Frequently Asked Questions
روزہ و رمضان
Ref. No. 1252 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم-:الوداعی خطبہ پڑھنے کی کوئی خاص فضیلت نہیں ہے، کوئی بھی خطبہ پڑھاجاسکتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 1019
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: اس کا مدار اس پر ہے کہ الکحل کس چیز سے کشید کیا گیا ہے ، اگر الکحل انگور ، کھجور یا منقی سے تیار شدہ ہے تو وہ ناپاک ہے اس کا استعمال ناجائز ہے۔آج کل جو پرفیوم بازاروں میں ملتے ہیں ان میں اکثر میں جو الکحل پایا جا تا ہے وہ سبزیوں اور دوسرے نباتات سے تیار کیا جاتا ہے اس لئے ایسے پرفیوم کے استعمال کرنے میں حرج نہیں ہے۔ تاہم جب تک الکحل کی تفصیل کا علم نہ ہو پرفیوم کے استعمال سے اجتناب ہی بہترہے۔ آج کل تو ایسے پرفیوم بھی بازار میں ملتے ہیں جن پر (الکحل فری) لکھاہوتا ہے، ان کو استعمال کرسکتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 40/1062
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ غیرمعتاد ہ کے لئےحیض کی اکثر مدت دس دن ہے۔ لہذا صورت مسئولہ میں دس دن مکمل ہونے سے پہلے جب بھی خون دیکھے گی وہ حیض میں شمار ہوگا۔ نویں دن غسل کرنے کے بعدجو خون دیکھا وہ حیض ہے ابھی نماز نہ پڑھے۔
۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 975/41-113
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ نے جو پڑھا وہ ٹھیک پڑھا، جماع سے غسل واجب ہوجاتا ہے خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔ ناپاکی کی حالت میں اب تک جو نمازیں پڑھی گئیں سب واجب الاعادہ ہیں۔ اندازہ کرکے تمام نمازیں لوٹانی لازم ہیں۔ فرائض و واجبات کو کسی عالم سے سمجھ لینا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ علوم دینیہ سے اس قدر بیزاری افسوسناک ہے۔ اللہ صحیح فہم عطاکرے۔
وخرجه الإمام أحمد، عَن عفان، عَن همام وأبان، عَن قتادة، ولفظ حديثه: ((إذا جلس بين شعبها الأربع، فأجهد نفسه، فَقد وجب الغسل، أنزل أو لم ينزل)) . (فتح الباری لابن رجب 1/367)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
اسلامی عقائد
Ref. No. 1621/43-1185
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر فلاں بات قرآن پاک میں نہ ہوتی تو میں اس کو بکواس سمجھتا وغیرہ جملوں میں نہ توقرآن کا انکار ہے اور نہ ہی اللہ کا۔ بلکہ یہ جملے ایمان کی بنیاد پر ہوتے ہیں کہ گرچہ دل و دماغ اس پر راضی نہیں ہے مگر پھر بھی اللہ کا حکم ہونے اور قرآن کا حصہ ہونے کی وجہ سے میں اس کو مانتا ہوں اور ایمان لاتاہوں۔ چونکہ اس جملہ کی بنیاد ایمان پر ہے، اس میں قرآن وکلام الہی کا انکار نہیں ہے اس لئے اس سے کفر لازم نہیں آیا۔ تاہم ایسے جملوں کے بولنے میں احتیاط برتنی چاہئے ۔
إذا كان في المسألة وجوه توجب الكفر، ووجه واحد يمنع، فعلى المفتي أن يميل إلى ذلك الوجه كذا في الخلاصة في البزازية إلا إذا صرح بإرادة توجب الكفر، فلا ينفعه التأويل حينئذ كذا في البحر الرائق، ثم إن كانت نية القائل الوجه الذي يمنع التكفير، فهو مسلم، وإن كانت نيته الوجه الذي يوجب التكفير لا تنفعه فتوى المفتي، ويؤمر بالتوبة والرجوع عن ذلك وبتجديد النكاح بينه وبين امرأته كذا في المحيط. (الفتاوی الھندیۃ، مطلب فی موجبات الکفر، انواع منھا مایتعلق 2/282)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1814/43-1572
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شریعت نے میاں بیوی کے حقوق بیان کرکے، ان کے درمیان محبت اور پیار کو دائمی بنانے اوراس رشتہ کو حتی الامکان نبھانے کی اہمیت پر زور دیا ہے، اور بغیر شرعی عذر کے طلاق دینے پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ شوہر کی ذمہ داری ہے کہ طلاق دینے سے پہلے خوب غوروفکر کرلے، اور عواقب پر نظر رکھتے ہوئے کوئی قدم اٹھائے۔ طلاق دینے کو معمولی کھیل نہ سمجھے بلکہ دونوں خاندانوں کی عزت و سماجی حیثیت پر بھی نظر رکھے۔ اور جب کسی طرح سے نباہ ہونےکا امکان نہ ہو، تو ایک طلاق دے کر بیوی سے الگ ہوجائے۔ طلاق دینا یا بات بات پرطلاق کو معلق کرنا شریفوں کا کام نہیں ہے۔
صورت مسئولہ میں عائشہ عدت کے بعدزید کے والد کے گھر جائے یا عدت کے دوران جائے، ہر حال میں شرط کے پائے جانے کی وجہ سے زید کے والد کی بیوی پر فقہ حنفی کی روشنی میں تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔ کیونکہ طلاق عائشہ کے گھر میں آنے پر معلق ہے ، نیز سسر اور بہو میں ابدی حرمت کا تعلق ہے۔ عائشہ ،زید کے نکاح میں رہے یا نہ رہے وہ بہرحال اس کی بہو رہے گی۔اس لئے عدت کے اندر جائے یا عدت کے بعد جائے دونوں صورتوں میں اس کی بیوی کو طلاق واقع ہوگی۔
وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق (فتاوی ہندیہ، (الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما:1 /420،ط:دار الفكر)
"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة و ثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا و يدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية."
(فتاوی ہندیہ، کتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به 473/1، ط: دار الفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2012/44-2007
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ رکوع نماز کا رکن ہے اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی ہے۔ جن لوگوں سے رکوع فوت ہوگیا ان کی نماز نہیں ہوئی۔ البتہ اگر کچھ لوگوں نے اپنے اندازے سے تاخیر سے رکوع کرلیا تھا اور نماز پوری کی تھی تو ان کی نماز درست ہوگئی گوکہ امام کے ساتھ رکوع کی ادائیگی میں تاخیر ہوئی ہو۔ لیکن جن کا رکوع بالکلیہ فوت ہوگیا ان کی نماز نہیں ہوئی۔ ان کو چاہئے کہ کسی دوسری جگہ جاکر عید کی نماز اداکرلیں۔اور اگر کسی دوسری جگہ عید کا وقت بھی نکل چکا ہے تو اب توبہ واستغفار کریں ، نماز عید کی قضا نہیں ہے۔
ولا یصلیھا وحدھ إن فاتت مع الإمام ولو بالإفساد اتفاقاًفی الأصح کما في تیمم البحر، وفیھا یلغز: أي رجل أفسد صلاة واجبة علیہ ولا قضاء (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب العیدین، ۳:۵۸، ۵۹)۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 2219/44-2355
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حضرت تھانوی رحم اللہ علیہ کی کتابیں اسلام کے سمجھنے میں مفید ہیں، لیکن حضرت کی کتابوں کی تعداد کا صحیح علم نہیں ہے اس لئے کہ بعض کتابیں حضرت نے خود تصنیف کی ہیں بعض کتابیں بعد میں ان کی کتابوں کی روشنی میں تیار ہوئی ہیں اور جتنی کتابوں کا علم ہے ان تمام کا یہاں احاطہ نہیں کیا جا سکتا ہے تاہم چند کتابیں یہ ہیں۔
(۱) اشرف الجواب (۲) احکام اسلام عقل کی نظر میں (۳) امداد الفتاوی (۴) آداب معاشرت (۵) بوادر النوادر (۶) الحیلۃ الناجزہ (۷) خطبات حکیم الامت (۸) تفسیر بیان القرآن (۹) بہشتی زیور (۱۰) نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب (۱۱) اغلاط العوام (۱۲) دین کی باتیں (۱۳) الافاضات الیومیہ من الافادات القومیہ (۱۴) حیات المسلمین (۱۵) اصلاح الرسوم (۱۶) المصالح العقلیہ (۱۷) جمال القرآن (۱۸) التکشف عن مہمات التصوف(۱۹) الانتباہات المفیدہ (۲۰) حقیقۃ الطریقۃ۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتابیں مختلف اور متنوع موضوعات پر ہیں، اس مناسبت سے ہر فن کی کچھ کتابوں کے نام لکھ دئے گئے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2330/44-3492
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حرم شریف سے باہر سڑکوں، راستوں، دوکانوں اور ہوٹلوں میں اقتداء کے صحیح ہونے کے لئے ضروری ہے کہ صفیں متصل ہوں، اگر صفیں متصل نہ ہوں بلکہ درمیان میں کوئی عام راستہ ہو یا دو صفوں کے بقدر خلاء ہو تو انقطاع کی وجہ سے اقتداء درست نہ ہوگی، ہاں اگر صرف دیوار حائل ہواور وہاں امام کے انتقالات کا علم ہو رہاہو تو اقتداء درست ہے۔
ویجوز اقتداء جار المسجد بامام المسجد وھو فی بیتہ اذا لم یکن بینہ و بین المسجد طریق عام (الھندیۃ 1/88)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند