نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 921/41-52B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سنت مؤکدہ کو کھڑے ہوکر پڑھنا افضل اور مستحب ہے اور بلاعذر بیٹھ کر پڑھنا بھی جائز ہے۔ البتہ بعض فقہاء نے سنت فجر کو مستثنی کیا ہے ، یعنی فجر کی سنت بلاعذر کے بیٹھ کر پڑھنا درست نہیں ہے۔

"يجوز النفل" إنما عبر به ليشمل السنن المؤكدة وغيرها فتصح إذا صلاها "قاعدا مع القدرة على القيام" وقد حكي فيه إجماع العلماء وعلى غير المعتمد يقال إلا سنة الفجر لما قيل بوجوبها وقوة تأكدها إلا التراويح على غير الصحيح لأن الأصح جوازه قاعدا من غير عذر فلا يستثنى من جواز النفل جالسا بلا عذر شيء على الصحيح (مراقی الفلاح 1/403)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 972/41-116

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس اجارہ  میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ جتنی صدری فروخت ہوگی اسی قدر فائدہ متعین ہے، اور اس میں کسی قسم کے نزاع کا اندیشہ بھی نہیں ہے، اس لئے ایسا معاملہ کرنا جائز ہے۔ اللہ برکتیں نازل  فرمائیں  گے ان شاء اللہ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 2010/44-1966

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صرف لفظ مذکور کے کہنے سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ طلاق کے لئے اس لفظ کو قائم مقام نہیں بنایاجاسکتاہے۔ بیوی کی طرف صراحۃً یا دلالۃً نسبت کیے بغیر طلاق دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ۔

   لكن لا بد في وقوعه قضاءً وديانةً من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها‘‘. (فتاوی شامی 3/250، کتاب الطلاق، ط؛ سعید)

ولو أقر بطلاق زوجته ظاناً الوقوع بإفتاء المفتي فتبين عدمه لم يقع، كما في القنية. قوله: ولو أقر بطلاق زوجته ظاناً الوقوع إلى قوله لم يقع إلخ. أي ديانةً، أما قضاء فيقع ،كما في القنية؛ لإقراره به۔ (غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر (1/ 461)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2106/44-2225

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تراویح میں قرآن سناکراجرت لینا ناجائز ہے، اس لئے کہ عبادت پر اجرت نہیں لی جاتی ہے، اس لئے آپ کا اجرت کے طور پر رقم لینا جائز نہیں ہے۔ آپ مسجد کمیٹی کو پیسہ واپس کردیں،۔ ہاں اگر باضابطہ اجرت کا معاملہ طے نہیں ہوا تھا  اور نہ ہی اجرت لینے کی کوئی نیت تھی پھر کسی نے کچھ ہدیہ کردیا تو اس کا لینا اور استعمال کرنا درست ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2327/44-3490

بشرط صحت سوال صورت مذکورہ میں اگر  مقروض کے وارثین قرض  کے بارے میں علم رکھتے ہیں مگر ادائیگی کے لئے تیار نہیں ہیں، یا یہ کہ وہ قسم کھانے  سے انکار کریں تو آپ کے لئے مرحوم کی اس زمین کو بیچ کر اپنا قرض وصول کرنے کی اجازت ہے، اسی طرح مارکیٹ ریٹ کے اعتبار سے مرحوم کے وارثین کو زمین کی رقم دیدینا بھی کافی ہے، البتہ وارثین کو اس زمین کے بارے میں پوری اطلاع دینا ضروری ہے تاکہ اگر وہ زمین رکھنا چاہیں تو آپ کا قرض ادا کرکے زمین اپنے پاس رکھ لیں یا اس زمین کو بیچنے پر راضی ہوجائیں۔ 

كذا إذا ادعى دينا أو عينا على وارث إذا علم القاضي كونه ميراثا أو أقر به المدعي أو برهن الخصم عليه) فيحلف على العلم.

)الدر المختار: (553/5، ط: دار الفکر(

ولو أن رجلا قدم رجلا إلى القاضي وقال: إن أبا هذا قد مات ولي عليه ألف درهم دين فإنه ينبغي للقاضي أن يسأل المدعى عليه هل مات أبوه؟ ولا يأمره بجواب دعوى المدعي أولا فبعد ذلك المسألة على وجهين: إما أن أقر الابن فقال: نعم مات أبي، أو أنكر موت الأب فإن أقر وقال: نعم مات أبي؛ سأله القاضي عن دعوى الرجل على أبيه فإن أقر له بالدين على أبيه يستوفى الدين من نصيبه، ولو أنكر فأقام المدعي بينة على ذلك قبلت بينته وقضي بالدين ويستوفى الدين من جميع التركة لا من نصيب هذا الوارث خاصة.۔۔۔۔وإن لم تكن للمدعي بينة وأراد استحلاف هذا الوارث يستحلف على العلم عند علمائنا - رحمهم الله تعالى - بالله ما تعلم أن لهذا على أبيك هذا المال الذي ادعى وهو ألف درهم ولا شيء منه.فإن حلف انتهى الأمر وإن نكل يستوفى الدين من نصيبه۔

)الفتاوی الھندیۃ: (407/3، ط: دار الفکر(

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ بادشاہ کو عمدہ اوصاف سے متصف ہونا چاہئے، نرمی کے وقت نرمی، سختی کے وقت سختی کی ضرورت ہے اور عدل وانصاف وغیرہ میں اس کو نمونہ ہونا چاہئے اور بادشاہ کا رعایا کو احترام کرنا چاہئے اور اس کی عزت وتوقیر کو لازم سمجھنا چاہئے، باقی تفصیلات کتب حدیث میں دیکھی جاسکتی ہیں۔(۱)

(۱) وأما الحدیث النبوي (السلطان ظل اللّٰہ فيالأرض یأوي إلیہ کل ضعیف وملہوف) وہذا صحیح، فإن الظل مفتقر إلی آو وہو رفیق لہ مطابق لہ نوعاً من المطابقۃ والآوي إلی الظل المکتنف بالمظل صاحب الظل فالسلطان عبد اللّٰہ مخلوق مفتقر إلیہ لا یستغني عنہ طرفۃ عین، وفیہ من القدرۃ والسلطان والحفظ والنصرۃ وغیر ذلک من معاني السؤدد والصمدیۃ التي بہا قوام الخلق، ما یشبہ أن یکون ظل اللّٰہ في الأرض وہو أقوي الأسباب التي بہا یصلح أمور خلقہ وعبادہ، فإذا صلح ذو السلطان صلحت أمور الناس، وإذا فسد فسدت یحسب فسادہ؛ ولا تفسد من کل وجہ، بل لا بد من مصالح، إذ ہو ظل اللّٰہ، لکن الظل تارۃ یکون کاملاً مانعاً من جمیع الأذي وتارۃ لا یمنع إلا بعض الأذي، وأما إذا عدم الظل فسد الأمر، کعدم سر الربیۃ التي بہا قیام الأمۃ الإنسانیۃ۔ واللّٰہ أعلم۔ (ابن تیمیہ، مجموعۃ الفتاویٰ، ’’کتاب قتال أصل البغي إلی نہایۃ الإقرار‘‘: ج ۱۸، ص: ۳۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص124

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اپنی اپنی ہمت کے مطابق اسلام کی تبلیغ کرنا امر ضروری ہے ’’بلّغوا عني ولوآیۃ‘‘ (الحدیث) رہا تبلیغی جماعت کا معاملہ تو انہوں نے تبلیغ کے کام کو انجام دینے کے لئے کچھ اصول مقرر کئے ہیں اور اسی طرح ہر جماعت اپنا اپنا طریقہ کا ر مقرر کرتی ہے۔ اس طریقہ کار کو فرض وواجب نہیں کہا جاتا ہے؛ بس اگر اس میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ ہو، تو وہ طریقہ کار مباح اور جائز ہوتا ہے۔ رہی اس طریقہ کار کی افادیت تو اس پر ہم سے زیادہ روشنی آپ کو مرکز تبلیغ دہلی بنگلہ والی مسجد سے مل سکتی ہے، جماعت والوں کا حسب ضرورت مسجد میں سونا درست ہے۔(۱)

۱) عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہ: أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: (بلغوا عني ولو آیۃ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأنبیاء علیہم السلام: باب ما ذکر عن بني إسرائیل‘‘: ج ۱، ص: ۴۹۰، رقم: ۳۴۶۱)
وإذا أراد أن یفعل ذلک ینبغي أن ینوي الاعتکاف فیدخل فیہ ویذکر اللّٰہ تعالیٰ بقدر ما نوی أو یصلي ثم یفعل ما شاء، کذا في السراجیہ۔ ولا بأس للغریب ولصاحب الدار أن ینام في المسجد في الصحیح من المذہب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الخامس: في آداب المسجد والقبلۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۱)وإذا أراد ذلک ینبغي أن ینوي الاعتکاف، فیدخل ویذکر اللّٰہ تعالی بقدر ما نوی، أو یصلي ثم یفعل ما شاء۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد وما یکرہ فیہا، مطلب: في أفضل المساجد‘‘: ج ۲، ص: ۴۳۱)

----------------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص342

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: چھینٹوں کے احتمالات سے کنواں ناپاک نہیں ہوتا؛ لیکن کنویں کی بائونڈری کو اونچا کردینا چاہیے، نیز لوگوں کو کنویں کے بالکل قریب کھڑے ہوکر نہانے سے بھی احتیاط لازم ہے۔(۱)

(۱)وھو (أي الماء المستعمل) طاھر ولو من جنب وھو الظاھر (ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مبحث الماء المستعمل، مطلب في تفسیر القربۃ والثواب، ج۱، ص:۳۵۲؛ و جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ج۱، ص۲۰۵)؛  وھو (أي الماء المستعمل) والجاري ھو ما یعد جار یاعرفا، و قیل ما یذھب بتبنۃ والأول أظھر والثاني أشھر۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب في أن التوضي من الحوض أفضل رغماً الخ، ج۱، ص:۳۳۴)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص477

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگروقت میں گنجائش ہو، تو اذان ہوتے ہوئے وضو نہ بنائے؛ بعد میں بنالے اور اذان کا جواب دے۔ اگر اذان کے بعد فوراً جماعت ہونے والی ہے اور گنجائش نہیں ہے، تو اذان ہوتے ہوئے وضو بنانا درست ہے۔
قرآن پاک کی تلاوت اگر مکان میں ہو رہی ہو، تو اذان کے وقت بند کر کے اذان کا جواب دیا جائے اور اگر مسجد میں ہو تو اختیار ہے کہ تلاوت جاری رکھے یا بند کردی جائے۔(۱)
(۱)ولا ینبغي أن یتکلم السامع في خلال الأذان والإقامۃ، ولا یشغل بقراء ۃ القرآن، ولا بشيء من الأعمال سوی الإجابۃ ولو کان في القراء ۃ ینبغي أن یقطع و یشتغل بالإستماع والإجابۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الصلوٰۃ، الفصل الثاني في کلمات الأذان والإقامۃ،‘‘ ج ۱، ص:۱۱۴)؛  ولا یقرأ السامع ولا یسلم ولا یرد السلام ولا یشتغل بشيء سوی الإجابۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوٰۃ، باب الأذان،‘‘ ج ۱، ص:۴۵۰)
 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص143

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2709/45-4197

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کوئی شخص بے ہوشی کی حالت میں چلاجائے اور چھ سے زیادہ نمازیں چھوٹ جائیں تو جو نماز یں بے ہوشی کی حالت میں چھوٹ  جائیں وہ  معاف ہیں، ان کی قضاء ذمہ میں لازم نہیں ہے، لہذا وہ  ایام جن میں آپ کو بالکل ہوش نہیں تھا ان دنوں کی نماز قضاء کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اور ہوش کے زمانے میں جو نمازیں آپ نے بستر پر یا وہیل چیئر پر پڑھیں وہ ادا ہوگئیں ان کو دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے، پیشاب کی تھیلی مجبوری میں لگنے سے آپ معذور کے حکم میں ہوں گے اور معذور کا حکم یہ ہے کہ نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد وضو کرکے نماز ادا کرلے تو اس کی نماز عذر کے باوجود ادا ہوجاتی ہے۔

"و من أغمي عليه خمس صلوات قضى، و لو أكثر لايقضي، و الجنون كالإغماء و هو الصحيح، ثم الكثرة تعتبر من حيث الأوقات عند محمد -رحمه الله تعالى- وهو الأصح، هذا إذا دام الإغماء و لم يفق في المدة أما إذا كان يفيق ينظر فإن كان لإفاقته وقت معلوم مثل أن يخف عنه المرض عند الصبح مثلًا فيفيق قليلًا ثم يعاوده فيغمى عليه تعتبر هذه الإفاقة فيبطل ما قبلها من حكم الإغماء إذا كان أقل من يوم وليلة، وإن لم يكن لإفاقته وقت معلوم لكنه يفيق بغتةً فيتكلم بكلام الأصحاء، ثمّ يغمى عليه فلا عبرة بهذه الإفاقة، كذا في التبيين. ولو أغمي عليه بفزع من سبع أو آدمي أكثر من يوم وليلة يسقط عنه القضاء بالإجماع." (الھندیۃ ، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع عشر في صلاة المريض، ج: 1، صفحہ:137، ط: دار الفکر)

وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة)

بأن لا يجد في جميع وقتها زمنا يتوضأ ويصلي فيه خاليا عن الحدث (ولو حكما) لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرة (وفي)   (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة) لأنه الانقطاع الكامل. (شامی، ج: 1/ص: 305، مطلب في أحكام المعذور،ط:دار الفكر-بيروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند