نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 960/41-104 B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مذکورہ صورت میں دوبارہ جو چار رکعت سنت کی نیت سے آپ نےنماز شروع کی وہ نفل ہوگی۔ نماز کے دوران نیت کی تبدیلی معتبر نہیں ہوگی۔ تحریمہ کے وقت جس نیت سے آپ نے نماز شروع  کی وہی نماز ادا ہوگی۔ اس لئے دوبارہ فرض کی نیت کے ساتھ نماز شروع کریں۔

(وينوي للصلاة التي يدخل فيها بنية لا يفصل بينها وبين التحريمة بعمل) والأصل فيه قوله - عليه الصلاة والسلام - «الأعمال بالنيات» ولأن ابتداء الصلاة بالقيام وهو متردد بين العادة والعبادة ولا يقع التمييز إلا بالنية، والمتقدم على التكبير كالقائم عنده إذا لم يوجد ما يقطعه وهو عمل لا يليق بالصلاة ولا معتبر بالمتأخرة منها عنه لأن ما مضى لا يقع عبادة لعدم النية، وفي الصوم جوزت للضرورة، والنية هي الإرادة،  (فتح القدیر 1/265)


 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 1076/41-271

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

It is not permissible for a Sunni Muslim girl to marry a Shia person whose believes are based on kufr.  Children have to obey their parents and consider their will or opinion. In this way their future would be safe in-sha Allah.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1167/42-420

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہاں، کرسکتے ہیں۔ شرعا اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔ البتہ طبی اعتبار سے بیٹھ کر نہانا زیادہ مفید ہے.

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1272/42-637

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   بلا کسی شرعی وجہ  کے  لوگوں کو اپنا نام چھپاکر دھوکہ دینا جائز نہیں ، البتہ اگر لڑکے نے گواہوں کے سامنے اپنا دوسرا کوئی غیرمعروف نام بتاکر نکاح  کیا  تو نکاح منعقد ہوجائے گا۔  یہ اس صورت میں ہے جبکہ لڑکا مجلس نکاح میں موجود ہو، اور اس کی جانب اشارہ کیا جائے۔ لیکن اگر لڑکا مجلس نکاح میں موجود نہیں ہے تو تفصیل ہے؛ اگر گواہ اس نام سے اس کو جانتے ہیں تو نکاح درست ہوجائے گا۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1398/42-816

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شیطان اور جنات کا اس طرح کسی دوسرے کی شکل اختیار کرناممکن ہے۔اس لئے شیاطین وجنات وغیرہ کے شرور سے حفاظت  کے لئے  سونے سے قبل معوذتین (سورۃ الفلق وسورۃ الناس) صبح وشام آیۃ الکرسی اوردیگرمسنون اذکار کا اہتمام کرناچاہئے۔

عن عائشة، قالت: حدث رسول الله صلى الله عليه وسلم نساءه ذات ليلة حديثا، فقالت امرأة منهن: يا رسول الله، كان الحديث حديث خرافة؟ فقال: " أتدرين ما خرافة؟ إن خرافة كان رجلا من عذرة، أسرته الجن في الجاهلية، فمكث فيهن دهرا طويلا، ثم ردوه إلى الإنس، فكان يحدث الناس بما رأى فيهم من الأعاجيب، فقال الناس: حديث خرافة "  (مسند أحمد مخرجا 42/ 141)

وقصة من استهوته الجن: أي جرته إلى المهاوي وهي المهالك ما روى عبد الرحمن بن أبي ليلى قال: أنا لقيت المفقود فحدثني حديثه قال: أكلت خزيرا في أهلي فخرجت فأخذني نفر من الجن فمكثت فيهم، ثم بدا لهم في عتقي فأعتقوني ثم أتوا بي قريبا من المدينة فقالوا: أتعرف الخليل؟ فقلت: نعم، فخلوا عني، فجئت فإذا عمر بن الخطاب قد أبان امرأتي بعد أربع سنين وحاضت وانقضت عدتها وتزوجت، فخيرني عمر - رضي الله عنه - بين أن يردها علي وبين المهر. قال مالك: وهذا مما لا يدرك بالقياس فيحمل على المسموع من رسول الله - صلى الله عليه وسلم – (العنایۃ، کتاب المفقود 6/145)

فإن واحدا من إخوتي وهو أكبر سنا مني قتل حية كبيرة بسيف في دارنا فضر به الجن حتى جعلوه زمنا لا تتحرك رجلاه قريبا من الشهر ثم عالجناه وداويناه بإرضاء الجن حتى تركوه فزال ما به وهذا مما عاينته بعيني (حاشیۃ الطحطاوی فیما لایکرہ للمصلی 1/369)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اللہ تعالیٰ کا جب استعمال ہو تو کہنے والے کے لیے لفظ اللہ کے ساتھ تعظیمی الفاظ استعمال کرنا مستحب ہے؛ اس لیے اللہ تعالی، اللہ رب العزت، اللہ جل شانہ، اللہ جل جلالہ اس طرح استعمال کرنا مستحب ہے۔(۱)

۱) {قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَط أَیًّامَّا تَدْعُوْا فَلَہٗ الْأَسْمَآئُ الْحُسْنٰی ج وَلَا تَجْھَرْ بِصَلَا تِکَ وَلَا  تُخَافِتْ بِھَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ  سَبِیْلًا ہ۱۱۰} (سورۃ الإسراء، آیۃ: ۱۱۰)

قال الفخر في تفسیرہ: الصفات الإضافیۃ کل صفۃ لہ تعالیٰ لیست زائدۃ علی الذات ککونہ معلوماً ومذکوراً مسبحا ممجداً۔ (تقریرات الرافعي، علی رد المحتار: ج ۱، ص: ۶)

 

متفرقات

Ref. No. 1890/43-1762

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صرف محمد نام رکھنا بھی درست ہے، شرعا محبوب ہے، البتہ سرکاری کاغذات میں صرف محمد سے اندراج نہیں ہوتاہے،  بلکہ اس کے ساتھ کسی اور نام کا اضافہ ضروری ہوتاہے، اس لئے آپ محمد احمد نام بھی رکھ سکتے ہیں۔ ایک نام کے ایک خاندان میں کئی بچے ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے، ہر ایک اپنے والد سے  منسوب ہوکر پہچانا جاتاہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قبر پر بیٹھنا بے ادبی ہے اور قبر پر نماز مکروہ ہے بشرطیکہ قبر سطح زمین سے ابھری ہوئی ہو اگر سطح زمین کے برابر ہے، تو اس پر نماز مکروہ نہیں ہوگی۔(۱)

(۱) ویکرہ أن یبنی علی القبر أو یقعد أو ینام علیہ أو یوطأ علیہ أو تقضی حاجۃ الإنسان من بول أو غائط أو یعلم بعلامۃ من کتابۃ ونحوہ۔ کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ: الفصل السادس في القبر والدفن‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۷)
ویکرہ أن یبنی علی القبر مسجد أو غیرہ، کذا في السراج الوہاج۔ (’’أیضاً:‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۸)
ولو بلی المیت وصار تراباً جاز، دفن غیرہ في قبرہ وزرعہ والبناء علیہ کذا في التیین۔ (’’أیضاً:‘‘)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص383

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:وہ دو آیتیں ہیں:
(۱) {قد جاء کم بصائر من ربکم} (الآیۃ)
(۲) {أفغیر اللّٰہ أبتغي حکماً} (الآیۃ)(۱)

(۱) عبد الرحمن بن أبي بکر، الإتقان في علوم القرآن: ج ۱، ص: ۴۷۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص65

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:امی اس کو کہتے ہیں جس نے کسی سے لکھنا پڑھنا نہ سیکھا ہو اور جاہل وہ ہے، جس کو کوئی علم حاصل نہ ہو، دونوں میں فرق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی استاذ نہیں تھا؛ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امی کہا جاتا ہے اور یہ کہنا درست ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنے علوم عطا فرمائے تھے کہ دنیا میں کسی کو بھی اتنے علوم لکھنا پڑھنا سیکھنے کے باوجود حاصل نہیں ہوسکے؛ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے عالم ومعلم ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جاہل کہنا خلاف واقعہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی سے پڑھے ہوئے نہ تھے؛ اس لئے انپڑھ کہنا درست نہیں ہے۔ اب اگر کوئی شخص آپ کو صلی اللہ علیہ وسلم کو انپڑھ کہتا ہے اور اس کی سمجھ میں یہ امی کا ترجمہ ہے (جس نے پڑھنا  لکھنا نہ سیکھا ہو)، تو وہ گنہگار نہیں ہے، تاہم انپڑھ کا لفظ استعمال کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رفعت کے خلاف ہے۔ اور جاہل کہنا تو قطعاً درست نہیں ہے، اگر اپنی دانست میں اس نے یہ امی ہی کا ترجمہ کیا ہے؛ اگرچہ غلط کیا ہے، تو وہ اس کلمہ سے دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوا اور اگر عیاذا باللہ اہانت کے لئے اس جملہ کو استعمال کیا تو وہ بلا شبہ مرتد ہوجائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے لفظ امی بولنے کی ضرورت پیش آئے تو امی لفظ بولا جائے، انپڑھ وغیرہ الفاظ سے اجتناب کیا جائے۔(۱)

(۱) محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، تفسر المظہري، ’’سورۃ الأعراف: ۱۵۷‘‘: ج ۳، ص: ۴۴۲۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص208