نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 184/43-1662

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو لوگ رکوع وسجدہ پر قادر نہ ہوں، ان سے قیام کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے۔ ایسے لوگوں کو زمین پر بیٹھ کر ہی نماز پڑھنی چاہئے۔ البتہ اگر زمین پر بیٹھنے میں دشواری ہو تو کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کرسکتے ہیں۔ ایسے لوگ کرسی کا پچھلا پایہ اپنی صف  میں کھڑے مقتدیوں کے ایڑیوں کے برابر لکیر پر رکھے، اپنی صف سے تجاوز نہ کرے۔ ورنہ دوسری صف والوں کو تکلیف ہوگی یا ان کی صف میں خلل پیدا ہوگا، اور یہ دونوں چیزیں ممنوع ہیں۔

عن أبی مسعود، قال: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یمسح مناکبنا فی الصلاة، ویقول: استووا، ولا تختلفوا، فتختلف قلوبکم، لیلنی منکم أولو الأحلام والنہی ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم(صحیح مسلم 1/ ۱۸۱،باب تسویة الصفوف، وإقامتہا...الخ)

"(قوله: بل تعذر السجود كاف) نقله في البحر عن البدائع وغيرها. وفي الذخيرة: رجل بحلقه خراج إن سجد سال وهو قادر على الركوع والقيام والقراءة يصلي قاعداً يومئ؛ ولو صلى قائماً بركوع وقعد وأومأ بالسجود أجزأه، والأول أفضل؛ لأن القيام والركوع لم يشرعا قربة بنفسهما، بل ليكونا وسيلتين إلى السجود" )الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 97(

قولہ: ( فلو قدر علیہ) أي: علی القیام وحدہ أو مع الرکوع کما فی المنیة ۔ قولہ: (ندب إیماوٴہ قاعداً) أي: لقربہ من السجود ، وجاز إیماوٴہ قائماً کما فی البحر ، وأوجب الثاني زفر والأئمة الثلاثة ؛ لأن القیام رکن، فلا یترک مع القدرة علیہ۔ ولنا أن القیام وسیلة إلی السجود للخرور، والسجود أصل ؛لأنہ شرع عبادة بلا قیام کسجدة التلاوة، والقیام لم یشرع عبادة وحدہ، حتی لو سجد لغیر اللہ تعالی یکفر بہ بخلاف القیام۔ وإذا عجز عن الأصل سقطت الوسیلة کالوضوء مع الصلاة والسعي مع الجمعة۔ وما أوردہ ابن الھمام أجاب عنہ في شرح المنیة الخ (رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، مطلب بحث القیام،۲: ۱۳۲، ط: ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

Ref. No. 1964/44-1885

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  مذکور مولوی صاحب کا یہ کہنا کہ حضرت معاویہ کی فضیلت سے تعلق رکھنے والی تمام احادیث غلط ہیں درست نہیں ہے۔ حضرت معاویہ ایک جلیل القدر صحابی ء رسول  ﷺ ہیں، جن کے بارے میں متعدد حدیثیں وارد ہوئی ہیں، جن میں صحیح سند کے ساتھ حضرت امام احمد بن حنبل کے واسطہ سے یہ حدیث بھی ہے۔

حدثنا علي بن بحر، حدثنا الولید بن مسلم، حدثنا سعید بن عبد العزیز عن ربیعۃ بن یزید عن عبد الرحمن بن أبي عمیرۃ الأزدي عن النبي ﷺأنہ ذکر معاویۃ وقال: اللھم اجعلہ ھادیاً مھدیاً وأھد بہ ‘‘ (مسند احمد: الرقم 17895) مشکوۃ المصابیح 2/579 جامع المناقب)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند 

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2045/44-2184

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ امام صاحب کا تعویذپر پیسے لینا  جائز ہےبشرطیکہ تعویذ کے مشمولات درست ہوں اور اس کو تجارت نہ بنایاجائے، پھر ان کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نماز درست ہوجائے گی۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2194/44-2396

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر آسمان ابر آلود نہ ہو تو حضرات فقہا نے رویت ہلال کے لئے جم غفیر کی رویت کو ضروری قرار دیا ہے، البتہ جم غفیر کی تفسیر کیا ہے، اس سلسلہ میں مختلف اقوال ہیں، اور صحیح قول یہ ہے کہ جن لوگوں کی خبر پر امام یا کمیٹی کو اعتماد ہو اس کے مطابق فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ لہذا اگر رویت ہلال کی خبر دینے والوں میں کبھی اتفاق ایسا ہو کہ صرف عورتیں ہی ہوں، اور وہاں یا تو مرد نہ ہوں یا مردوں نے کسی مصروفیت کی بنا پر چاند دیکھنے کا اہتمام نہ کیا ہو، تو تنہا عورتوں کی خبر پر اعتماد کیا جا سکتا ہے، جس طرح کہ آسمان کے ابر آلود ہونے کی صورت میں تنہا ایک عورت کی خبر بھی قبول کر لی جاتی ہے۔

وإذالم تكن بالسماءعلة لم تقبل الشهادة حتى يراه جمع كثير يقع العلم بخبرهم"

لأن التفردبالرؤية في مثل هذه الحالة يوهم الغلط فيجب التوقف فيه حتى يكون جمعاكثيرا ثم قيل في الكثيرأهل المحلة وعن أبي يوسف رحمه الله خمسون رجلا اعتبارا بالقسامة (بداية، 216/1)

 فإن كانت السماء مصحية ورأى الناس الهلال صاموا وإن شهد واحد برؤية الهلال لاتقبل شهادته ما لم تشهد جماعة يقع العلم للقاضي بشهادتهم، في ظاهرالرواية ولم يقدرفي ذلك تقديرا- وجه رواية الحسن – رحمه الله تعالى – أن هذامن باب الإخبارلامن باب الشهادة، بدليل أنه تقبل شهادةالواحدإذاكان بالسماءعلة ولوكان شهادةلما قبل-  لأن العدد شرط في الشهادات وإذاكان إخبارا لاشهادة فالعدد ليس بشرط في الإخبارعن الديانات، وإن كانت السماء متغيمة تقبل شهادة الواحد بلاخلاف بين أصحابنا، سواءكان حرا،أوعبدا رجلاأوامرأة غيرمحدود في قذف أومحدودا تائبا، بعدأن كان مسلماعاقلا بالغا عدلا (بدائع، 220/2)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2268/44-2427

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پاک پانی میں اگر کسی محدث نے( جس کا وضو نہیں تھایا غسل نہیں تھا) ہاتھ ڈال دیا اس حال میں کہ اس کے ہاتھ پر کوئی نجاست نہیں تھی تو وہ پانی ناپاک نہیں ہوگااور وہ  مستعمل پانی کےحکم میں نہیں ہوگا۔ ماء مستعمل اس  قلیل پانی کو کہتے ہیں جس کو حدث دور کرنے کے لئے یا قربت کی نیت سے استعمال کیاگیا ہو۔

الدر المختار مع رد المحتار: (197/1، ط: دار الفکر)
(
ولايجوز)۔۔۔۔بماء (استعمل ل) أجل (قربة) أي ثواب ولو مع رفع حدث أو من مميز أو حائض لعادة۔۔۔۔(وهو طاهر) ولو من جنب وهو الظاهر۔۔۔(و) حكمه أنه (ليس بطهور) لحدث بل لخبث على الراجح المعتمد.
(
قوله: على الراجح) مرتبط بقوله بل لخبث: أي نجاسة حقيقية، فإنه يجوز إزالتها بغير الماء المطلق من المائعات۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2289/44-3455

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والد کی حیات میں والد کےساتھ کام کرنے والے درحقیقت والدکا تعاون کرتے ہیں اور اصل مالک اس کاروبار کے والد ہی ہوتے ہیں ، اولاد کی شرکت والد کے کام میں از راہ تبرع ہوتی ہے، اس لئے والد کی حیات میں جو بھی زمین خریدی گئی جو والد کی جانب منسوب ہے تو اس کی تقسیم میں پانچواں بھائی بھی برابر کا شریک ہوگا، البتہ جس زمین یا مکان یا دوکان کو والد نے خاص طور پر کسی لڑکے یا لڑکی کو دے کر مالک بنادیا ہو تو وہ اس کا اپنا ذاتی ہوگا جس میں دوسروں کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔

سئل في رجل مات عن ثلاثۃ أولاد ذکور وکان في حیاتہ معہ من الثلاثۃ إثنان في کسبٍ واحدٍ ومعیشۃ واحدۃٍ والثالث من حَمَلَۃِ القرآن في معیشۃ علی حدتہٖ وجمیع کسب المیت والولدین لا یتمیز الخ أجاب: جمیع ما ترکہ الأب المذکور یقسم بین أولادہ الثلاثۃ بالسویۃ حیث لا وارث لہ سواہم ولیس للاثنین الذین ہما في عائلۃ أبیہم ومعیناہُ لہ منع أخیہما عما یخصہ في ترکۃ والدہ بدون وجہ شرعي۔ (فتاویٰ مہدیہ (۲/۳۱۴ مصر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مزارات پر جو چیزیں شیرنی وغیرہ چڑھائی جاتی ہیں وہ غیر اللہ کے نام پر ہونے کی وجہ سے حرام وناجائز ہوں گی(۱) بہتر یہ ہے کہ ان چیزوں کو مالکوں کو واپس کردیا جائے؛ لیکن اگر مالکوں کا پتہ نہ چل سکے تو ان چیزوں کو بدرجہ مجبوری غیر مسلموں کو فروخت کردی جائے اور اس کی قیمت کسی غریب کو بلا نیت ثواب دیدیں یا یہی سامان غریبوں کو دیدیں۔(۲)

(۱) {وَ مَا أُہِلَّ بِہِ لِغَیْرِ اللّٰہِ} (سورۃ البقرۃ: ۱۷۳)
إن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء العظام تقرباً إلیہم فہو بالاجماع باطل وحرام۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ، مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳،ص: ۴۲۷)
(۲) وإلا تصدقوا بہا لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: باب الاسبراء وغیرہ، فصل في البیع‘‘: ج۹، ص: ۵۵۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص362

اسلامی عقائد

Ref. No. 2480/45-3770

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہر شخص کو شرعی طور پر اس کا اختیار ہوتاہے کہ وہ اپنی مملوکہ چیز کوجس قیمت پر چاہے گاہک کے ساتھ باہمی رضامندی سے فروخت کرے، شرعا نفع کی کوئی حد متعین نہیں ہے،تاہم مارکیٹ ریٹ سے زیادہ مہنگے داموں پر فروخت کرنا مناسب نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی میڈیکل اسٹور کسی کمپنی کا ڈیلر ہے یا کسی کمپنی سے کوئی معاہدہ ہے تو پھر وہ کمپنی کی طرف سے مقرر کردہ قیمت پرہی بیچنے کا پابندہے،  معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے زیادہ قیمت پر بیچنے کی صورت میں گنہگار ہوگا۔ البتہ اضافی نفع  کو ناجائز نہیں کہاجائے گا، بشرطیکہ حرمت کی کوئی اور وجہ نہ پائی جائے۔

والثمن ما تراضی علیہ المتعاقدان سواء زاد علی القیمة أو نقص (درمختار مع الشامي: ۷/۱۲۲، ط: زکریا)

وللبائع ان یبیع بضاعتہ بما شاء من ثمن، ولا یجب علیہ ان یبیعھا بسعر السوق دائما. (بحوث فی قضایا فقھیة معاصرۃ: (13/1، ط: دار القلم)
المسلمون علی شروطھم الا شرطا حرم حلالا او احل حراماً (سنن الترمذی: (ابواب الاحکام، 251/1، ط: مکتبة بلال دیوبند)

لا ينبغي مخالفة هذا السعر، إما لأن طاعة الإمام فيما ليس بمعصية واجب، وإما لأن كل من يسكن دولة فإنه يلتزم قولا أو عملا بأنه يتبع قوانينها، و حينئذ يجب عليه اتباع أحكامها، مادامت تلك القوانين لا تجبر على معصیة دينية. (بحوث في قضايا فقهية معاصرة: (ص: 169، ط: دار القلم)
فإن كان أرباب الطعام يتحكمون ويتعدون عن القيمة تعديا فاحشا، وعجز القاضي عن صيانة حقوق المسلمين إلا بالتسعير فحينئذ لا بأس به بمشورة من أهل الرأي والبصيرة، فإذا فعل ذلك وتعدى رجل عن ذلك وباع بأكثر منه أجازه القاضي. (الهداية: (378/4، ط: دار احیاء التراث العربی)
وَاَوْفُوْا بِالْعَهْدِ ۖ اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُوْلًاo (القرآن الکریم: (الاسراء، الایة: 34)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو حدیث سوال میں مذکورہ ہے، وہ بعض کے نزدیک متکلم فیہ ہے؛ تا ہم مذکورہ صورت میں حدیث شریف سے مؤمن کا جھوٹا پینے کا وجوب ثابت نہیں ہوتا؛ بلکہ اباحت واستحباب کا ثبوت ہے۔ اور وہ بھی کمالِ ایمان کے ساتھ؛ اس لئے کہ ’’المؤمن‘‘ پر ’’الف، لام‘‘ سے کمالِ ایمان پر دلالت ہے، اور اس صورت میں واضح ہے کہ اگر دیگر عوارض بیڑی، سگریٹ یا کسی اور مرض وغیرہ کی وجہ سے کراہت ہو، تو اس کے جھوٹے سے احتراز میں کوئی حرج نہیں ہے اور اگر کوئی صاحبِ ایمان ایسا ہے کہ اس میں کراہت کی کوئی وجہ نہ ہو، تو خوامخواہ اس کے جھوٹے سے کراہت بھی درست نہیں؛ بلکہ کسی صاحب نسبت کا جھوٹا ہو، تومستحسن ہے۔(۱)

(۱) وأما حدیث (سؤر المؤمن شفاء) فغیر معروف۔ (ملا علي قاري،  مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الحج: باب خطبۃ یوم النحر ورمي أیام التشریق‘‘: ج ۵، ص: ۱۸۳۹، رقم: ۲۶۶۶)
حدیث ریق المؤمن شفاء کذا سؤر المؤمن شفاء لیس لہ اصل مرفوع۔ (ملا علي القاري، المصنوع، في معرفۃ الحدیث الموضوع: ج ۱، ص: ۱۰۶، رقم: ۱۴۴)
عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما، قال: سمعت أبي یقول: سمعت عمر بن الخطاب یقول: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: (کلوا جمیعاً، ولا تفرقوا، فإن البرکۃ مع الجماعۃ)۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب الأطعمۃ: باب الاجتماع علی الطعام‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۶، رقم: ۳۲۸۷)
عن ابن عباس رفعہ من التواضع أن یشرب الرجل مع سؤر أخیہ۔ (شمس الدین ابن محمد، المقاصد الحسنۃ: ج ۱، ص: ۲۷۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص88

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جس ڈھیلے سے استنجا کر لیا گیا ہے، پھر دوبارہ اسی سے استنجا کرنا درست نہیں ہے؛ البتہ اگر اس کے دوسرے کنارے سے استنجا کرے، تو پاکی حاصل ہوجائے گی۔(۲)

(۲) وکرہ تحریما بعظم و طعام و روث یابس کعذرۃ یابسۃ و حجر استنجی بہ إلابطرف آخر أي لم تصبہ النجاسۃ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب إذا دخل المستنجي في ماء قلیل،‘‘ ج۱، ص:۵۵۱)؛  ولا یستنجی بالأشیاء النجسۃ، و کذا لا یستنجی بحجر استنجی بہ مرۃ ھو أو غیرہ إلا إذا کان حجراً لہ أحرف، لہ أن یستنجي کل مرۃ بطرف لم یستنج بہ فیجوز من غیر کراھۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الثالث في الاستنجاء،‘‘ ج۱،ص:۱۰۵)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص91