Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں اگر وہ اس طرح پیوست کر دیا گیا ہے کہ نکالا اور ہلایا ہی نہیں جا سکتا، تو وضو اور غسل صحیح ہو جاتا ہے۔ نیز اس کی امامت بھی درست ہے۔(۲)
(۲)ولا یجب غسل ما فیہ حرج کعین و ثقب انضم و داخل قلفۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل،‘‘ ج۱،ص:۲۸۶)؛ ولو کان سنہ مجوفاً فبقي فیہ أو بین أسنانہ طعام أو درن رطب في أنفہ، ثم غسلہ علی الأصح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الثانی في الغسل،‘‘ج۱، ص:۶۴)
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص144
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس صورت میں محض ہاتھ لگنے سے یا چھونے سے چاہے چھونا شہوت کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو، وضو نہیں ٹوٹتا ہے؛ اس لیے کہ خروج نجاست ناقض وضو ہے جب کہ یہاں پر کسی چیز کا خروج نہیں ہوا ہے، ہاں اگر چھونے کی وجہ سے مذی وغیرہ کا خروج ہوجائے، تو وضو ٹوٹ جائے گا۔
’’المعاني الناقضۃ للوضوء کل ما یخرج من السبیلین‘‘(۱)
’’ینقضہ خروج نجس منہ أي ینقض الوضوء خروج نجس من المتوضي‘‘(۲)
’’لا ینقض الوضوء مس الذکر وکذا مس الدبر والفرج مطلقاً وکذا مس بشرۃ المرأۃ لا ینقض الوضوء مطلقاً سواء کان بشہوۃ أو لا‘‘(۳)
(۱) المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارات: فصل في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۔
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۸۔
(۳) أیضًا: ج ۱، ص: ۸۲۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص246
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اصولی طور پر یہ بات ذہن میں رکھیں کہ منی کے نکلنے سے غسل واجب ہو جاتا ہے اور منی کا خروج شہوت کے ساتھ اچھل کر ہوتا ہے عام طورپر پیشاب کے بعد جو لیس دار مادہ نکلتا ہے، اس کی کیفیت منی کی طرح نہیں ہوتی، اسے وَدِی کہتے ہیں، اس کے نکلنے سے صرف وضو ٹوٹتا ہے، غسل واجب نہیں ہوتا۔ اسی طرح بیوی سے ملاعبت کرنے یا شہوت انگیز چیز دیکھنے سے جو مادہ لیس دار نکلتا ہے اسے مذی کہتے ہیں، اس کے نکلنے سے بھی غسل واجب نہیں ہوتا صرف وضو ٹوٹتا ہے۔اور اگر وہ واقعتا منی کا ہی قطرہ ہے، تو جو منی بلا شہوت اور بلا دفق کے نکلے اس کے نکلنے سے بھی غسل واجب نہیںہوتاہے؛ اس لیے کہ وہ منی موجب غسل ہے جو شہوت کے ساتھ اچھل کر نکلے جو یہاں پر مفقود ہے۔
’’المني والمذي والودي فأما المذي والودي فإنہ یغسل ذکرہ ویتوضأ وأما
المني ففیہ الغسل‘‘(۱)
’’اعلم أنہ مذي أو شک أنہ مذي أو ودي أو کان ذکرہ منتشرا قبیل النوم فلا غسل وفي رد المحتار لأن برؤیۃ المني یجب الغسل کما صرح بہ في المنیۃ وغیرہا‘‘(۲)
’’عن عبد ربہ بن موسیٰ عن أمہ أنہا سالت عائشۃ عن المذي، فقالت: إن کل فحل یمذي، وإنہ المذي والودي والمني، فأما المذي فالرجل یلاعب امرأتہ فیظہر علی ذکرہ الشيء فیغسل ذکرہ وأنثییہ ویتوضأ ولا یغتسل وأما الودي فإنہ یکون بعد البول یغسل ذکرہ وأنثییہ ویتوضأ ولا یغتسل، وأما المني فإنہ الماء الأعظم الذي منہ الشہوۃ وفیہ الغسل‘‘(۳)
’’المجامع إذا اغتسل قبل أن یبول أو ینام ثم سال منہ بقیۃ المني من غیر شہوۃ یعید الاغتسال عندہما خلافا لہ فلو خرج بقیۃ المنی بعد البول أو النوم أو المشي لا یجب الغسل إجماعا؛ لأنہ مذي ولیس بمني؛ لأن البول والنوم والمشي یقطع مادۃ الشہوۃ‘‘(۱)
’’رجل بال فخرج من ذکرہ مني إن کان منتشرا فعلیہ الغسل وإن کان منکسرا علیہ الوضوء‘‘(۲)
(۱) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ: باب الرجل یخرج من ذکرہ المذي کیف یغسل‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في تحریر الصاع والمد والرطل‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۱۔
(۳) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات: فصل في الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۶۵۔
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ: موجبات الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۳۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الثاني في الغسل، الفصل الثالث في المعاني الموجبۃ للغسل، السبب الأول خروج المني‘‘: ج ۱، ص: ۶۶۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص336
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: زکوۃ ایک فریضہ ہے جس کا تقاضا ہے کہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے زکوٰۃ دی جائے جس طرح خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے نمازپڑھتے اور روزہ رکھتے ہیں۔ زکوۃ کسی فقیر غیر صاحب نصاب کو مالک بنانے کا نام ہے اس میں ضروری ہے کہ کسی خدمت کے عوض میں زکوٰۃ کی رقم نہ دی جائے، گھر کے تنخواہ دار ملازم کو بھی اجرت میں زکوٰۃ کی رقم نہیں دی جا سکتی ہے، اس سے زکوٰۃ دینے والے کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی، اس لیے امام صاحب کو امامت کی تنخواہ میں زکوٰۃ کی رقم دینا درست نہیں ہے، اس سے زکوٰۃ ادا نہیں۔ ہاں! اگر تنخواہ کے علاوہ زکوٰۃ کی مد سے امام صاحب کی مدد کی جائے اور امام صاحب مستحق زکوٰۃ ہوں تو یہ دینا درست ہے اس سے زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔
’’ولو نوی الزکاۃ بما یدفع المعلم إلی الخلیفۃ ولم یستأجرہ إن کان الخلیفۃ بحال لو لم یدفعہ یعلم الصبیان أیضاً أجزأہ وإلا فلا‘‘(۱)
’’الصدقۃ ہي ما یخرجہ الإنسان من مالہ علی وجہ القربۃ واجباً کان أو تطوعاً‘‘(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الزکوٰۃ، الباب السابع في المصارف‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۲۔
(۲) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الزکاۃ، باب فضل الصدقۃ‘‘: ج ۴، ص: ۳۳۸، رقم: ۱۸۸۸۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص324
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: کوئی بھی کام ایسا نہیں کرنا چاہئے جس سے نمازی کے خشوع وخضوع میں فرق آئے اس لیے جب کوئی نماز پڑھ رہا ہو تو زور سے سلام نہیں کرنا چاہئے ایسا کرنا مکروہ ہے۔
’’کراہۃ ابتداء السلام علی المصلي لکونہ ربما شغل بذلک فکرہ واستدعی منہ الرد وہو ممنوع منہ‘‘(۱)
’’فسرہ بعضہم بالواعظ لأنہ یذکر اللّٰہ تعالیٰ ویذکر الناس بہ؛ والظاہر أنہ أعم فیکرہ السلام علیٰ مشتغل بذکر اللّٰہ تعالیٰ بأي وجہ کان‘‘(۲)
(۱) ابن حجر العسقلاني، فتح الباري شرح البخاري، ’’کتاب العمل في الصلاۃ، باب لا یرد السلام في الصلاۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۱۳، دارالسلام ، الریاض۔
(۲) الحصکفي، رد المحتار مع الدر المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، مطلب: المواضع التي یکرہ فیھا السلام ‘‘: ج۲، ص: ۳۷۳، ۳۷۴، ط:زکریا، دیوبند۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص179
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ’’لا یسئل‘‘ کی جگہ ’’لا یعذب‘‘ پڑھا گیا اس سے اگرچہ معنی بدل گئے لیکن اتنے نہیں بدلے کہ نماز فاسد ہوجائے اس لیے نماز درست ہوگئی۔
’’ومنہا ذکر کلمۃ مکان کلمۃ علی وجہ البدل۔ إن کانت الکلمۃ التی قرأہا مکان کلمۃ یقرب معناہا وہي فی القرآن لا تفسد صلاتہ‘‘(۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، زکریا دیوبند۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص283
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فقہاء نے فرائض میں تکرار سورت کو مکروہ لکھا ہے؛ لیکن نوافل میں تکرار سورت درست ہے؛ اس لیے سورۂ اخلاص کا مکرر پڑھنا شرعاً درست ہے، لیکن اس کی عادت نہیں بنانی چاہیے۔(۱)
(۱) یکرہ تکرار السورۃ في رکعۃ واحدۃ من الفرض…… وقید بالفرض لأنہ لایکرہ التکرار في النفل۔ (أحمد بن محمد الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، کتاب الصلاۃ، فصل في المکروھات،ص: ۳۵۲)
(۲) ویکرہ تکرار السورۃ في رکعۃ واحدۃ في الفرائض ولابأس في التطوع۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا ج۱، ص:۱۶۶، مکتبہ فیصل دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص400
طلاق و تفریق
Ref. No. 2839/45-4485
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق کے وقوع کے لئے لفظ طلاق کا زبان سے بولنا ، عورت کی جانب نسبت کرنا ضروری ہے۔ اس لئے صرف لفظ جواب کہنے سے یا طلاق کالفظ دل میں بولنے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے آپ کسی وسوسہ کے شکار نہ ہوں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1020
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: بلاضرورت شدیدہ کسی بھی ذی روح کی تصویر کشی ممنوع ہے۔ سوال میں مذکور تفصیل بعض علماء کے نزدیک ہے ، تاہم تصویر کشی سے اجتناب بہرحال بہتر ہے اور احوط ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
روزہ و رمضان
Ref. No. 38 / 1126
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر خود فدیہ دینے کی استطاعت نہ ہو تو توبہ واستغفار کرے ۔ البتہ اگر کبھی روزہ رکھنے کی استطاعت ہوئی تو روزہ رکھنا ، اور فدیہ دینے کی استطاعت ہوئی تو فدیہ دینا لازم ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند