طلاق و تفریق

Ref. No. 2707/45-4184

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ "جا میں نے تجھے چھوڑدیا" یہ جملہ طلاق کے لئے صریح ہے، اس لئے بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں اس جملہ سے بیوی پر طلاق واقع ہوگئی، اگر ایک مرتبہ بولا تو ایک طلاق،اور دو مرتبہ بولا تو دو طلاقیں رجعی واقع ہوگئیں۔  اب اگر عورت عدت میں ہے اور تین ماہواری ابھی پوری نہیں گزری ہے تو شوہر رجعت کرسکتاہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر بیوی سے  کہے کہ میں نے تجھ کو اپنی نکاح میں واپس لے لیا یا میاں بیوی والا تعلق قائم کرلے۔پھر یہ دونوں میاں بیوی ایک ساتھ رہ سکتے ہیں اور نکاح وغیرہ کی ضرورت نہیں  ہوگی ۔ البتہ شوہر  آئندہ طلاق دینے میں بہت احتیاط کرے کیونکہ اگر یہ دو طلاق ہوچکیں تو آئندہ صرف ایک طلاق دینے سے عورت بالکل حرام ہوجائے گی اور نکاح بھی نہیں ہوسکے گا۔

وإذا قال رہا کردم أي سرحتک یقع بہ الرجعي مع أن أصلہ کنایة أیضًا وما ذاک إلا لأنہ غلب في عرف الفرس استعمالہ في الطلاق وقد مر أن الصریح ما لم یستعمل إلا في الطلاق من أي لغةٍ کانت،( فتاوی شامی، كتاب الطلاق)

"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة ( بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس.

(قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل... (قوله: مع الكراهة) الظاهر أنها تنزيه كما يشير إليه كلام البحر في شرح قوله والطلاق الرجعي لا يحرم الوطء رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء -: إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائماً قبل انقضائها. اهـ. ... (قوله: كمس) أي بشهوة، كما في المنح". الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 397):

"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية". (الفتاوی الهندیة، ج:3، ص: 473، ط: ماجدية)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ امام کے پیچھے شرعاً نماز جائز و درست ہے۔(۲)

(۲) وإن قدموا غیر الأولیٰ فقد أساؤا ولکن لا یأثمون وفیہ لوأمّ قوماً وہم لہ کارہون فہو علی ثلاثۃ أوجہ: إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أو کانوا أحق بالإمامۃ منہ یکرہ: وإن کان ہو أحق بہا منہم ولافساد فیہ ومع ہذا یکرہونہ لایکرہ لہ التقدم۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۱، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص55

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: متعہ معتبر علماء وفقہاء کرام کے نزدیک حرام ہے(۴) جس کی حرمت صریح حدیث سے ثابت ہے(۵) اس لیے متعہ کے جواز کا قائل و فاعل فاسق ہے جس کی امامت و تقلید مکروہ تحریمی ہے، ایسے شخص کے بہکائے میں قطعاً نہ آئیں۔(۱)

(۴) ونکاح المتعۃ باطل وہو أن یقول لإمرأۃ أتمتع بک کذا مدۃ بکذا من المال۔ (المرغیناني،  ہدایۃ، ’’فصل في بیان المحرمات‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۰)
(۵) عن علي بن أبي طالب: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہی عن متعۃ النساء یوم خیبر وعن لحوم الحمر الإنسیۃ۔ (أخرجہ ابن ماجۃ،  في سننہ، ’’باب النہي عن نکاح المتعۃ‘‘: رقم: ۱۹۶۱)
(۱) قال الحصکفي ویکرہ إمامۃ عبد ومبتدع أي صاحب بدعۃ وہی اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لایکفر بہا وإن کفر بہا فلایصح الاقتداء بہ أصلا، قال ابن عابدین: قولہ وہي اعتقاد الخ، عزا ہذا التعریف في ہامش الخزائن إلی الحافظ ابن حجر في شرح النخبۃ ولایخفی أن الاعتقاد یشمل ماکان معہ عمل أولا فإن من تدین بعمل لابد أن یعتقدہ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۸۰- ۲۸۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص183

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: ایسے امام کے پیچھے متقی پرہیز گار لوگوں کی نماز یعنی فریضہ تو ادا ہو جائے گا، مگر اس کی امامت مکروہ تحریمی ہوگی، اس صورت میں کسی دیندار پرہیز گار مستحق امامت شخص کو امام مقرر کیا جائے تاکہ نماز جیسے اہم فریضہ کی ادائیگی سنت کے مطابق ہو جائے۔(۱)

(۱) وذکر الشارح وغیرہ أن الفاسق إذا تعذر منعہ یصلي الجمعۃ خلفہ وفي غیرہا ینتقل إلی مسجد آخر، وعلل لہ في المعراج بأن في غیر الجمعۃ یجد إماما غیرہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۱۱)
وکرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع فالحاصل أنہ یکرہ الخ، قال الرملي: ذکر الحلبي في شرح منیۃ المصلي أن کراہۃ تقدیم الفاسق والمبتدع کراہۃ التحریم۔ (أیضًا:)
ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق وأعمی ومبتدع أي صاحب بدعۃ، وفي النہر عن المحیط صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولٰی من الإنفراد لکن لاینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي۔ (ابن عابدین،  ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص273

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اذان کے بعد جو دعا پڑھی جاتی ہے، اسے زبانی پڑھنا چاہئے ہاتھ اٹھا کر دعاء پڑھنا ثابت نہیں ہے، اس لیے ہاتھ اٹھائے بغیر دعاء کرنی چاہئے۔
’’المسنون في ہذا الدعاء أن لاترفع الأیدی لأنہ لم یثبت عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم رفعہا‘‘(۱)
اذان کے وقت انگوٹھے چومنے اور آنکھوں سے لگانے کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے، نہ ہی احادیث سے یہ ثابت ہے اور نہ ہی خیر القرون میں اس کا ثبوت ملتا ہے، کفایت المفتی میں ہے: حضور کا نام سننے پر ابہام کو چومنا اور آنکھوں سے لگانا سنت نہیںہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ایسا حکم نہیں دیا ہے اور نہ ہی صحابہ ؓسے یہ عمل در آمد ہوا۔
’’الأحادیث التي رویت في تقبیل الأنامل وجعلہا علی العینین عند سماع اسمہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من المؤذن في کلمۃ الشہادۃ کلہا موضوعات‘‘ (۲)

(۱) الکشمیري، فیض الباري شرح البخاري، ’’کتاب الأذان: باب الدعاء عند النداء‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۴۔
(۲) مفتی کفایت اللہ، پانی پتی، کفایت المفتی: ج ۲، ص: ۱۶۶

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص160

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرائض کے بعد دعاء سے فارغ ہوکر مقتدیوں کو متفرق ہو جانا چاہئے، سنن ونوافل کے بعد اجتماعی دعا کا التزام ثابت نہیں ہے، کیوں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اکثر وبیشتر سنتیں گھر جاکر اداء فرماتے تھے؛ لہٰذا سنن ونوافل کے بعد اجتماعی دعا سے اجتناب کیا جائے۔
’’قیل لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أي الدعاء أسمع؟ قال جوف اللیل الآخر ودبر الصلوٰت المکتوبۃ(۱)، قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یطیل القرأۃ في الرکعتین بعد المغرب حتی یتفرق أہل المسجد‘‘(۲)

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، أبواب الدعوات، باب،: ج ۱، ص: ۲۸۰، رقم: ۳۴۹۹۔
(۲) أخرجہ أبوداود في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب تفریع أبواب التطوع ورکعات السنۃ، باب رکعتي المغرب أین تصلیان‘‘: ج۱، ص:۱۸۴، رقم: ۱۳۰۱۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص429

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: درست ہے لیکن پہلے سے سورتوں کو متعین کرلینا اچھا نہیں ہے۔(۱)

(۱) ویکرہ أن یوقت شیئاً من القرآن لشيء من الصلوات … وأما إذ قرأ لأجل الیسر علیہ أو تبرکاً بقراء تہ علیہ السلام فلا کراہیۃ في ذلک … الأفضل أن یقرأ في کل رکعۃ الفاتحۃ وسورۃ کاملۃ في المکتوبۃ … ہذا کلہ في الفرائض وأما في السنن فلا یکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الرابع في القرائۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۶، ۱۳۵، زکریا دیوبند)
لابأس أن یقرأ سورۃ ویعیدہا في الثانیۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فروع في القراء ۃ خارج الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص226

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مذکورہ میں دو رکعت سنت ہو گئی اور دو رکعت نفل ہوگئی۔(۱)

(۱) وفي روایۃ الجامع أربع رکعات بتسلیمۃ واحدۃ ولو لم یقعد علی رأس الشفع الأول القیاس أنہ لا یجوز وبہ أخذ محمد وزفر رحمہما اللّٰہ تعالیٰ وہو إحدی الروایتین عن أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ وفي الاستحسان یجوز وہو قول أبي حنیفۃ وأبي یوسف رحمہما اللّٰہ تعالیٰ واختلفوا علی قولہما أنہ متی جاز تجوز عن تسلیمۃ واحدۃ أم عن تسلیمتین، والأصح أنہ یجوز عن تسلیمۃ واحدۃ۔ (السرخسي، المبسوط، ’’کتاب التراویح، الفصل الثامن في الزیادۃ علی القدر المسنون‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص353

روزہ و رمضان

Ref. No. 836 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                         

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  تراویح کی اجرت متعین کرکے لین دین کرنا درست نہیں ہے، تاہم اگر مصلی حضرات اپنے طور پر کچھ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں  اور امام صاحب کے لئے اس کا لینا بھی درست ہوگا، یہی احوط ہے۔   واللہ تعالی اعلم  بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 38/862

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: بشرط صحت سوال صورت مسؤلہ میں جب تک شوہر طلاق نہ دیدے اس عورت سے کسی دوسرے کا نکاح حرام ہے۔ وہ عورت پہلے شوہر سے طلاق حاصل کرے، عدت گزارے اس کے بعد ہی آپ کا نکاح اس سے ممکن ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند