نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ شخص جب کہ دیوبند (وطن اصلی) سے دہلی کا عزم کرکے سفر میں نکلا اور مظفرنگر (اپنے سسرال) ایک دو دن ٹھہر گیا اور پھر وہاں سے چلا گیا، تو اس دوران مظفرنگر میں بھی قصر کرے گا جب کہ دیوبند کی آبادی سے باہر ہوتے ہی قصر شروع کردے گا اور پھر واپس دیوبند پہونچنے تک قصر ہی کرے گا۔(۲)

(۲) (أو دخل بلدۃ ولم ینوہا) أي مدۃ الإقامۃ (بل ترقب السفر) غداً أو بعدہ۔(الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۰۷)وقید بنیۃ الإقامۃ لأنہ لو دخل بلدا ولم ینو أنہ یقیم فیہا خمسۃ عشر یوماً وإنما یقول: غدا أخرج أو بعد غد أخرج حتی بقي علی ذلک سنین قصر۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۲۳۱)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:393

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مذکورہ میں زید مسافر رہے گا اگر برنام بٹ اور مدراس میں ۴۸ میل یا اس سے زیادہ کی مسافت ہے (سوا ۷۷؍ کلو میٹر) چوں کہ مدراس میں صرف آٹھ یوم یا اس سے کم رہتا ہے اور شرعی اعتبار سے مقیم وہ شخص ہے کہ جو پندرہ یوم یا اس سے زیادہ کی اقامت کی نیت کرے لہٰذا مذکورہ صورت میں چوں کہ پندرہ یوم سے کم کی اقامت کی نیت پائی جا رہی ہے، لہٰذا وہ مسافر ہوگا اور دوران قیام مدراس وہ نماز میں قصر ہی کرے گا۔(۱)

(۱) لا یزال علی حکم السفر حتی ینوي الإقامۃ في بلدۃ أو قریۃ خمس عشر یوماً أو أکثر وإن نوی أقل من ذلک قصر۔ (المرغیناني، ہدایہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۶)أو ینوي إقامۃ نصف شہر بموضع صالح لہا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۰۴)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:392

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: تین منزل یعنی ۴۸؍ میل مسافت کا ارادہ ہو، تو شہر سے باہر نکلتے ہی قصر شروع ہوجاتی ہے۔ یہ ہی مطلب اس حدیث کا ہے۔ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ سے تین میل کے فاصلہ پر قصر کیا ہے۔(۱)

(۱) من خرج من عمارۃ موضع إقامتہ قاصداً مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیہا الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۹)قال علماؤنا: أدنا مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیہا مع الإسترحات التي تکون في خلال ذلک بسیر الإبل ومشي الأقدام وہو سیر الوسط والمعتاد الغالب۔ (ابن العلاء، الفتاویٰ التاتار خانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الثاني والعشرون: في صلاۃ السفر‘‘: ج ۲، ص: ۴۸۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:391

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر گھر سے سفر کرتے وقت اس نے نیت کی تھی کہ اس دورہ میں جو منتھائے سفر ہے وہ فلان مقام ہے جو کہ ۴۸؍ میل یا اس سے زیادہ سے ہے، تو قصر لازم ہے ورنہ قصر نہیں ہے۔(۱)

(۱) من خرج من عمارۃ موضع إقامتہ قاصداً مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیہا الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۹)قال علماؤنا: أدنا مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیہا مع الإسترحات التي تکون في خلال ذلک بسیر الإبل ومشي الأقدام وہو سیر الوسط والمعتاد الغالب۔ (ابن العلاء، الفتاویٰ التاتار خانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الثاني والعشرون: في صلاۃ السفر‘‘: ج ۲، ص: ۴۸۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:391

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: زید اپنے مقام برنام بٹ سے مدراس یا بنگلور کے لیے صبح سویرے نکلتا ہے جس کا فاصلہ تقریباً سو کلو میٹر سے زیادہ ہے۔ اور وہ اسی دن شام تک اپنے وطن آتا ہے؛ لہٰذا وہ مسافر کے حکم میں ہے۔ اور جو بحالت سفر نماز قضا ہوئی جیسے کہ صورت مسئولہ میں ظہر و عصر کا ذکر ہے تو وطن واپسی پر قضا میں قصر ہی کرے گا جیسے عالمگیری میں ہے۔(۲)

(۲) ومن حکمہ أن الفائتۃ تقضیٰ علی الصفۃ التي فاتت عنہ إلالعذر وضرورۃ فیقضي مسافر في السفر ما فاتہ في الحضر من الرباعي أربعاً والمقیم في الإقامۃ ما فاتہ في السفر منہارکعتین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادي عشر: في قضاء الفوائت‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۰)قولہ: (سفراً و حضراً) أي فاتتہ صلاۃ السفر وقضاہا في الحضر یقضیہا مقصورۃ کما لو أداہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر، مطلب: في الوطن الأصلي ووطن الإقامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۱۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:390

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: ستر کلو میٹر شرعی مسافت نہیں ہے اور زید شرعاً مسافر نہیں ہے؛ اس لیے نماز پوری پڑھے گا۔(۱)

(۱) من خرج من عمارۃ موضع إقامتہ قاصداً مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیہا الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۹)من جاوز بیوت مصرہ مریدا سیرا وسطا ثلاثۃ أیام في بر أو بحر أو جبل قصر … الفرض الرباعي فلو أتم وقعد في الثانیۃ صح۔ (ابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ:باب المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۵ تا ۲۳۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:389

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ صورت میں وطن اصلی سے نکلتے ہی وہ شخص مسافر بن گیا، اس حالت میں وہ شخص نماز میں قصر کرے گا، جب تک دوسری جگہ پہونچ کر پندرہ دن یا اس سے زیادہ قیام کا ارادہ نہ کرے اور صورت مسئولہ میں اگر دوسری جگہ پہونچ کر اس نے ایک مہینہ رہنے کی نیت کر لی تھی تو پھر وہاں قصر جائز نہیں، اس کے بعد اڑتالیس میل سے کم کے سفر پر وہ مسافر نہیں کہلائے گا؛ اس لیے پوری نماز پڑھے گا، قصر کرنا جائز نہیں ہے۔(۱)

(۱) من خرج من عمارۃ موضع إقامتہ قاصداً مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیہا الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۹)من جاوز بیوت مصرہ مریدا سیرا وسطا ثلاثۃ أیام في بر أو بحر أو جبل قصر … الفرض الرباعي فلو أتم وقعد في الثانیۃ صح۔ (ابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ:باب المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۵ تا ۲۳۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:388

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: بڑے شہروںمیں سیکٹر علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں اور کالونیاں بھی الگ الگ ہوتی ہیں ضرورۃً بڑے شہر جو تیس چالیس یا اس سے بھی زیادہ میلوں میں آباد ہوں سیکٹر کو اصل شہر قرار دیا جانا چاہیے۔

اس صورت میں جس سیکٹر اور کالونی میں وہ رہتا ہے اس سے باہر ہوتے ہی وہ مسافر شرعی شمار کیا جائے گا۔ اگر سیکٹر سے نکلنے کے بعد اس کو۸ ۴؍ میل سے آگے جانا ہے تو وہ مسافر ہوگا۔

(۱) من خرج من عمارۃ موضع إقامتہ قاصداً مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیہا الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۹)

من جاوز بیوت مصرہ مریدا سیرا وسطا ثلاثۃ أیام في بر أو بحر أو جبل قصر … الفرض الرباعي فلو أتم وقعد في الثانیۃ صح۔ (ابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ:باب المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۵ تا ۲۳۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:388

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق:(۱) اگر کسی جگہ پندرہ دن کے قیام کی نیت ہو اور اہل و عیال نہ ہو تو وہ جگہ وطن اقامت ہے۔

’’ووطن إقامۃ، وہو المکان الصالح للإقامۃ فیہ مدۃ خمسۃ عشر یوماً، فأکثر إذا نوی الإقامۃ‘‘(۱)

(۲) اگر جائے ملازمت میںعلی سبیل القرار رہنے کا ارادہ ہو اور ساتھ میں اہل و عیال بھی ہو تو وہ جگہ ’’وطن تاہل‘‘ ہے جو کہ وطن اصلی کے حکم میں ہے، لہٰذا وہاں سے اگر کسی جگہ سفر پر جائے تو واپس آنے پر وہ مقیم ہوگا اگرچہ وہاں پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت ہو اس لیے کہ وطن اصلی میں قیام کی نیت ضروری نہیں ہوتی ہے بلکہ وطن اصلی میں آدمی مقیم ہی ہوتا ہے۔

’’الوطن الأصلي: ہو الذي ولد فیہ أو تزوج، أو لم یتزوج وقصد التعیش فیہ، لا الارتحال عنہ‘‘(۱)

(۳) اگر آدمی کسی جگہ ملازمت کی وجہ سے مقیم ہو اور علی سبیل القرار رہنے کا ارادہ ہو وہاں سے جانے کا کوئی ارادہ نہ ہو لیکن ساتھ میں اہل وعیال بھی نہ ہو اس جگہ کے وطن اصلی کے درجہ میں ہونے میں حضرات فقہاء کے درمیان اختلاف ہے لیکن احوط قول یہ معلوم ہوتاہے کہ وہ جگہ وطن اقامت ہے اگر وہاں سے کہیں سفر پرجائے اور واپسی پر جائے ملازمت میں پندرہ دن رہنے کی نیت نہ ہو تو اس صورت میں وہاں قصر کرے گا۔

ہاںاگر قرائن سے معلوم ہو کہ عرصہ دراز تک رہنا ہے اور ساتھ میں اہل وعیال بھی ہو تب تو مسئلہ وا ضح ہے کہ وہ جگہ وطن تاہل ہے، لیکن اگر اہل وعیال نہ ہو لیکن حالات اور قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ عرصہ دراز تک رہنا ہے وہاں سے جانے کا بظاہر کوئی ارادہ نہیں ہے الایہ کہ کوئی ناگہانی صورت پیش آجائے تو وہ بھی وطن اصلی کے درجہ میں ہوگا، لیکن اگر یہ کیفیت نہ ہو تو وطن اصلی کے درجہ میں نہیں ہے۔ علامہ شامی نے وطن اصلی کے لیے تین چیزوں کو الگ الگ بیان کیا ہے، اور تینوں کی نوعیت بالکل الگ الگ بیان کی ہے (۱) جائے ولادت (۲) وہ مقام جس میں آدمی نے شادی کرکے بیوی کو چھوڑ رکھاہے۔ (۳) کسی جگہ کو توطن اختیار کرلیایعنی علی سبیل القرار رہائش اختیار کر لی۔

’’قولہ: (أو تأہلہ) أي  تزوجہ۔ قال في شرح المنیۃ: ولو تزوج المسافر ببلد ولم ینو الإقامۃ بہ فقیل لا یصیر مقیما، وقیل یصیر مقیما؛ وہو الأوجہ ولو کان لہ أہل ببلدتین فأیتہما دخلہا صار مقیما، فإن ماتت زوجتہ في إحداہما وبقی لہ فیہا دور وعقار قیل لا یبقی وطنا لہ، إذ المعتبر الأہل دون الدار، کما لو تأہل ببلدۃ واستقرت سکنا لہ ولیس لہ فیہا دار، وقیل تبقی۔ اھـ۔ قولہ: (أو توطنہ) أي عزم علی القرار فیہ وعدم الارتحال وإن لم یتأہل، فلو کان لہ أبوان ببلد غیر مولدہ وہو بالغ۔ ولم یتأہل بہ فلیس ذلک وطنا لہ، إلا إذا عزم علی القرار فیہ وترک الوطن الذي کان لہ قبلہ شرح المنیۃ‘‘(۱)

الفقہ علی المذاہب الاربعہ کی عبارت سے بھی یہی معلوم ہوتاہے کہ اگر کوئی شخص ملازمت کے طورپر کسی جگہ مستقل رہے تووہ بھی اس کا وطن اصلی ہے خواہ وہاں اس کے اہل وعیال نہ ہو۔

’’وطن أصلی، وہو الذي ولد فیہ الإنسان، أو لہ فیہ زوج في عصمتہ، أو قصد أن یرتزق فیہ، وإن لم یولد بہ، ولم یکن لہ بہ زوج‘‘(۲)

(۱) عبد الرحمن بن محمد عوض الجزیري، کتاب الفقہ علی المذاہب الأربعہ، ’’کتاب الصلاۃ: مباحث قصر الصلاۃ الرباعیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۴، دار القدس، القاہرہ۔(۱) وہبہ الزحیلي، الفقہ الاسلامي و أدلتہ، ’’الفصل العاشر أنواع الصلاۃ: المبحث الثالث صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۴، مکتبہ تھانوی، دیوبند۔(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر، مطلب: في الوطن الأصلي ووطن الإقامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۱۴، مکتبہ زکریا، دیوبند۔(۲) کتاب الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، ’’کتاب الصلاۃ: مباحث قصر الصلاۃ الرباعیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۴۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:384

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: اگر کسی جگہ جانے کے دو راستے ہوں اور ایک راستے سے مسافت سفر سے کم ہو اور دوسرا مسافت سفر پر ہوتو جس راستے سے سفر کرتا ہے اس کا اعتبار ہوگااس لیے اگر ڈیوائیڈر کی وجہ سے وہ راستہ ۸۰؍ کلو میٹر کا ہوجاتاہے، جیسا کہ سوال میں مذکورہے اور وہ اسی راستے سے نکلنے کے ارادے سے نکلا ہے تووہ شخص مسافر ہوگا۔

’’ولو لموضع طریقان أحدہما مدۃ السفر والآخر أقل قصر في الأول لا الثاني‘‘(۱)

’’وتعتبر المدۃ من أي طریق أخذ فیہ، کذا في البحر الرائق فإذا قصد بلدۃ وإلی مقصدہ طریقان أحدہما مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیہا والآخر دونہا فسلک الطریق الأبعد کان مسافرا عندنا، ہکذا في فتاوی قاضي خان، وإن سلک الأقصر یتم، کذا في البحر الرائق‘‘(۲)

(۱) الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۰۳۔(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس عشر: في صلاۃ المسافر‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۹۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:383