Frequently Asked Questions
Miscellaneous
Ref. No. 1698/43-1331
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اگر آپ نے مزید 1800 روپئے مذکورہ شخص کو ہدیہ کرنے کی نیت سے شامل کردیے تو اس کی گنجائش ہے، قربانی درست ہوگئی۔
وأما قدره فلايجوز الشاة والمعز إلا عن واحد وإن كانت عظيمةً سمينةً تساوي شاتين مما يجوز أن يضحى بهما؛ لأن القياس في الإبل والبقر أن لا يجوز فيهما الاشتراك؛ لأن القربة في هذا الباب إراقة الدم وأنها لا تحتمل التجزئة؛ لأنها ذبح واحد، وإنما عرفنا جواز ذلك بالخبر، فبقي الأمر في الغنم على أصل القياس.فإن قيل: أليس أنه روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين أملحين أحدهما عن نفسه والآخر عمن لايذبح من أمته، فكيف ضحى بشاة واحدة عن أمته عليه الصلاة والسلام؟(فالجواب): أنه عليه الصلاة والسلام إنما فعل ذلك لأجل الثواب؛ وهو أنه جعل ثواب تضحيته بشاة واحدة لأمته لا للإجزاء وسقوط التعبد عنهم، ولا يجوز بعير واحد ولا بقرة واحدة عن أكثر من سبعة، ويجوز ذلك عن سبعة أو أقل من ذلك، وهذا قول عامة العلماء''.( بدائع الصنائع (5/70، كتاب الأضحیه، ط: سعید)
والبقر والبعير يجزي عن سبعة إذا كانوا يريدون به وجه الله تعالى، والتقدير بالسبع يمنع الزيادة، ولا يمنع النقصان، كذا في الخلاصة. الفتاوى الهندية (5/ 304)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بانی اسلام حضرت آدم علیہ السلام ہیں، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ تکمیل اسلام ہوئی ہے۔ {اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ الخ} (الآیہ)(۱)
(۱) سورۃ المائدہ: ۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص288
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مزار پر سجدہ تعظیمی بھی جائز نہیں ہے، یہ سخت گناہ ہے، تاہم آدمی ایمان سے خارج نہیں ہوتا ہے، اس لئے نکاح باقی ہے۔ (۱)
(۱) {وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ أٰلِھَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّ لَا سُوَاعًا ۵لا وَّ لَا یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًاہج ۲۳} (سورۃ نوح: ۷۱)
عن الحسن قال: بلغني أن رجلا قال: یا رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نسلِّم علیک کما یسلِّم بعضنا علی بعض أفلا نسجد لک؟ قال: لا، ولکن أکرموا نبیکم وأعرفوا الحق لأہلہ فإنہ لا ینبغي أن یسجد لأحد من دون اللّٰہ۔ (جلال الدین السیوطي، الدر المنثور، ’’سورۃ آل عمران: ۷۹‘‘: ج ۱، ص: ۵۸۲)
من سجد للسلطان علي وجہ التحیۃ أو قبَّلَ الأرض بین یدیہ لا یکفر، ولکن یأثم لارتکابہ الکبیرۃ ہو المختار، قال الفقیہ أبو جعفر رحمہ اللّٰہ تعالیٰ: وإن سجد للسطان بنیۃ العباد أو لم تحضرہ النیۃ فقد کفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الثامن والعشرون في ملاقاۃ الملوک‘‘: ج ۵، ص: ۴۲۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص393
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ تصور کہ: جس عورت کے تل یا کوئی دھبہ ہو یا آنکھ میں خرابی ہو وہ لعنتی ہوتی ہے، شرعی اعتبار سے بالکل غلط ہے، اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔(۱)
(۱) إن کان الشئوم في شیئ ففي الدار والمرأۃ والفرس۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب النکاح: باب مای یتقی من شؤم المرأۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۶۳، رقم: ۵۰۹۴)
قال القرطبي: إنہ یحملہ علی ماکانت الجاہلیۃ تعتقدہ بناء علی أن ذلک یضر وینفع بذاتہ فإن ذلک خطأ إلخ۔ (ابن حجر، العسقلاني، فتح الباري: ج ۶، ص: ۶۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص519
حدیث و سنت
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: منتظمہ کمیٹی کا مقرر کردہ امام ہی امام ہے جس کو لکنت وغیرہ اعذار کی وجہ سے علاحدہ کردیا گیا وہ امام ہی نہیں ہے؛ البتہ جو نمازیں سابق امام کی اقتداء میں پڑھی گئیں وہ نمازیں سب کی ادا ہوگئیں اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ امام کو چاہئے کہ اختلافات کا باعث نہ بنے منتظمہ کمیٹی کو تقرر کرنے اور علاحدگی کا پورا اختیار حاصل ہے اس کے فیصلہ پر عمل ضروری ہے۔(۱)
(۱) إعلم أن صاحب البیت ومثلہ إمام المسجد الراتب أولیٰ بالإمامۃ من غیرہ مطلقاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۲۹۷)
(۲) ولو أم قوما وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أولأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ لہ ذلک تحریماً۔ (أیضًا:)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص108
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:سورج غروب ہوتے ہی سورج کی روشنی ختم ہوجاتی ہے، مغرب کا وقت شروع ہوجاتا ہے پھر سرخی کے بعد ایک سفیدی ظاہر ہوجاتی ہے اس سفیدی کے ختم ہونے تک مغرب کا وقت باقی رہتا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کا یہ ہی مسلک ہے۔ علامہ ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اسی پر فتویٰ ہے سوال میں جو مذکور ہے کہ سرخی ختم ہوتے ہی مغرب کا وقت ختم ہوجاتا ہے یہ صاحبین امام ابویوسف و امام محمد رحمہما اللہ کا مسلک ہے؛ لیکن احناف کے یہاں اس پر فتویٰ نہیں ہے۔(۱)
’’ووقت المغرب إذا غربت الشمس واٰخر وقتہا ما لم یغب الشفق … ولنا قولہ علیہ السلام أول وقت المغرب حین تغرب الشمس وآخر وقتہا حین یغیب الشفق … ثم الشفق ہو البیاض الذي في الأفق بعد الحمرۃ عند أبي حنیفۃ الخ‘‘(۲)
(۱) فثبت أن قول الإمام ہو أصح ومشی علیہ في البحر مؤیدا لہ بما قدمناہ عنہ من أنہ لا یعدل عن قول الإمام إلا لضرورۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتارمع الدر المختار: ’’کتاب الصلاۃ، مطلب: في الصلاۃ الوسطی‘‘ ج ۲، ص: ۱۷، مکتبہ، زکریا، دیوبند)
(۲) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب المواقیت‘‘: ج ۱، ص: ۸۱،۸۲، ط: یاسر ندیم، اینڈ کمپنی، دیوبند۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص81
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: آپ کے دوست کا دعویٰ کہ مرد اور عورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہے! بے اصل اور بے بنیاد ہے۔ حقیقت سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے، حدیث کی کتابوں میں کئی ایسی روایتیں ہیں جو مرد اور عورت کی نماز میں فرق کو بیان کرتی ہیں کنزل العمال میں یزید بن ابو حبیب سے مرسلاً ایک روایت ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد اور عورت کی نماز میں فرق کو بیان فرمایا ہے: ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز پڑھنے والی دو عورتوں کے پاس سے گزر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو فرمایا جب تم سجدہ کرو تو اپنے جسم کے بعض حصے کو زمین سے ملاؤ؛ کیوں کہ عورت سجدہ کرنے میں مرد کی طرح نہیں ہے۔
’’أن النبي مر علی امرأتین تصلیان فقال إذا سجدتما فضما بعض اللحم إلی الأرض فإن المرأۃ في ذلک لیست کالرجل‘‘(۱)
ایک اور روایت ہے:
’’عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فإذا سجدت الصقت بطنہا في فخذیہا کأستر ما یکون لہا وأن اللّٰہ ینظر إلیہا ویقول یا ملائکتي أشہدکم أني قد غفرت لہا‘‘(۲)
حضرت ابن عمر ؓنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں … جب عورت سجدہ کرے گی تو
اپنا پیٹ رانوں سے ملائے جتنا چھپانا ممکن ہو اپنے اعضاء کو چھپائے گی اور اللہ تعالیٰ ایسی عورت کی طرف دیکھ کر فرماتے ہیں اے میرے فرشتو! تم کو میں اس کی مغفرت پر گواہ بناتا ہوں۔
مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے کہ:
’’عن إبراہیم قال: إذا سجدت المرأۃ فلتلزق بطنہا بفخذیہا و لا ترفع عجیزتہا ولا تجافی کما یجافی الرجل‘‘(۱)
حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ (مشہور تابعی) کہتے ہیں کہ عورت پیٹ کو دونوں رانوں سے ملائے اور سرین کو نہ اٹھائے اور مرد کی طرح کھل کر سجدہ نہ کرے۔
مذکورہ اثر سے معلوم ہوا کہ مرد اور عورت کی نماز میں فرق کا مسئلہ صحابہ کرامؓ اور تابعین ؒکے زمانہ میں مشہور تھا اور صحابہؓ وتابعین ؒنماز میں مردوں کے لیے اعضاء کشادہ کرنے کے قائل تھے نہ کہ عورتوں کے لیے، ایسے ہی مذاہب اربعہ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، فقہاء اور حدیث کے شارحین کے اقوال تو اس سلسلے میں لا تعداد ہیں۔ مزید تفصیلات کتب احادیث میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
خلاصہ: مرد اورعورت کی نماز میں فروق نصوص سے ثابت ہیں۔ جیسا کہ معجم الکبیر اور مجمع الزوائد میں منقول ہے:
حضرت وائل سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: اے وائل! جب تم نماز پڑھو تو اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاؤ اور عورت اپنے دونوں ہاتھ اپنی چھاتی کے برابر اٹھائے۔
’’عن وائل بن حجر، قال: جئت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم … فقال لي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یا وائل بن حجر، إذا صلیت فاجعل یدیک حذاء أذنیک، والمرأۃ تجعل یدیہا حذاء ثدییہا‘‘(۲)
(۱) کنز العمال، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الثاني في أرکان الصلاۃ‘‘: ج ۷، ص: ۴۶۲، رقم: ۱۹۷۸، وجمع الجوامع: ج ۱، ص: ج ۱، ص: ۲۴۶۔
(۲) کنز العمال، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الثاني، في أرکان الصلاۃ‘‘: ج ۷، ص: ۵۴۹، و جامع الأحادیث: ج ۳، ص: ۴۳۔
(۱)أخرجہ ابن أبي شیبہ، في مصنفہ، باب: المرأۃ کیف تکون في سجودھا: ج ۱، ص: ۲۴۲، رقم:۲۷۸۲۔
(۲) المعجم الکبیر للطبراني: ج ۹، ص: ۱۴۴، رقم: ۱۷۴۹۷؛ ومجمع الزوائد: ج ۹، ص: ۶۲۴، رقم: ۱۶۰۵۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص357
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز پڑھتے ہوئے کہنیوں تک کھلا رکھنا مرد کے لیے بھی مکروہ تنزیہی ہے (غیراولیٰ ہے) اگر بنیان ایسی ہے کہ اس میں کہنیاں کھلی رہتی ہیں، تو اس میں نماز تو ادا ہوجائے گی مگر مکروہ تنزیہی اور خلاف اولیٰ ہوگی۔(۱)
’’قال ابن الہمام وقد أخرج الستۃ عنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أمرت أن أسجد علیٰ سبعۃ وأن لا أکف شعرا ولا ثوباً ویتضمن کراہۃ کون المصلی مشمرا کمیہ‘‘(۲)
’’ولو صلی رافعاً کمیہ إلی المرفقین کرہ‘‘(۳)
(۱) وکرہ الإقعاء وافتراش ذراعیہ وتشمیر کمیہ عنہما للنہي عنہ لما فیہ من الجفاء المنافي للخشوع۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح علی حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في المکروہات‘‘: ص: ۴۹، ۳۴۸، شیخ الہند دیوبند)
ٰیبَنِیْ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَاتُسْرِفُوْاج اِنَّہٗ لَایُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَہع ۳۱ (الأعراف: ۳۱)
(۲) ابن الہمام، فتح القدیر: ج ۱، ص: ۴۲۴۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب السابع، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ و ما یکرہ: ج ۱، ص: ۱۶۵، مکتبہ فیصل دیوبند۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص165
فقہ
Ref. No. 1231 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔درست ہے، کوئی قباحت نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند