نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں جو اشخاص مستقلاً وہیں رہتے ہیں جہاں مکان جائداد وغیرہ ہے جس کا ذکر سوال میں ہے تو وہ بلاشبہ اس جگہ پر مقیم ہوں گے اور جس کی جائے پیدائش دوسری جگہ ہے وہ اگر اس جگہ کو بھی وطن اصلی ہی سمجھتا ہے تو وہ دونوں جگہ پر مقیم ہی کہلائے گا اور اگر اتفاقاً وہاں چلے جاتے ہیں لیکن اس کو وطن اصلی نہیں سمجھتے تو وہاں مسافر ہوں گے حاصل یہ ہے کہ ایک شخص کے لیے وطن اصلی دو یا اس سے زائد بھی ہوسکتے ہیں۔(۲)

(۲)ویبطل (وطن الإقامۃ بمثلہ و) بالوطن الأصلي (و) بإنشاء (السفر)۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۱۴)

ووطن الإقامۃ یبطل بوطن الإقامۃ وبإنشاء السفر وبالوطن الأصلي ہکذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس عشر: في صلاۃ المسافر‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۲)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:356

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسافت شرعی کی دوری ۴۸؍ میل کے ارادہ سے جو شخص سفر کرے، وہ شرعاً مسافر کہلاتا ہے خواہ وہ سفر حج ہی کے لیے ارادہ سے سفر کرے۔ لہٰذا جو حاجی اتنی دوری سے حج کے لیے جائے وہ بھی مسافر ہے جب وہ اپنی بستی کی حدود سے نکل جائے تو وہ قصر کرے تمام مسافر اگر جماعت کریں اور امام بھی مسافر ہی ہو تو وہ بھی قصر کریں البتہ اگر کسی مقیم کی اقتداء میں نماز پڑھیں تو پوری نماز پڑھیں، جس طرح عام مسافر پر نماز جمعہ واجب نہیں ہے اسی طرح سفر حج کے مسافر پر بھی جمعہ لازم نہیں ہے لیکن اگر وہ کسی ایسی بستی میں ہوں جہاں جمعہ ہوتا ہو اور وہاں جمعہ پڑھ لیں تو درست ہے۔

ائیر پورٹ ایسی بستی کی حدود میں ہو جہاں پرجمعہ درست ہو تو وہاں پر جمعہ باجماعت درست اور صحیح ہے اور اگر کسی وجہ سے ایک ہی جگہ متعدد بار جمعہ پڑھ لیا تو بھی درست ہے اس لیے کہ ایک ہی جگہ متعدد جماعتوں کی کراہت مسجد کے لئے ہے۔البتہ بغیر کسی وجہ وعذر کے الگ الگ جماعت ناپسندیدہ ہے۔(۱)(۱) عن ابن عباس قال: إن اللّٰہ تعالیٰ فرض الصلاۃ علی لسان نبیکم صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی المسافر رکعتین وعلی المقیم أربعاً وفي الخوف رکعۃ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۱، رقم: ۶۸۷)وینتقض بالسفر أیضاً، لأن توطنہ في ہذا المقام لیس للقرار، ولکن لحاجۃ، فإذا سافر منہ یستبدل بہ علی قضاء حاجتہ فصار معرضا عن التوطن بہ فصار ناقضا لہ دلالۃ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في بیان ما یصیر المسافر بہ مقیما‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:355

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس جگہ کے قصد و ارادے سے اس نے سفر شروع کیا ہے اس جگہ کا اعتبار ہوگا، مذکورہ صورت میں اگر وہ مثلاً پھلواری جانے کی نیت سے سفر کر رہاہے اور پھلواری کی دوری سفر شرعی کی دوری ہے تو وہ شرعاً مسافر کہلائے گا۔(۱)

(۱) من خرج من عمارۃ موضع إقامتہ قاصداً مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیہا … صلی الفرض الرباعي رکعتین … حتی یدخل موضع مقامہ أو ینوي إقامۃ نصف شہر بموضع صالح لہا فیقصر إن نوی في أقل منہ أو … بموضعین مستقلین۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۹ تا ۶۰۶)وینتقض بالسفر أیضا، لأن توطنہ في ہذا المقام لیس للقرار، ولکن لحاجۃ، فإذا سافر منہ یستدل بہ علی قضاء حاجتہ فصار معرضا عن التوطن بہ فصار ناقضا لہ دلالۃ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في بیان ما یصیر المسافر بہ مقیماً، الکلام في الأوطان‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۰) 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:354

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: تحریر سوال کے مطابق اگر وہاں پر آپ کی صرف ملازمت ہے تو وہ آپ کے لیے وطن اقامت بن جائے گا اگر آپ نے وہاں پر پندرہ یوم ٹھہرنے کی نیت کرلی تو آپ وہاں پر پوری نماز پڑھیں گے اگر پندرہ یوم کی نیت اقامت کی نہیں کی تو آپ مسافر ہی رہیں گے اور نماز میں قصر ہی آپ پر ضروری ہوگی۔(۱)

ویبطل (وطن الإقامۃ بمثلہ و) بالوطن الأصلي (و) بإنشاء (السفر)۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۱۴)ووطن الإقامۃ یبطل بوطن الإقامۃ وبإنشاء السفر وبالوطن الاصلي ہکذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس عشر: في صلاۃ المسافر‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۲)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:353

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: چوں کہ نماز قضاء ہوگئی ہے اس لیے مسافر اپنی نماز الگ پڑھے اور قصر کرے، مقیم امام جو اپنی قضاء نماز کی جماعت کریں یہ مسافر ان کے ساتھ شریک نہ ہو اور اگر شریک ہوگا تو نماز نہ ہوگی۔(۱)

(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لاتقصروا الصلاۃ في أدنی من أربعۃ برد من مکۃ إلی عسفان۔ (عمدۃ القاري، ’’کتاب الصلا: أبواب تقصیر الصلاۃ باب الصلاۃ بمنی‘‘: ج ۷، ص: ۱۱۹)عن ابن عباس قال: إن اللّٰہ تعالیٰ فرض الصلاۃ علی لسان نبیکم صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی المسافر رکعتین وعلی المقیم أربعاً وفي الخوف رکعۃ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۱، رقم: ۶۸۷)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:353

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: چوں کہ نماز قضاء ہوگئی ہے اس لیے مسافر اپنی نماز الگ پڑھے اور قصر کرے، مقیم امام جو اپنی قضاء نماز کی جماعت کریں یہ مسافر ان کے ساتھ شریک نہ ہو اور اگر شریک ہوگا تو نماز نہ ہوگی۔(۱)

(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لاتقصروا الصلاۃ في أدنی من أربعۃ برد من مکۃ إلی عسفان۔ (عمدۃ القاري، ’’کتاب الصلا: أبواب تقصیر الصلاۃ باب الصلاۃ بمنی‘‘: ج ۷، ص: ۱۱۹)عن ابن عباس قال: إن اللّٰہ تعالیٰ فرض الصلاۃ علی لسان نبیکم صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی المسافر رکعتین وعلی المقیم أربعاً وفي الخوف رکعۃ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۱، رقم: ۶۸۷)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:353

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: چوں کہ نماز قضاء ہوگئی ہے اس لیے مسافر اپنی نماز الگ پڑھے اور قصر کرے، مقیم امام جو اپنی قضاء نماز کی جماعت کریں یہ مسافر ان کے ساتھ شریک نہ ہو اور اگر شریک ہوگا تو نماز نہ ہوگی۔(۱)

(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لاتقصروا الصلاۃ في أدنی من أربعۃ برد من مکۃ إلی عسفان۔ (عمدۃ القاري، ’’کتاب الصلا: أبواب تقصیر الصلاۃ باب الصلاۃ بمنی‘‘: ج ۷، ص: ۱۱۹)عن ابن عباس قال: إن اللّٰہ تعالیٰ فرض الصلاۃ علی لسان نبیکم صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی المسافر رکعتین وعلی المقیم أربعاً وفي الخوف رکعۃ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۱، رقم: ۶۸۷)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:353

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس کو اپنی نماز باقی ماندہ دوسرے مقیم مقتدی مسبوق کی طرح ادا کرنا ہوگی کیوں کہ اب اس پر پوری نماز ہی لازم ہوگئی ہے۔(۱)

(۱) وإن اقتدی مسافر بمقیم أتم أربعاً، وإن أفسدہ یصلي رکعتین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس عشر: في صلاۃ المسافر‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۲)(وإن اقتدی مسافر بمقیم) یصلي رباعیۃ ولو في التشہد الأخیر (في الوقت صح) اقتداؤہ (وأتمہا أربعاً) تبعاً لإمامہ واتصال المغیر بالسبب الذي ہو الوقت۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ص: ۴۲۷)(وصح اقتداء المقیم بالمسافر في الوقت وبعدہ فإذا قام) المقیم (إلی الإتمام لایقرأ) ولا یسجد للسہو (في الأصح)؛ لانہ کاللاحق والقعدتان فرض علیہ، وقیل: لا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۱۰، ۶۱۱)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:352

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسافر پر قصر کرنا واجب ہے اور پوری نماز پڑھنا درست نہیں ہے اگر مسافر نے ظہر، عصر اور عشاء میں بھول کر دو رکعت کے بجائے چار رکعت پڑھ لی اور اس نے قعدہ اولیٰ کیا تھا اور آخر میں سجدہ سہو بھی کیا تو اس کی نماز ہو جائے گی اگر قعدہ اولیٰ نہیں کیا تو فرض کے ترک کی وجہ سے اس کی نماز ہی نہیں ہوئی اور اگر قعدہ اولیٰ کیا لیکن سجدہ سہو نہیں کیا تو وقت کے اندر اس کا اعادہ واجب ہوگا اس لیے کہ واجب میں تاخیر کی وجہ سے سجدہ سہو لازم تھا۔

’’(فلو أتم مسافر إن قعد في) القعدۃ (الأولیٰ تم فرضہ و) لکنہ (أساء) لو عامداً لتأخیر السلام وترک واجب القصر وواجب تکبیرۃ افتتاح لنفل وخلط النفل بالفرض وہذا لا یحل‘‘ (۱)

(۱) الحصکفي، الدر لمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۱۰۔

عن ابن عباس قال: إن اللّٰہ تعالیٰ فرض الصلاۃ علی لسان نبیکم  صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم علی المسافر رکعتین وعلی المقیم أربعاً وفي الخوف رکعۃ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۱، رقم: ۶۸۷)

(سہا عن القعود الأول من الفرض) ولو عملیا أما النفل فیعود مالم یقید بالسجدۃ (ثم تذکرہ عاد إلیہ) وتشہد ولا سہو علیہ في الاصح (مالم یستقم قائماً) في ظاہر المذہب وہو الاصح فتح (وإلا) أي وإن استقام قائماً (لا) یعود لاشتغالہ بفرض القیام (وسجد للسہو) لترک الواجب (فلو عاد إلی القعود) بعد ذلک (تفسد صلاتہ) لرفض الفرض لما لیس بفرض وصححہ الزیلعي (وقیل لا) تفسد لکنہ یکون مسیئاً ویسجد لتأخیر الواجب۔ (وہو الأشبہ) کما حققہ الکمال وہو الحق بحر۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۷، تا ۵۴۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:351

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کسی جگہ پندرہ دن کے لئے ٹھہر جائے تو نماز پوری لازم ہے اور اگر پندرہ دن سے کم ٹھہرے تو قصر ہی رہے گی۔(۱)

(۱) (من خرج من عمارۃ موضع إقامتہ) من جانب خروجہ (قاصداً) ولو کافراً ومن طاف الدنیا بلاقصد لم یقصر، (مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیہا) من أقصر أیام السنۃ (صلی الفرض الرباعي رکعتین) وجوبا لقول ابن عباس: إن اللّٰہ فرض علی لسان نبیکم صلاۃ المقیم أربعاً والمسافر رکعتین۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۹ تا ۶۰۳)

عن ابن عباس قال: إن اللّٰہ تعالیٰ فرض الصلاۃ علی لسان نبیکم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم علی المسافر رکعتین وعلی المقیم أربعاً وفي الخوف رکعۃ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۱، رقم: ۶۸۷)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:350