704
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال ایسے شخص کا سماجی بائیکاٹ ضروری ہے ، اس قدر گھناؤنی حرکت کے باوجود اس کے گھر آناجانا بڑی ہی بے غیرتی کی بات ہے، ایمان کا تقاضہ ہے کہ اس سنگین گناہ کے مرتکب کے ساتھ کوئی تعلق نہ رکھاجائے ، یہاں تک کہ جولوگ تعلق رکھتے ہیں ان کو بھی منع کیاجائے، اور اس شخص کی بیوی کو بھی سمجھایاجائےکہ وہ اب حرام کا مرتکب ہورہی ہے، اس کے لئے اپنے شوہرکے ساتھ رہنا قطعا ناجائز اورشرعی طور پر حرام ہے۔ پنچایت میں اس کو پیش کرکے اس سے توبہ کرائی جائے، اگر وہ بیوی کو طلاق دے کر الگ کردے اور اپنے گناہ پر نادم ہوکر توبہ کرلے اور پھر اس کے بائیکاٹ کو ختم کردیاجائے تو اس کی گنجائش ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبندمتفرقات
Ref. No. 2965/45-4703
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ درج ذیل آیات کو اپنا معمول بنالیں، روزانہ صبح کو ایک مرتبہ پڑھ کر اپنے سینے پر دم کرلیا کریں، اور ایک لیٹر پانی پر بھی دم کرلیں، اورشام تک تھوڑا تھوڑا پیتے رہیں ، ان شاء اللہ بہت فائدہ ہوگا۔
فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ".
أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ * الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ * لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
-"إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ".
-"يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ".
الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُونَ مَا أَنْفَقُوا مَنًّا وَلَا أَذًى لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
-"بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ".
____
بارش اور بجلی کے وقت یہ آیات پڑھا کریں۔ بالخصوص آیت نمبر 13، کا ابتدائی حصہ بار بار دہرائیں۔
{ لَهُۥ مُعَقِّبَـٰت مِّنۢ بَیۡنِ یَدَیۡهِ وَمِنۡ خَلۡفِهِۦ یَحۡفَظُونَهُۥ مِنۡ أَمۡرِ ٱللَّهِۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتَّىٰ یُغَیِّرُوا۟ مَا بِأَنفُسِهِمۡۗ وَإِذَاۤ أَرَادَ ٱللَّهُ بِقَوۡم سُوۤء فَلَا مَرَدَّ لَهُۥۚ وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِۦ مِن وَالٍ * هُوَ ٱلَّذِی یُرِیكُمُ ٱلۡبَرۡقَ خَوۡفا وَطَمَعا وَیُنشِئُ ٱلسَّحَابَ ٱلثِّقَالَ * وَیُسَبِّحُ ٱلرَّعۡدُ بِحَمۡدِهِۦ وَٱلۡمَلَـٰۤىِٕكَةُ مِنۡ خِیفَتِهِۦ وَیُرۡسِلُ ٱلصَّوَ ٰاعِقَ فَیُصِیبُ بِهَا مَن یَشَاۤءُ وَهُمۡ یُجَـٰدِلُونَ فِی ٱللَّهِ وَهُوَ شَدِیدُ ٱلۡمِحَالِ * } [Surah Ar-Raʿd: 11-13]
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حج و عمرہ
Ref. No. 2969/45-4702
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔حج کی استطاعت مکمل طور پر پائے جانے کی صورت میں حج فرض ہوجاتاہے، اس لئے جلد از جلد اس کی ادائیگی کرلینی چاہئے، اور اگر کسی نے استطاعت کے باوجود حج نہیں کیا اور ٹال دیا تو اس کے ذمہ حج فرض باقی رہے گا۔ پھر اگر مال ختم ہوگیا اور غریب ہوگیا تو بھی حج اس پر فرض ہی رہے گا۔ یعنی ایک مرتبہ حج فرض ہوجانے کے بعد ادائیگی کے بغیر ذمہ سے حج ساقط نہیں ہوگا۔ لہذا اگر موت سے پہلے استطاعت ہوجائے تو حج اداکرلے اور اگر موت تک استطاعت نہ ہوئی تومرنے سے پہلے حج بدل کی وصیت کرکے جائے تاکہ اس کے تہائی مال سے حج بدل کرادیاجائے۔
وکذلک لو لم یحج حتی افتقرتقرر وجوبہ دینا في ذمتہ بالاتفاق ولا یسقط عنہ بالفقر (غنیة الناسک ص۳۳ ومثلہ في الہندیة وغیرہا)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2970/45-4701
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں کل ترکہ کو 15 حصوں میں تقسیم کریں گے جن میں سے ہر ایک بیٹی کوپانچ پانچ حصے دیئے جائیں گے، اور ایک ایک حصہ پانچوں بھتیجوں کو دیاجائے گا، اور بھتیجیاں محروم ہوں گی۔
ومن لا فرض لھا من الاناث واخوھا عصبۃ لاتصیر عصبۃ باخیھا کالعم والعمۃ المال کلہ لعم دون العمۃ۔( سراجی، باب العصبات ص23)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2971/45-4700
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صف بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ صف درمیان سے بنائی جائے یعنی امام کے پیچھے ایک آدمی کھڑا ہو اور پھر اس کے دائیں پھر بائیں لوگ صف بناتے جائیں۔ ہر صف امام کے پیچھے سے شروع ہو، اس لئے کہ حدیث میں ہے کہ امام کو درمیان میں رکھو اور اس کی شکل یہی ہے کہ درمیان سے ہی صف شروع ہو۔ امام کے کہنے کا شاید یہ مطلب ہو کہ اگلی صفوں میں جگہ باقی رہتے ہوئے دوسری و تیسری صفیں نہ بناؤ۔ اگر اگلی صف میں جگہ خالی ہوتو پیچھے صف بنانا مکروہ ہے۔
عن أنس قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: أتموا الصف المقدم ثم الذي یلیہ فما کان من نقص فلیکن فی الصف الآخر رواہ بو داود(مشکوة شریف ص ۹۸، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند)
والحاصل أنہ یستحب توسط الإمام(انجاح الحاجہ حاشیہ سنن ابن ماجہ ص ۷۱)
وخیر صفوف الرجال أولھا“:لأنہ روي فی الأخبار ”أن اللہ تعالی إذا أنزل الرحمة علی الجماعة ینزلھا أولاً علی الإمام ، ثم تتجاوز عنہ إلی من بحذائہ فی الصف الأول،ثم إلی المیامن، ثم إلی المیاسر، ثم إلی الصف الثاني“، وتمامہ فی البحر (شامی ۲:۳۱۰)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2983/45-4724
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرد و عورت کے اندر اللہ نے ایک دوسرے کی طرف فطری جھکاؤ رکھا ہے، عورت کے اندر حیاغالب ہوتی ہے، اس لئے وہ عام طور پر اقدام نہیں کرتی ہے، تاہم مرد باہر رہتاہے اور اس کی نگاہ جب کسی عورت پر پڑتی ہے تو اس کی طرف میلان ہوتاہے۔ اور اس میلان کے مطابق وہ بعض مرتبہ اقدام کرنے میں اپنی جرأت کا مظاہرہ بھی کردیتاہے۔ اس وجہ سے عورتوں کو حکم دیاگیا کہ پردے میں رہیں، مردوں سے اختلاط نہ رکھیں، اپنی آواز بھی پست رکھیں تاکہ کسی کے دل میں لالچ پیدا نہ ہو۔ اس لئے اگر کوئی محفل اس طرح عورتوں کی منعقد ہو کہ مردوں سے اختلاط ہو یا ان کے کانوں تک آواز پہونچتی ہو تو بعض مرتبہ فتنہ کا باعث ہوتاہے۔ شریعت مطہرہ نے زنا ہی نہیں بلکہ زنا تک لیجانے والے جتنے اسباب اور ذرائع ہیں سب پر مکمل روک لگائی ہے، اس لئے جو دواعی اور اسباب سے پرہیز نہیں کرے گا تو ایک نا ایک دن وہ فتنہ میں گرفتار ہوجائے گا۔تاہم اگر عورتوں کی دینی محفل اس طور پر منعقد ہو کہ مذکورہ خرابیوں سے بچنے کا پورا اہتمام کیاجائے تو گنجائش ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2982/45-4726
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر شہوت کا سبب بیوی ہے اوراسی حالت شہوت میں انجانے میں مرد نے بلاحائل بیٹی کو چھودیا اور بیٹی کو چھونے سے شہوت میں اضافہ نہیں ہوا تو اس سے حرمت مصاہرت ثابت نہ ہوگی۔
تثبت حرمۃ المصاہرۃ بالزنا والمس والنظر بدون نکاح والملک وشبہتہ لان المس والنظرسبب داع الی الوطء فیقام مقامہ احتیاطا ( الفقہ الاسلامی و ادلتہ ۹/۶۶۳۰)
و الجواب ان العلۃ ہو الوطء السبب للولد و ثبوت الحرمۃ بالمس لیس الا لکونہ سببا لہذا الوطء ( فتح القدیر ۳/۲۱۰)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Marriage (Nikah)
Ref. No. 2980/46-4736
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بوقت رخصتی سادگی اختیار کرنا افضل ہے، خرافات اور ناجائز کاموں سے بچنا ضروری ہے، رخصتی کے لئے باقاعدہ بارات کا لیجانا نبی کریم ﷺ اور اصحاب سے ثابت نہیں ہے، تاہم مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ ؒ فرماتے ہیں کہ لڑکی والوں کی طرف سے باراتیوں کو یا برادری کو کھانا دینا لازم یا مسنون اور مستحب نہیں ہے۔ اگر بغیر التزام کے وہ اپنی مرضی سے کھانا دیدیں تو مباح ہے ، نہ دیں تو کوئی الزام نہیں ۔ خلاف شرع امور سے بچتے ہوئے لڑکے کے خاندان کے چند افراد اجتماعی صورت میں لڑکی کی رخصتی کرواکر لے آئیں اس کی بھی گنجائش ہے، بشرطیکہ پردہ کا اہتمام ہو، مردوں اور عورتوں کا اختلاط نہ ہو، اور غیرشرعی رسومات سے پرہیز کریں، لہذا لڑکی والے بخوشی اجازت دیں تو مختصر بارات لیجانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند