Frequently Asked Questions
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جی یہ حدیث بخاری شریف کی ہے اور صحیح روایت ہے؛ البتہ حضرات محدثین نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سب سے اہم مسئلہ جہاد کا تھا، کھیتی میں مشغولی یہ جہاد سے اعراض کا باعث بنتاہے، اور جہاد سے اعراض یہ ذلت کا باعث ہے؛ اس لیے کھیتی کے آلات کے گھر میں ہو نے کو ذلت کا باعث قرار دیا گیا ہے، ورنہ کھیتی ایسی چیز ہے جس پر دنیاکی بنیاد ہے، کھیتی کی چیزیں ہی لوگ کھاتے ہیں؛ اس لیے مطلقاً اس کو ذلت کا باعث نہیں کہا جاسکتا ہے۔ ہاں بعض اعتبار سے کھیتی میں مشغول لوگ خیر کے کاموں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ جیسے وعظ ونصیحت کی مجلس یا صلحاء کی صحبت سے محروم ہوتے ہیں، اس اعتبار سے بھی یہ بات کہی جاسکتی ہے۔ فیض البار ی میں علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
’’واعلم أن الحرث والمزارعۃ ملاک العالم، لا یتم نظامہ إلا بہ، ومع ذلک ترد الأحادیث في کراہتہ، فیتحیر منہ الناظر۔ وما ذکرناہ في الحجامۃ لا ینفع ہہنا، فإن الحجام الواحد یکفي لجماعات، بخلاف الحرث۔ وأجیب أن الأہم في عہدہ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کان الجہاد، والاشتغال بالحرث یوجب الاشتغال عنہ، فذمَّہ(۱) لہذا۔ ثم إن مخالب السلطنۃ تنشب بالمزارع، أکثر مما تنشب بالتاجر۔ وکذا المزارع یحرم من الخیر کثیرًا، فلا یجد فرصۃ لاستماع الوعظ، وصحبۃ الصلحاء۔ والحاصل: أن الشيء إذا دار بین خیر وشر، لا یحکم علیہ بالخیریۃ مطلقا، أو الکراہۃِکذلک۔ ولتجاذب الأطراف، فترد الأحادیثُ فیہ بالنحوین لذلک، فأفہم(۲) ولما ذکر فضل الزرع والغرس في الباب السابق أراد الجمع بینہ وبین حدیث ہذا الباب، لأن بینہما منافاۃ بحسب الظاہر۔ وأشار إلی کیفیۃ الجمع بشیئین أحدہما: ہو قولہ: ما یحذر من عواقب الاشتغال بآلۃ الزرع، وذلک إذا اشتغل بہ فضیع بسببہ ما أمر بہ۔ والْآخر: ہو قولہ: أو مجاوزۃ الحد، وذلک فیما إذا لم یضیع، ولکنہ جاوز الحد فیہ۔ وقال الداوردي: ہذا لمن یقرب من العدو فإنہ إذا اشتغل بالحرث لا یشتغل بالفروسیۃ ویتأسد علیہ العدو، وأما غیرہم فالحرث محمود لہم۔ وقال عزوجل: {وأعدوا لہم ما استطعتم} (الأنفال:۶) ولا یقوم إلا بالزراعۃ۔ ومن ہو بالثغور المتقاربۃ للعدو لا یشتغل بالحرث، فعلی المسلمین أن یمدوہم بما یحتاجون إلیہ۔(۱)
(۱) عن أبي أمامۃ الباہلي قال: ورأی سکۃ وشیئاً من آلۃ الحرث فقال سمعت النبي رسول اللّٰہ علیہ وسلم یقول: لا یدخل ہذا بیت قوم إلا أدخلہ الذل۔ (بدر الدین العیني، عمدۃ القاري، ’’باب ما یحذر من عوقب‘‘: ج ۱۲، ص: ۱۵۶)
ما ذکر من آلۃ الحرث بیت قومٍ إلا أدخلہ أي: اللّٰہ کما في نسخۃ صحیحۃ (الذل) بضم أولہ أي: المذلۃ بأداء الخراج والعشر، والمقصود الترغیب والحث علی الجہاد۔ قال التوربشتي: و إنما جعل آلۃ الحرث مذلۃ للذل لأن أصحابہا یختارون ذلک إما بالجبن في النفس، أو قصور في الہمۃ، ثم إن أکثرہم ملزومون بالحقوق السلطانیۃ في أرض الخراج ولو آثروا الخراج لدرت علیہم الأرزاق واتسعت علیہم المذاہب، وجبی لہم الأموال مکان ما یجبی عنہم۔ قیل: قریب من ہذا المعنی حدیث۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرخ مشکاۃ المصابیح، ’’باب المساقاۃ والمزارعۃ‘‘: ج ۵، ص: ۱۹۸۹، رقم: ۲۹۷۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص126
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:مذکورہ کنویں کا پورا پانی نکال کر کنواں پاک کیا جائے۔(۳)
(۳)فإن انتفخ الحیوان فیھا أو تفسخ نزح جمیع مافیھا صغر الحیوان أو کبر (العینی، البنایہ، فصل في البئر، ج۱، ص:۴۵۷)؛ و تنزح (البئر) و بانتفاخ حیوان ولو کان صغیرا لانتشار النجاسۃ۔(الطحطاوی، حاشیۃ الطحطاوی، فصل في مسائل الآبار، ج۱، ص:۳۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص478
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایک وضو سے متعدد نمازیں پڑھنا درست ہے، ہر نماز کے لیے علاحدہ وضو ضروری نہیں۔ ’’رویٰ أحمد بإسناد حسن مرفوعاً لو لا أن أشق علی أمتي لأمر تہم عند کل صلوۃ بوضوء، یعني ولو کانوا غیر محدثین‘‘(۱)۔ صورت مسئولہ میں نماز جنازہ کے لیے جو وضو بنایا گیا ہے، وہ بھی مکمل وضو ہے اور وہ ایسی عبادت کے لیے ہے، جو وضو کے بغیر درست نہیں۔ نیز نماز جنازہ سے وضو پر کوئی اثر نہیں پڑتا؛ اس لیے ایسے وضو سے دوسری نمازیں پڑھنا درست ہے۔(۲)
(۱)ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، أرکان الوضوء أربعۃ،‘‘ج۱، ص:۲۰۳
(۲) وعن بریدۃ أن النبي ﷺ صلی الصلوات یوم الفتح بوضوء واحد، و مسح علی خفیہ، فقال لہ عمر: لقد صنعت الیوم لم تکن تصنعہ، فقال عمدا صنعتہ یا عمر! (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الطہارۃ، باب ما یوجب الوضوء،‘‘ ج۲، ص:۳۱، مکتبۃ فیصل دیوبند)
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص145
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بیوی کو برہنہ دیکھنے کی شرعا گنجائش ہے؛ لیکن بیوی کے علاوہ کسی مرد یا اجنبی عورت کو قصدا برہنہ دیکھنا باعث گناہ ہے۔ تاہم بیوی یاکسی کو بھی برہنہ دیکھنے یا چھونے سے اگر مذی خارج نہ ہو، تو وضو نہیں ٹوٹتااور اگر دیکھنے کی وجہ سے مذی کا خروج ہو، تو وضو ٹوٹ جائے گا؛ اس لیے کہ وضو کے ٹوٹنے کا مدار نجاست کے خروج پر ہے۔ کشف عورت یعنی ستر کھلنا یا دیکھنا نواقض وضو میں سے نہیں ہے، اس مسئلہ میں بیوی یا اجنبی عورت کے برہنہ جسم کو دیکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے؛ بلکہ وضو کے ٹوٹنے نہ ٹوٹنے کا تعلق خروج مذی کے ساتھ ہے۔
’’فصل في نواقض الوضوء: المعاني الناقضۃ للوضوء کل کا یخرج من السبیلین‘‘(۱)
’’ینقضہ خروج نجس منہ أي ینقض الوضوء خروج نجس من المتوضي‘‘(۲)
(۱) المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارات: فصل في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۔
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص247
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں ایسے شخص پر غسل واجب ہے؛ کیونکہ وجوب غسل کے لیے دفق شرط نہیں ہے؛ بلکہ منی کا اپنے مقام سے شہوت کے ساتھ جدا ہونا کافی ہے؛ اس لیے بغیر غسل کئے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔
’’وفرض الغسل عند خروج مني منفصل عن مقرہ بشہوۃ أي لذۃ ولو حکماً کمحتلم ولم یذکر الدفق لیشمل منی المرأۃ ولأنہ لیس بشرط عند ہما خلافاً للثاني‘‘(۱)
’’أما عندہما لا یستقیم لأنہما لم یجعلا الدفق شرطاً بل تکفی الشہوۃ حتی قالا بوجوبہ إذا زایل المني من مکانہ بشہوۃ وإن خرج بلا دفق‘‘(۲)
’’ومتی کانت مفارقتہ عن مکانہ عن شہوۃ وخروجہ لا عن شہوۃ فعلی قول أبي حنیفۃ ومحمد: یجب الغسل وعلی قول أبي یوسف: لا یجب فالعبرۃ عند أبي
حنیفۃ ومحمد لانفصال المني عن مکانہ علی وجہ الدفق والشہوۃ لا لظہورہ علیٰ وجہ الشہوۃ وعند أبي یوسف العبرۃ لخروجہ ولظہورہ علیٰ وجہ الشہوۃ‘‘(۳)
’’إنزال المني علیٰ وجہ الدفق والشہوۃ قیل ہذا اللفظ بإطلاقہ یستقیم علی قول أبي یوسف لاشتراطہ الدفق والشہوۃ حال الخروج ولا یستقیم علی قولہما لأنہما ما اشترطا الدفق عند الخروج حتی قالا یجب الغسل إذا زایل المني عن مکانہ بشہوۃ وإن خرج بغیر دفق‘‘(۴)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في تحریر الصاع والمد والرطل‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۵، ۲۹۷۔
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۱۔
(۳) عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتار خانیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الفصل الثالث في الغسل، بیان أسباب الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۲۔
(۴) ابن الہمام، کفایۃ مع فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات: فصل في الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۶۵۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص337
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا اللّٰہ التوفیق: اگر چندہ دینے پر لوگوں کو مجبور نہ کیا جائے تو باہمی رضامندی سے اس طرح تعاون دینا درست ہے۔(۳)
(۳) لا یحل مال إمرأ إلا عن طب نفس۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ‘‘: ج۱، ص: ۷۵، رقم: ۱۶۳)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص325
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اسی رکعت کو امام کے سلام پھیرنے کے بعد پڑھے شرط یہ ہے کہ کوئی مانع نہ پایا گیا ہو اور اگر وضو کرنے جاتے وقت بات وغیرہ کرلی تو از سر نو نماز پڑھے۔(۱)
(۱) من سبقہ حدث توضأ وبنی … حتی إذا سبقہ الحدث ثم تکلم، أو أحدث متعمداً، أو قہقہ، أو أکل، أو شرب، أو نحو ذلک، لا یجوز لہ البناء۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السادس في الحدث في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۲، ۱۵۳، مکتبہ فیصل دیوبند)۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص55
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: پرفیوم میں الکحل ہوتا ہے جو پہلے صرف شراب سے تیار ہوتا تھا اس لیے اس کا استعمال درست نہیں تھا اب الکحل شراب کے علاوہ متعدد چیزوں سے تیار ہوتا ہے، نیز الکحل تھوڑی دیر میں اڑ جاتا ہے اس لیے پرفیوم کے استعمال کے کچھ دیر بعد نماز پڑھی گئی تو بلا شبہ نماز درست ہے تاہم احتیاط اسی میں ہے کہ پرفیوم لگاکر نماز نہ پڑھی جائے۔(۳)
(۳) وأما غیر الأشربۃ الأربعۃ، فلیست نجسۃ عند الإمام أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ، وبہذا یتبین حکم التی عمت بہا البلوی الیوم، فإنہا تستعمل في کثیر من الأدویۃ و الکحول (alcohals) المسکرۃ العطور والمرکبات الأخری، فغنہا إن اتخذت من العنب أو التمر فلا سبیل إلی حلتہا أو طہارتہا، وإن اتخذت من غیرہما فالأمر فیہا سہل علی مذہب أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ، ولا یحرم استعمالہا للتداوي أو لأغراض مباحۃ أخری مالم تبلغ حد الإسکار، لأنہا إنما تستعمل مرکبۃ مع المواد الأخری، ولایحکم بنجاستہا أخذاً بقول أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ، وإن معظم الحکول التي تستعمل الیوم في الأودیۃ والعطور وغیرہما لاتتخذ من العنب أوالتمر، إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول وغیرہ، کما ذکرنا في باب بیوع الخمر من کتاب البیوع۔ (المفتي تقي العثماني، تکملیہ فتح الملہم، ’’کتاب الأشربۃ: حکم الکحول المسکرۃ‘‘: ج ۳، ص: ۶۰۸، ط: مکتبہ دارالعلوم دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص180
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: اگر متولی صاحب مخارج سے واقفیت رکھتے ہوں یا کسی واقف شخص نے متولی صاحب کو اس طرف توجہ دلائی ہو تو امام صاحب کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کو اس طرف توجہ دلانا بلاشبہ درست ہے، البتہ امام صاحب اگر درست ہیں تو بلا وجہ امام کی خامیاں نکالنے سے پرہیز کرنا ضروری ہے، امام قابل احترام ہوتا ہے۔(۱)
(۱) ومن ابغض عالمًا من غیر سبب ظاہر خیف علیہ الکفر ولو صغر الفقیہ او العلوي قاصداً الاستخفاف بالدین کفر، لا ان لم یقصدہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’ ‘‘: ج ۵، ص: ۱۳۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص284
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صلاۃ التسبیح اوقات مکروہ ثلاثہ کے علاوہ تمام اوقات میں پڑھنا جائز اور درست ہے البتہ اکابرین و اسلاف کا معمول قبل نماز جمعہ صلاۃ التسبیح پڑھنے کا ہے۔(۲)
(۳) وأربع صلاۃ التسبیح الخ یفعلہا في کل وقت لاکراہۃ فیہ۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب الوتر و النوافل، مطلب في صلاۃ التسبیح، ج ۲، ص: ۴۷۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص401