نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص نے اڑتالیس میل کا سفر ایک ساتھ کیا اگر چہ درمیان میں کسی کام سے رکتا ہوا گیا اس لیے مذکورہ شخص قصر کرے۔(۲)

(۲) من خرج من عمارۃ موضع إقامتہ قاصداً مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیہا بالسیر الوسط مع الاستراحات المعتادۃ صلی الفرض الرباعي رکعتین لقول ابن عباس: إن اللّٰہ فرض علی لسان نبیکم صلاۃ المقیم أربعاً والمسافر رکعتین۔ (الحصکفي، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۹ تا ۶۰۳)(ولایزال) المسافر الذي استحکم سفرہ بمضي ثلاثۃ أیام مسافراً (یقصر حتی یدخل مصرہ)۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ص: ۴۲۵)عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ انہ کان یعصر الصلاۃ حین یخرج من بیوت المدینۃ ویصر إذا اجمع حتی یدخل بیوتہا۔ (مصنف عبدالرزاق، ’’باب المسافر متی تقصر إذا خرج مسافرا‘‘: ج ۲، ص: ۵۳۰، رقم: ۴۳۲۳)وتعتبر المدۃ من أي طریق أخذ فیہ کذا في البحر الرائق، فإذا قصر بلدۃ وإلی مقصدہ طریقان: أحدہما مسیرۃً ثلاثۃ أیام ولیالیہا والأخر دونہا فسلک الطریق الأبعد کان مسافراً عندنا، ہکذا في فتاویٰ قاضي خان، وإن سلک الأقصر یتم، کذا في البحرالرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس عشر: في صلاۃ المسافر‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۹)ولا مسافر بمقیم بعد الوقت فیما یتغیر بالسفر کالظہر سواء أحرم المقیم بعد الوقت أو فیہ فخرج فاقتدی المسافر بل إن أحرم في الوقت فخرج صح وأتم تبعاً لإمامۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب الواجب کفایۃ یسقط بفعل الصبي وحدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۶)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:349

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: آپ کا وطن اصلی اس وقت افریقہ ہے، ہندوستان وطن اصلی نہیں ہے اس لیے ہندوستان میں جس شہر میں پندرہ دنوں کے لیے قیام ایک ساتھ کریں تو وہاں پوری نماز پڑھیں اور جہاں ایک ساتھ پندرہ دنوں کی قیام کی نیت نہ کریں تو وہاں قصر کریں۔(۱)

(۱) (من خرج من عمارۃ موضع إقامتہ) من جانب خروجہ (قاصداً) … ولو کافراً ومن طاف الدنیا بلاقصد لم یقصر (مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیہا) أقصر أیام السنۃ، (صلی الفرض الرباعي رکعتین) وجوبا لقول ابن عباس: إن اللّٰہ فرض علی لسان نبیکم صلاۃ المقیم أربعاً۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۹ تا ۶۰۳)عن ابن عباس قال إن اللّٰہ تعالیٰ فرض الصلاۃ علی لسان نبیکم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم علی المسافر رکعتین وعلی المقیم أربعاً وفي الخوف رکعۃ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۱، رقم: ۶۸۷)وتعتبر المدۃ أي من طریق أخذ فیہ، کذا في البحر الرائق فإذا قصد بلدۃ وإلی مقصدہ طریقان: أحدہما مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیہا والأخر دونہا فسلک الطریق الأبعد کان مسافراً عندنا، ہکذا في فتاویٰ قاضي خان، وإن سلک الأقصر یتم، کذا في البحرالرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس عشر: في صلاۃ المسافر‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:348

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں جب تک کہیں پندرہ یوم یا اس سے زیادہ قیام کی نیت نہیں کرے گا تو قصر نماز ادا کرے گا اور جب گھر پر آئے گا تو نماز پوری پڑھے گا اور اگر سفر میں کسی مقام پر پندرہ یوم ٹھہرنے کی نیت کرے گا تو بھی پوری نماز ادا کرے گا اور اگر آج جاؤں کل جاؤں کرتے کرتے پندرہ دن بھی گذر جائیں تب بھی قصر نماز ادا کرتا رہے گا۔(۱)

(۱) وقید بالبلد والقریۃ لأن نیۃ الإقامۃ لاتصح في غیرہما فلا تصح في مفازہ ولا جزیرۃ ولا بحر ولا سفینۃ وفي الخانیۃ والظہیریۃ والخلاصہ ثم نیۃ الإقامۃ لاتصح إلا في موضع الإقامۃ ممن یتمکن من الإقامۃ وموضع الإقامۃ العمران والبیوت المتخذۃ من الحجر والمدر والخشب لاالخیام والأخییۃ والوبر۔ اہـ۔ (ابن نجیم، البحر الرئق، ’’کتاب الصلاۃ: باب المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۲۳۲)

من خرج من عمارۃ موضع إقامتۃ قاصداً مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیہا بالسیر الوسط مع الاستراحات المعتادۃ صلی الفرض الرباعی رکعتین لقول ابن عباس: إن اللّٰہ فرض علی لسان نبیکم صلاۃ المقیم أربعاً والمسافر رکعتین۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۹ تا ۶۰۳)

(ولایزال) المسافر الذي استحکم سفرہ بمضي ثلاثۃ أیام مسافراً (یقصر حتی یدخل مصرہ)۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ص: ۴۲۵)

عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ أنہ کان یقصر الصلاۃ حین یخرج من بیوت المدینۃ ویصیر إذا رجع حتی یدخل بیوتہا۔ (مصنف عبدالرزاق، ’’کتاب الصلاۃ: باب المسافر متی تقصر إذا خرج مسافراً‘‘: ج ۲، ص: ۵۳۰، رقم: ۴۳۲۳)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:347

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جب کہ پختہ ارادہ پندرہ یوم قیام کا نہیں تھا اتفاقاً پندرہ دن سے زیادہ قیام ہوگیا تو ایسی حالت میں نماز میں قصر کرتے رہنا چاہئے۔(۱)

(۱) أو کان أحدہما تبعاً للآخر بحیث تجب الجمعۃ علی ساکنہ للاتحاد حکماً (أو لم یکن مستقلاً برأیہ) کعبد وإمرأۃ (أو دخل بلدۃ ولم ینوہا) أي مدۃ الإقامۃ (بل ترقب السفر) غداً أو بعدہ (ولو بقي) علی ذلک (سنین) إلا أن یعلم تأخر القافلۃ نصف شہر۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۰۷)(وقصر إن نوی أقل منہ) أي من نصف شہر (أو لم ینو) شیئاً (وبقی) علی ذلک (سنین) وہو ینوی الخروج في غد أو بعد جمعۃ لأن علقمۃ بن قیس مکث کذلک بخوارزم سنتین یقصر الصلاۃ۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ص: ۴۲۶)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:346

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر وہ سمندر کسی شہر سے لگتا ہے جیسے کہ جدہ سے سفر ہوتا ہے تو اس صورت میں جہاز کے چلتے ہی سفر شرعی شروع ہوجائے گا اس لیے کہ میل وغیرہ کا کوئی امتیاز نہیں ہے۔ تاہم اگر جہاز شہر کی عمارتوں کے ساتھ چلتا ہے تو جب تک ان عمارتوں سے آگے نہ نکل جائے اس وقت تک نماز میں قصر نہ کیا جائے بلکہ پوری نماز پڑھی جائے۔(۱)

(۱) وفي الولواجبۃ: افتتح الصلاۃ في السفینۃ حالۃ إقامتہ في طرف البحر فنقلتہا الریح وہو في السفینۃ، فنویٰ السفریتم صلاۃ المقیم عند أبي یوسف، رحمۃ اللّٰہ علیہ وفي الحجۃ الفتویٰ علی قول أبي یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ احتیاطاً۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس عشر: في صلاۃ المسافر‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۴)وقید بالبلد والقریۃ لأن نیۃ الإقامۃ لا تصح في غیرہما فلا تصح في مفازۃ ولا جزیرۃ ولا بحر، ولا سفینۃ وفي الخانیۃ والظہیریۃ والخلاصۃ: ثم نیۃ الاقامۃ لاتصح إلا في موضع الإقامۃ ممن یتمکن من الإقامۃ وموضع الإقامۃ العمران والبیوت المتخذۃ من الحجر والمدر والخشب لا الخیام و الأخبیۃ والوبر۔ اھـ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۲۳۲)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:346

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ شخص اگر پندرہ دن قیام کی نیت کرتا ہے تو پھر پوری نماز پڑھے اور اگر پندرہ دن کے قیام کی نیت نہیں کرتا تو قصر نماز پڑھے جب تک وہاں سے مسافت قصر کے اندر گھومتا رہے گا۔(۲)

(۲) عن ابن عباس قال: وإن اللّٰہ فرض الصلاۃ علی لسان نبیکم صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی المسافر رکعتین، وعلی المقیم أربعاً، وفي الخوف رکعۃ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۱، رقم: ۶۸۷)

ولا مسافر بمقیم بعد الوقت فیما یتغیر بالسفر کالظہر سواء أحرم المقیم بعد الوقت أو فیہ فخرج فاقتدی المسافر بل إن أحرم في الوقت فخرج صح وأتم تبعاً لإمامہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب: الواجب کنایۃ ہل یسقط بفعل الصبي وحدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۶)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:345

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسافر کے لیے اتمام کی اجازت نہیں، بلکہ مسافر پر چار رکعت والی فرض نمازوں میں قصر واجب ہے۔

’’(صلي الفرض الرباعي رکعتین) وجوبا لقول ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، إن اللہ فرض علی لسان نبیکم صلاۃ المقیم أربعاً والمسافر رکعتین … لأن الرکعتین لیستا قصراً حقیقۃ عندنا بل ہما تمام فرضہ‘‘(۱)

اگر مسافر بھول کر دو رکعت کی بجائے چار رکعت پڑھ لیتا ہے اور قعدہ اولیٰ میں بیٹھتا ہے، آخر میں سجدہ سہو بھی کر لیتا ہے تو اس کی پہلی دو رکعت فرض اور دوسری دو رکعت نفل ہو جائیں گی، اگر سجدہ سہو نہیں کیا تو وقت کے اندر نماز کا اعادہ واجب ہے اور اگر مسافر نے دوسری رکعت پر قعدہ نہیں کیا تو اس کا فرض اداء نہیں ہوگا۔

صورت مسئولہ میں مقیم مقتدیوں کی نماز اداء نہیں ہوگی ’’اقتداء المفترض خلف المتنفل‘‘ کی وجہ سے؛ لہٰذا مقیم مقتدیوں پر اس نماز کا اعادہ ضروری ہے چاہے وقت باقی ہو یا ختم ہو گیا ہو۔

’’قولہ لم یصر مقیما: فلو أتم المقیمون صلاتہم معہ فسدت لأنہ اقتداء المفترض بالمتنفل‘‘(۲)

’’(فلو أتم مسافر إن قعد في) القعدۃ (الأولیٰ تم فرضہ و) لکنہ (أساء) لو عامداً لتأخیر السلام وترک واجب القصر وواجب تکبیرۃ افتتاح لنفل وخلط النفل بالفرض وہذا لا یحل کما حررہ القہستاني بعد أن فسر ’’أساء‘‘ ب ’’أثم‘‘ واستحق النار (وما زاد نفل) کمصلی الفجر أربعاً (وإن لم یقعد بطل فرضہ) و صار الکل نفلا لترک القعدۃ المفروضۃ‘‘ (۱)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۰۳۔(۲) أیضاً: ج ۲، ص: ۶۱۲۔(۱) أیضاً: ج ۲، ص: ۶۰۹، ۶۱۰۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:343

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: زید جب سہارنپور جائے اور وہاں ۱۵؍ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت ہو تو وہاں قصر کرے گا اور اگر پندرہ دن یا اس سے زیادہ کی نیت سے ٹھہرے گا تو پوری نماز پڑھے گا اور جب اپنے وطن مظفرنگر جائے تو چاہے چند گھنٹے کے لیے جائے بہر حال پوری نماز پڑھے گا، وطن میں قصر کی اجازت نہیں ہے۔(۱)

(۱) (ولا یزال) المسافر الذي استحکم سفرہ بمضی ثلاثۃ أیّام مسافراً (یقصر حتی یدخل مصرہ) یعنی وطنہ الأصلی (أو ینوی إقامتہ نصف شہر ببلد أو قریۃ)۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ص: ۴۲۵)

من خرج من عمارۃ موضع إقامتہ مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیہا صلی الفرض الرباعي رکعتین ولو عاصیاً بسفرہ حتی یدخل موضع مقامہ أو ینوی إقامۃ نصف شہر۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۹ تا ۶۰۵)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:343

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کوئی شخص شرعی سفر پر گیا اور واپسی میں ملازمت کی جگہ ٹھہر گیا چند روز کے لیے یعنی پندرہ دن سے کم یا راستے میں ملازمت کی جگہ سے گذرا تو بھی مسافر ہی رہے گا مقیم نہ ہوگا اور نماز قصر کرے گا اور اگر پندرہ دن یا اس سے زیادہ قیام کیا تو مقیم ہوگا اور نمازیں پوری پڑھے گا۔(۱)

(۱) (ولا یزال) المسافر الذي استحکم سفرہ بمضي ثلاثۃ أیّام مسافراً (یقصر حتی یدخل مصرہ) یعنی وطنہ الأصلی (أو ینوی إقامتہ نصف شہر ببلد أو قریۃ)۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ص: ۴۲۵)ولم یعتبر المحقفون وطن السکنی وہو ما رای موضع ینوی الإقامۃ فیہ دون نصف شہر وکان مسافراً فلا یبطل بہ وطن الإقامۃ ولا یبطل السفر۔ (أیضاً: ص: ۴۲۹،  ۴۳۰)ووطن السفر ما ینوي فیہ الإقامۃ أقل من خمسۃ عشر یوماً ولیس مولدہ ولا لہ بہ أہل ویسمیٰ وطن السکنی أیضاً والمحققون علی عدم اعتبارہ ولذا لم یذکرہ صاحب الہدایۃ لأنہ فیہ یوصف السفر فہو کالمفازۃ۔ (إبراہیم الحلبي الکبیري، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في صلاۃ المسافر‘‘: ص: ۴۶۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:342

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسافت قصر پر آدمی گیا اور اس کو معلوم بھی ہے کہ تجھ کو مسافت قصر پر لے جایا جا رہا ہے تو اب وہ نماز قصر پڑھے اور سزا جب تک نہیں سنائی گئی اور اس کو مدت قید کے بارے میں بتایا نہیں گیا تو وہ نماز قصر ہی پڑھتا رہے گا اس لیے کہ ہر روز یہ احتمال ہے کہ آج چھوٹ جائے اور اگر مدت قید کے بارے میں بتا دیا گیا ہے اور مدت قید پندرہ دن یا اس سے زائد ہو تو پھر نماز پوری پڑھنی ضروری ہے۔(۱)

(۱) أو کان أحدہما تبعاً للآخر بحیث تجب الجمعۃ علی ساکنہ للاتحاد حکماً (أو لم یکن مستقلاً برأیہ) کعبد وإمرأۃ (أو دخل بلدۃ ولم ینوہا) أي مدۃ الإقامۃ (بل ترقب السفر) غداً أو بعدہ (ولو بقي) علی ذلک (سنین) إلا أن یعلم تأخر القافلۃ نصف شہر۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۰۷)

(وقصر إن نوی أقل منہ) أي من نصف شہر (أو لم ینو) شیئاً (وبقی) علی ذلک (سنین) وہو ینوی الخروج في غد أو بعد جمعۃ لأن علقمۃ بن قیس مکث کذلک بخوارزم سنتین یقصر الصلاۃ۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ص: ۴۲۶)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:341