نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس سلسلہ میں مسجد کی کمیٹی کو ضابطہ بنا لینا ضروری ہے ضابطہ بناتے وقت مسجد کی آمد اور اس کے اخراجات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے مثلاً حج فرض کے لیے رخصت ملے گی حج نفل کے لیے رخصت کی صورت میں تنخواہ وضع ہوگی یا کسی صورت کا بہر صورت مناسب متبادل نظم کرنا ضروری ہوگا پھر اسی ضابطہ کے مطابق عمل کیا جانا چاہئے۔(۱)

(۱) نقل في القنیۃ عن بعض الکتب أنہ ینبغي أن یسترد من الإمام حصۃ مالم یؤم فیہ، قال ط: قلت: وہو الأقرب لغرض الواقف۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الوقف، مطلب اشتری بمال الوقف، داراللوقف یجوز‘‘: ج۶، ص: ۶۲۹، زکریا دیوبند)
 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص312

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو بچے بہت زیادہ چھوٹے ہوں اور ان کو بالکل شعور نہ ہو ماں باپ سے علیحدہ نہ رہ سکتے ہوں، پیشاب وغیرہ کا خیال نہ رکھنے ہوں اتنے چھوٹے بچوں کو مسجد لانا درست نہیں ہے۔ حدیث میں اس قدر چھوٹے بچوں کو لانے سے منع کیا گیا ہے۔
’’إن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: جنبوا مساجدکم صبیانکم، ومجانینکم، وشرائکم، وبیعکم، وخصوماتکم، ورفع أصواتکم، وإقامۃ حدودکم، وسل سیوفکم، واتخذوا علی أبوابہا المطاہر، وجمروہا في الجمع‘‘(۱)
جو بچے شعور و ادراک رکھتے ہیں اور تنہا اسکول یا مدرسہ پڑھنے جاتے ہیں ایسے بچوں کو مسجد میں  لانا درست ہے تاکہ وہ مسجد کے ماحول سے مانوس ہوں اور ابتداء سے ہی نماز کی عادت بن جائے یہی وجہ ہے کہ بالغ ہونے سے پہلے سات سال کی عمر کے بچوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی تعلیم دینے کا حکم دیا ہے؛ اس لیے ایسے بچوں کو مسجد میں لانا بچوں کو مسجد کے ماحول سے مانوس کرنے کے لیے بہتر قدم ہے۔ اب دوسرا مسئلہ ہے کہ بچے نماز کی صفوں میں کہاں کھڑے ہوں گے اس سلسلے میں حکم یہ ہے کہ اگر صرف ایک بچہ ہے تو وہ مرد حضرات کے ساتھ صفوں میں کھڑا ہوگا اور اگر بچے متعدد ہوں تو بچوں کی صف مرد حضرات کی صف سے پیچھے لگائی جائے گی۔
’’(قولہ: و یصف الرجال ثم الصبیان ثم النساء)؛ لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: لیلیني منکم أولو الأحلام والنہي … و لم أر صریحًا حکم ما إذا صلی ومعہ رجل و صبيّ، و إن کان داخلاً تحت قولہ: ’’و الإثنان خلفہ‘‘ و ظاہر حدیث أنس أنہ یسوی بین الرجل و الصبي و یکونان خلفہ؛ فإنہ قال: فصففت أنا و الیتیم ورائہ، و العجوز من ورائنا، و یقتضی أیضًا أن الصبيّ الواحد لایکون منفردًا عن صف الرجال بل یدخل في صفہم، وأن محلّ ہذا الترتیب إنما ہو عند حضور جمع من الرجال و جمع من الصبیان فحینئذ تؤخر الصبیان‘‘(۱)
’’عن أنس بن مالک أن جدتہ ملیکۃ دعت رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لطعام صنعتہ لہ فأکل منہ ثم قال قوموا فلأصل لکم قال أنس: فقمت إلی حصیر لنا قد اسود من طول ما لبس فنضحتہ بماء فقام رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وصففت والیتیم ورائہ والعجوز من ورائنا فصلی لنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رکعتین ثم انصرف‘‘(۲)
لیکن اگر بچے شرارتی ہوں اور اندیشہ ہے کہ بچوں کو علا حدہ صف میں کھڑا کرنے کی صورت میں بچے شرارت اورشور کریں گے جس کی وجہ سے بڑوں کی نمازوں میں بھی خلل واقع ہوگا، تو ایسی صورت میں بچوں کے لیے علا حدہ صف لگانے کے بجائے مردوں کی صف میں ہی کھڑا کیا جائے  تاکہ بچوں کی شرارت سے دیگر نمازیوں کی نماز میں خلل واقع نہ ہو۔ مختلف حضرات فقہا نے اس کی صراحت کی ہے کہ شرارت کرنے کی صورت میں بچوں کے لیے علیحدہ صف نہ لگائی جائے؛ بلکہ ان کو اپنی صفوں میں کھڑا کیا جائے۔
’’(قولہ: ذکرہ في البحر بحثًا) قال الرحمتي: ربما یتعین في زماننا إدخال الصبیان في صفوف الرجال، لأنّ المعہود منہم إذا اجتمع صبیّان فأکثر تبطل صلاۃ بعضہم ببعض و ربما تعدّی ضررہم إلی إفساد صلاۃ الرجال، انتہی‘‘(۱)
اگر نابالغ بچے ایک سے زائد ہوں تو ان کی صف مردوں کی صف کے پیچھے ہونی چاہیے یہ حکم بطور استحباب یا بطور سنت ہے بطور وجوب نہیں ہے۔(۲)
عید وغیرہ کے موقع پر جہاں ازدحام زیادہ ہو وہاں پر مردوں کی صف میں بچوں کو کھڑا کر سکتے ہیں بچوں کو پیچھے کرنا ضروری نہیں ہے اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ بچے اگر بڑوں کی صف میں ہوں گے تو بڑوں کی نماز بھی فاسد ہوجائے گی یہ غلط تصور ہے اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ ہاں درمیان صف میں کھڑا کرنے میں ممکن ہے کہ بچے کے شرارت کریں اور ادھر ادھر حرکت کرنے کی وجہ سے ساتھ میں پڑھنے والے نمازیوں کی نماز میں خلل واقع ہو؛ اس لیے بہتر ہے کہ ایسے بچوں کو مردوں کی صف میں ہی کنارے میں کھڑا کیا جائے۔

(۱) أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’أبواب المساجد والجماعات، باب مایکرہ في المساجد‘‘: ج۱ ، ص: ۵۴، رقم: ۷۵۰۔
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۳، ص: ۴۱۶۔
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الصلوۃ علی الحصیر‘‘: ج۱، ص:۵۵، رقم: ۳۸۰۔
(۱) الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۷۱۔
(۲) ’’ثم الترتیب بین الرجال و الصبیان سنۃ لا فرض ہو الصحیح‘‘۔ (إبراہیم بن محمد الحلبي، غنیۃ المتملی شرح منیۃ المصلي: ص: ۴۸۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص424

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  نماز پاک اور صاف جگہ پر پڑھی جائے اگر بیڈ پاک اور صاف ہو، تو اس پرنماز پڑھنا درست ہے، دوسرے یہ کہ جس گدے پر نماز پڑھی جائے وہ ایسا نرم نہ ہو کہ اس پر سر ٹک نہ سکے، اگر گدا ایسا سخت ہے کہ اس پر سجدہ کے وقت سر ٹک جاتا ہے، گد گدا پن نہیں رہتا، تو اس پر نماز درست ہے اور بہتر یہ ہے کہ زمین پر بغیر موٹے گدے کے نماز پڑھیں۔(۱)

(۱) ویفترض السجود علی مایجد الساجد حجمہ بحیث لوبالغ لاتسفل رأسہ أبلغ مما کان حال الوضع … وتستقر علیہ جبہتہ فیصح السجود۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ:  باب شروط الصلاۃ‘‘: ص: ۲۳۱، مکتبہ شیخ الہند، دیوبند)
ولو سجد علی الحشیش أو التبن أو علی القطن أو الطنفسۃ أو الثلج إن استقرت جبہتہ وأنفہ ویجد حجمہ یجوز وأن لم یستقر لا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع: في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ، ومنہا: السجود‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۷، زکریا دیوبند)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص337

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نماز استسقاء باجماعت پڑھنا مستحب ہے اور صاحبین ؒکے نزدیک سنت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نماز باجماعت پڑھنا ثابت ہے؛ اس کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ امام ایک دن متعین کرے وہاں دو رکعت بغیر اذان واقامت کے پڑھائے، جہراً قرأت کرے، نماز کے بعد دو خطبہ دے، اور خطبہ میں چادر پلٹے پھر قبلہ رو کھڑے ہو کر دعاء مانگے، استسقاء کے لیے تین روز نکلنا مستحب ہے۔
’’فالحاصل أن الأحادیث لما اختلفت في الصلاۃ بالجماعۃ وعدمہا علیٰ وجہ لا یصح بہ إثبات السنیۃ لم یقل أبو حنیفۃ بسنیتہا، ولا یلزم منہا قولہ بأنہا بدعۃ کما نقلہ عنہ بعض المتعصبین، بل ہو قائل بالجواز اھـ۔ قلت : والظاہر أن المراد بہ الندب والاستحباب لقولہ في الہدایۃ۔ قلنا: إنہ فعلہ علیہ السلام مرۃ وترکہ أخری فلم یکن سنۃ اھـ۔ أن السنۃ ما واظب علیہ، والفعل مرۃ مع الترک أخری یفید الندب۔ تأمل۔ قولہ: کالعید أي بأن یصلي بہم رکعتین یجہر فیہما بالقراء ۃ بلا أذان ولا إقامۃ، ثم یخطب بعدہا قائماً علی الأرض معتمداً علیٰ قوس أو سیف أو عصا خطبتین عند محمد وخطبۃ واحدۃ عند أبي یوسف…… خلافاً لمحمد فإنہ یقول: یقلب الإمام ردائہ إذا مضی صدر من خطبتہ‘‘(۱)
’’ویستحب الخروج لہ أي للاستسقاء ثلاثۃ أیام متتابعات‘‘(۲)

(۱)ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب الاستسقاء: ج ۳، ص: ۷۰ -۷۱، زکریا، دیوبند۔)
(۲)حسن بن عمار الشرنبلالي، المراقي مع الحاشیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الاستسقاء‘‘: ص: ۵۴۹، دارالکتاب۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص393

 

نکاح و شادی

Ref. No. 978

الجواب وباللہ التوفیق

کسی مسلمان لڑکے کا نکاح کسی ہندو لڑکی  کے ساتھ جائز ومنعقد نہیں ہوتا۔ قرآن کریم میں ہے: ولا تنکحوا المشرکات حتی یؤمن الآیۃ ۔۔ وکذا فی الدرالمختار۔ لہذا مذکورہ نکاح بالکل ناجائز و حرام ہے، نکاح منعقدہی  نہیں ہوگا۔ بہتر ہے کہ مذکورہ شخص کو اس گناہ کبیرہ اور اس پر مرتب ہونے والے اللہ کے غضب سے متعلق خوب اچھے انداز میں سمجھایا جائے ؛اللہ کرے کہ وہ باز آجائے۔ واللہ تعالی اعلم

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام سفر

Ref. No. 857/41-000

الجواب وباللہ التوفیق      

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں چونکہ آپ کا ارادہ مسافت سفر کا نہیں ہے، اس لئے آپ مقیم ہیں، نماز میں اتمام کریں۔ہاں اگر 36 میل سفر کرنے کے بعد 40 میل کا سفر کیا ، اور اب گھر لوٹنا ہے تو چونکہ مسافت سفر پوری ہے ، اسلئے واپسی میں آپ مسافر شمار ہوں گے اور قصر کریں گے۔

(من خرج من عمارة موضع إقامته) (قاصدا) ولو كافرا، ومن طاف الدنيا بلا قصد لم يقصر، (قوله قاصدا) أشار به مع قوله خرج إلى أنه لو خرج ولم يقصد أو قصد ولم يخرج لا يكون مسافرا ح. (شامی 2/122)

لا يصح القصر إلا إذا نوى السفر، فنية السفر شرط لصحة القصر باتفاق، ولكن يشترط لنية السفر أمران: أحدهما: أن ينوي قطع تلك المسافة بتمامها من أول سفره، فلو خرج هائماً على وجهه لا يدري أين يتوجه لا يقصر، ولو طاف الأرض كلها، لأنه لم يقصد قطع المسافة۔ (الفقہ علی المذاھب الاربعۃ 1/429)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Hadith & Sunnah

Ref. No. 1077/41-268

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

If a Taweez is consisting of Allah’s name or Quranic verses and it is sewn in cloth and packed carefully then one can go to bathroom or washroom while wearing it. Likewise if the taweez is placed inside the wallet and is fully covered, then too it is allowable to go to washroom along with the wallet though it is not recommended.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

اسلامی عقائد

Ref. No. 1404/43-1312

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ماں کا یہ جملہ کفریہ ہے، تجدید ایمان  اورتجدید نکاح لازم ہے۔ عورت توبہ کرے اور آئندہ اس طرح کے کلمات  ہرگز نہ نکالے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حج و عمرہ

Ref. No. 1894/43-1780

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   قانونی پابندیاں  کسی نہ کسی وجہ سے ہوتی ہیں، حکومتی قوانین کی خلاف ورزی درست نہیں ہے، اس لئے اس طرح کی دھوکہ دہی سے احتراز لازم ہے، جان و مال، عزت و آبرو کی حفاظت ضروری ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Taharah (Purity) Ablution &Bath

Ref. No. 2041/44-2017

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

It is obligatory to do the masah (wipe) of your head during ablution (wuzu), because it is an essential part of wuzu, so it will be necessary to wipe it in any possible way. And if there is a bandage on the entire head, you should wipe over the bandage and it will be sufficient. And Place your hand over your forehead and recite 'Ya qawiyyu' eleven times after each prayer. Keep your heart and mind calm and focus on the remembrance of Allah, no need to indulge so much in worldly affairs. Pay full attention to your prayers, recitation of the Holy Quran and seeking forgiveness. May Allah bless you and grant you recovery!

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband