طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جنبی اگر کسی عذر کی وجہ سے غسل نہ کر سکے، تو اس کے لیے اجازت ہے کہ وضو کر کے کھائے پیئے اور اگر صرف ہاتھ، منہ دھو کر کھائے، پیئے تو یہ بھی درست ہے۔
’’قال في الخلاصۃ إذا أراد الجنب أن یأکل فالمستحب لہ أن یغسل یدیہ ویتمضمض … وذکر في الحلیۃ عن أبي داؤد وغیرہ أنہ علیہ الصلوٰۃ والسلام إذا أراد أن یأکل وہو جنب غسل کفیہ، وفي روایۃ مسلم یتوضأ وضوئہ للصلوٰۃ‘‘(۱)
’’الجنب إذا أراد أن یأکل أو یشرب فالمستحب لہ أن یغسل یدیہ وفاہ‘‘(۲)
’’وإذا أراد الجنب الأکل والشرب ینبغي لہ أن یغسل یدہ وفمہ ثم یأکل ویشرب‘‘(۳)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہار: باب الحیض، مطلب: لو أفتی مفت بشيء من ہذہ الأقوال في مواضع الضرورۃ طلباً للتیسیرکان حسناً‘‘: ج ۱، ص: ۴۸۹۔
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۹۔
(۳) إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري، ’’فروع‘‘: ج ۱، ص: ۵۳۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص334

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ شخص چیچک کی وجہ سے وضو یا غسل پر قدرت نہیں رکھتا، تو شریعت میں وضو وغسل کا بدل موجود ہے، اس شخص کے لیے یہ درست ہے کہ وہ پاک مٹی سے تیمم کرے اور اس تیمم سے نمازیں ادا کرتا رہے۔
’’قلت: أرأیت رجلاً مریضاً أجنب وہو لا یستطیع أن یغتسل لما بہ من الجدري؟ قال: یتیمم بالصعید‘‘(۱)
’’ولنا قولہ تعالیٰ: {وَإِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی أَوْ عَلٰی سَفَرٍ أَوْجَآئَ أَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ أَوْلٰمَسْتُمُ النِّسَآئَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا} أباح التیمم للمریض مطلقاً من غیر فصل بین مرض ومرض إلا أن المرض الذي لا یضر معہ استعمال الماء لیس بمراد فبقي المرض الذي یضر معہ استعمال الماء مراداً بالنص‘‘(۲)

(۱) محمد بن الحسن الشیباني، الأصل، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم بالصعید‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۴۔
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ: باب شرائط التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۱
۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص416

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امامت کی اجرت وہ ہے جو ذمہ دار مقتدی اور امام کے درمیان طے ہو جائے جب باہم رضامندی سے کچھ طے ہوگیا تو پھر مقتدیوں سے کوئی مواخذہ نہیں ہے تاہم مقتدیوں کو امام کی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر بہتر سے بہتر مشاہرہ دینا چاہئے؛ نیز طالب علم کے لئے امامت کا وظیفہ لینا جائز ہے۔(۱)
(۱) قد یقال: إن کان قصدہ وجہ اللّٰہ تعالٰی لکنہ بمراعاتہ للأوقات والاشتغال بہ یقل اکتسابہ عما یکفیہ لنفسہ وعیالہ، فیأخذ الأجرۃ لئلا لیمنعہ الاکتساب عن إقامۃ ہذہ الوظیفۃ الشریفۃ، ولولا ذلک لم یأخذ أجرا فلہ الثواب المذکور بل یکون جمع بین عبادتین وہما الأذان والسعي علی العیال وإنما الأعمال بالنیات۔۔۔۔ وبعض مشایخنا استحسنوا الاستیجار علی تعلیم القرآن الیوم لأنہ ظہر التواني في الأمور الدینیۃ ففي الامتناع تضییع حفظ القرآن وعلیہ الفتوی۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج۲، ص: ۶۰)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص322

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صحن میں مصلیٰ ایسے طریقہ پر بچھایا جائے کہ صف کے درمیان آ جائے، اندر کے مصلیٰ کی سیدھ ضروری نہیں۔(۱)

(۱) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: وسطوا الإمام وسدوا الخلل۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلوۃ: باب مقام الإمام من الصف‘‘: ج۱، ص:۹۶، رقم: ۶۸۱)
ویقف وسطاً، قال في المعراج: وفي مبسوط بکر السنۃ أن یقوم في المحراب لیعتدل الطرفان ولو قام في أحد جانبي الصف یکرہ … إلی قولہ: قال علیہ الصلوٰۃ والسلام توسطوا الإمام وسدا الخلل۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص439

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:صفوں کی درستگی کا مسئلہ بہت اہم ہے، حدیث شریف میں صفوں کی درستگی پر بہت زور دیا گیا ہے اور اس میں کوتاہی پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ مسجد میں مقتدی حضرات صف میں کب کھڑے ہوں، اس سلسلہ میں مختلف طریقے ثابت ہیں:
(۱) امام جب اپنے کمرے سے باہر آئے تو امام کو دیکھتے ہی مقتدی حضرات کھڑے ہوجائیں اور صفیں درست کرلیں۔ (۲) امام جس صف سے گزرے اس صف کے مقتدی حضرات کھڑے ہوتے جائیں اور صفیں درست کرتے رہیں۔ (۳) مؤذن اقامت شروع کرے اور مقتدی حضرات اپنی صفیں درست کرلیں اور پھر نماز شروع کریں۔ اول الذکر دونوں طریقے اسی وقت قابل عمل ہیں جب کہ امام اپنے کمرے سے نکلے اور مسجد میں پہلے سے موجود نہ ہو؛ لیکن اگر امام پہلے سے مسجد میں موجود ہو جیسا کہ آج کل عموماً ہوتا ہے تو پھر تیسرا طریقہ اختیار کریں کہ اقامت کے شروع سے ہی لوگ صفیں درست کرنا شروع کردیں تاکہ اقامت ختم ہوتے ہی جب امام نماز شروع کرے تو تکبیر اولی کے ساتھ مقتدی نماز شروع کرسکیں۔ اگر لوگ حی علی الصلوۃ تک اپنی جگہ بیٹھے رہیں گے تو امام کی نماز شروع کرنے سے پہلے صفیں درست نہیں کرسکیں گے۔ جن کتابوں میں ’’حي علی الصلوۃ‘‘ پر کھڑے ہونے کی بات لکھی ہے اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ ’’حي علی الصلوۃ‘‘ کے بعد بیٹھے رہنا درست نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہحی علی الصلوۃ  سے پہلے کھڑا ہونا درست نہیں ہے۔(۱)
’’وقال الطحطاوي تحت قولہ: والقیام لامام ومؤتم والظاہر أنہ احتراز عن التاخیر لا التقدیم حتی لو قام أول الإقامۃ لاباس بہ‘‘(۲)
’’حدثني ابن جریج، أن ابن شہاب، أخبرہ أن الناس، کانوا ساعۃ یقول المؤذن: اللّٰہ أکبر یقیم الصلاۃ، ویقوم الناس للصلاۃ، ولا یأتي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مقامہ حتی تعتدل الصفوف‘‘(۳)

(۱) کفایۃ المفتي، ’’باب مایتعلق بالإقامۃ‘‘: ج ۳، ص: ۵۲۶، زکریا دیوبند۔
(۲) حاشیۃ الطحطاوي علی الدر، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۵؛ ابن عابدین،رد المحتار، ’’آداب الصلوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۷، زکریا دیوبند۔
(۳) المراسیل لأبي داؤد، ’’جامع الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۹، مصنف عبدالرزاق، ’’کتاب الصلاۃ، باب قیام الناس عندالإقامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۷؛ فتح الباري، ’’کتاب الصلاۃ، باب لایقوم إلی الصلاۃ مستعجلا‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۰۔

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص219

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز ادا ہوگئی، تاہم مسجد میں شور وغل سے اجتناب کیا جائے؛ کیوں کہ اس سے خشوع وخضوع فوت ہو جاتا ہے۔(۲)

(۲) وعند حضور مایشغل البال عن استحضار عظمۃ اللّٰہ تعالیٰ، والقیام بحق خدمتہ ویخل بالخشوع في الصلاۃ بلاضرورۃ لإدخال النقص في المؤدی۔ (حسن بن عمار، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’فصل في الاوقات المکروہۃ‘‘: ص: ۱۹۱؛ وجماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الأول، الفصل الثالث في بیان الأوقات التي الخ‘‘: ج۱، ص:۱۰۹، مکتبہ فیصل دیوبند)
ویخل بالخشوع کزینۃ ولہو ولعب الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’مطلب في بیان السنۃ، والمستحب والمندوب الخ‘‘: ج۲، ص:۴۲۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص178

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق:  صورت مذکورہ میں ممکن ہے کہ وہ حروف ادا ہوتے ہوں؛ لیکن مقتدی تک آواز نہ پہونچتی ہوجس کی وجہ سے مقتدی کو لگتاہو کہ وہ حروف کٹ جاتے ہیں۔ اگر نماز میں کھانسی آجائے جس کی وجہ سے حروف مکمل ادا نہ ہوتے ہوں توان حروف کو دوبارہ ادا کرنا چاہیے تاکہ مقتدی حضرات کو کسی قسم کا اعتراض نہ ہواورنماز میں کسی قسم کے فساد کا اندیشہ نہ رہے۔ اگر امام نے اعادہ نہیں کیا اور حروف کے چھوٹنے کی وجہ سے معنی میں کوئی تغیر نہیں ہوا تو نماز درست ہوجاتی ہے؛ لیکن بسا اوقات بعض حروف کے چھوٹنے کی وجہ سے معنی میں ایسا تغیر آتاہے کہ نماز فاسد ہوجاتی ہے اس لیے امام صاحب کو چاہیے کہ کھانسی کا علاج کرائیں تاکہ نماز میں بار بار کھانسی کی وجہ سے لوگوں کو دشواری نہ ہو اور جب تک ٹھیک نہیں ہوتے ہیں۔ کھانسنے پر جو آیات چھوٹ رہی ہیں ان کا اعادہ کرلیا جائے۔ بہتر ہے کہ مقامی کسی مفتی کو امام کے پیچھے نماز پڑھا کر ان کی رائے معلوم کرلی جائے۔
’’قال في الہندیۃ: ومنہا حذف حرف … إن لم یکن علی وجہ الایجاز والترخیم۔ فإن کان لا یغیر المعنی لا تفسد صلاتہ، نحو أن یقرأ: وَلَقَدْ جَآئَتْہُمْ رُسُلُنَا بِالبَیِّنَاتِ بترک التاء من جاء ت وإن غیر المعنی تفسد صلاتہ عند عامۃ المشایخ نحو أن یقرأ: فما لہم لا یؤمنون في لا یؤمنون بترک لا‘‘(۱)
’’وفي الشامي: لو انتقل في الرکعۃ الواحدۃ من آیۃ الی آیۃ یکرہ وإن کان بینہما آیات بلا ضرورۃ فإن سہا ثم تذکر یعود مراعاۃ لترتیب الآیات‘‘(۲)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع، في صفۃ الصلاۃ، الصلاۃ، الفصل الخامس، في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، زکریا دیوبند۔)
(۲) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب الإستماع للقرآن فرض کفایۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۹،زکریا۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص281

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: بیٹھ کر نفل پڑھنے میں جب رکوع کیا جائے تو سرین کو پیروں سے جدا نہ کیا جائے یعنی اٹھایا نہ جائے؛ بلکہ رکوع کے لیے کمر کو جھکایا جائے یہ مسنون ہے۔(۱)

(۱) ویجعل السجود أخفص من الرکوع، کذا في فتاویٰ قاضي خان حتی لو سوی لم یصح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ج ۱، ص: ۱۹۶)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص399

اسلامی عقائد

Red. No. 39 / 980

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ،أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُن لَّهُ صَاحِبَةٌ، وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ ،وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (سورہ الانعام آیت 101)،  اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ وتعالی کے لئے اولاد اور بیوی کی واضح نفی کی گئی ہے۔ فلیتدبر

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 40/

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو زمین بنیت تجارت خریدی گئی ہے، اس پر ہر سال بازارمیں قیمت  فروخت کے اعتبار سے زکوۃ واجب ہوگی۔ گزشتہ تین سالوں کا اگر علم نہیں ہے تو آج کی قیمت معلوم کرکے گذشتہ تینوں سالوں کی زکوۃ اسی حساب سے نکالیں ۔ آس پاس کی زمینوں سے بازاری قیمت بآسانی معلوم کی جاسکتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند