Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص نے جمعہ کی نماز پڑھ لی، تو اس کے اوپر ظہر لازم نہیں رہی وہ ظہر کی نماز اگر پڑھے گا تو وہ نفل ہوگی ان کے ظہر کو فرض نہیں کہا جائے گا اور نفل پڑھنے والے کی اقتداء میں فرض پڑھنے والوں کی نماز ادا نہیں ہوتی ؛اس لیے مذکورہ شخص کا ظہر کی نماز میں امامت کرنا درست نہیں، اگر کوئی دوسرا شخص امامت کرسکے تو کرائے ورنہ تنہا تنہا نماز ظہر پڑھیں اور اگر پہلے ظہر کی نماز پڑھائی تو نماز درست ہوگئی اس کے بعد جمعہ پڑھ لیا تو جمعہ کی نماز اس کی نفل ہوگئی، تاہم جمعہ کے دن نماز جمعہ کا اہتمام کرنا چاہئے۔(۲)
(۲) وأن لایکون الإمام أدنیٰ حالاً من المأموم کافتراضہ وتفضل الإمام۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۲۹۱، شیخ الہند دیوبند)
قولہ: ومفترض بمتنفل وبمفترض آخر، أي وتفسد اقتداء المفترض بإمام متنفل أو بإمام یصلي فرضاً غیر فرض المقتدي لأن الاقتداء بناء ووصف الفرضیۃ معدوم في حق الإمام في الأولیٰ وہو مشارکۃ وموافقۃ فلا بد من الاتحاد وہو معدوم في الثانیۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۴۱، زکریا دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص308
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: جماعت جس جگہ ہو رہی ہے اور امام بھی وہیں موجود ہے (خواہ اوپر یا نیچے) وہیں کی صف اول شرعاً صف اول شمار ہوگی۔ البتہ اصل مسجد (نیچے کے حصہ) کو چھوڑ کر بلا عذر اوپر جماعت کرنا مکروہ ہے مگر فریضہ ادا ہوجائے گا اعادہ کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔(۱)
(۱) والقیام في الصف الأول أفضل من الثاني وفي الثاني أفضل من الثالث … وأفضل مکان المأموم حیث یکون أقرب إلی الإمام فإن تساوت المواضع ففي یمین الإمام وہو الأحسن۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الخامس في بیان مقام الإمام والمأموم‘‘: ج۱، ص: ۱۴۷، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص422
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اذان کے ذریعہ نماز باجماعت کا مجموعی اعلان کرنے کے بعد جب اقامت کہی جاتی ہے تو اس سے مسجد میں موجود مصلیوں کو یہ بتلانا مقصود ہوتا ہے کہ جماعت کھڑی ہوچکی ہے، لہٰذا اقامت اور جماعت کے آغاز میں طویل وقفہ اور آغازِ نماز میں تاخیر ہوجائے تو اقامت باطل ہوجاتی ہے۔ اس صورت میں دوبارہ اقامت کہنی چاہئے۔ اور اگر معمولی سا وقفہ ہوتو اقامت کو دُہرانے کی ضرورت نہیں ہے، طویل وقفہ اور معمولی وقفہ کے درمیان فرق کو واضح کرتے ہوئے علامہ ابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ نے شامی میں لکھا ہے:
’’لأن تکرارہا غیر مشروع إذَا لم یقطعہا قاطع من کلام کثیر أو عمل کثیر مما یقطع المجلس في سجدۃ التلاوۃ‘‘(۱)
آپ کی مسجد میں ظہر کی نماز سے قبل آپس میں اختلاف کی وجہ سے دس بارہ منٹ کا وقفہ طویل وقفہ ہے اس لیے اقامت باطل ہو گئی از سر نو اقامت کہنی چاہئیے تھی لیکن صورت مذکورہ میں نماز درست ہو گئی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے، نیز آئندہ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ مسجد اللہ کا گھر ہے مسجد میں شور وغل کرنا اور باآواز بلند دنیوی باتیں کرنا، آپس میں اختلاف اور لڑائی جھگڑا کرنا جائز نہیں۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی ایسے آدمی کو سنے جو مسجد میں گمشدہ چیزوں کا اعلان کر رہا ہے تو اس کے جواب میں کہے کہ اللہ تجھ پر تیری چیز نہ لوٹائے یعنی اللہ کرے نہ ملے کیوں کہ مسجدیں گمشدہ چیزوں کی تلاش کے لیے نہیں بنائی گئیں۔‘‘
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من سمع رجلا ینشد ضالۃ في المسجد فلیقل لا ردہا اللّٰہ علیک فإن المساجد لم تبن لہذا‘‘(۱)
دوسری حدیث میں ہے:
لا وجدت، إنما بنیت المساجد لما بنیت لہ۔
امام نوویؒ اس حدیث کی شرح میں تصریح فرماتے ہیں:
’’إنما بنیت المساجد لما بنیت لہ‘‘(۲)
مذکورہ عبارت کا مطلب یہ ہے کہ مسجدیں تو اللہ تعالیٰ کا ذکر،نما ز، مذاکرۂ علمیہ اور خیر کے کاموں کے لیے بنائی گئی ہیں۔ اس لیے انہیں کاموں میں استعمال کیا جائے۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، فائدۃ التسلیم بعد الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۸۔
(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب النھي عن نشد الضالۃ في المسجد وما یقولہ من سمع الناشد‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۰، رقم: ۵۶۸۔
(۲) أبو زکریا محي الدین بن شرف النووي، المنہاج شرح صحیح مسلم، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلوۃ، باب النہي عن نشد الضالۃ في المسجد‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۰۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص205
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: گھر پر عبادت کرنا افضل ہے کہ اس میں نام ونمود اور دکھلاوے کی بیماری سے آدمی محفوظ رہتا ہے۔(۱)
(۱) والأفضل في النفل غیر التراویح المنزل إلا لخوف شغل عنہا والأصح أفضلیۃ ما کان أخشع وأخلص۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۲۲)
وحیث کان ہذا أفضل یراعی ما لم یلزم منہ خوف شغل عنہا لو ذہب لبیتہ، أو کان في بیتہ ما یشغل بالہ ویقلل خشوعہ، فیصلیہا حینئذ في المسجد لأن اعتبار الخشوع أرجح۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۲۲)
الأفضل في السنن والنوافل المنزل لقولہ علیہ السلام: صلاۃ الرجل في المنزل أفضل إلا المکتوبۃ، ثم باب المسجد إن کان الإمام یصلي في المسجد، ثم المسجد الخارج إن کان الإمام في الداخل، والداخل إن کان في الخارج۔ وإن کان المسجد واحد فخلف أسطوانۃ، وکرہ خلف الصفوف بلا حائل۔ وأشدہا کراہۃ أن یصلي في الصف مخالطا للقوم وہذا کلہ إذا کان الإمام في الصلاۃ، أما قبل الشروع فیأتي بہا في المسجد في أي موضع شاء۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’الباب التاسع في النوافل، ومن المندوبات صلاۃ الضحی‘‘: ج ۱، ص:۱۷۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص391
مساجد و مدارس
Ref. No. 960
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: بلا کسی وجہ شرعی کے اوپر کی منزل میں نماز پڑھنا اور نیچے کے حصے کو چھوڑدینا مکروہ ہے۔لہذا نماز نیچے کی منزل میں ہی پڑھی جائے ۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 38 / 1053
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: حدیث کی معتبر کتابوں میں یہ حدیث ہمیں نہیں ملی۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 41/1090
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Some Ulama have prescribed the same, hence there is nothing wrong in this explanation.
إنَّمَا قَصَرَ الْأَجْزَاءَ عَلَى سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ ; لِأَنَّ زَمَانَ الْوَحْيِ كَانَ ثَلَاثًا وَعِشْرِينَ سَنَةً. وَكَانَ أَوَّلَ مَا بُدِئَ بِهِ مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ، وَذَلِكَ فِي سِتَّةِ أَشْهُرٍ مِنْ سِنِيِّ الْوَحْيِ، وَنِسْبَةُ ذَلِكَ إِلَى سَائِرِهَا نِسْبَةُ جُزْءٍ إِلَى سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا. (مرقاۃ المفاتیح 7/2913)
And Allah knows the best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
نکاح و شادی
Ref. No. 954/41-103 B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بکر نے دودھ پیا تو بکر سے رضاعت ثابت ہوگی اور بکر کے لئے رضاعی بہن سے یا اس کی اولاد سے نکاح حرام ہوگا، لیکن زید کا اس رضاعت سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لئے زید کا نکاح اسی خالہ کی لڑکی سے درست ہے۔
إلا أم أخته من الرضاع، فإنه يجوز أن يتزوجها، ولا يجوز أن يتزوج أم أخته من النسب؛ لأنها تكون أمه، أو موطوءة أبيه بخلاف الرضاع، ويجوز أن يتزوج أخت ابنه من الرضاع، ولا يجوز ذلك من النسب، لأنه لما وطئ أمها حرمت عليه، ولم يوجد هذا المعنى في الرضاع (البنایۃ شرح الھدایۃ 5/264)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 1400/42-813
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بیوی کا خودکشی کی دھمکی دینا شرعا غلط ہے۔ البتہ آپ نے جو قسم کھائی ہے وہ جھوٹی قسم ہے جس سے بچناضروری تھا، اس پر اللہ سے معافی مانگٰیں توبہ کریں۔ تاہم اس قسم سے کوئی کفارہ ذمہ میں لازم نہیں ہوتا۔
(قوله تغمسه في الإثم ثم النار) بيان لما في صيغة فعول من المبالغة ح (قوله وهي كبيرة مطلقا) أي اقتطع بها حق مسلم أو لا، وهذا رد على قول البحر ينبغي أن تكون كبيرة إذا اقتطع بها مال مسلم أو آذاه، وصغيرة إن لم يترتب عليها مفسدة، فقد نازعه في النهر بأنه مخالف لإطلاق حديث البخاري «الكبائر الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، واليمين الغموس» (شامی، کتاب الایمان 3/705)
والأصل عندنا في اليمين الغموس: أنه آثم، وعليه التوبة، والتوبة كفارة. وهكذا في كل يمين في عقدها معصية أن تلزمه الكفارة وهي التوبة. وأما الكفارة التي تلزم في المال، فهى لا تلزم بالحنث؛ لأنه بالحنث يأثم، والحنث نفسه إثم؛ لذلك لم يجز إلا بالحنث. (تفسیر الماتریدی: تاویلات اھل السنۃ، الباب 225، ج2ص144)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:عرف میں جو الفاظ تعظیم کے لئے استعمال ہوتے ہوں ان کا استعمال درست ہے اور جو الفاظ عرف میں اللہ اور نبی کی تعظیم کے لیے استعمال نہ ہوتے ہوں ان کا استعمال جائز نہیں ہے، ہمارے عرف میں اللہ میاں تعظیم کے لیے استعمال ہوتا ہے؛ لیکن اللہ صاحب ہمارے عرف میں تعظیم کے لیے استعمال نہیں ہوتا ہے؛ اگرچہ صاحب کا لفظ تعظیم کے لیے ہے ’’ولا یقول: قال اللّٰہ بلا تعظیم بلا إرداف وصف صالح للتعظیم، کذا في الوجیز للکردري رجل سمع إسما من أسماء اللّٰہ تعالیٰ یجب علیہ أن یعظمہ ویقول: سبحان اللّٰہ وما أشبہ ذلک‘‘(۱) حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی صاحب فرماتے ہیں: پرانے زمانے کی اردو میں اللہ صاحب فرماتے ہیں کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں؛ مگر جدید اردو میں اس کا استعمال متروک ہو گیا ہے گویا پرانے زمانے میں تعظیم کا لفظ سمجھا جاتا تھا، مگر جدید زبان میں یہ اتنی تعظیم کا حامل نہیں رہا کہ اسے اللہ تعالیٰ کے لیے یا انبیاء علیہم السلام کے لیے استعمال کیا جائے۔(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الرابع، في الصلاۃ، والتسبیح، وقراء ۃ القرآن الخ‘‘: ج ۵، ص: ۳۶۴۔
(۲) آپ کے مسائل اور ان کا حل: ج ۸، ص: ۳۴۳۔