Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:میت کے ایصال ثواب کے لیے قرآن پاک یا کلمہ طیبہ پڑھنا اور ایسا کھانا پکاکر غرباء اور مستحقین کو دینا اور یا کوئی نفلی کام میت کو ثواب پہونچانے کے لئے کرنا بہت اچھا ہے، مگر ان سب کاموں کے لیے رسمی طور سے جو لوگوں نے ایام اور اوقات کی تعیین اپنی طرف سے کر رکھی ہے کہ ان ایام اور اوقات میں لوگ اس رسم اور تعیین کی وجہ سے خود بخود ہی میت کے گھر پر جمع ہوجاتے ہیں پس ایسا کرنا بدعت ہے، بلکہ حدود شریعت میں رہ کر ایصال ثواب کا کام کہ جب بھی اتفاق ہو اور میسر آجائے کردینا چاہئے۔ قرآن خوانی اور ایصال ثواب بھی جب موقع ہو کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ پڑھنے والے طعام یا شیرینی کے لالچ میں نہ آئیں، پڑھنے والے بھی اخلاص کے ساتھ پڑھیں اور میت سے تعلق رکھنے والا خود ہی پڑھ کر ایصال ثواب کردے تو یہ سب سے بہتر اور افضل ہے۔ کھاناپکانے میں اور غرباء کو کھلانے میں رسم اور وقت کی تعیین رسمی طور پر نہ ہو اور کھانا میت کے مال سے نہ ہو؛ بلکہ اپنے طور پر ہو تو درست ہے اور میت کے مال سے اگر پکایا جائے، تو سبھی وارثوں کی اجازت حاصل کرلی جائے اور کوئی وارث مانع نہ ہو تب درست ہے اور میت کی پسند کا کھانا پکانا کہ زیادہ ثواب ہو اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے بے بنیاد بات ہے۔(۱)
(۱) فکم من مباح یصیر بالتزام من غیر لزوم والتخصیص من غیر مخصوص مکروہاً۔ (مجموعہ رسائل اللکنوي۔ (سباحۃ الفکر في الجہر بالذکر: ج ۳، ص: ۳۴)
مقرر کردن روز سوم وغیرہ بالتخصیص واورا ضروری انگاشتن در شریعت محمدیہ ثابت نیست۔ (تالیفات رشیدیہ، ’’کتاب البدعات‘‘: ص: ۱۴۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص401
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس قسم کی باتیں صرف مشہور ہیں، جو پرانے لوگوں سے چلی آرہی ہیں۔ شریعت اسلامیہ میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے، ایسی باتوں کا اعتقاد رکھنا شرعاً درست نہیں ہے۔(۳)
۳) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد، متفق علیہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص522
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: اگر تحریر سوال صحیح ہے، تو مذکورہ کنویں کا پانی اور کنواں بھی ناپاک ہے۔(۱)
(۱) و عن أبي أمامۃ الباھلي قال : قال رسول اللّٰہ ﷺ :إن الماء (طہور) لا ینجسہ شيء إلا ما غلب علی ریحہ و طعمہ و لونہ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، أبواب الطہارۃ و سننہا، باب الحیض، ج۱، ص:۳۹،رقم: ۵۲۱؛ و العینی، البنایہ ، کتاب الطہارۃ،باب الماء الذي یجوز بہ الوضوء ومالا یجوز بہ، ج۱، ص۳۵۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص479
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو عبادت غیر مقصودہ ہے اور عبادات غیر مقصودہ میں نیت شرط نہیں؛ لہٰذا وضو بغیر نیت کے بھی درست ہے، اس سے نماز پڑھنا صحیح ہے؛ البتہ اس پر ثواب مرتب نہیں ہوتا، حصول ثواب کے لیے وضو میں نیت کا پایا جانا ضروری ہے۔(۱)
(۱)و بیانہ أن الصلوٰۃ تصح عندنا بالوضوء، ولو لم یکن منویا بخلاف التیمم۔ و إنما تسن النیۃ في الوضوء لیکون عبادۃ فإنہ بدونھا لا یسمی عبادۃ ماموراً بھا: کما یأتي و إن صحت بہ الصلوٰۃ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ مطلب الفرق بین الطاعۃ والقربۃ،‘‘ج۱، ص:۲۲۳)، فالنیۃ في الوضوء سنۃ۔(ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص:۳۳)؛ و یستحب للمتوضی أن ینوي الطھارۃ فالنیۃ في الوضوء سنۃ عندنا و عند الشافعي فرض (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ‘‘ ج۱، ص:۲۰)
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص146
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:کھجلی کے دانوں سے نکلنے والے پانی سے متعلق حکم یہ ہے کہ اگر وہ پانی اتنا ہو کہ اپنی جگہ سے نکل کر بہہ جائے، تو ناقض وضو ہے ورنہ نہیں، جیسا کہ شامی میں ہے:
’’بخلاف نحو الدم والقیح ولذا أطلقوا في الخارج من غیر السبیلین کالدم والقیح والصدید أنہ ینقض الوضوء ولم یشترطوا سوی التجاوز إلی موضع یحلقہ حکم التطہیر‘‘(۱)
البحر الرائق میں ہے:
’’والمعاني الناقضۃ للوضوء کل ما خرج من السبیلین والدم والقیح إذا خرجا من بدن فتجاوز إلی موضع یلحقہ حکم التطہیر‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في ندب مراعاۃ الخلاف إذا لم یرتکب مکروہ مذہبہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۹۔
(۲) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارات: فصل في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص248
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:کان پر پانی کی دھار ڈال لینا کافی ہے اور احتیاطا کانوں کے سوراخ والے حصہ کو مَل لیا جائے، تو بہتر ہے۔
’’ولو لم یکن لہ بثقب أذنہ قرط فدخل الماء فیہ أي الثقب عند مرورہ علی أذنہ أجزأہ کسرۃ وأذن دخلہما الماء وإلا یدخل أدخلہ ولو باصبعہ ولا یتکلف بخشب ونحوہ والمعتبر غلبۃ ظنہ بالوصول … ولا یتکلف أي بعد الإمرار‘‘(۱)
’’ویجب تحریک القرط والخاتم الضیقین ولو لم یکن قرط فدخل الماء الثقب عند مرورہ أجزأہ کالسرۃ وإلا أدخلہ کذا في فتح القدیر ولا یتکلف في إدخال شيء سوی الماء من خشب ونحوہ کذا في شرح الوقایۃ‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب: في أبحاث الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۹۔
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص320
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر مسجد کی انتظامیہ یا اہل محلہ کی جانب سے امام صاحب کو مسجد میں مکتب چلانے کی صراحتاً یا دلالۃ اجازت ہے، تو امام صاحب کا اجرت لے کر قرآن کریم حفظ وناظرہ پڑھانا درست ہے اور اگر اجازت نہ ہو تو پھر پڑھانا درست نہیں، بصورت اجازت ملحوظ رہے کہ مسجد کی بے ادبی نہ ہو اور احتیاطاً مسجد کی صفوں اور لائٹ وغیرہ کے استعمال سے پرہیز کرے۔(۱)
(۱) لا لأجل الطاعات مئل الأذان والحج والإمامۃ وتعلیم القرآن والفقہ ویفتی الیوم بصحتہا لتعلیم القرآن والفقہ والإمامۃ والأذان۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب في الاستئجار علی الطاعات‘‘: ج۹، ص:۷۶)
فلا یجوز لأحد مطلقا أن یمنع مؤمناً من عبادۃ یأتی بہا في المسجد لأن المساجد مابني إلا لہا في صلاۃ واعتکاف وذکر شرعي وتعلیم علم وتعلمہ۔ (ابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ، فضل استقبال القبلۃ بالفرج في الخلاء‘‘:ج۱، ص:۶۵۰، بیروت)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص326
طلاق و تفریق
Ref. No. 2755/45-4286
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (نوٹ: اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوں کہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔ ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے)
جا تو آزاد ہے، یہ لفظ ہمارے عرف میں طلاق صریح کے لئے مستعمل ہے، اور لڑائی کے درمیان یہ الفاظ کئی بار کہے گئے ہیں، اس لئے طلاق کی نیت کے بغیربھی اس سے طلاق واقع ہوگئی۔ لہذا صورت مسئولہ میں اگر یہ لفظ آزاد کیا یا آزاد ہے تین بار سے زیادہ بولا ہے تو عورت طلاق مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی، اب دونوں کا ایک ساتھ رہنا ہر گز جائز نہیں ہے۔ عورت پر عدت لازم ہے، اور عدت کے بعد عورت کو کسی دوسرے مرد سے نکاح کا اختیار ہوگا۔
’’وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحا كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية‘‘(الدر المختا ر مع رد المحتار،کتاب الطلاق،باب صریح الطلاق،ج:3،ص:252،ط:سعید)
’’والأصل الذي عليه الفتوى في زماننا هذا في الطلاق بالفارسية أنه إن كان فيها لفظ لا يستعمل إلا في الطلاق فذلك اللفظ صريح يقع به الطلاق من غير نية إذا أضيف إلى المرأة، مثل أن يقول في عرف ديارنا: دها كنم أو في عرف خراسان والعراق بهشتم؛ لأن الصريح لا يختلف باختلاف اللغات وما كان في الفارسية من الألفاظ ما يستعمل في الطلاق وفي غيره فهو من كنايات الفارسية فيكون حكمه حكم كنايات العربية في جميع الأحكام والله أعلم.‘‘ (بدائع الصنائع:کتاب الطلاق،فصل فی النیۃ،ج:3،ص:102،دار الکتب العلمیۃ)
’’ولو قال في حال مذاكرة الطلاق باينتك أو أبنتك أو أبنت منك أو لا سلطان لي عليك أو سرحتك أو وهبتك لنفسك أو خليت سبيلك أو أنت سائبة أو أنت حرة أو أنت أعلم بشأنك. فقالت: اخترت نفسي. يقع الطلاق وإن قال لم أنو الطلاق لا يصدق قضاء.‘‘ (فتاوی ہندیہ کتاب الطلاق،الفصل الخامس،ج:1،ص:375،ط:دار الفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: قعدہ اخیرہ میں سلام سے پہلے عمداً حدث لاحق کردیا یعنی حدث کرکے نماز سے باہر نکلا تو فرض ساقط ہو جائے گا لیکن نماز واجب الاعادہ ہوگی اور اگر غیر اختیاری طور پر حدث لاحق ہوگیا تو بنا درست ہے۔(۱)
(۱) منہا الخروج بصنعہ کفعلہ المنافي لہا بعد تمامہا وإن کرہ تحریماً والصحیح أنہ لیس بفرض اتفاقاً قالہ الزیلعي وغیرہ وآثرہ المصنف وفي المجتبیٰ وعلیہ المتون۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب في القنوت للنازلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۸)۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص56
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام کے در میں کھڑے ہونے کو شامی نے مکروہ لکھا ہے اگر ضرورت ہی ہو تو امام کو چاہئے کہ قدم در سے باہر رکھے اور سجدہ در میں ہو جائے تو درست ہے۔ ورنہ بضرورت در میں کھڑے ہوکر نماز پڑھانے سے بھی نماز ہوجاتی ہے مگر اس سے بچنا ہی بہتر ہے۔
’’ویکرہ قیام الإمام وحدہ في الطاق وہو المحراب، ولا یکرہ سجودہ فیہ إذا کان قائماً خارج المحراب، ہکذا في التبیین‘‘(۱)
’’وکرہ … قیام الإمام في المحراب لا سجودہ فیہ وقدماہ خارجہ لإن العبرۃ للقدم۔ في معراج الدرایۃ من باب الإمامۃ: الأصح ما روي عن أبي حنیفۃ أنہ قال: أکرہ للإمام أن یقوم بین الساریتین أو زاویۃ أو ناحیۃ المسجد أو إلیٰ ساریۃ … لأنہ بخلاف عمل الأمۃ‘‘(۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السابع، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ و ما لا یکرہ‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۷۔
(۱) الحکصفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص:۴۱۴، زکریا دیوبند۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص181