تجارت و ملازمت

Ref. No. 928/41-50B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اپنی زمین کسی کو اس طرح کرایہ پر دینا کہ اس میں جو بھی غلہ پیدا ہوگا وہ مالک زمین اور کاشتکار میں نصف نصف  تقسیم ہوگا، یہ معاملہ  درست ہے۔  البتہ اس کا خیال رہے کہ غلہ کی پیداوار کم یا زیادہ بھی ہوسکتی ہے اس لئے فی صد ہی متعین ہو، اگر کسی نے اپنے لئے  کچھ غلہ متعین کرلیا کہ پیداوار جو بھی مجھے اس میں سے اتنی مقدار پہلے نکال دی جائے تو ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا۔

فكل شرط يكون قاطعا للشركة يكون مفسدا للعقد ومنها أن يكون ذلك البعض من الخارج معلوم القدر من النصف أو الثلث أو الربع أو نحوه ومنها أن يكون جزءا شائعا من الجملة حتى لو شرط لأحدهما قفزان معلومة لا يصح العقد وكذا إذا ذكرا جزءا شائعا وشرطا زيادة أقفزة معلومة لا تصح المزارعة. (الفتاوی الھندیۃ 5/235)  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1135/42-353

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں پہلے شخص پر دیت واجب نہیں ہوگی، اس لئے کہ سانپ نے دوسرے کو نقصان پہونچایا ہے، اسی طرح دوسرے اور تیسرے پر بھی دیت واجب نہیں  ہوگی۔ چوتھے شخص پر دیت واجب ہونے کی یہ تفصیل ہے کہ آخری یعنی پانچویں شخص کو اگر سانپ نے گرتے ہی نہیں کاٹا بلکہ پانچواں شخص اگر بچنا چاہتا تو بچ سکتا تھا تو پھر چوتھے شخص پر بھی  دیت واجب نہیں ہوگی۔

یہ واقعہ حضرت امام صاحب سے علماء کرام کی ایک مجلس سے پوچھاگیا تھا جس مجلس میں ابن ابی لیلی اور سفیان ثوری وغیرہ کبار فقہاء موجود تھے تو امام صاحب نے یہی جواب دیا تھا۔ ۔ اور حاضرین علماء نے اس کی تصویب کی تھی۔۔

(وقعت حية عليه فدفعها عن نفسه فسقطت على آخر فدفعها عن نفسه فوقعت على ثالث فلسعته) أي الثالث (فهلك) فعلى من الدية؟ هكذا سئل أبو حنيفة بحضرة جماعة، فقال: لا يضمن الأول لأن الحية لم تضر الثاني، وكذلك لا يضمن الثاني والثالث لو كثروا وأما الأخير (فإن لسعته مع سقوطها) فورا (من غير مهلة فعلى الدافع الدية) لورثة الهالك (وإلا) تلسعه فورا (لا) يضمن دافعها عليه أيضا فاستصوبوه جميعا، وهذه من مناقبه(ردالمحتار 6/559)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1237/42-554

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال اگر پہلے کوئی طلاق نہیں دی تھی، تو اس خلع سے ایک طلا ق بائن واقع ہوگئی۔ دوبارہ نکاح کرکے دونوں ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ البتہ شوہر آئندہ دو طلاقوں کا مالک ہوگا۔

وحکمہ ان الواقع بہ ای بالخلع وبلفظ البیع والمباراۃ ولوبلامال وبالطلاق الصریح علی مال طلاق بائن (ردالمحتار باب الخلع ۳/۴۴۴)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1359/42-770

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ لڑکی غیرمحرم ہے، بالغ ہونے کے بعد اس سے پردہ لازم ہوگا۔ البتہ اگر عورت اپنا دودھ پلادے تو پھر عورت رضاعی ماں اور شوہر رضاعی باپ ہوجائےگا اور پردہ نہیں ہوگا۔ عورت کو دودھ نہ آتاہو تو کسی ڈاکٹر سے رابطہ کریں ، نیز اگر شوہر کی ماں دودھ پلادے تو اس سے بھی لڑکی محرم ہوجائے گی اور پردہ لازم نہیں ہوگا۔

فَلَمَّا قَضٰیْ زَیدٌ مِّنْھَا وَطَرًا زَوَّجْنٰکَھَا لِکَیْ لاَ یَکُوْنَ عَلٰی الْمُوْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْ اَزْوَاجِ اَدْعِیَائِھِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْھُنَّ وَطَرًا (سورۃ الاحزاب 37) (قوله: رضاع) فيحرم به ما يحرم من النسب إلا ما استثني (شامی فصل فی المحرمات 3/28)

لا خلاف بين الأمة أنه يحرم من الرضاع ما يحرم من النسب؛ لقوله تعالى: (وأمهاتكم اللاتى أرضعنكم وأخواتكم من الرضاعة) [النساء: 23] ، فإذا كانت الأم من الرضاع محرمة، كان كذلك زوجها، وصار أبًا لمن أرضعته زوجته؛ لأن اللبن منهما جميعًا، وإذا كان زوج التى أرضعت أبًا كان أخوه عمًا، وكانت أخت المرأة خالة، يحرم من الرضاع العمات، والخالات، والأعمام، والأخوال، والأخوات، وبناتهن، كما يحرم من النسب، هذا معنى قوله عليه السلام: (الرضاعة تحرم ما تحرم الولادة) (شرح صحیح البخاری لابن بطال، باب وامھاتکم الاتی ارضعنکم - النساء 7/193)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1587/43-1122

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دو رکعت نفل نماز کی نیت کی اور دو رکعت پر قعدہ نہیں کیا اور چار رکعت  پڑھ کر قعدہ کرکے سجدہ سہو کے ساتھ سلام پھیرا تو استحسانا نماز درست ہوجائے گی۔

وأصل المسألة يصلي التطوع أربع ركعات إذا لم يقعد في الثانية قدر التشهد وقام وأتم صلاته أنه يجوز استحسانا عندهما، ولا يجوز عند محمد قياسا (بدائع، فصل فی سنن صلوۃ التراویح 1/289) ولو لم يقعد على رأس الشفع الأول القياس أنه لا يجوز وبه أخذ محمد وزفر ورواية عن أبي حنيفة، وفي " الاستحسان ": يجوز وهو ظاهر الرواية عن أبي حنيفة وهو قول أبي يوسف،(البنایۃ، صلوۃ الوتر جماعۃ فی غیر رمضان 2/559)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1660/43-1284

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میونسپل کارپوریشن یا نگرپالیکا کی اجازت ہو یا اجازت لے لی جائے تو سڑک پر بھی بورنگ کی اجازت ہے، البتہ اس کا خیال رکھا جائے کہ اس کی وجہ سے کسی کو  کوئی پریشانی نہ ہو، اس لئے بورنگ کرانے والے  راستہ  ضرور ٹھیک کرادیا کریں ۔

باب ما يحدثه الرجل في الطريق وغيره لما ذكر القتل مباشرة شرع فيه تسببا فقال: (أخرج إلى طريق العامة كنيفا) هو بيت الخلاء (أو ميزابا أو جرصنا كبرج وجذع وممر علو وحوض طاقة ونحوها، عيني، أو دكانا جاز) إحداثه (إن لم يضر بالعامة) ولم يمنع منه، فإن ضر لم يحل..."( الدر المختار للحصفكي - (ج 7 / ص 164)
"( قوله : لقوله صلى الله عليه وسلم { لا ضرر ولا ضرار في الإسلام } ) الحديث ... أي لا يضر الرجل أخاه ابتداء ولا جزاء ؛ لأن الضرر بمعنى الضر وهو يكون من واحد والضرار من اثنين بمعنى المضارة وهو أن تضر من ضرك" (تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق - (ج 17 / ص 451)

"باب ما يحدثه الرجل في الطريق وغيره... قوله: (أو دكانا) هو المرضع المرتفع مثل المصطبة... وعن أبي يوسف: إنما ينقضه إن ضر بهم... قوله: (بغير إذن الامام) فإن أذن فليس لاحد أن يلزمه وأن ينازعه، لكن لا ينبغي للامام أن يأذن به إذا ضر بالناس بأن كان الطريق ضيقا.." (تكملة حاشية رد المحتار - (ج 1 / ص 164)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1757/43-1479

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تکبیر تحریمہ امام و مقتدی سب پر ہرحال میں فرض ہے، اس لئے مقتدی جس وقت جماعت میں شریک ہو، تکبیر تحریمہ کھڑے ہوکر کہے پھر امام جس رکن میں ہو اس میں شریک ہوجائے۔ جس کو تکبیر تحریمہ کے بعد رکوع مل گیا اس کو رکعت مل گئی اور جس کو تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد رکوع میں امام کے ساتھ شرکت نہیں مل سکی اس کی وہ رکعت فوت ہوگئی۔ بہرحال تکبیر تحریمہ کہہ کر ہی رکوع وسجدہ میں جانا ضروری ہے ورنہ نماز نہیں ہوگی۔   

(من فرائضها) التي لا تصح بدونها (التحريمة) قائما (وهي شرط) قال الشامی: (قوله من فرائضها) جمع فريضة أعم من الركن الداخل الماهية والشرط الخارج عنها، فيصدق على التحريمة والقعدة الأخيرة والخروج بصنعه على ما سيأتي، وكثيرا ما يطلقون الفرض على ما يقابل الركن كالتحريمة والقعدة، وقدمنا في أوائل كتاب الطهارة عن شرح المنية أنه قد يطلق الفرض على ما ليس بركن ولا شرط كترتيب القيام والركوع والسجود والقعدة، وأشار بمن التبعيضية إلى أن لها فرائض أخر كما سيأتي في قول الشارح وبقي من الفروض إلخ أفاده ح (قوله التي لا تصح بدونها) صفة كاشفة إذ لا شيء من الفروض ما تصح الصلاة بدونه بلا عذر (شامی 1/442)

(الفصل الأول في فرائض الصلاة) وهي ست: (منها التحريمة) وهي شرط عندنا حتى أن من يحرم للفرائض كان له أن يؤدي التطوع هكذا في الهداية ولكنه يكره لترك التحلل عن الفرض بالوجه المشروع وأما بناء الفرض على تحريمة فرض آخر فلا يجوز إجماعا وكذا بناء الفرض على تحريمة النفل كذا في السراج الوهاج ۔ ۔ ۔  الی قولہ: ۔ ۔ ۔ ولا يصير شارعا بالتكبير إلا في حالة القيام أو فيما هو أقرب إليه من الركوع. هكذا في الزاهدي حتى لو كبر قاعدا ثم قام لا يصير شارعا في الصلاة ويجوز افتتاح التطوع قاعدا مع القدرة على القيام. كذا في محيط السرخسي. (الھندیۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاة 1/68)

(قوله فوقف) وكذا لو لم يقف بل انحط فرفع الإمام قبل ركوعه لا يصير مدركا لهذه الركعة مع الإمام فتح. ويوجد في بعض النسخ: فوقف بلا عذر أي بأن أمكنه الركوع فوقف ولم يركع، وذلك لأن المسألة فيها خلاف زفر؛ فعنده إذا أمكنه الركوع فلم يركع أدرك الركعة لأنه أدرك الإمام فيما له حكم القيام. (قوله لأن المشاركة) أي أن الاقتداء متابعة على وجه المشاركة ولم يتحقق من هذا مشاركة لا في حقيقة القيام ولا في الركوع فلم يدرك معه الركعة إذ لم يتحقق منه مسمى الاقتداء بعد، (شامی، باب ادراک الفریضۃ 2/60)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ جملہ اگر عیاذ ا باللہ نماز کا مذاق اڑانے کے لئے کہا تو ایمان سے خارج ہے اور اگر مذاق اڑانے کے لئے نہیں کہا، تب بھی ایسا جملہ کہنا گناہ کبیرہ ہے توبہ و استغفار لازم ہے ایسے شخص کو مناسب طریقہ پر نصیحت کی جانی چاہئے۔(۱

(۱) أو قال: ’’نماز کردہ وناکردہ یکے است‘‘  أو قال: ’’چنداں نماز کردم مرا دل بگرفت‘‘ أو قال: ’’نماز چیزے نیست کہ اگر بماند کندہ شود‘‘ فہٰذا کلہ کفر، کذا في خزانۃ المفتیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، وموجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالصلاۃ، والصوم، والزکاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۰)

ولو قیل لرجل: صلّ فقال: ’’تو چندیں گاہ نماز کردے‘‘ أو قال: ’’چندین گاہ نماز کردم چہ بر سر آوردم‘‘ کفر۔ (الفتاویٰ السراجیہ، ’’کتاب السیر: باب ألفاظ الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۷)

الہازل أو المستہزي إذا تکلم بکفر استخفافاً استہزاء ومزاحاً یکون کفراً عند الکل وإن کان اعتقادہ خلاف ذلک۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۷)

 

 

 دار العلوم وقف دیوبند

 

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 2191/44-2335

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اردو تفسیر کا نام "معارف القرآن" ہے  جس کے مصنف مولانا مفتی شفیع صاحب ہیں،اور  ہندی  زبان میں معارف القرآن کا ترجمہ مولانا عمران بگیانوی صاحب نے کیا ہے۔  یہ دونوں تفسیریں مارکیٹ میں موجود ہیں۔ مشکوۃ المصابیح  کو اردو میں سمجھنے کے لئے 'مظاہر حق جدید' پڑھیں جس کے  مرتب  مولانا عبداللہ جاوید صاحب ہیں۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بلا ضرورت قبروں پر کتبے لگانا ممنوع ہے۔ البتہ اگر قبر کی بے حرمتی کا اندیشہ ہو یا کوئی ایسا عالم ہو جسے لوگ تلاش کریں، تو مباح ہے۔ (۴)عالمگیری میں ہے کہ علماء کی قبروں پر کتبے لگانا شرعاً جائز ہے۔ تاہم ضرورت سے زیادہ لکھنا جائز نہیں ہے۔(۱) (۴) و إن احتیج إلی الکتابۃ حتی لا یذہب الأثر ولا یمتہن فلا بأس، فأما الکتابۃ …بغیر عذر فلا۔ (أحمد بن محمد،حاشیۃ الطحطاوي، ’’فصل في حملہا ودفنہا‘‘: ص: ۶۱۲) (۱) أنہ یکرہ کتابۃ شيء علیہ من القرآن أو الشعر أو إطراء مدح لہ ونحو ذلک۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۴) فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص359