حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ الفاظ کے ساتھ کوئی حدیث نہیں ملی؛ لیکن قرآن کریم اور احادیث سے اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے کہ شادی کرنے سے اللہ تعالیٰ فقر وفاقہ دور فرماتے ہیں اور ما تحتوں پر خرچ کرنے سے برکات ہوتی ہیں۔ (۱)

(۱) {وَأَنْکِحُوا الْأَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَإِمَآئِکُمْ ط إِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَآئَ یُغْنِھِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌہ۳۲} (سورۃ النور: ۳۲)
ثلاثۃ حق علی اللّٰہ عونہم المجاہد في سبیل اللّٰہ والمکاتب الذي یرید الأداء والناکح الذي یرید العفاف۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الجہاد، باب الجہاد والناکح‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۵، رقم: ۱۶۵۵)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص119

عائلی مسائل

Ref. No. 2719/45-4220

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صرف ا س طرح بولنے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ البتہ اگر طلاق کا تذکرہ تھا یا شوہر نے طلاق کی نیت سے ایسا کہا تھا تو طلاق واقع ہوجائے گی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: بشرطِ صحت سوال صورت مسئولہ میںامامت کے زیادہ حقدار وہ امام صاحب ہیں جو مسجد کے مستقل امام ہیں اور پنج وقتہ نمازیں پڑ ھاتے ہیں عیدین کی نماز میں وارث بن کر امامت کرنے کے لیے زور دینا درست نہیں ہے۔ امام صاحب اگر اپنی مرضی سے کسی کو دیدیں تو اس کی گنجائش ہے؛ لیکن اس کے لیے ان کو مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے۔(۱)

(۱) (والأحق بالإمامۃ) تقدیماً بل نصبا مجمع الأنہر، (الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحۃ وفسادًا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ، (حسن تلاوۃ) وتجویداً (للقراء ۃ ثم الأورع)    …أی الأکثر اتقاء للشبہات والتقوی: اتقاء المحرمات۔ الأولی بالإمامۃ أعلمہم بأحکام الصلوۃ ہکذا في المضمرات، ہذا إذا علم من القراء ۃ قدر ما تقوم بہ سنۃ القراء ۃ ہکذا في التبیین۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
ویجتنب الفواحش الظاہرۃ وإن کان غیرہ أورع منہ کذا في المحیط وإن کان متبحرا في علم الصلوۃ لکن لم یکن لہ حظ في غیرہ من العلوم فہو أولی۔  (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص:۱۴۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص110

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا شخص جس کو قطرہ آنے کے مرض میں اتنا بھی موقع نہ ملتا ہو کہ وضو کر کے ایک وقت کی نماز ادا کرے، (جیسا کہ مذکورہ شخص ہے) اسے شریعت اسلامی نے معذور قرار دیاہے، اور ایسے آدمی کے لیے نماز پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ وضو کر کے ایک وقت کی نماز ادا کرے، پھر دوسرے وقت وضو کرکے پوری نماز ادا کرے، ایک مرتبہ وضو کر کے جس قدر چاہے قرآن پاک پڑھے اور قرآن پاک کو مس کرے، یعنی چھوئے، رہا صرف قرآن پاک پڑھنے کا مسئلہ سو وضو کے بغیر بھی قرآن پاک کی تلاوت کرنا شرعاً درست ہے، صرف مس قرآن کے لیے وضو شرط ہے، اور حج کرنا بھی بغیر وضو کے شرعاً درست ہے، صرف طواف کے لیے باوضو رہنا ہے، حاصل یہ ہے کہ ایک مرتبہ کیا ہوا وضو نماز کے پورے وقت تک باقی سمجھا جائے گا، بس اسی روشنی میں آپ پر بھی عمل کرنا واجب ہے، کوئی عمل مذکورہ مرض کی وجہ سے ترک نہ کریں۔(۱)

(۱) استیقظ یمسح النوم عن وجھہ ثم قرأ عشر آیات من آل عمران ثم قام رسول اللّٰہ ﷺ إلی شن معلقۃ فتوضأ فأحسن الوضوء ثم قام یصلی۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ ،باب ما جاء في الوتر، ج۱، ص:۱۳۵، رقم:۹۹۲)؛و لا یکلف اللّٰہُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَھَا۔ (بقرہ:۲۸۶)؛ و کذا سائر المعذورین ابتداء…  باستیعابہ وقت صلٰوۃ کامل، و في الکافي: إنما یصیر صاحب عذر إذا لم یجد في وقت الصلاۃ زمنا یتوضأ و یصلي فیہ خالیاعن الحدث۔(ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات، فصل في الاستحاضۃ‘‘ج۱،ص:۱۸۵)؛ و صاحب عذر من بہ سلس بول لا یمکنہ إمساکہ الخ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار’’ کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب في أحکام المعذور‘‘ ج۱،ص:۵۰۴)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص405

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:عید کی نماز کا وقت آفتاب کے اونچا ہو جانے کے بعد سے زوال سے پہلے تک ہے اور مذکورہ صورت میں عید کا وقت چوںکہ نکل چکا ہے اس لیے یہ نماز اگلے دن اسی نماز کے وقت میں ادا کی جائے گی دوپہر بعد ادا کرنا جائز نہیں ہوگا۔(۱)

(۱)خرج عبد اللّٰہ بن بسر صاحب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مع الناس في یوم عید فطر أو أضحی، فأنکر إبطاء الامام، فقال: إنا کنا قد فرغنا ساعتَنا ہذہ، وذلک حین التسبیح۔ (أخرجہ أبو داؤد، في سننہ: ’’کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ العیدین، باب وقت الخروج إلی العید‘‘، ج۱، ص: ۱۶۱، رقم: ۱۱۳۵)
یستحب تعجیل الإمام الصلاۃ في أول وقتہا في الأضحی وتأخیرہا قلیلا عن أول وقتہا في الفطر بذلک کتب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلی عمرو بن حزم وہو بنجران عجل الأضحی وأخر الفطر قیل لیؤدی الفطر ویعجل إلی التضحیۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ:  باب الجمعۃ‘‘: ص: ۱۲۵)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص84

طلاق و تفریق

Ref. No. 2776/45-4345

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال بظاہر سوال مذكور میں تمام ذکر کردہ صورتیں خلوت صحیحہ کے ثبوت کے لئے مانع معلوم ہوتی ہیں، اگر واقعی عورت حالت حیض میں تھی تو بلا شبہ خلوت  ثابت نہیں ہوگی، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ اس بات کی تحقیق کرلی جائے تبھی خلوت صحیحہ کے ثبوت اور عدم ثبوت پر یقین کریں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2778/45-4348

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وعظ کرنے سے مراد اگر تقریر ہے تو جو شخص بھی دینی و شرعی مسائل سے واقف ہو، قرآن و حدیث کا علم رکھتاہو ، حافظ ہو یا غیرحافظ ، تبلیغی ہو یا غیرتبلیغی وعظ و تقریر کرسکتاہے، اور اگر وہ قرآن و حدیث کا علم نہیں رکھتا تو ایسے شخص پر احتیاط لازم ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بغیر ضرورت کے دروں ودروازوں کو چھوڑ کر پیچھے اصل صف میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ؛ بلکہ بلا ضرورت دروں میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔(۲)

(۲) عن معاویۃ بن قرۃ عن أبیہ، قال: کنا ننہی أن نصف بین السواري علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ونطرد عنہا طردا۔ …  وقال: وقد کرہ قوم من أہل العلم أن یصف بین السواري، وبہ یقول أحمد وإسحاق، وقد رخص قوم من أہل العلم فی ذلک، قال ابن العربي: ولا خلاف في جوازہ عند الضیق، وأما عند السعۃ فہو مکروہ للجماعۃ فأما الواحد، فلا بأس بہ، وقد صلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في الکعبۃ بین سواریہا۔‘‘(أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’إقامۃ الصلوات و السنۃ فیھا، باب الصلاۃ بین السواري في الصف،‘‘ ج۲، ص۷۰، رقم ۱۰۰۲ )
والأصح ما روي عن أبي حنیفۃ أنہ قال: أکرہ أن یقوم بین الساریتین أو في زاویۃ أو في ناحیۃ المسجد أو إلی ساریۃ؛ لأنہ خلاف عمل الائمۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الإمامۃ، مطلب: ھل الإسائۃ دون الکراھۃ أو أفحش منھا‘‘: ج ۲، ص:۳۱۰)
والاصطفاف بین الأسطوانتین غیر مکروہ؛ لأنہ صف فی حق کل فریق، وإن لم یکن طویلا وتخلل الأسطوانۃ بین الصف کتخلل متاع موضع أو کفرجۃ بین رجلین وذٰلک لا یمنع صحۃ الاقتداء ولا یوجب الکراہۃ۔ (السرخسي، المبسوط:ج ۲، ص: ۳۵، (شاملہ)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص166

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1232 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ صورت مسئولہ میں بشرط صحت سوال، جب بھائی نے پیسے ما ں کو دیدئے  اور ان کو اختیار دیدیا تو وہ اب ماں کے ہوگئے؛ اگر وہ کسی کو کچھ دینا چاہیں تو ان کو اختیار ہے، ان پر کوئی دباو نہیں ڈالاجائےگا۔ آپ نے بہن کی شادی میں جو تعاون کیا وہ تبرع ہے اس کا اجرعظیم آخرت میں آپ کو ملے گا انشاء اللہ۔ ماں نے ایک موقع پر خوش ہوکر ایک بات کہہ دی اور پھر بعد میں مصلحت اس کے خلاف میں نظر آئی اور اس پر عمل نہ کیا تو اس کی گنجائش ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

خوردونوش

Ref. No. 1002

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: بیٹھ کر کھانا کھانا سنت ہے، کرسی پر بیٹھ کر کھانا فی زماننا کسی خاص قوم کا شعار نہیں ہے اس لئے جائز ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند