مساجد و مدارس

Ref. No. 2192/44-2333

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔سرکار سے اجازت لئے بغیر اس طرح لائٹ لگانا غیرقانونی ہے، اس لئے شرعی اعتبار سے درست نہیں ہے۔ لائٹ سرکار کی ملکیت ہے اس لئے سرکاریعنی مذکورہ محکمہ  سے اجازت لینا ضروری ہے۔

ولا یجوز حمل تراب ربض المصر الخ (الفتاوی الھندیة، ۵: ۳۷۳، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)، إن المحظور لغیرہ لا یمتنع أن یکون سببا لحکم شرعي الخ (تبیین الحقائق، ۶: ۳۲۴، ط: المکتبة الإمدادیة، ملتان)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی صحابی کے بارے میں ایسی کوئی روایت ہمیں نہیں ملی کہ کسی صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیشاب پی لیا ہو، البتہ حضرت برکۃ رضی اللہ عنہا کے بارے میں سیرت کی بعض کتابوں میں یہ منقول ہے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیشاب پیا۔(۱)  لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی حضرت برکۃ رضی اللہ عنہا نے پانی سمجھ کر پی لیا تھا، بعد میں معلوم ہوا کہ پیشاب ہے۔ بول وبراز کو زمین کا نگل جانا یہ تفسیر خازن میں مذکور ہے، لیکن غیر محقق ہے، تھوک کا صحابہ کا ہاتھ پر لینا بھی ثابت نہیں، ہاں اگر کبھی اتفاقاً کسی صحابی کے ہاتھ پر تھوک پڑ جاتا، تو وہ اس کو اپنے جسم اور چہرے پر تبرکاً مل لیتے(۲)  جان بوجھ کر صحابہؓ ایسا کرتے ہوں یہ ثابت نہیں۔
’’إن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان لہ قدح من عیدان یبول فیہ ثم یوضع تحت سریرہ، فجاء ت إمرأۃ یقال لہا برکۃ جاء ت مع أم حبیبۃ من الحبشۃ فشربتہ برکۃ فسألہا، فقالت شربتہ، فقال: لقد حضرتني من النار بحضار أو قال حبتہ أو ہذا معناہ‘‘(۳)
’’عن أم أیمن رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قام رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم
من اللیل إلی فخارۃ في جانب البیت، فبال فیہا فقمت من اللیل، وأنا عطشانۃ فشربت ما فیہا، وأنا لا أشعر فلما أصبح النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: یا أم أیمن -رضي اللّٰہ عنہا- قومي فأہریقي ما في تلک الفخارۃ، قلت: قد واللّٰہ شربت ما فیہا، فضحک رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حتی بدت نواجذہ ثم قال أما إنک لا تتجعین بطنک أبداً،(۱) وقد تکاثرت الأدلۃ علی طہارۃ فضلاتہ وعد الأئمۃ ذلک في خصائصہ‘‘ (۲)

(۱) اصح السیر: ص: ۵۶۱

(۲)(اصح السیر: ص: ۱۷۲
(۳) الطبراني، المعجم الکبیر: ج۲۴، ص: ۱۸۹؛ و السنن الکبریٰ للبیہقي: ج ۷، ص: ۶۷۔

(۱) الطبراني، المعجم الکبیر، ’’ما اسندت أم أیمن‘‘: ج ۲۵، ص: ۸۹
(۲) ابن حجر العسقلاني، فتح الباري، ’’باب: قولہ باب الماء‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص233

 

متفرقات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اسلام نے مرد و عورت کسی کو بھی تعلیم سے نہیں روکا ہے  بلکہ تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے ہاں یہ ضروری ہے کہ وہ تعلیم انسانیت کے لیے نافع ہو اور شرعی طور پر جائز ہوتو اس کا حاصل کرنا مردوں کے لیے بھی جائز ہے اور عورتوں کے لیے بھی جائز ہے لیکن چوں کہ بالغ لڑکی کا باہر نکلنا عام طور پر فتنہ سے خالی نہیں ہوتا ہے جب کہ موجودہ حالات میں بالغ لڑکیوں کو مختلف فتنوں کا سامنا ہے جن میں بعض فتنے منظم سازش کے تحت سر ابھار رہے ہیں؛ اس لیے اس وقت لڑکیوں کی تعلیم کے لیے بہت زیادہ حساسیت کی ضرورت ہے۔ اس کی کوشش ہونی چاہیے کہ ادارے مخلوط تعلیم کے نہ ہوں اس لیے کہ مخلوط تعلیمی اداروں میں فتنہ کااندیشہ زیادہ ہے(۱) بہتر یہی ہے کہ کوئی محرم اس کو چھوڑنے اور لانے جائے تاکہ اس کی مکمل نگرانی ہوسکے تاہم اگر گاڑی سے لانے لے جانے کا نظم کیا جائے اور ساتھ میں کوئی نگراں ہو، تو بھی گنجائش ہے۔
’’عن الشِّفَاء بنتِ عبدِ اللّٰہ، قالت: دخلَ عليَّ النبي صلَّی اللّٰہ علیہ وسلم وأنا عندَ حفصۃَ، فقال لی: ’’ألا تُعَلِّمین ہذہ رُقْیَۃَ النملۃ، کما علَّمتنیہا الکتابۃَ‘‘(۲)

(۱) اتفق الفقہاء علی وجوب حجب عورۃ المرأۃ والرجل البالغین بسترہا عن نظر الغیر الذي لا یحل لہ النظر إلیہا، وعورۃ المرأۃ التي یجب علیہا ححبہا من الأجنبي ہي في الجملۃ جمیع جسدہا عد الوجہ والکفین وقول النبي یا أسماء أبي المرأۃ إذا بلغت الحیض لم تصلح أن یری منہا إلا ہذا وہذا وأشار إلی وجہہ وکفیہ۔ (وزارۃ الأوقاف و الشئون، الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ: ج ۱۷، ص: ۶)
(۲) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الطب: باب ما جاء في الرقي‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۰، رقم: ۳۸۸۷۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص178

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2710/45-4226

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر معاملہ کرتے وقت اس طرح کی شرط تھی کہ مضارب اپنی مرضی سے کام کرے گااور رب المال نے اس اجازت کے ساتھ اس کو مال دیا تھا تو ایسی صورت میں مضارب کے لیے کسی دوسرے کو بطور مضاربت کے مال دینا اور اس سے نفع حاصل کرکے مضارب اول اور رب المال کے درمیان شر ط کے مطابق تقسیم کرنا جائز ہے۔

فإن كان قال له اعمل فيه برأيك، فله أن يعملجميع ذلك إلا القرض؛ لأنه فوض الأمر في هذا المال إلى رأيه على العموم وقد علمنا أن مراده التعميم فيما هو من صنع التجار عادة فيملك به المضاربة والشركة والخلط بماله؛ لأن ذلك من صنع التجار كما يملك الوكيل توكيل غيره بما وكل به إذا قيل له اعمل فيه برأيك ولا يملك القرض؛ لأنه تبرع ليس من صنع التجار عادة فلا يملكه بهذا اللفظ كالهبة والصدقة (المبسوط،22/40)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کی گنجائش ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ طہارت اس ہاتھ سے نہ کرے، جس میں انگوٹھی ہے؛ مناسب ہے کہ تعویز ہو یا انگوٹھی اس کو نکال کر ہی جائے۔(۱)

(۱) قلت لکن نقلوا عندنا أن للحروف حرمۃ ولو مقطعۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب : إذا دخل المستنجي في ماء قلیل،‘‘ج۱، ص:۵۵۲)؛  و یکرہ أن یدخل في الخلاء و معہ خاتم علیہ اسم اللّٰہ تعالیٰ أو شيء من القرآن۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الھندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب السابع في النجاسۃ و أحکامہا، الفصل الثالث في الاستنجاء، الإستنجاء علی خمسۃ أوجہ،‘‘ ج۱، ص:۱۰۶)؛ و عن أنس رضی اللّٰہ عنہ: کان رسول اللّٰہ ﷺ إذا دخل الخلاء وضع خاتمہ۔ (بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الھدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في الاستنجاء،‘‘ ج۱،ص:۷۴۵)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص89

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں امام صاحب نے قربانی کے جانور کی قیمت، اس سے متعلق اخراجات قربانی کرانے والوں سے لیے اس میں کوئی حرج نہیں تھا، پھر کچھ نمازیوں کے کہنے پر وہ کام بھی بند کردیا یہ اور بھی اچھی بات ہوئی تو بظاہر امام صاحب کی طرف سے کوئی کمی نہیں ہے اس لیے بشرطِ صحت سوال ان کی امامت درست ہے ان کی اقتدا چھوڑ کر کوئی انتشار پیدا کرنا غلط ہے۔ (۱)

(۱) وأما الإجماع فإن الأمۃ اجمعت علی ذلک قبل وجود الأصم حیث یعقدون عقد الإجارۃ من زمن الصحابۃ رضي اللہ تعالیٰ عنہم إلی یومنا ہذا من غیر نکیر فلا یعبأ بخلافہ إذ ہو خلاف الإجماع۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، کتاب الإجارۃ،’’فصل في رکن الإجارۃ ومعناہا‘‘:ج۴، ص:۱۷۴، المکتبۃ العلمیۃ، بیروت)
لوأم قوما وھم لہ کارھون إن الکراھۃ لفساد فیہ أو لأنھم أحق بالإمامۃ منہ کرہ ذلک تحریما۔ وإن ھو أحق لا والکراھۃ علیھم۔ ابن عابدین، رد المحتار علی الدرالمختار ج۲، ص۸۹۲، زکریا، دیوبند
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص52

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: اگر وہ شخص واقعی طور پر مدرسہ نہ ہونے کے باوجود دھوکہ دے کر، جھوٹ بول کر مدرسہ کا چندہ کرتا ہے تو یہ شخص فاسق ہے اور اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ نماز جیسے اہم فریضہ کی ادائیگی کے لیے کسی متقی، دیندار، پرہیز گار شخص کو امام مقرر کیا جائے۔(۲)

(۲) ولذا کرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ، وإذا تعذر منعہ ینتقل عنہ إلی غیر مسجدہ للجمعۃ وغیرہا وإن لم یقم الجمعۃ إلا ہو تصلي معہ۔ (أحمد بن محمد،  حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: فصل في بیان الاحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، ۳۰۲، شیخ الہند دیوبند) ولو صلی خلف مبتدع أو فاسق فہو محرز ثواب الجماعۃ لکن لابنال مثل ما ینال خلف تقي، کذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص180

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2749/45-4293

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال جس شخص كی جس حركت كا آپ تذکرہ کر رہے ہیں وہ بچکانہ حرکت معلوم ہوتی ہیں، ہو سکتا ہے وہ ابھی حد بلوغ کو نہ پہونچا ہو جو شرعاً ما مور نہیں ہوگا اور اگر واقعی وہ بالغ ہے تو عمل کثیر کی وجہ سے اس کی نماز فاسد ہو گئی تھی اس پر اعادہ لازم ہے، نمازی کی نماز میں جان بوجھ کر خلل ڈالنے والا گنہگار ہوتا ہے اسے چاہئے کہ توبہ کرے اور آئندہ اس طرح کی حرکتوں سے باز رہے، کیونکہ نمازی کی نماز میں خلل ڈالنا یا آگے سے گزرنا عابد اور معبود کے مابین حامل ہونا ہے جس پر کافی وعید وارد ہوئی ہے۔

عن أبي جهيم قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لو يعلم المار بين يدي المصلي ماذا عليه مكان أن يقف أربعين خبراً له من أن يمر بين يديه‘‘ (مشكوة المصابيح، ’’كتاب الصلاة‘‘: ص: 74)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:گرمی کی وجہ سے مسجد کے اصل جماعت خانہ اور صحن مسجد کو چھوڑ کر چھت پر عشاء اور تراویح کی جماعت کرنا مکروہ ہے، ہاں جن کونیچے جماعت خانہ اور صحن میں جگہ نہ ملے اگر وہ چھت پر جاکر نماز پڑھ لیں، تو بلا کراہت جائز ہے، کہ یہ مجبوری ہے، فتاویٰ عالمگیری میں ہے: ’’الصعود علی سطح کل مسجد مکروہ؛ ولہذا إذا شتد الحر یکرہ أن یصلوا بالجماعۃ فوقہ إلا إذا ضاق المسجد فحینئذٍ لا یکرہ الصعود علی سطحہ للضرورۃ‘‘(۱) شامی میں ہے ’’ثم رأیت القہستاني نقل عن المفید کراہۃ الصعود علی سطح المسجد الخ، ویلزمہ کراہۃ الصلوۃ أیضاً فوقہ فلیتأمل‘‘(۲) اس لیے گرمی میں صحن مسجد میں نماز باجماعت بدون حرج کے بھی صحیح ہے(۳) اور اگر کسی جگہ صحن داخل مسجد نہ ہو اور مسجد سے خارج ہو، تو بانی مسجد یا متولی مسجد اور جماعت کے لوگ باہم متفق ہوکر اس کے داخل کرنے کی نیت کرلیں، تو صحن داخل مسجد ہو جائے گا اور اس پر مسجد کے جملہ احکام جاری ہوں گے۔(۴)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الخامس في آداب المسجد‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۲، زکریا دیوبند)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب في أحکام المسجد‘‘: ج ۱، ص: ۴۲۸۔
(۳) وفناء المسجد لہ حکم المسجد۔ (أیضًا:’’باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج۲، ص: ۳۳۲)
(۴) أرض وقف علی مسجد والأرض بجنب ذلک المسجد وأرادوا أن یزیدوا في المسجد شیئاً من الأرض جاز۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الوقف: الباب الحادي عشر في المسجد وما یتعلق بہ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۹، مکتبہ: زکریا دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص517

نماز / جمعہ و عیدین

الجــواب وباللہ التوفـیـق:عیدین میں جماعت سے قبل اذان دینا بلا شبہ بدعت ہے۔(۱)

(۱) وروي محمد بن الحسن أنا أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ عن حماد بن أبي سلیمان عن إبراہیم النخعي عن عبد اللّٰہ بن مسعود وکان قاعداً في المسجد الکوفۃ ومعہ حذیفۃ بن الیمان وأبو موسیٰ الأشعري فخرج علیہم الولید ابن عقبۃ بن أبي معیط وہو أمیر الکوفۃ یومئذ فقال: إن غداً عیدکم فکیف أصنع؟ فقالا: أخبرہ یا أبا عبد الرحمن! فأمرہ عبد اللّٰہ بن مسعود أن یصلی بغیر أذان والإقامۃ الخ‘‘ (إبراہیم الحلبي، الحلبي کبیري، ’’فصل في صلاۃ العید‘‘: ص: ۴۹۰، دار الکتاب دیوبند)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلی یوم العید بغیر أذان ولا إقامۃ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما جاء في صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۹۱، رقم: ۱۲۷۴)
الأذان سنۃ للصلوات الخمس والجمعۃ لا سواہا للنقل المتواتر۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۸۶، دار الکتاب دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص157