نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 40/1069

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حرمین شریفین میں حنفی حضرات کے لئے حنبلی طریقہ کے مطابق جماعت کے ساتھ وتر کی نماز درست ہے؟  یہ مسئلہ اجتہادی ہے اور بعض ائمہ ء احناف نے اس کی اجازت دی ہے، اس لئے حرمین میں اس پر عمل کرنے کی گنجائش ہے۔ لواقتدی حنفی بشافعی فی الوتر وسلم ذلک الشافعی الامام علی الشفع الاول علی وفق مذھبہ ثم اتم الوتر صح وتر الحنفی عند ابی بکر الرازی وابن وھبان (معارف السنن 4/170) حضرت علامہ انورشاہ کشمیری ؒ نے حضرت شیخ الہندؒ کی یہی رائے نقل کی ہے  کہ ان کے پیچھے اقتداء کرنا جائز ہے۔ ولاعبرۃ بحال المقتدی والیہ ذھب الجصاص وھو الذی اختارہ لتوارث السلف اقتداء احدھم بالآخر بلانکیر مع کونہم مختلفین  فی الفروع ، وکان مولانا شیخ الھند محمودالحسن ایضا یذھب الی مذھب الجصاص (فیض الباری 1/352)۔  حرمین میں جو قیام اللیل کی نماز باجماعت ادا کیجاتی ہے حنفی کے لئے اس میں شامل ہونا درست ہے اس لئے کہ جو ائمہ امامت کرتے ہیں ان کے مذہب میں وہ نماز مشروع ہے مکروہ نہیں ہے۔ الحنابلۃ قالوا اما لنوافل فمنھا لا تسن فیہ الجماعۃ وذلک کصلوۃ الاستسقاء والتراویح والعیدین ومنھا ما تباح فیہ الجماعۃ کصلوۃ التہجد (الفقہ علی المذاہب الاربعۃ)۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

آداب و اخلاق

Ref. No. 974/41-114

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ رات میں جھاڑو لگانا وناخن کاٹنا سب جائز ہے۔ یہ جو عورتوں میں مشہور ہے اس کی کوئی اصل نہیں، یہ محض توہمات ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق
ایک آدمی یو ٹیوب پر ایسی فلمیں دیکھتا ہے جس میں فلم میں ریکارڈ ہوتا کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہوں تو جب یہ فلم موبائل میں ڈاون لوڈ یعنی انٹرنیٹ سے موبائل کی میمری یعنی موبائل کی یاداشت میں طلاق دینے کی نیت سے جب بھری جائے تو کیا ڈاون لوڈ کرنے والے کی بیوی کو طلاق ہوگی جبکہ بعد میں وہ مذکورہ فلم کو اپنی بیوی کو طلاق دینے کی نیت سے کمپیوٹر کی یاداشت سے تلاش کر کے دیکھتا بھی اور سنتا ہے جبکہ واضح پر فلم کا اداکار کہتا ہے کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہوں.

Taharah (Purity) Ablution &Bath

Ref. No. 1622/43-1186

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

It is enough to wash only the impure part, there is no need for ablution or bath.

قلت: فَإِن أصَاب يَده بَوْل أَو دم أَو عذرة أَو خمر هَل ينْقض ذَلِك وضوءه؟ قَالَ: لَا وَلَكِن يغسل ذَلِك الْمَكَان الَّذِي أَصَابَهُ. قلت: فَإِن صلى بِهِ وَلم يغسلهُ؟ قَالَ: إِن كَانَ أَكثر من قدر الدِّرْهَم غسله وَأعَاد الصَّلَاة وَإِن كَانَ قدر الدِّرْهَم أَو أقل من قدر الدِّرْهَم لم يعد الصَّلَاة". (المبسوط للسرخسی 1/60) وعفا) الشارع (عن قدر درہم) وإن کرہ تحریما، فیجب غسلہ، وما دونہ تنزیہا فیسن، وفوقہ مبطلُ فیفرض والصلاة مکروہة مع ما لا یمنع، حتی قیل لو علم قلیل النجاسة علیہ فی الصلاة یرفضہا ما لم یخف فوت الوقت أو الجماعة(شامی، زکریا 1/520) النجاسۃ اذا کانت غلیظۃ وھی اکثر من قدر الدرھم فغسلھا فریضۃ والصلوۃ بھا باطلۃ وان کانت مقدار درھم فغسلھا واجب والصلوۃ معھا جائز وان کانت اقل من قدر الدرھم فغسلھا سنۃ (ھندیۃ 1/58)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband


 

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 2011/44-1987

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں مذکور مضمون قرآن کریم کی مختلف آیتوں میں بیان کیاگیاہے۔ تفسیر معارف القرآن میں سورۃ الانعام کی آیت نمبر 162  کی تفسیری عبارت ملاحظہ فرمائیں:

کسی کے گناہ کا بھار دوسرا نہیں اٹھا سکتا

چوتھی آیت میں مشرکین مکہ ولید بن مغیرہ وغیرہ کی اس بات کا جواب ہے جو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور عام مسلمانوں سے کہا کرتے تھے کہ تم ہمارے دین میں واپس آجاؤ ، تو تمہارے سارے گناہوں کا بھار ہم اٹھالیں گے، اس پر فرمایا (آیت) قُلْ اَغَيْرَ اللّٰهِ اَبْغِيْ رَبًّا وَّهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ، اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہہ دیجئے کہ کیا تم مجھ سے یہ چاہتے ہو کہ تمہاری طرح میں بھی اللہ کے سوا کوئی اور رب تلاش کر لوں، حالانکہ وہی سارے جہان اور ساری کائنات کا رب ہے، اس گمراہی کی مجھ سے کوئی امید نہ رکھو، باقی تمہارا یہ کہنا کہ ہم تمہارے گناہوں کا بھار اٹھالیں گے یہ خود ایک حماقت ہے، گناہ تو جو شخص کرے گا اسی کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا، اور وہی اس کی سزا کا مستحق ہوگا، تمہارے اس کہنے سے وہ گناہ تمہاری طرف کیسے منتقل ہوسکتا ہے، اور اگر خیال ہو کہ حساب اور نامہ اعمال میں تو انہی کے رہے گا لیکن میدان حشر میں اس پر جو سزا مرتب ہوگی وہ سزا ہم بھگت لیں گے، تو اس خیال کو بھی اس آیت کے اگلے جملہ نے رد کر دیا، وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰي ، ”یعنی قیامت کے روز کوئی شخص دوسرے کا بھار گناہ نہیں اٹھائے گا“۔

اس آیت نے مشرکین کے بیہودہ قول کا جواب تو دیا ہی ہے، عام مسلمانوں کو یہ ضابط بھی بتلا دیا کہ قیامت کے معاملہ کو دنیا پر قیاس نہ کرو کہ یہاں کوئی شخص جرم کرکے کسی دوسرے کے سر ڈال سکتا ہے، خصوصاً جب کہ دوسرا خود رضا مند بھی ہو، مگر عدالت الٓہیہ میں اس کی گنجائش نہیں، وہاں ایک کے گناہ میں دوسرا ہرگز نہیں پکڑا جا سکتا، اسی آیت سے استدلال فرما کر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ولد الزنا پر والدین کے جرم کا کوئی اثر نہیں ہوگا، یہ حدیث حاکم نے بسند صحیح حضرت عائشہ سے روایت کی ہے۔

اور ایک میّت کے جنازہ پر حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے کسی کو روتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ زندوں کے رونے سے مردہ کو عذاب ہوتا ہے، ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ قول حضرت عائشہ (رض) کے سامنے نقل کیا تو انہوں نے فرمایا کہ تم ایک ایسے شخص کا یہ قول نقل کر رہے ہو جو نہ کبھی جھوٹ بولتا ہے اور نہ ان کی ثقاہت میں کوئی شبہ کیا جاسکتا ہے، مگر کبھی سننے میں بھی غلطی ہو جاتی ہے، اس معاملہ میں تو قرآن کا ناطق فیصلہ تمھارے لئے کافی ہے : (آیت) وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰي، ”یعنی ایک کا گناہ دوسرے پر نہیں پڑ سکتا، تو کسی زندہ آدمی کے رونے سے مردہ بےقصور کس طرح عذاب میں ہوسکتا ہے (درمنثور)

آخر آیت میں ارشاد فرمایا کہ ”پھر تم سب کو بالآخر اپنے رب ہی کے پاس جانا ہے، جہاں تمہارے سارے اختلاف کا فیصلہ سنا دیا جائے گا“۔ مطلب یہ ہے کہ زبان آوری اور کج بحثی سے باز آؤ ، اپنے انجام کی فکر کرو ۔  (تفسیر معارف القرآن از مفتی شفیع صاحب ، سورۃ الانعام آیت 162)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Taharah (Purity) Ablution &Bath

Ref. No. 2107/44-2128

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The way to purify impure clothes is to wash the cloth three times with pure water and squeeze the cloth each time until the water stops dripping from the cloth. Even after washing three times in this way, if there is a visible stain of impurity, it is not necessary to remove it, but the cloth is considered pure; and it is correct to pray in it.

"و إن کانت شیئًا لایزول أثرہ إلا بمشقة بأن یحتاج في أزالته إلی شيء آخر سوی الماء کالصابون لایکلف بإزالته ... و یشترط العصر في کل مرة ویبالغ في المرة الثالثة." (الھندیۃ الباب السابع في النجاسة وأحکامها، ج:1، ص:96، ط:مكتبه رشيديه)

 

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 2218/44-2348

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ درسِ تفسیر سننے کے لئے  عشرہ یا چلہ لگانایا مدرسہ و مسجد کی کوئی شرط کسی جگہ مذکور نہیں ہے۔ لوگوں کی اس طرح کی  بے سند باتیں جہالت کی بناء پر ہوتی  ہیں، انکا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کسی مدرسہ یا مسجد یا کسی ہال میں جہاں یکسوئی کے ساتھ  تفسیر سن سکتے ہوں وہاں درس تفسیر کا انعقاد درست ہے اور جگہ جگہ تفسیری پروگرام منعقد ہونے چاہئیں۔ مردوں کی طرح عورتوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ قرآن کے پیغام کو سنیں اور سمجھیں اور اپنی زندگی میں ایک قابل قدر تبدیلی لائیں اور آخرت کو سنواریں۔ اور آج کل جبکہ اکثر مرد حضرات دنیوی مشاغل میں الجھے ہیں اور دینی علوم سے بہت دور ہیں، اگر عورتوں کو بھی علم دین سے اس طرح دور کردیا گیا تو مفاسد میں اضافہ ہوگا، تاہم عورتوں کا کسی جگہ جمع ہونے کے لئے ضروری احتیاطی تدابیر بروئے کار لانا اہم ذمہ داری ہے، اس میں کوتاہی بالکل نہ برتی جائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2334/44-3497

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہوا خارج ہونے کے بعد اگر اعضاء وضو پر پانی بہایا تو وضو ہوگیا،  اور پورے بدن پر پانی بہایا تھا تو غسل  بھی ہوگیا۔ ہوا خارج ہونے سے غسل واجب نہیں ہوتاہے، اس لئے غسل یا وضو لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔

الفقه على المذاهب الأربعة (1/ 49):

’’ومنها: أن لا يوجد من المتوضئ ما ينافي الوضوء مثل أن يصدر منه ناقض للوضوء في أثناء الوضوء. فلو غسل وجهه ويديه مثلاً ثم أحدث فإنه يجب عليه أن يبدأ الوضوء من أوله. إلا إذا كان من أصحاب الأعذار

 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2362/44-3569

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔     بی پی اور لقوے کا مریض  پورے طور پر اپنے ہوش و حواس میں ہوتاہے،اس کے تمام اقوال و افعال معتبر ہوتے ہیں؛ اس لئے شخص مذکور کی بیوی پر شرعا تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں۔ یہ مطلقہ اب عدت میں ہے، اور اجنبیہ  بن چکی ہے،اس لئے اپنے سابق شوہر کی خدمت بھی نہیں کرسکتی ہے۔ لہذا بیٹے اور بیٹیوں پرلازم ہے کہ اپنے  والد کی خدمت  کریں اور اس بڑھاپے میں ان کا سہارا بنیں۔

عورت اس گھر میں ہی  اپنے بچوں کے ساتھ رہ سکتی ہے، لیکن شوہر سے علاحدہ رہنا ضروری ہے، کھانا پکانا وغیرہ خدمات انجام دے سکتی ہے لیکن جسمانی خدمت اور مردوزن کے تعلقات درست نہیں ۔

﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ﴾ [البقرة: 229] ۔۔۔﴿ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ [البقرة: 230]

' عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، فِي هَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَطَلَّقَهَا ثَلَاثَ تَطْلِيقَاتٍ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْفَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ مَا صُنِعَ عِنْدَ النَّبِيِّ صلّىالله عليه وسلم سُنَّةٌ''۔ (سنن ابی داؤد ، 1/324، باب فی اللعان، ط: رحمانیه)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولهما أن يسكنا بعد الثلاث في بيت واحد إذا لم يلتقيا التقاء الأزواج، ولم يكن فيه خوف فتنة انتهى.

وسئل شيخ الإسلام عن زوجين افترقا ولكل منهما ستون سنة وبينهما أولاد تتعذر عليهما مفارقتهم فيسكنان في بيتهم ولا يجتمعان في فراش ولا يلتقيان التقاء الأزواج هل لهما ذلك؟ قال: نعم، وأقره المصنف.

(قوله: وسئل شيخ الإسلام) حيث أطلقوه ينصرف إلى بكر المشهور بخواهر زاده، وكأنه أراد بنقل هذا تخصيص ما نقله عن المجتبى بما إذا كانت السكنى معها لحاجة، كوجود أولاد يخشى ضياعهم لو سكنوا معه، أو معها، أو كونهما كبيرين لا يجد هو من يعوله ولا هي من يشتري لها، أو نحو ذلك."

(كتاب الطلاق، باب  العدۃ، فصل في الحداد، 3 /538، ط: سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2450/45-3713

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ظہیر اور نکیر کے معنی میں تفاوت فاحش ہے، اس لئے مذکورہ صورت میں نماز درست نہیں ہوئی۔ نماز کا اعادہ واجب ہے۔  اگلے روز نماز کے بعد اعلان کردیا جائے تاکہ لوگ اپنی اپنی نماز دوہرالیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند