نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز وقت مقررہ پر پڑھانی چاہئے اتفاقاً کبھی کچھ تاخیر ہوجائے تو کوئی حرج نہیں؛ لیکن تاخیر کی عادت بنا لینا قطعاً درست نہیں ہے اس سے مقتدیوں کوپریشانی ہوگی۔(۱)

(۱) فالحاصل أن التاخیر القلیل لإعانۃ أہل الخیر غیر مکروہ۔ (ابن عابدین، رد المحتارعلی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: في إطالۃ الرکوع للجائي، ج ۲، ص: ۱۹۹۔
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص80

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: عورت اور مرد کی نمازوں میں کئی اعتبار سے فرق ہے حضرات فقہاء نے اس کی تفصیلات ذکر کی ہیں اور وہ تفصیلات اور فرق احادیث مبارکہ سے ماخوذ اور مستفاد ہے جس کا جواب درج ذیل ہے اس سے مرد وعورت کی نمازوں میں جو فرق ہے وہ واضح ہو جائے گا۔
مرد تکبیر تحریمہ کے وقت کانوں تک ہاتھ اٹھائیں گے جب کہ خواتین کے لیے سینہ تک ہاتھ اٹھانے کا حکم ہے، اور یہ حدیث سے ثابت ہے:
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے وائل! جب تم نماز پڑھو تو اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاؤ اور عورت اپنے دونوں ہاتھ اپنی چھاتی کے برابر اٹھائے۔
’’عن وائل بن حجر، قال: جئت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم … فقال لي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یا وائل بن حجر، إذا صلیت فاجعل یدیک حذاء أذنیک، والمرأۃ تجعل یدیہا حذاء ثدییہا‘‘(۱)
’’عن عبد ربہ بن زیتون، قال: رأیت أم الدرداء ترفع یدیہا حذو منکبیہا حین تفتتح الصلاۃ‘‘(۲)
عبد ربہ بن زیتون سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ام درداء رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ نماز شروع کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھاتی تھیں، علامہ ابن الہمام ؒنے بھی فتح القدیر میں لکھا ہے: تکبیر تحریمہ کے وقت عورت اپنے کندھوں کے برابر اپنے ہاتھ اٹھائے، یہ صحیح تر ہے  کیوں کہ اس میں اس کی زیادہ پردہ پوشی ہے۔ ’’المرأۃ ترفع یدیہا حذاء منکبیہا، وہو الصحیح؛ لأنہ أسترلہا‘‘(۳)
ان روایات اور فتح القدیر کی عبارت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عورت کے لیے ہاتھوں کو کندھے اور سینہ تک اٹھانے کا حکم ہے؛ لہٰذا عورت اپنے ہاتھ اس طرح اٹھائے گی کہ ہاتھوں کی انگلیاں کندھوں تک اور ہتھیلیاں سینہ کے برابر آجائیں۔ فرق کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح ہاتھ اٹھانے میں زیادہ ستر پوشی ہوتی ہے، جو عورت کے حق میں عین مطلوب ہے۔
دوسرا فرق عورت اور مرد کی نماز میں قیام کی حالت میں ہاتھ باندھنے کی ہیئت میں ہے کہ مرد کے لیے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا مستحب ہے، اگرچہ حضرات فقہاء نے اس حوالے سے اختلاف بھی کیا ہے، تاہم عورتوں کے حوالہ سے تمام اہلِ علم کا اجماع ہے (اور اجماع مستقل دلیل شرعی ہے) کہ وہ قیام کے وقت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی۔ جیسا کہ کنز کی شرح میں لکھا ہے:
’’تضع المرأۃ یدیہا علی صدرہا‘(۱)
عورت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی۔
’’و تضع المرأۃ یدیہا علی صدرہا‘‘(۲)
عورت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی۔
’’وأما في حق النساء فاتفقوا علی أن السنۃ لہن وضع الیدین علی الصدر لأنہا أستر لہا‘‘(۳)
الحاصل: مذکورہ عبارتوں سے مردوں اور عورتوں کی نماز میں فرق واضح ہو جاتا ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت خواتین سینہ تک ہاتھ اٹھائیں گی اور قیام کی حالت میںسینہ پر ہاتھ باندھیںگی۔

(۱) المعجم الکبیر للطبراني، أم یحییٰ بنت عبدالجبار بن وائل: ج ۹، ص: ۱۴۴، رقم: ۱۷۴۹۷؛ ومجمع الزوائد: ج ۲، ص:۱۲۲، رقم: ۲۵۹۴۔
(۲) مصنف ابن أبي شیبۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب في المرأۃ إذا افتتحت الصلاۃ إلی أین ترفع یدیہا‘‘: ج ۲، ص: ۴۲۱۔
(۳) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۶۔
(۱) مستخلص الحقائق شرح کنز الدقائق: ص: ۱۵۳۔
۲) فخرالدین عثمان بن علي، تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۰۷۔
(۳) السعایۃ: ج ۲، ص: ۱۵۶۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص354

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسی صورت میں نماز ہو جائے گی لوٹانے کی ضرورت نہیں ہوگی تاہم امام صاحب کو اس طرف توجہ دلائے تاکہ وہ اس عمل سے رک جائیں۔(۱)

(۱) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم قال من جرّ ثوبہ خیلاء لم ینظر اللّٰہ إلیہ یوم القیامۃ فقال ابوبکر یارسول اللّٰہ إن أحد شقي إزاری یسترخي إلا أن اتعاہدہ ذلک منہ، فقال لہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لست ممن یفعلہ خیلاء،( أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب فضائل أصحاب النبي‘‘: ج۲، ص: ۳۷۶، یاسر ندیم اینڈ کمپنی دیوبند)
قولہ: لست یفعلہ: والمعنی أن استرخاء ہ من غیر قصد لایضر لاسیّما بمن لایکون من شیمتہ الخیلاء ولکن الأفضل ہو المتابعۃ وبہ یظہر أن سبب الحرمۃ من جرّ الازار ہو الخیلاء۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’اللباس‘‘: ج ۷، ص: ۲۷۹۱)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص164

نکاح و شادی

Ref. No. 38 / 1092

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ہاں، کرسکتا  ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 41/949

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  کھانا کھانے سے پہلے بسم اللہ اور اگر بھول جائے تو یاد آنے پرکھانے کے درمیان  بسم اللہ اولہ وآخرہ پڑھنا حدیث شریف سے ثابت ہے (ترمذی شریف)۔ کھانے کے درمیان بسم اللہ ، الحمدللہ وغیرہ کی صراحت والی کوئی حدیث نظر سے نہیں گزری تاہم نعمت خداوندی پر شکرگزاری کی روایات بکثرت ہیں۔ اس لئے اگر بغیر لازم سمجھے کوئی ذکر کرے تو مباح و درست ہے، اس میں کوئی وجہ ممانعت نہیں ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1554/43-1083

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جہاں اس کو امام کی آواز صاف سنائی دے تاکہ وہ تکبیر کہہ سکے اس کا خیال کرتے ہوئے اس کو مناسب جگہ کھڑا ہونا چاہئے۔ البتہ بہتر یہی ہے صف میں ہی کھڑا ہواور تکبیر کہے۔ صف سے الگ کھڑا ہونا اچھا نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Miscellaneous

Ref. No. 1698/43-1331

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اگر آپ نے مزید 1800 روپئے  مذکورہ شخص کو ہدیہ کرنے کی نیت سے شامل کردیے تو اس کی گنجائش ہے، قربانی درست ہوگئی۔  

وأما قدره فلايجوز الشاة والمعز إلا عن واحد وإن كانت عظيمةً سمينةً تساوي شاتين مما يجوز أن يضحى بهما؛ لأن القياس في الإبل والبقر أن لا يجوز فيهما الاشتراك؛ لأن القربة في هذا الباب إراقة الدم وأنها لا تحتمل التجزئة؛ لأنها ذبح واحد، وإنما عرفنا جواز ذلك بالخبر، فبقي الأمر في الغنم على أصل القياس.فإن قيل: أليس أنه روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين أملحين أحدهما عن نفسه والآخر عمن لايذبح من أمته، فكيف ضحى بشاة واحدة عن أمته عليه الصلاة والسلام؟(فالجواب): أنه عليه الصلاة والسلام إنما فعل ذلك لأجل الثواب؛ وهو أنه جعل ثواب تضحيته بشاة واحدة لأمته لا للإجزاء وسقوط التعبد عنهم، ولا يجوز بعير واحد ولا بقرة واحدة عن أكثر من سبعة، ويجوز ذلك عن سبعة أو أقل من ذلك، وهذا قول عامة العلماء''.( بدائع الصنائع (5/70، كتاب الأضحیه، ط: سعید)

والبقر والبعير يجزي عن سبعة إذا كانوا يريدون به وجه الله تعالى، والتقدير بالسبع يمنع الزيادة، ولا يمنع النقصان، كذا في الخلاصة. الفتاوى الهندية (5/ 304)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بانی اسلام حضرت آدم علیہ السلام ہیں، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ تکمیل اسلام ہوئی ہے۔ {اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ الخ} (الآیہ)(۱)

(۱) سورۃ المائدہ: ۳۔                
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص288

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مزار پر سجدہ تعظیمی بھی جائز نہیں ہے، یہ سخت گناہ ہے، تاہم آدمی ایمان سے خارج نہیں ہوتا ہے، اس لئے نکاح باقی ہے۔ (۱)

(۱) {وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ أٰلِھَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّ لَا سُوَاعًا ۵لا وَّ لَا یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًاہج ۲۳} (سورۃ نوح: ۷۱)
 عن الحسن قال: بلغني أن رجلا قال: یا رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نسلِّم علیک کما یسلِّم بعضنا علی بعض أفلا نسجد لک؟ قال: لا، ولکن أکرموا نبیکم وأعرفوا الحق لأہلہ فإنہ لا ینبغي أن یسجد لأحد من دون اللّٰہ۔ (جلال الدین السیوطي، الدر المنثور، ’’سورۃ آل عمران: ۷۹‘‘: ج ۱، ص: ۵۸۲)
من سجد للسلطان علي وجہ التحیۃ أو قبَّلَ الأرض بین یدیہ لا یکفر، ولکن یأثم لارتکابہ الکبیرۃ ہو المختار، قال الفقیہ أبو جعفر رحمہ اللّٰہ تعالیٰ: وإن سجد للسطان بنیۃ العباد أو لم تحضرہ النیۃ فقد کفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الثامن والعشرون في ملاقاۃ الملوک‘‘: ج ۵، ص: ۴۲۵)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص393

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ تصور کہ: جس عورت کے تل یا کوئی دھبہ ہو یا آنکھ میں خرابی ہو وہ لعنتی ہوتی ہے، شرعی اعتبار سے بالکل غلط ہے، اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔(۱)

(۱) إن کان الشئوم في شیئ ففي الدار والمرأۃ والفرس۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب النکاح: باب مای یتقی من شؤم المرأۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۶۳، رقم: ۵۰۹۴)
قال القرطبي: إنہ یحملہ علی ماکانت الجاہلیۃ تعتقدہ بناء علی أن ذلک یضر وینفع بذاتہ فإن ذلک خطأ إلخ۔ (ابن حجر، العسقلاني، فتح الباري: ج ۶، ص: ۶۱)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص519