Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بارات اور دیگر مہمانوں کو کھانا کھلانا لڑکی والے کے لئے جائز ہے۔ ضروری اور فرض نہیں؛ اس لیے اگر بارات اور مہمانوں کو کھانا نہ کھلایا جائے اور اس کی رقم مسجد میں خوشی اور رضامندی سے دیدی جائے تو جائز ہے۔ قانون بناکر اس طرح جبر کرنا خلاف شرع ہے اور یہ قانون اس بات کو واضح کر رہا ہے کہ لڑکی والے یا لڑکے والے رقم دینے پر مجبور ہیں؛ اس لیے یہ جبر جائز نہیں اور ایسا قانون بنانا بھی جائز نہیں (۱) اور لڑکے کے لیے ولیمہ مسنون ہے، چندہ دینے سے ولیمہ کی سنت اداء نہیں ہوگی(۲)۔
(۱) عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال امرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)
(۲) إن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم رأی علی عبد الرحمن بن عوف أثر صفرۃ، فقال: ما ہذا قال: إني تزوجت إمرأۃ علی وزن نواۃ من ذہب قال بارک اللّٰہ لک أو لم ولو بشاۃ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب النکاح: باب الولیمۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۸، رقم: ۳۲۱۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص445
متفرقات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:زبیدہ جعفر بن منصور کی لڑکی تھی، اس کی کنیت ام جعفر تھی، یہ ہارون رشید جو عباسی خاندان کا چوتھا خلیفہ تھا، اس کی بیوی تھی، اس نے خواب دیکھا تھا کہ انسان، جانور، پرند، چرند اس سے صحبت کر رہے ہیں، تو وہ گھبرا کر اٹھ گئی، بہت ہی پریشان ہوئی۔ علماء نے اس کو خواب کی یہ تعبیر بتلائی کہ آپ کوئی نہر یا تالاب بنوائیں گی جس سے انسان، جانور، پرند سیراب ہوں گے؛ چنانچہ زبیدہ کی خواہش پر بادشاہ ہارون رشید نے نہر بنوانے کا حکم دیا(۱)۔ دریائے نیل سے نکالی گئی تھی، اب بھی اس نہر کے نشانات مکہ مکرمہ میں ہیں ۱۹۸۱ء میں جب میں خود حج کو گیا تھا، میں نے خود دیکھے ہیں، اب بھی نہر زبیدہ کے نام سے مشہور ہے۔(۲)
(۱) ملا علي قاري، مرقات المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، ’’إنما الأعمال بالنیات‘‘: ج ۱، ص: ۴۸)
(۲) محمد بن أحمد بن الضیاء محمد القرشي المکي الحنفي، تاریخ مکۃ المشرفۃ والمسجد الحرام والمدینۃ الشریفۃ والقبر الشریف: ج ۱، ص: ۳۱۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص177
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 2683/45-4142
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
If you wash the girl’s urine or stool and your hand is stained with the impurities of urine or stool, your hand became impure and it is necessary to wash the hands to get it pure. If the child’s impure body is dry and you hold it, you don’t need wash your hands just because you have touched the impure body. Hence if you prayer after that your prayer will be valid. If impure water splashes on your clothes or body while washing the girl's impure clothes or body, it is necessary to wash your clothes. So, you have to be very careful while washing your baby’s impurities.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:استنجا بائیں ہاتھ سے کرنا چاہیے، دائیں ہاتھ سے بلا عذر استنجا کرنا مکروہ اور خلاف سنت ہے۔(۲)
(۲) و کرہ بعظم و طعام و وروث و آجر و خذف و زجاج و شيء محترم کخرقۃ دیباج و یمین ولا عذر بیسراہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب: إذا دخل المستنجي في ماء قلیل،‘‘ ج۱، ص:۵۵۲)؛ و یکرہ الإستنجاء بالید الیمنی (عالم بن العلاء، تاتارخانیہ، ’’نوع منہ في سنن الوضو آدابہ،‘‘ ج۱، ص:۲۱۱)، و یکرہ الاستنجاء بالعظم… و ھکذا بالیمین، ھکذا في التبیین۔ و إذا کان بالیسری عذر یمنع الاستنجاء بھا، جاز أن یستنجي بیمینہ من غیر کراھۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب السابع: في النجاسۃ و أحکامھا، الفصل الثالث، في الاستنجاء،‘‘ ج۱، ص:۱۰۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص88
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کسی شخص کو قرض دیتے وقت کوئی چیز رہن رکھ دی جائے، تو شرعاً درست ہے؛ لیکن سود یا شبہ سود کی صورت نہ ہو۔شرائط رہن کی پابندی ضروری ہے جو شخص ایسا کرے اس کی امامت شرعاً درست ہے۔(۱)
(۱) الودیعۃ أمانۃ في ید المودع إذا ہلکت لم یضمنہا، لقولہ علیہ السلام: لیس علی المستعیر غیر المغل ضمان ولا علی المستودع غیر المغل ضمان ولأن بالناس حاجۃ إلی الاستیداع فلو ضمناہ یمتنع الناس عن قبول الودائع فیتعطل مصالحہم۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الودیعۃ‘‘:ج۳، ص: ۲۷۳، دارالکتاب دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص53
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: ٹخنوں سے نیچے شلوار یا جبہ لٹکانا ناجائز اور حرام ہے اور یہ صریح حدیث سے ثابت ہے اور جان بوجھ کر ٹخنے سے نیچے لٹکانے والا گنہگار اور فاسق ہے اور نماز میں شلوار ٹخنے سے نیچے پہننا اور بھی برا ہے؛ اس لیے اس کے پیچھے نماز مکروہ ہے۔ بخاری شریف میں ہے:
’’ما أسفل من الکعبین من الإزار في النار‘‘ یعنی جو شخص اپنا کپڑا ٹخنے سے نیچے لٹکائے گا وہ جہنم میں جائے گا۔(۱)
ایک حدیث میں ہے کہ جو آدمی ازار لٹکاکر نماز پڑھے گا اس کی نماز قبول نہ ہوگی۔
’’عن أبي ہریرۃ: بینما رجل یصلي مسبلا إزارہ إذ قال لہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذہب فتوضأ فذہب فتوضأ ثم جاء ثم قال: إذہب فتوضأ ثم جاء، فقال لہ رجل یا رسول اللّٰہ! ما لک أمرتہ أن یتوضا؟ فقال: إنہ کان یصلي وہو مسبل إزارہ وإن اللّٰہ جل ذکرہ لا یقبل صلاۃ مسبل إزارہ‘‘(۲)
’’ولایجوز الإسبال تحت الکعبین إن کان للخیلاء، وقد نص الشافعي علی أن التحریم مخصوص بالخیلاء؛ لدلالۃ ظواہر الأحادیث علیہا، فإن کان للخیلاء فہو ممنوع منع تحریم، وإلا فمنع تنزیہ‘‘(۳)
’’کرہ إمامۃ ’’الفاسق‘‘ العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعا فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ‘‘(۱)
(۱) أخرج البخاري في صحیحہ، ’’کتاب اللباس، باب ما أسفل من الکعبین ففی النار‘‘: ج ۳، ص: ۴۸، رقم:۵۷۸۷۔
(۲) أخرجہ أبوداود في سننہ، ’’کتاب اللباس، باب الإسبال في الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۵، رقم: ۴۰۸۶۔
(۳) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۷۔
(۱) ملا علي قاري، مرقاۃ المفا تیح، ’’کتاب اللباس، الفصل الأول‘‘: ج ۸، ص: ۱۹۸، رقم: ۴۳۱۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص179
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ عذر کی وجہ سے مسجد کی چھت پر جماعت کر سکتے ہیں، بلا عذر ایسا کرنا مکروہ ہے۔(۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الخامس في آداب المسجد‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۲، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص516
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں بھی جمعہ کی اذان کے سلسلہ میں معمول یہ تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز جمعہ کے لیے تشریف لاتے اور منبر پر بیٹھتے تو اذان کہی جاتی تھی۔ زمانہ رسالت کے بعد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی یہی معمول رہا۔
جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے اور انہوں نے دیکھا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے
زمانہ میں مسلمانوں کی تعداد کم تھی اور جو تھے وہ بھی مسجد کے قریب سکونت پذیر تھے؛ بلکہ بیشتر مسلمان تو ہمہ وقت بارگاہ نبوت کے حاضر باش ہی تھے اور اب صرف مسلمانوں کی تعداد ہی نہیں بڑھی تھی؛ بلکہ بہت سے لوگ تو مسجد سے دور دراز علاقوں میں رہتے بھی تھے اور کاروبار بھی کرتے تھے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مناسب سمجھا کہ جب نماز جمعہ کا وقت ہوجائے تو اذان کہی جائے تاکہ دور دراز کے مسلمان بھی خطبہ میں آجایا کریں۔ اسی وقت سے اذان اول بھی کہی جانے لگی یہ چوں کہ خلیفہ ثالث کا عمل ہے اور تمام موجود صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے اس لیے یہ بھی سنت ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے۔
’’عن السائب بن یزید قال: النداء یوم الجمعۃ أوّلہ إذا جلس الإمام علی المنبر علی عہد النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأبي بکر وعمر رضي اللّٰہ عنہما فلما کان عثمان رضي اللّٰہ عنہ وکثر الناس زاد النداء الثالث علی الزوراء، قال أبو عبد اللّٰہ: الزوراء موضع بالسوق بالمدینۃ‘‘(۱)
حدیث میں تیسری اذان سے مراد پہلی اذان ہے کیوں کہ پہلی اذان خطیب کے منبر پر بیٹھنے کے وقت ہوتی تھی اور دوسری تکبیر۔ اور تیسری اس کو کہا گیا ہے جو ہمارے زمانہ میں پہلی ہے۔
جمعہ کی دوسری اذان چوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی منبر کے سامنے دی جاتی تھی؛ اس لیے مسنون یہی ہے کہ دوسری اذان منبر کے سامنے دی جائے؛ لیکن اگر کبھی کبھار کسی وجہ سے تخلف ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الجمعۃ، باب الأذان یوم الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۴، رقم: ۹۱۲۔
وکذا الجلوس علی المنبر قبل الشروع في الخطبۃ والأذان بین یدیہ جری بہ التوارث۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘ ص: ۵۱۵، شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص156
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بے شک فرائض کے بعد ’’اللّٰہم أنت السلام الخ‘‘ والی دعاء مسنون ہے؛ اس لیے اکثر اسی کو پڑھا جاتا ہے، لیکن دوسری دعاء یا درود شریف پڑھنے سے؛ بلکہ اس قدر خاموش بیٹھنے سے بھی سنت ادا ہوجاتی ہے، لہٰذا کسی دوسری دعاء کو خلاف سنت کہنا صحیح نہیں ہے۔(۱)
(۱) عن ثوبان رضي اللّٰہ عنہ قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ إذا انصرف من صلاتہ استغفر ثلاثا وقال: اللہم أنت السلام ومنک السلام تبارک ذو الجلال والإکرام، قال الولید: فقلت للأوزاعي: کیف الاستغفار؟ قال تقول استغفر اللّٰہ، استغفر اللّٰہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ: باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ وبیان صفتہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۸، رقم: ۵۹۱)
عن کعب بن عجرۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: معقباتٌ لا یخیب قائلہن، أو فاعلہن، دبر کل صلاۃ مکتوبۃ ثلاثٌ وثلاثون تسبیحۃ، ثلاث وثلاثون تحمیدۃ وأربعٌ وثلاثون تکبیرۃ۔ (أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ: باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ وبیان صفتہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۸، رقم: ۵۹۶)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من سبح اللّٰہ في دبر کل صلاۃ ثلاث وثلاثین وحمد اللّٰہ ثلاث وثلاثین وکبر اللّٰہ ثلاث وثلاثین فتلک تسعۃ وتسعون، وقال تمام المأۃ لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شيء قدیر غفرت خطایاہ وإن کانت مثل زبد البحر۔ (أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ: باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ وبیان صفتہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۸، رقم: ۵۹۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص425
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر عورت کی نماز کے دوران شوہر نے اس کو شہوت سے چھوا یا اس کا بوسہ لے لیا تو عورت کی نماز فاسد ہو جائے گی، شوہر کو نماز کے دوران ایسا نہیں کرنا چاہئے، عورت ایسی صورت میں دوبارہ نماز پڑھے۔
’’ولو مس المصلیۃ بشہوۃ أو قبلہا بدونہا فإن صلاتہا تفسد‘‘(۲)
(۲)أیضاً: ’’کتاب الصلاۃ: مطلب في التشبہ بأہل الکتاب‘‘: ج ۲، ص: ۳۸۵، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص123