Frequently Asked Questions
متفرقات
Ref. No. 2979/45-4725
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کھانے پینے کی اشیاء اصلا حلال ہیں تاہم کھانے پینے کی ایسی چیزیں جن میں کسی حرام کی آمیزش نہ ہو بلکہ ان کے اجزاء حلال ہوں لیکن ماہرینِ طب کی تحقیق کے مطابق غالب گمان یا یقینی طور پر مضر صحت ہوں تو ان کا کھانا جائز نہیں، اگرچہ حلال اجزاء پر مشتمل ہونے کی وجہ سے وہ اصولاً حلا ل ہیں ۔ تاہم اگر کسی چیز کے مشمولات حرام، ناپاک گندی اور خبیث ہوں یا نشہ آور ہوں تو ان کا کھانا ناجائز ہوگا اور وہ اشیاء حرام کہلائیں گی۔
قاعدة "الأصل في الأشياء الإباحة حتى يدل الدليل على التحريم". (الأشباه والنظائر لابن نجيم، ص:٧٣)
فکل ما نفع فھو طیب و کل ما ضر فھو خبیث والمناسبۃ الواضحۃ لکل ذی لب ان النفع یناسب التحلیل والضر یناسب التحریم (مجموع الفتاوی 21/540)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 2978/45-4728
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر پانی کی ٹنکی میں مرغی گر کر زندہ نکل آئے اور اس کے بدن پر کوئی ظاہری نجاست نہیں ہے تو پانی پاک رہے گا، مرغی حلال اور پاک جانور ہے، محض مرغی کے پانی میں گرنے سے پانی ناپاک نہیں ہوگا۔
إذا وقع في البئر فأرة أو عصفور أو دجاجة أو سنور أو شاة وأخرجت منها حيّة لا ينجس الماء و لا يجب نزح شيء منه۔( المحیط البرہانی 1/101)۔
قيد بالموت ؛ لأنه لو أخرج حيا و ليس بنجس العين ولا به حدث أو خبث لم ينزح شيء إلا أن يدخل فمه الماء فيعتبر بسؤره ، فإن نجسا نزح الكل وإلا لا هو الصحيح ، نعم يندب عشرة من المشكوك لأجل الطهورية كذا في الخانية، زاد التتارخانية : و عشرين في الفأرة، و أربعين في سنور و دجاجة مخلاة كآدمي محدث۔ (الدر المختار : 213/1)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 2977/45-4727
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو لوگ مکہ میں رہائش پذیر ہیں ان کے لئے حرم میں جانے کے لئے احرام کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم وہ اپنے عام لباس میں رہتے ہوئے طواف کرلیں تو یہ طواف شکرانہ مستحب ہے۔
ولا یشتغل بتحیة المسجد لأن تحیة المسجد الشریف ہي الطواف إن أرادہ ، بخلاف من لم یرِدہ وأراد أن یجلس حتی یصلي رکعتین إلا أن یکون الوقت مکروہا، وظاہرہ أنہ لا یصلي مرید الطواف للتحیة أصلاً لا قبلہ ولا بعدہ ولعل وجہہ إندراجھا في رکعتیہ ․ (شامي: ۲: ۴۶۰، ط، زکریا دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبندDivorce & Separation
Ref. No. 2975/45-4708
Answer
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
If the husband refuses the divorce that her wife claimed while she does not have a complete witness for her claim of divorce, only the husband's statement is acceptable. Therefore, there will be no divorce in the above case. Submit this question to nearby Darul-Qaza, they will listen to both the parties and take decision accordingly.
And Allah knows best
Darul Ifta Darul Uloom Waqf Deoband
Hadith & Sunnah
Ref. No. 2974/45-4711
Answer
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
It is not permissible for a woman to go on a long journey without a mahram, so it is better to leave the girl behind with a mahram. However, if the mahram is not available and you fear fitnah, you can take her with you in this case only. Your statement that the brother-in-law is a temporary mahram is wrong and it has no root in Sharia.
And Allah knows best
Darul Ifta Darul Uloom Waqf Deoband
Death / Inheritance & Will
Ref. No. 2973/45-4710
Answer
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The total inheritance of the deceased will be distributed equally among his three sons only; the children of the deceased's daughter have no share in it. However, if they are in need, the sons should take care of their sister’s children. By helping them out, they will be rewarded double In-sha Allah.
And Allah knows best
Darul Ifta Darul Uloom Waqf Deoband
طلاق و تفریق
Ref. No. 2942/45-4611
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔
احناف کے یہاں شہوت کے ساتھ چھونے سے بھی حرمت مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے خواہ مس بالشہوت جان بوجھ کر ہو یا انجانے اور غلطی سے۔
‘‘ولا فرق فيما ذكر بين اللمس والنظر بشهوة بين عمد ونسيان’’ (در مختار مع رد المحتار مع تحقيق دكتور فرفور: ج 8، ص: 119)
ہاں انفرادی واقعہ میں اگر مس بالشہوت سے ثبوت حرمت میں غیر معمولی دشواری ہو اور ثبوت شہوت خطاً ہو عمداً نہ ہو تو مفتی حالات اور قرائن کا جائزہ لے کر مذہب غیر پر عمل کرتے ہوئے عدم وقوع حرمت کا فتویٰ دے سکتا ہے۔
(١)مس بالشہوت سے ثبوت حرمت مصاہرت کی صورت میں ضروری ہے جس کو مس کیا ہے شہوت اور میلان ِجماع بھی اسی سے ہو اگر شہوت کسی دوسری عورت سے اور مس کسی اور کو کیا ہے تو حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔
‘‘والعبرۃ للشہوۃ عند المس والنظر لا بعدھما قلت: ویشترط وقوع الشہوۃ علیہا لا علی غیرہا لما في الفیض لو نظر إلي فرج ابنته بلا شهوة فتمنی جارية مثلها فوقعت له الشهوة علي البنت ثبتت الحرمت وإن وقعت علی من تمناها فلا’’ (رد المحتار: ج 8، ص: 112)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 2960/45-4693
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح کا کھیل طلبہ میں بطور ترغیب درست ہے، تاہم پارٹی دینے کی شرط لگانا جائز نہیں ہے۔ اس لئے یہ شرط ہٹادیں اور سوال و جواب کا سلسلہ جاری رکھیں۔
إن شرط لمال) في المسابقة (من جانب واحد وحرم لو شرط) فيها (من الجانبين) لانه يصير قمارا (إلا إذا أدخلا ثالثا) محللا (بينهما) بفرس كف ء لفرسيهما يتوهم أن يسبقهما وإلا لم يجز، ثم إذا سبقهما أخذ منهما، وإن سبقاه لم يعطهما، وفيما بينهما أيهما سبق أخذ من صاحبه (و) كذا الحكم (في المتفقهة) فإذا شرط لمن معه الصواب صح، وإن شرطاه لكل على صاحبه لا۔ (الدر المختار للحصفكي - (ج 5 / ص 723)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام سفر
Ref. No. 2958/45-4694
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ مسافت سفر پر نوکری کررہے ہیں، اس لئے جب پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت ہو تو قصر کریں اورجب پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت ہو تو اتمام یعنی پوری چار رکعتیں پڑھیں۔ اور اگر مقام ملازمت میں کتنے دن قیام کرنا ہے متعین نہ ہو تو قصر کرتے رہیں یہاں تک کہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت ہوجائے۔ اگر ایک ہفتہ ٹھہرنے کی نیت تھی پھر ایک ہفتہ کے بعد دس دن مزید ٹھہرنے کی ضرورت پڑگئی تو ان تمام دنوں میں قصر کرتارہے گا کیونکہ اس نے پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت ایک ساتھ نہیں کی ۔
و لايزال على حكم السفر حتى ينوي الإقامة في بلدة أو قرية خمسة عشر يوما أو أكثر، كذا في الهداية۔"
(الھندیۃ، كتاب الصلوة،الباب الخامس عشر:1/ 139،ط:دارالفكر)
من خرج من عمارة موضع إقامتہ قاصداً مسیرة ثلاثة أیام ولیالیھا ……صلی الفرض الرباعي رکعتین …حتی یدخل موضع مقامہ أو ینوي إقامہ نصف شھر بموضع صالح لھا فیقصر إن نوی في أقل منہ أو …بموضعین مستقلین (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ۲: ۵۹۹- ۶۰۶) ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 2966/45-4704
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال ایسے شخص کا سماجی بائیکاٹ ضروری ہے ، اس قدر گھناؤنی حرکت کے باوجود اس کے گھر آناجانا بڑی ہی بے غیرتی کی بات ہے، ایمان کا تقاضہ ہے کہ اس سنگین گناہ کے مرتکب کے ساتھ کوئی تعلق نہ رکھاجائے ، یہاں تک کہ جولوگ تعلق رکھتے ہیں ان کو بھی منع کیاجائے، اور اس شخص کی بیوی کو بھی سمجھایاجائےکہ وہ اب حرام کا مرتکب ہورہی ہے، اس کے لئے اپنے شوہرکے ساتھ رہنا قطعا ناجائز اورشرعی طور پر حرام ہے۔ پنچایت میں اس کو پیش کرکے اس سے توبہ کرائی جائے، اگر وہ بیوی کو طلاق دے کر الگ کردے اور اپنے گناہ پر نادم ہوکر توبہ کرلے اور پھر اس کے بائیکاٹ کو ختم کردیاجائے تو اس کی گنجائش ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند