Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنت کے لیے فرض کو نہ توڑے ’’ولو تذکر في الفجر أنہ لم یصل رکعتي الفجر لم یقطع‘‘(۳)
(۳) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۸، زکریا دیوبند۔)
ومن انتہی إلی الإمام في صلاۃ الفجر وہو لم یصل رکعتي الفجر إن خشي أن تفوتہ رکعۃ ویدرک الأخریٰ یصلي رکعتي الفجر عند باب المسجد ثم یدخل لأنہ أمکنہ الجمع بین الفضیلتین وإن خشي فوتہا دخل مع الإمام لأن ثواب الجماعۃ أعظم۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب ادراک الفریضہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۲، دار الکتاب دیوبند)
ولو أدرک الإمام في الرکوع ولم یدر أنہ في الرکوع الأول أو الثاني، یترک السنۃ ویتابع الإمام، کذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب العاشر في ادراک الفریضۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۷۹، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص349
نکاح و شادی
Ref. No. 2830/45-4436
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اہل سنت و اہل تشیع کے درمیان عقائد کا اختلاف ہے؛ ان کے عقائد اسلامی عقائد سے متصادم ہیں، اس لئے آپ اپنے گھروالوں کے مشورہ کے مطابق اہل تشیع لڑکے سے اپنا ذہن فارغ کرلیں اور کسی اہل سنت والجماعت لڑکے سے شادی کا ارادہ کریں۔ گھروالے آپ کا بہت مناسب رشتہ تلاش کریں گے، ان شاء اللہ ۔ خیال رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رشتے کے انتخاب میں دین داری کو ترجیح دینے کا حکم دیا ہے، ایک مسلمان ہونے کے ناطے آپ کا یہ فریضہ ہے کہ عقائد کے باب میں کسی طرح کا سمجھوتہ نہ کریں اور اپنے ایمان کی خاطر آپ کی یہ مختصر سی قربانی آپ کے مستقبل کے لئے اور آخرت کے لئے بھی ان شاء اللہ بے حد مفید ثابت ہوگی ۔ تاہم اگر وہ لڑکا اپنے باطل عقائد سے توبہ کرکے صحیح العقیدہ مسلمان ہوجائے تو پھر اس سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔
"وبهذا ظهر أن الرافضي إن كان ممن يعتقد الألوهية في علي أو أن جبريل غلط في الوحي أو كان ينكر صحبة أبي بكر الصديق أو يقذف عائشة الصديقة فهو كافر؛ لمخالفة القواطع المعلومة من الدين بالضرورة". (ردالمحتار : ٣ / ٤٦ سعيد) فقط والله أعلم
ومنها أن لا تكون المرأة مشركة إذا كان الرجل مسلما فلا يجوز للمسلم أن ينكح المشركة لقوله تعالى { ولا تنكحوا المشركات حتى يؤمن } ويجوز أن ينكح الكتابية لقوله عز وجل{والمحصنات من الذين أوتوا الكتاب من قبلكم} والفرق أن الأصل أن لا يجوز للمسلم أن ينكح الكافرة لأن ازدواج الكافرة والمخالطة معها مع قيام العداوة الدينية لا يحصل السكن والمودة الذي هو قوام مقاصد النكاح(بدائع الصنائع،کتاب النکاح،فصل في شرط أن يكون للزوجين،ج:3،ص458)
نعم لا شك في تكفير من قذف السيدة عائشة رضي الله تعالى عنها أو أنكر صحبة الصديق أو اعتقد الألوهية في علي أو أن جبريل غلط في الوحي أو نحو ذلك من الكفر الصريح المخالف للقرآن ۔ ۔ ۔ وأما الرافضي ساب الشيخين بدون قذف للسيدة عائشة ولا إنكار لصحبة الصديق ونحو ذلك فليس بكفر فضلا عن عدم قبول التوبة بل هو ضلال وبدعة۔ (ردالمحتارعلى الدرالمختار،كتاب الجهاد،باب المرتد،مطلب مهم في حكم سب الشيخين،ج:6،ص:378)
لا يجوز نكاح المجوسيات ولا الوثنيات وسواء في ذلك الحرائر منهن والإماء كذا في السراج الوهاج ويدخل في عبدة الأوثان عبدة الشمس والنجوم والصور التي استحسنوها والمعطلة والزنادقة والباطنية والإباحية وكل مذهب يكفر به معتقده كذا في فتح القدير۔(الفتاوی الھندیۃ،الباب الثالث فی بیان المحرمات،القسم السابع المحرمات با لشرک،ج:1،ص282)
ومنها أن يكون للزوجين ملة يقران عليها۔(بدائع الصنائع،کتاب النکاح،فصل في شرط أن يكون للزوجين،ج:3،ص458)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1066
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نماز سکون اور اطمینان اور سنن و آداب کی رعایت کے ساتھ ہی پڑھنا چاہیے، نمازیں اگر زیادہ ہیں تو ان کو ہر نماز کے وقت جتنی بسہولت پڑھی جاسکتی ہوں پڑھے۔ نوافل پڑھنے کے بجاءے قضاء نمازیں ہی پڑھیں تاکہ جلد پوری ہوسکیں۔ جتنے دنوں کی نمازیں قضاء ہوں ان کی ایک لسٹ بنالیں اور پڑھ کر نشان لگاتے رہیں، اس سے بسہولت حساب کرسکیں گے کہ کتنی نمازیں آپ کے ذمہ باقی ہیں اور کتنے دنوں میں پوری ہون گی۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 38/ 897
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: سیاسی سماجی طور پر ایسی راہ اختیار کی جاسکتی ہے۔ عقیدہ کے لحاظ سے درست نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 39 / 862
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ درست نہیں ہے۔ احتیاط کرنی لازم ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 41/855
الجواب وباللہ التوفیق:
بسم اللہ الرحن الرحیم:۔ بینک کے ذریعہ گاڑی خریدنے کی ایک صورت یہ ہے کہ بینک گاڑی کی قیمت مع منافع ایک ساتھ طے کردے اور پھر گاڑی خرید کراپنے گراہک کو بیچ دے۔ اگر قسط مقرر کرے تو گراہک وقت مقررہ پر قسط اداکرتا رہے تاکہ تاخیر کی وجہ سے کوئی سود نہ دینا پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ علاوہ ازیں اس زمانہ میں ضرورت کے پیش نظر بینک سے لون پر گاڑی خریدنے کی بھی گنجائش ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 927/41-53B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بکری کو پا ل پر دینے کی جو شکلیں آج کل رائج ہیں (جس میں ایک آدمی اپنی بکری دوسرے کو اس کے نصف منافع کے عوض پال پر دیتا ہے کہ تم اس کو چارہ کھلاؤ دیکھ بھال کرو، اور جو بچہ یہ دے گی اس کو آدھا آدھا تقسیم کرلیں گے) وہ شرعاً ناجائز ہیں۔ اگر کسی نے ناجائز ہونے کے باوجود ایسا معاملہ کرلیا تو جلد از جلد اس کو ختم کردینا ضروری ہے، اور بکری کا مالک اپنی بکری اور اگر بچہ ہو تو اس کو بھی اپنی ملکیت میں واپس لے لے اور پالنے والے کو اس کی اجرت مثل دےدے۔
شرعی اعتبار سے ایک جائز شکل یہ ہوسکتی ہے کہ بکری کا مالک بکری پالنے والے کو آدھی بکری بیچ کر یا ہبہ کرکےاس کو بکری میں شریک بنالے اور پھر دونوں باہمی رضامندی سے منافع کی تقسیم کرلیں، توایسا کرنا درست ہوگا۔
فلو دفع بزر القز أو بقرة أو دجاجا لآخر بالعلف مناصفة فالخارج كله للمالك لحدوثه من ملكه وعليه قيمة العلف وأجر مثل العامل عيني ملخصا، ومثله دفع البيض كما لا يخفى (الدرالمختار 5/69)۔ وعلى هذا إذا دفع البقرة بالعلف ليكون الحادث بينهما نصفين، فما حدث فهو لصاحب البقرة وللآخر مثل علفه وأجر مثله تتارخانية. (الدرالمختار 4/327)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1238/42-553
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب شوہر نے طلاق کو کسی شرط پر معلق کردیا تو اب رجوع کی کوئی شکل نہیں ۔ جب بھی شرط پائی جائے گی، شرعا طلاق واقع ہوگی۔ اب مذکورہ شرط اس وقت پائی گئی جب آپ طلاق کا محل نہیں تھیں اس لئے طلاق واقع نہیں ہوئی۔ لیکن جو دیگر شرطیں شوہر نے لگائی تھیں اور آپ نے ان کو پورا نہیں کیا اور اب جبکہ نکاح ہوگیا تب پورا کیا جیسے کہ بہن سے ملاقات کرنا تو اب اس سے طلاق واقع ہوجائے گی۔
وان قال لھا ان کلمت اباعمرو وابایوسف فانت طالق ثلاثا ثم طلقھا واحدۃ فبانت وانقضت عدتھا فکلمت ابا عمرو ثم تزوجھا فکلمت ابا یوسف فھی طالق ثلثا مع الواحدۃ الاولی (ہدایہ ۲/۳۸۸، دارالکتاب دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:واقعۂ معراج کی تفصیلات میں ’’اسراء‘‘ قرآن کریم سے ثابت ہے جس کا منکر کافر ہے باقی تفصیل احادیث سے ثابت ہیں وہ احادیث مجموعی طور پر اگرچہ تواتر کے قریب ہیں؛ لیکن بہر حال متواتر نہیں، اس لئے منکر کافر نہیں قرار دیا جائے گا، تاہم ایسا شخص گمراہی کی راہ پر ہے اس کو اچھی طرح سمجھانا چاہئے۔
(۱) ومن أنکر المتواتر فقد کفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالأنبیاء علیہم السلام، الوجہ الثالث:‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۷)
فالإسراء ہو من المسجد الحرام إلی البیت المقدس قطعي أي یقیني ثبت بالکتاب أي القرآن ویکفر منکرہ۔ (محمد عبدالعزیز الفرھاوي،النبراس، ’’بیان المعراج‘‘:ص:۲۹۵)
من أنکر المعراج ینظر إن أنکر الإسراء من مکۃ إلی بیت المقدس فہو کافر … لأن الإسراء من الحرم إلی الحرم ثابت بالآیۃ۔ (أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ، شرح الفقہ الأکبر، ’’بحث في أن المعراج حق‘‘: ص: ۱۸۹)
اسلامی عقائد
Ref. No. 1960/44-1881
بسم اللہ الرحمن الرحیم: جس دن بچے کی پیدائش ہوئی ہے وہ پہلا دن ہے اس لئے ساتویں دن یعنی ٧محرم کو عقیقہ کی تاریخ ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند