فقہ

Ref. No. 1893/43-1785

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   وہ اخراجات جوپیداوار حاصل کرنے کے لئے زراعت کے امور میں سے ہوتے ہیں، وہ اخراجات عشر ادا کرنے سے پہلے منہا نہیں کیے  جائیں گے۔البتہ  پیداوار تیار ہونے کے بعد اس کی کٹائی اور اس کے بعد پیداوار کو منڈی تک پہنچانے وغیرہ کے اخراجات عشر ادا کرنے سے پہلے منہا کیے  جاسکتے   ہیں ۔

ٹھیکے پر لینے کی صورت میں اگر کل پیداوار ٹھیکے دار کی ہوگی تو اسی پر عشر ادا کرنا لازم ہوگا، اور اس میں وہی تفصیل ہے جو ابھی بیان ہوئی، اور ٹھیکہ چونکہ امورزراعت میں سے نہیں ہے، ،اس لئے ٹھیکہ کی قیمت منہا کی جائے گی۔  زمین کے مالک پر بصورت تکمیل نصاب، زکوۃ واجب ہوگی۔

"إذا كانت الأرض عشريةً فأخرجت طعاماً وفي حملها إلى الموضع الذي يعشر فيه مؤنة فإنه يحمله إليه ويكون المؤنة منه) الفتاویٰ التاتارخانیہ, کتاب العشر،الفصل السادس  فی التصرفات فیما یخرج من الارض،  ج: 3، صفحہ:292،  ط:   زکریا(

قبل رفع مؤن الزرع) بضم الميم وفتح الهمزة جمع المؤنة وهي الثقل والمعنى بلا إخراج ما صرف له من نفقة العمال والبقر وكري الأنهار وغيرها مما يحتاج إليه في الزرع..." الخ) مجمع الأنہر 1 / 216، باب زکاۃ الخارج، ط: دار احیاء التراث العربی(

'' والعشر على المؤجر كخراج موظف، وقالا: على المستأجر كمستعير مسلم۔ وفي الحاوي : وبقولهما نأخذ……..

 (قوله: وبقولهما نأخذ) قلت: لكن أفتى بقول الإمام جماعة من المتأخرين كالخير الرملي في فتاواه وكذا تلميذ الشارح الشيخ إسماعيل الحائك مفتي دمشق وقال: حتى تفسد الإجارة باشتراط خراجها أو عشرها على المستأجر كما في الأشباه، ۔۔۔۔۔۔ فإن أمكن أخذ الأجرة كاملة يفتى بقول الإمام، وإلا فبقولهما لما يلزم عليه من الضرر الواضح الذي لايقول به أحد''۔ (الدر المختار مع رد المحتار: کتاب الزکاة، باب العشر، فروع فی زکاة العشر(2/ 334)، ط: سعید(

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

آداب و اخلاق

Ref. No. 2002/44-1952

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اذان کے لئے صالح اور متقی شخص کا انتخاب کرنا چاہئے، اس کے اثرات مرتب ہو ں گے۔ مؤذن کو مزید کسی بزرگ اور کسی بااثر شخصیت سے ملاقات کرائیں شاید ان کی بات سمجھ میں آجائے۔  جب کوئی حیلہ کارگر نہ ہو تو انتظامیہ سے کہیں کہ اس کی جگہ کسی دوسرے متقی اور صالح شخص کو مؤذن مقرر کرے۔

وینبغی أن یکون المؤذن رجلاً عاقلاً صالحاً تقیاً عالماً بالسنۃ ......... ویکرہ اذان الفاسق ولایعاد ھکذا فی الذخیرۃ۔ (عالمگیریۃ ص ۶۰، ج ۱)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے ایمان و عدم ایمان کے بارے میں رجحانات مختلف ہیں نیز کوئی صحیح روایت اس مسئلہ میں نہیں ملتی؛ اس لئے مختار مسلک توقف کا ہے کہ یہ مسئلہ ایمانیات و اعمال سے متعلق نہیں ہے، آخرت میں اس کے بارے میں کسی سے کوئی سوال نہ ہوگا؛ اس لئے اس کی تحقیق نہ کرتے ہوئے خاموشی اختیار کی جائے۔(۱)

(۱) فقد صرح النووي والفخر الرازي بأن من مات قبل البعثۃ مشرکاً فہو في النار، وعلیہ حمل بعض المالکیۃ ما صح من الأحادیث في تعذیب أہل الفترۃ بخلاف من لم یشرک منہم ولم یوجد بل بقي عمرہ في غفلۃ من ہذا کلہ ففیہم الخلاف، وبخلاف من اہتدی منہم بعقلہ کقس بن ساعدۃ وزید بن عمرو بن نفیل فلا خلاف في نجاتہم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب النکاح: باب نکاح الکافر، مطلب: في الکلام علی أبوي النبي وأہل الفترۃ‘‘: ج۳، ص: ۱۸۵)

  فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 197

اسلامی عقائد

 Ref. No. 2438/45-3693

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   بہتاہوا خون نجس ہے، اور نجس سے علاج کرنا جائز نہیں ہے، اس لئے مذکورہ پیر کا یہ عمل فاسقانہ ہے، اس سے علاج کرانا بھی درست نہیں ہے۔ پیر کا اپنے مرید کو پان چباکر دینا جائز ہے، اگر مرید کی طبیعت  اس پان کو کھانا گوارا  کرے تو اس کو استعمال کرسکتاہے،  اس لئے کہ آدمی کا جھوٹا پاک ہے۔ البتہ اگر کوئی فاسق آدمی ہو تو اس کا جھوٹا استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔

قُلْ لَّآ اَجِدُ فِيْ مَآ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلٰي طَاعِمٍ يَّطْعَمُهٗٓ اِلَّآ اَنْ يَّكُوْنَ مَيْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِيْرٍ فَاِنَّهٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ   ۚ  فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ (القرآن: سورۃ الانعام  ١٤٥)

فسوٴر آدمي مطلقاً ولو جنبا أو کافرًا۔۔۔۔۔ طاہر الفم ۔۔۔۔۔ طاہر (درمختار)

الاسرار المرفوعة: (209/1، ط: موسسة الرسالة)
وَأَمَّا مَا يَدُورُ عَلَى الْأَلْسِنَةِ مِنْ قَوْلِهِمْ سُؤْرُ الْمُؤْمِنِ شِفَاءٌ فَصَحِيحٌ مِنْ جِهَةِ الْمَعْنَى لِرِوَايَةِ الدَّارَقُطْنِيِّ فِي الْأَفْرَادِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ مَرْفُوعًا مِنَ التَّوَاضِعِ أَنْ يَشْرَبَ الرَّجُلُ مِنْ سُؤْرِ أَخِيهِ أَيِ الْمُؤْمِن.
کشف الخفاء: (555/1)
قال ابن نجم لیس بحدیث نعم رواہ الدارقطني عن ابن عباس بلفظ: من التواضع أن یشرب الرجل من سوٴر أخیہ،

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2570/45-3938

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   آیت سجدہ کی  تلاوت کرنے یا سننے سے سجدہٴ تلاوت واجب ہوتا ہے، صرف ترجمہ یا تفسیر پڑھنے سے اور سننے سے سجدہٴ تلاوت واجب نہیں ہوتا ہے۔ لہذا جتنی آیات سجدہ پڑھی ہیں اتنے سجدے ہی واجب ہوں گے، ان آیات کا ترجمہ و تفسیر سے مزید کوئی سجدہ واجب نہ ہوگا۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسی صورت اختیار کی جائے کہ تعلیم وغیرہ کا نقصان نہ ہو، اگر امامت وتعلیم کا متبادل نظم ہو سکے، تو جماعت میں جانے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن مذکورہ شخص اگر ملازم ہے، تو شرائط ملازمت کی پابندی ضروری ہے۔ (۱)

(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال تدارس العلم ساعۃ من اللیل خیر من إحیائہا، رواہ الدارمي۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب العلم: الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۳۶، رقم: ۲۵۶)
وعن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مر بمجلسین في مسجدہ فقال کلاہما علی خیر وأحدہما أفضل من صاحبہ أما ہٰؤلاء فیدعون اللّٰہ ویرغبون إلیہ فإن شاء أعطاہم وإن شاء منعہم وأما ہٰؤلاء فیتعلمون الفقہ أو العلم ویعلّمون الجاہل فہم أفضل وإنما بعثت معلماً ثم جلس فیہم۔ رواہ الدارمي۔ (’’أیضاً‘‘: رقم: ۲۵۷)
(فہم أفضل) لکونہم جامعین بین العبادتین وہما الکمال والتکمیل فیستحقون الفضل علی جہۃ التبجیل۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم، الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۴۷۰، رقم: ۲۵۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص325

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: ایسا کرنا احتیاط کے خلاف ہے۔ بعض صورتوں میں ناپاکی کا اندیشہ ہے؛ اس لیے پہلے ڈبہ کو دھو لینا چاہیے۔ اگر غالب گمان فرش کی ناپاکی کا ہو، تو بالٹی کا پانی ناپاک ہوجائے گا۔(۱)

(۱) ولا بأس بالوضوء والشرب من حب یوضع کوزہ في نواحي الدار مالم یعلم تنجسہ ۔۔۔ إلی: مالم یتیقن النجاسۃ۔ (احمد بن اسماعیل الحنفي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، کتاب الطہارۃ، قبیل: فصل في بیان السؤر،ص:۲۸)؛ والکوز الذي یوضع في نواحي البیت لیغترف بہ من الحب فإن لہ أن یشرب و یتوضأ منہ مالم یعلم أن بہ قذراً (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث: في المیاہ، الفصل الثاني: فیما لا یجوز بہ التوضؤ، ج۱، ص:۷۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص420

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:اگر کنواں شرعی حوض کی طرح دہ در دہ نہ ہواور وہ ناپاک ہو جائے، تو ایک ہی دفعہ میں سارا پانی نکالنا ضروری نہیں ہے، اگر تھوڑا تھوڑا پانی کر کے کئی مرتبہ میں پانی نکالا جائے اور اندازے کے مطابق پورا پانی نکل جائے، تو کنواں پاک ہو جا ئے گا اور پورا پانی جب تک نہ نکلے، اس وقت اس پانی سے دھوئے ہوئے کپڑے اور برتن ناپاک ہوں گے اور ان کپڑوں کو پہن کر جو نماز پڑھی گئی ہے، وہ نماز بھی لوٹائی جائے گی۔(۱)

(۱)و لو نزح بعضہ ثم زاد في الغد نزح قدر الباقي في الصحیح خلاصۃ قولہ ’’خلاصۃ‘‘ و مثلہ في الخانیۃ، وھو مبني علی أنہ لا یشترط التوالي وھو المختار: (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، فصل في البئر،ج ۱، ص:۳۶۹)؛ و لا یشترط التوالي في النزح حتی لو نزح في کل یوم دلو، جاز۔(ابن نجیم، البحر الرائق، کتاب الطہارۃ، ج۱، ص:۲۰۹)؛  وکذلک اختلفوا في التوالي في النزح، فبعضھم شرطوا التوالي، و بعضھم لم یشترطوا، ثم علی قول من لم یشترط التوالي إذا نزح بعض الماء في الیوم، ثم ترکوا النزح، ثم جاؤوا من الغد فوجدوا الماء قد ازداد فعند بعضھم ینزح کل ما فیہ، و عند بعضھم مقدار ما بقي عند ترک النزح من الأمس، وفي الفتاویٰ العتابیۃ: ھو الصحیح۔ (عالم بن علاؤ الدین الحنفي،الفتاویٰ التارخانیہ، کتاب الطہارۃ، الفصل الرابع، في المیاہ التي یجوز الوضوء بھا، ج۱، ص:۳۲۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص468

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فقہاء کا متفقہ اصول یہ ہے کہ اگر تفسیر کی عبارت و الفاظ زیادہ ہوں، تو بغیر وضو چھونا جائز ہے اور اگر قرآن کی عبارت و الفاظ تفسیر سے زیادہ ہوں، تو اس کو بغیر وضو چھونا جائز نہیں ہے؛ لہٰذا معارف القرآن اور جلالین جیسی کتابوں کو بغیر وضو چھونا جائز ہے۔ اگرچہ بہتر یہ ہے کہ وضو کے ساتھ چھوا جائے۔(۱)

(۱) (ولو قیل بہ) أي بھذا التفصیل بأن یقال۔ إن کان التفسیر أکثر لا یکرہ و إن کان القرآن أکثر یکرہ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار،’’کتاب الطہارۃ، مطلب یطلق الدعاء علی ما یشمل الثناء،‘‘ ج۱، ص:۳۲۰)؛ و قال الحلواني۔ إنما قلت ھذا العلم بالتعظیم فإني ما أخذت الکاغذ إلا بطھارۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض،‘‘ ج۱، ص:۳۵۰) ؛  و  قد جوز بعض أصحابنا مس کتب التفسیر للمحدث ولم یفصلوا بین کون الأکثر تفسیراً ولو قیل بہ إعتباراً للغالب لکان حسناً۔ (طحطاوی، حاشیہ الطحطاوی، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض والنفاس والاستحاضۃ،‘‘ ج۱، ص:۱۴۴)
 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص138

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ٹخنے سے نیچے پائجامہ رکھنا سخت گناہ ہے؛ لیکن اس سے وضو نہیں ٹوٹتا؛ اس لیے کہ وضو کسی چیز کے نکلنے سے ٹوٹتاہے۔ عن أبي ھریرۃ أن رسول اللّٰہ ﷺ قال: لا ینظر اللّٰہ یوم القیامۃ إلیٰ من جر إزارہ بطرا۔
و عن أبي ھریرۃ عن النبي ﷺ قال: ما أسفل من الکعبین من الإزار في النار۔(۲)عن ابن عمر قال قال رسول اللّٰہ ﷺ :من جر ثوبہ من الخیلاء لم ینظر اللّٰہ إلیہ یوم القیامۃ۔ (۳)عن أبي أمامۃ الباھلي۔۔۔ فقلت الوضوء یارسول اللّٰہ؟ و قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم : إنما علینا الوضو مما یخرج لیس مما یدخل۔(۴)

(۲)أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب اللباس، باب ما أسفل من الکعبین ففی النار،‘‘ ج۲، ص:۸۶۱
(۳)أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب اللباس والزینۃ، باب تحریم جر الثوب خیلاء،‘‘ ج۲، ص:۱۹۵
(۴) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ، فصل: و أما بیان ما ینقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۱۱۹

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص238