Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
Ref. No. 1801/43-1541
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حق بات بولنا اور بدعت و گمراہی سے نفرت کرنا اور اس کی بیخ کنی کے لئے حسب قدرت اٹھ کھڑا ہونا یہ ایمانی تقاضہ ہے۔ ہر مؤمن کو ایسا ہونا چاہئے، حدیث میں اس کی جانب رہنمائی کی گئی ہے، البتہ موقع و محل اور کہنے کا انداز ایسا ہونا چاہئے جو مؤثر ہو، ایسانہ ہو کہ اصلاح کے بجائے فتنہ وفساد کاسبب بن جائے۔ اس لئے قرآن کریم نے لوگوں کو حکمت کے ساتھ دعوت و تبلیغ کرنے اور بحث ومباحثہ میں احسن طریقہ اختیار کرنے کا حکم دیاہے۔
کسی مسلمان کے بارے میں حسن ظن ہی رکھنا چاہئے جب تک کہ اس کے خلاف کا مشاہدہ نہ ہوجائے، اس لئے کس نے کونسا گناہ کیاہے، اس کا علم مغیبات میں سے ہے، جس کو صرف اور صرف اللہ تعالی جانتے ہیں۔ آپ کو کسی کےبارے میں بدگمان نہیں ہونا چاہئے، کسی کے بارے میں اگردل میں یہ خیال آتاہے کہ اس نے فلاں گناہ کیا ہے تو اس کو محض ایک وسوسہ سمجھیں، اس شخص کو برا نہ سمجھیں، ہوسکتاہے کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہو، یا اس نے اس گناہ سے توبہ کرلیا ہو یا وہ گناہ کسی نیک عمل سے بدل گیاہو وغیرہ۔ اس طرح کے وساوس کے دفعیہ کے لئے جلد از جلد کسی صاحب نسبت بزرگ سے مسلسل رابطہ میں رہنا مفید معلوم ہوتاہے۔
عن أبی سعيد: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: «من رأى منكم منكرا، فاستطاع أن يغيره بيده، فليغيره بيده، فإن لم يستطع، فبلسانه، فإن لم يستطع، فبقلبه، وذلك أضعف الإيمان» (سنن ابن ماجہ، باب الامر بالمعروف 2/1330 الرقم 4013)
اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ-اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ (سورۃ النحل 125)
ان الحسنات یذھبن السیئات، ذلک ذکری للذاکرین (سورہ ھود 114)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2215/44-2353
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چونکہ جان بوجھ کر گاڑی کو مخاطب کرکے طلاق کو اس کی جانب منسوب کیا ہے ، اس لئے مذکورہ صورت میں اس کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو حالات آپ نے لکھے ہیں اور جو افعال وہ کرتے ہیں وہ کفریہ ہیں ایسا کرنا قطعاً اور کسی اعتبار سے بھی جائز نہیں ہے۔ ان کو سمجھایا جائے اور عقائد کی کتابیں ان کو دکھلائی جائیں، اگر وہ باز نہ آئیں اور توبہ و استغفار کرکے اپنے عقائد کو درست نہ کریں، تو ان سے اجتناب ضروری ہوگا۔ اپنے عقائد اور کردار کی حفاظت کے لئے ایسے لوگوں سے ترک تعلق شرعی حکم ہے۔(۱)
(۱) أسماء رجال صالحین من قوم نوح، فلما ہلکوا وحي الشیطان إلي قومہم أن انصبوا إلي مجالسہم التي کانوا یجلسون أنصاباً وسمَّوہا بأسمائہم، ففعلوا، فلم تعبد، حتی إذا ہلک أولٰئک وتنسخ العلم عبدت۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب السیر: سورۃ نوح، باب وداً ولا سواعاً ولا یغوث‘‘: ج ۲، ص: ۷۳۲، رقم: ۴۹۲۰)
وأعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام۔
قولہ: (باطل وحرام) لوجوہ منہا: أنہ نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا یجوز لأنہ عبادۃ والعبادۃ لا تکون لمخلوق۔ ومنہا: أن المنذور لہ میت والمیت لا یملک۔ ومنہ: أنہ إن ظن أن المیت یتصرف في الأمور دون اللّٰہ تعالیٰ واعتقادہ ذلک کفر۔ (ابن عابدین، الدر المختارمع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب: في النذر الذي یقع للأموات من أکثر‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص394
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ فی السوال طریقہ جو رائج ہے اس کی کوئی اصل نہیں ہے یہ خیال بالکل غلط ہے۔ ذبح اور تکبیر حیوانوں کے لئے ہے نہ کہ پھل وغیرہ کے لئے(۱) شریعت اسلامیہ میں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
’’ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء‘‘(۲) اس سے بدعات کو فروغ ملتا ہے اور بے اصل اور بے بنیاد چیزیں مذہب میں داخل ہوجاتی ہیں اور ایسا کرنے والا گناہگار ہوتا ہے؛ اس لئے اس سے پرہیز کرنا اور بچنا ضروری ہے۔
’’عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد‘‘(۳) ’’من أحدث في الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود‘‘(۴)
البتہ ہر کام کو شروع کرنے سے پہلے ’’بسم اللّٰہ‘‘ یا ’’الحمد للّٰہ‘‘ وغیرہ پڑھنا باعث خیر وبرکت ہے۔ ’’قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کل أمر ذي بال لا یبدأ فیہ بالحمد أقطع‘‘(۴)
(۱) أشرف علي التھانوي، أغلاط العوام: ص: ۱۸۲۔
(۲) علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸۔
(۳) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸۔
(۴) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰۔
(۵) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب النکاح: باب خطبۃ النکاح‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۰، رقم: ۱۸۹۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص520
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ واقعہ من گھڑت ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط واقعہ کا منسوب کرنا گناہ عظیم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’من تعمد علي کذبا فلیتبوأ مقعدہ من النار ‘‘ (۱)مجھ پر جو شخص جھوٹ بولے اس کو چاہئے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں تلاش کرے۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: إثم من کذب علي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۲۱، رقم: ۱۰۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص118
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام بنی نوع انسانی اور جنوں کی طرف مبعوث فرمایا ہے؛ اس لئے ہر انسان اور جنوں پر واجب ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور آپ کی اتباع کرے۔ فتاویٰ حدیثیہ میں ہے:
’’ولم یبعث إلیہم نبي قبل نبینا قطعا علی ماقالہ ابن حزم: أي وإنما کانوا متطوعین بالایمان لموسی مثلاً والدخول في شریعتہ۔ وقال السبکی: لا شک أنہم مکلفون في الأمم الماضیۃ کہذہ الملۃ إما بسما عہم من الرسول أو من صادق عنہ، کونہ إنسیاً أو جنیا لا قاطع بہ‘‘۔(۲)
علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر ثقلین ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں اور جناتوں دونوں کے نبی ہیں جنوں کے ایمان لانے کا واقعہ کتب احادیث وغیرہ میں اس طرح ہے کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنات کو قرآن کریم بالقصد سنایا نہیں؛بلکہ ان کو دیکھا بھی نہیں ہے۔(۱)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت جب جنات کو آسمانی خبریں سننے سے روک دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت وبعثت کے بعد جو جنات آسمانی خبریں سننے کے لئے اوپر جاتے تھے تو ان پر شہاب ثاقب پھینک کر دفع کر دیا جانے لگا، جنات میں اس کا تذکرہ ہوا کہ اس کا سبب معلوم کرنا چاہئے کہ کونسا نیا واقعہ دنیا میں پیش آیا ہے جس کی وجہ سے جنات کو آسمانی خبروں سے روک دیا گیا ہے، جنات کے مختلف گروہ دنیا کے مختلف خطوں میں اس کی تحقیقات کے لئے پھیل گئے ان کا ایک گروہ حجاز کی طرف بھی پہونچا، اسی روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے واپس لوٹے تھے اور اپنے اصحاب کے ہمراہ وادئی نخلہ میں نماز پڑھ رہے تھے، اس وقت جنوں کے ایک گروہ نے قرآن کریم سنا اور اپنی قوم کی طرف واپس جاکر انہیں ڈرایا، اس واقعہ کی خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت تک نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی اور سورۃ احقاف کی آیت نازل فرمائی:
{وَإِذْ صَرَفْنَآ إِلَیْکَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَج فَلَمَّا حَضَرُوْہُ قَالُوْٓا أَنْصِتُوْاج فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلٰی قَوْمِھِمْ مُّنْذِرِیْنَہ۲۹ قَالُوْا ٰیقَوْمَنَآ إِنَّا سَمِعْنَا کِتٰبًا أُنْزِلَ مِنْم بَعْدِ مُوْسٰی مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ یَھْدِيْٓ إِلَی الْحَقِّ وَإِلٰی طَرِیْقٍ مُّسْتَقِیْمٍہ۳۰ ٰیقَوْمَنَآ أَجِیْبُوْا دَاعِيَ اللّٰہِ وَأٰمِنُوْا بِہٖ یَغْفِرْلَکُمْ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ وَیُجِرْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ أَلِیْمٍہ۳۱ وَمَنْ لَّا یُجِبْ دَاعِيَ اللّٰہِ فَلَیْسَ بِمُعْجِزٍ فِي الْأَرْضِ وَلَیْسَ لَہٗ مِنْ دُوْنِہٖٓ أَوْلِیَآئُط أُولٰٓئِکَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍہ۳۲ }(۲)
اوراے پیغمبر! ان لوگوں سے اس واقعہ کا ذکر بھی کیجئے، جب کہ ہم چند جنوں کو تمہاری طرف لے آئے کہ وہ قرآن سنیں پھر جب وہ اس موقع پر حاضر ہوئے تو ایک دوسرے سے بولے کہ چپ بیٹھے سنتے رہو۔ (پھر چپ بیٹھے سنتے رہے) اور جب قرآن پڑھا جا چکا یعنی نماز میں قرآن پڑھنا ختم ہو چکا، تو وہ اپنی قوم کی طرف لوٹ گئے (کہ ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرائیں) کہنے لگے اے ہماری قوم! ہم ایک کتاب سن کر آئے ہیں، جو موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے۔ جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے، دینِ حق بتاتی ہے اور سیدھا راستہ دکھاتی ہے۔ اے ہماری قوم! اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلانے والے کی بات مانو اور اس پر ایمان لاؤ، وہ تمہارے گناہ معاف کردے گا اور تم کو آخرت کے درد ناک عذاب سے محفوظ رکھے گا اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والے کی دعوت کو نہ مانے گا وہ زمین کے کسی حصے میں اللہ کو عاجز نہیں کرسکے گا خدا کے سواء اور کوئی حامی بھی نہ ہوگا ایسے لوگ صریح گمراہی میں مبتلا ہیں اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے سورۃ الجن کی یہ آیات نازل فرمائیں:
{قُلْ أُوْحِيَ إِلَيَّ أَنَّہُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوْٓا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًاہلا ۱ یَّھْدِيْٓ إِلَی الرُّشْدِ فَأٰمَنَّا بِہٖط وَلَنْ نُّشْرِکَ بِرَبِّنَا أَحَدًاہلا ۲ وَّأَنَّہٗ تَعٰلٰی جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَۃً وَّلَا وَلَدًاہلا ۳ وَّأَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ سَفِیْھُنَا عَلَی اللّٰہِ شَطَطًاہلا ۴ وَّأَنَّا ظَنَنَّآ أَنْ لَّنْ تَقُوْلَ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَی اللّٰہِ کَذِبًاہلا ۵ وَّأَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْإِنْسِ یَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْھُمْ رَھَقًاہلا ۶ }(۱)
اے پیغمبر! آپ لوگوں کو بتا دیجئے کہ میرے پاس (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) اس امر کی وحی آئی ہے کہ جنات میں سے ایک جماعت نے قرآن سنا اور اس کے بعد اپنے لوگوں سے جاکر کہا کہ ہم نے ایک عجیب طرح کا قرآن سنا جو نیک راہ بتاتا ہے۔ سو ہم اس پر ایمان لے آئے اور ہم تو کسی کو اپنے پروردگار کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور ہمارے پروردگار کی بڑی اونچی شان ہے کہ اس نے نہ تو کسی کو اپنی بیوی بنایا اور نہ کسی کو اولاد۔ اور ہم میں کچھ احمق ایسے بھی ہیں جو اللہ کی نسبت بڑھ بڑھ کر باتیں بنایا کرتے تھے اور ہمارا پہلے یہ خیال تھا کہ انسان اور جنات کبھی خدا کی شان میں جھوٹ بات نہ کہیں گے۔ اور آدمیوں میں سے کچھ لوگ جنات میں سے بعض لوگوں کی پناہ پکڑا کرتے تھے تو اس سے ان آدمیوں نے جنات کو اور بھی زیادہ مغرور اور بد دماغ کردیا۔
پھر جس وقت جنوں نے قرآن سنا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان پر ایمان لے آئے۔ یہ شہر نصیبین کے جن تھے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے:
’’عن عبد اللّٰہ بن عباس رضي اللّٰہ عنہما، قال: ’’انطلق النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في طائفۃ منْ أصحابہ عامدین إلی سوق عکاظ، وقد حیل بین الشیاطین وبین خبر السماء، وأرسلت علیہم الشہب، فرجعت الشیاطین إلی قومہم، فقالوا: مالکم؟ قالوا: حیل بیننا وبین خبر السماء، وأرسلت علینا الشہب، قالوا: ماحال بینکم وبین خبر السماء إلا شيء حدث، {فاضْرِبُوا مَشَارِقَ الأرضِ ومغَارِبَہا}، فَانْظُرُوا مَا ہٰذا الذي حال بینکم وبین خبر السماء، فانصرف أولئک الذین توجہوا نحو تہامۃ إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہو بنخلۃ عامدین إلی سوق عکاظ، وہو یصلی بأصحابہ صلاۃ الفجر، فلما سمعوا القرآن استمعوا لہ، فقالوا: ہذا واللّٰہ الذي حال بینکم وبین خبر السماء، فہنالک حین رجعوا إلی قومہم، قالوا: یا قومنا: {إِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًاہلا ۱ یَّھْدِيْٓ إِلَی الرُّشْدِ فَأٰمَنَّا بِہٖط وَلَنْ نُّشْرِکَ بِرَبِّنَا أَحَدًاہلا ۲ } (الجن: ۲) فأنزل اللّٰہ علی نبیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: {قُلْ أُوْحِيَ إِلَيَّ} (الجن: ۱) وإنَّمَا أُوحِيَ إِلَیْہِ قَوْلُ الجِنِّ‘‘۔(۱)
(۲) أحمد بن محمد بن حجر الہتیمي، الفتاویٰ الحدیثیۃ: ج ۱، ص: ۴۹۔
(۱) مفتی محمد شفیع عثمانیؒ، معارف القرآن: ج ۷، ص: ۵۷۴۔
(۲) سورۃ الأحقاف: ۲۹ تا ۳۲۔
(۱) سورۃ الجن: ۱ تا ۶۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب الجہر بقراۃ صلاۃ الصبح‘‘: ج۱، ص ۱۰۶، رقم: ۷۷۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص214
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اچھا پڑھنے والے حافظ کو امام مقرر کیا جائے اور اختلاف کی صورت میں امامت کے لیے قرعہ اندازی درست ہے؛ لیکن قرعہ میں انہی کے نام شامل کئے جائیں کہ جو قرآن صحیح پڑھتے ہیں۔(۱)
(۱) ثم الأحسن تلاوۃ وتجوید أفاد بذلک أن معنی قولہم أقرأ أي أجود لا أکثرہم حفظاً ومعنی الحسن فيالتلاوۃ أن یکون عالماً بکیفیۃ الحروف والوقف وما یتعلق بہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۲۹۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص109
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:آفتاب نکل جانے کے بعد مطلع سے ایک نیزہ کی مقدار اوپر آجائے تو اشراق کا وقت شروع ہوجاتا ہے یعنی سورج طلوع ہونے کے تقریباً ۲۰؍ منٹ بعد شروع ہو جاتا ہے، موسم کے اعتبار سے بدلتے سورج کے طلوع اور غروب کا وقت بدلتا رہتا ہے اس لیے اشراق کے اوقات بھی اسی اعتبار سے رہیں گے۔ وقت اشراق کے ایک گھنٹہ بعد تک اشراق پڑھی جاسکتی ہے ۔بعد میں چاشت کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔(۱)
(۱) {یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْرَاقِ} أي وقت الإشراق، قال ثعلب: یقال شرقت الشمس إذا طلعت وأشرقت إذا أضائت وصفت فوقت الإشراق وقت ارتفاعہا عن الأفق الشرعي وصفاء شعاعہا۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ ص‘‘: ج ۱۳، ص: ۱۶۷)
وعن أنس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی الفجر في جماعۃ ثم قعد یذکر اللّٰہ حتی تطلع الشمس ثم صلی رکعتین کانت لہ کأجر حجۃ وعمرۃ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب السفر: باب ما ذکر مما یستحب من الجلوس في المسجد بعد صلاۃ الصبح حتی تطلع الشمس‘‘ : ج ۱، ص: ۱۳۰، رقم: ۵۸۶، مکتبہ، دارالکتاب، دیوبند)
وقال الطیبی: أي ثم صلی بعد أن ترتفع الشمس قدر رمح حتی یخرج وقت الکراہۃ، وہذہ الصلاۃ تسمی صلاۃ الإشراق۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح: ’’کتاب الصلاۃ، باب الذکر بعد الصلاۃ، الفصل الثانی، ج۳، ص: ۴۵، رقم: ۹۷۱، مکتبہ فیصل، دیوبند)
ما دامت العین لا تحار فیہا فہي في حکم الشروق۔ (ابن عابدین، رد المحتارعلی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت ‘‘: ج۲، ص: ۳۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص82
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 2775/45-4326
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
You should be happy with the height Allah has made you. Don't make everything a cause of depression. Try to develop your qualification and ability skills, it will remove your depression itself. If it is possible to increase the height with a medicinal treatment, it can be done. To help your body reach its natural potential, a proper exercise should be done in the surveillance of an expert. The above surgery for increasing height is not allowed.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا اللّٰہ التوفیق: پہلے بیٹھے گی اور اپنے دونوں پیر دائیں جانب نکال کر سجدہ میں جائے گی۔(۱)
(۱) عن یزید بن أبي حبیب أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مر علی إمرأتین تصلیان فقال: إذا سجدتما فضما بعض اللحم إلی الأرض فإن المرأۃ لیست في ذلک کالرجل۔ (مراسیل أبي داؤد: ص: ۱۰۳؛ ’’باب من الصلاۃ‘‘ السنن الکبریٰ للبیہقي: ج ۲، ص: ۲۲۳)(شاملہ)
عن عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: إذا جلست المرأۃ في الصلاۃ وضعت فخذہا علیٰ فخذہا الأخریٰ فإذا سجدت الصقت بطنہا في فخذہا کأستر ما یکون لہا فإن اللّٰہ ینظر إلیہا ویقول: یا ملائکتي أشہد کم أني قد غفرت لہا۔ (الکامل لإبن عدي: ج ۲، ص: ۵۰۱، رقم الترجمۃ: ۳۹۹، السنن الکبریٰ للبیہقي: ج ۲، ص: ۲۲۳، ’’باب ما یستحب للمرأۃ الخ، جامع الأحادیث للسیوطي: ج ۳، ص: ۴۳، رقم: ۱۷۵۹)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص359