Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سفر شرعی کی قضا شدہ نمازیں جب گھر پر آکر قضا کی جائیں تو اس میں قصر لازم ہوگا۔(۱)
(۱) (والمعتبر في تغییر الفرض آخر الوقت) وہو قدر ما یسع التحریمۃ (فإن کان) المکلف (في آخرہ مسافراً وجب رکعتان وإلا فأربع)؛ لأنہ المعتبر في السببیۃ عند عدم الأداء قبلہ۔
قولہ: (والمعتبر في تغییر الفرض) أي من قصر إلی إتمام وبالعکس (قولہ: وہو) أي آخر الوقت قدر ما یسع التحریمۃ، کذا في الشرنبلالیۃ والبحر والنہر، والذي في شرح المنیۃ تفسیرہ بما لایبقی منہ قدر ما یسع التحریمۃ وعند زفر بما لایسع فیہ أداء الصلاۃ (قولہ: وجب رکعتان) أي وإن کان في أولہ مقیماً وقولہ: (وإلا فأربع) أي وإن لم یکن في آخرہ مسافراً بأن کان مقیماً في آخرہ فالواجب أربع۔ قال في النہر: وعلی ہذا قالوا: لو صلی الظہر أربعاً ثم سافر أي في الوقت فصلی العصر رکعتین ثم رجع إلی منزلہ لحاجۃ فتبین أنہ صلاہما بلا وضوء صلی الظہر رکعتین والعصر أربعاً؛ لأنہ کان مسافراً في آخر وقت الظہر ومقیماً في العصر قولہ: (لأنہ) أي آخر الوقت۔ قولہ: (عند عدم الأداء قبلہ) أي قبل الآخر۔
والحاصل: أن السبب ہو الجزء الذي یتصل بہ الأداء أو الجزء الأخیر إن لم یؤد قبلہ وإن لم یؤد حتی خرج الوقت فالسبب ہو کل الوقت۔ قال في البحر: وفائدۃ إضافتہ إلی الجزء الأخیر اعتبار حال المکلف فیہ، فلو بلغ صبي أو أسلم کافر أو أفاق مجنون، أو طہرت الحائض أو النفساء في آخرہ لزمتہم الصلاۃ ولو کان الصبي قد صلاہا، في أولہ وبعکسہ لو جن أو حاضت أو نفست فیہ لفقد الأہلیۃ عند وجود السبب، وفائدۃ إضافتہ إلی الکل عند خلوہ عن الأداء أنہ لایجوز قضاء عصر الأمس في وقت التغیر وتمام تحقیقہ في کتب الأصول۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۱۳، ۶۱۴)
وفائتۃ السفر والحضر تقضي رکعتین وأربعا والمعتبر فیہ آخر الوقت قولہ: (وفائتۃ السفر والحضر تقضي رکعتین وأربعا) لف ونشر مرتب أي فائتۃ السفر تقضي رکعتین وفائتۃ الحضر تقضي أربعا، لأن القضاء بحسب الأداء۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۱)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:331
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: وطن اصلی متعدد ہوسکتے ہیں مثلاً ایک وطن ولادت جہاں جدی وطن ہو، دوسری وہ جگہ جہاں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بود و باش اختیار کرلی ہو، مستقل طور پر رہنے لگے اس کو وطن قرار دیدے۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر دہلی میں مستقل قیام اور رہائش کا ارادہ زید نے کرلیا ہے، تو دہلی بھی وطن اصلی ہے اور اگر بھوپال کی اصل وطنیت کو ختم کردینے کا ارادہ و فیصلہ نہ کیا ہو تو زید کے لیے بھوپال بھی وطن اصلی ہی رہے گا اور زید کو وہاں پوری نماز پڑھنی لازم ہوگی، اگر کوئی شخص کسی جگہ کو اپنے اہل و عیال کا مستقل وطن قرار دیدئے تو اس شخص کے اور اس کے اہل و عیال کے حق میں وطن اصلی ہوجائے اور وہ جائے ولادت جہاں بود وباش بھی ہو وطن اصلی ہے ؛ لہٰذا زید کے وہ بچے جن کی پیدائش دہلی کی ہے اور وہیں ان کا مستقل قیام ہے ان کے حق میں دہلی وطن اصلی ہے اور اگر زید نے بھوپال کو اپنے اہل و عیال کے حق میں بھی وطن اصلی قرار دے رکھا ہے اور وہ بھوپال کو وطن اصلی سمجھتے ہوں تو بھوپال بھی ان کے حق میں وطن اصلی ہی ہوگا اور اگر ایسا نہیں، بلکہ زید بھوپال کو ان کے حق میں یا انہوں نے خود بھوپال کو اپنے حق میں وطن اصلی قرار نہ دے رکھا ہو تو پھر بھوپال ان کے لئے وطن اصلی نہ ہوگا صرف دہلی وطن اصلی ہوگا۔(۱)
(۱) وکثیر من المسلمین المتوطنین في البلاد ولہم دور وعقار في القری البعیدۃمنہا یضیفون بہا بأہلہم ومتاعہم، فلا بد من حفظہا أنہما وطنان لہ لا یبطل أحدہما بالآخر۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۲۳۹)
قولہ: (أو تأہلہ) أي تزوجہ۔ قال في شرح المنیۃ: ولو تزوج المسافر ببلد ولم ینو الإقامۃ بہ فقیل: لا یصیر مقیماً، وقیل: یصیر مقیماً؛ وہو الأوجہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر، مطلب: في الوطن الأصلي ووطن الإقامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۱۴)
(الموطن الأصلي) ہو موطن ولادتہ أو تأہلہ أو توطنہ (یبطل بمثلہ) إذا لم یبق لہ بالأول أہل۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۱۴)
ثم الوطن الأصلي یجوز أن یکون واحدًا أو أکثر من ذلک بأن کان لہ أہل ودار في بلدتین أو أکثر ولم یکن من نیۃ أہلہ الخروج منہا، وإن کان ہو ینتقل من أہل إلی أہل في السنۃ، حتی أنہ لو خرج مسافرا من بلدۃ فیہا أہلہ ودخل في أي بلدۃ من البلاد التي فیہا أہلہ فیصیر مقیما من غیر نیۃ الإقامۃ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: بیان ما یصیر المسافر بہ مقیمّا‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۰)
وینتقض بالسفر أیضا، لأن توطنہ في ہذا المقام لیس للقرار، ولکن لحاجۃ، فإذا سافر منہ یستدل بہ علی قضاء حاجتہ فصار معرضا عن التوطن بہ فصار ناقضا لہ دلالۃ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في بیان ما یصیر المسافر بہ مقیما، الکلام في الأوطان‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۰، ۲۸۱)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:330
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مذکورہ میں اگر مسافر امام نے دورکعت کی جگہ چار رکعت نماز پڑھا دی تو اس کی دو صورت ہے اگر امام نے دو رکعت پر قعدہ کیا ہے اور اخیر میں سجدہ سہو کیا ہے تو امام اور مسافر مقتدیوں کی نماز درست ہو گئی مقیم مقتدیوں کی نماز نہیں ہوگی، اس لیے کہ مسافر امام کی اخیر کی دو رکعت نفل ہے اور فرض پڑھنے والوں کی اقتداء نفل پڑھنے والوں کے پیچھے درست نہیں اور اگر مسافر امام نے سجدہ سہو نہیں کیا ہے تو وقت کے اندر نماز کا اعادہ واجب ہے اور وقت کے بعد اعادہ مستحب ہے، اگر امام نے دو رکعت پر قعدہ نہیں کیا ہے تو امام اور مقتدی کسی کی نماز درست نہیں ہوئی، اس لیے کہ دو رکعت پر قعدہ کرنا فرض تھا۔(۱)
(۱) فلو أتم مسافر إن قعد في) القعدۃ (الأولیٰ تم فرضہ و) لکنہ (أساء) لو عامدًا لتأخیر السلام وترک واجب القصر وواجب تکبیرۃ افتتاح النفل وخلط النفل بالفرض، وہذا لایحل کما حررہ القہستاني، بعد أن فسر أساء بأثم واستحق النار (وما زاد نفل) کمصلي الفجر أربعًا (وإن لم یقعد بطل فرضہ) وصار الکل نفلًا لترک القعدۃالمفروضۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۰۹، ۶۱۰)
(فلو أتم المسافر) الرباعي بأن یأتي جمیع أفعالہ وأقوالہ کالقراء ۃ ہذا تفریع علی کون فرضہ فیہ رکعتین (إن قعد في الثانیۃ) قدر التشہد (صحت) … لأن فرضہ ثنتان والقعدۃ الأولیٰ فرض علیہ لأنہا آخر صلاتہ فإذا وجدت یتم فرضہ۔ (و) لکنہ (أساء) لتأخیر السلام وما زاد علی الرکعتین نفل (وإلا) أي وإن لم یقعد في الثانیۃ (فلا تصح) لأنہ خلط النفل بالفرض قبل إکمالہ فانقلب الکل نفلا۔ (مجمع الأنھر في شرح ملتقی الأبحر، ’’کتاب صلاۃ: باب الصلاۃ المسافر‘‘: ج ۱، ص:۳۹ ۲، ۲۴۰، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:329
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ملازمت کی وجہ سے کشمیر وطن اقامت ہو گیا ہے اور وطن اقامت سفر سے باطل ہو جاتا ہے، پس مذکورہ صورت میں کشمیر سے جب پاکستان گیا تو یہ وطن اقامت ختم ہو گیا؛ لہٰذا پاکستان سے لوٹ کر کشمیر میں اگر پندرہ یوم ٹھہرنے کا ارادہ نہیں کیا، تو پندرہ دن سے کم جتنے دن بھی کشمیر میں ٹھہرے گا نماز میں قصر کرتا رہے گا۔
اور جب کہ اس نے کشمیر میں پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت نہیں کی تو کشمیر اس کا وطن اقامت نہیں بنا؛ اس لیے وہ شخص کشمیر میں رہتے ہوئے بھی قصر کرے گا اور اور کشمیر کے آس پاس آنے جانے میں بھی قصر کرے گا اور جب کشمیر میں پندرہ دن ٹھہرے گا، تو پھر کشمیر میں بھی پوری نماز بڑھے گا اور آس پاس دس پندرہ کلو میٹر تک آنے جانے میں بھی پوری نماز پڑھے گا۔(۱)
(۱) وینتقض بالسفر أیضاً، لأن توطنہ في ہذا المقام لیس للقرار، ولکن لحاجۃ، فإذا سافر منہ یستبدل بہ علی قضاء حاجتہ فصار معرضا عن التوطن بہ فصار ناقضا لہ دلالۃ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في بیان ما یصیر المسافر بہ مقیما‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۰)
ویبطل (وطن الإقامۃ بمثلہ و) بالوطن (الأصلي و) بإنشاء (السفر)، والأصل أن الشيء یبطل بمثلہ وبما فوقہ لا بما دونہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۱۴، ۶۱۵)
(من خرج من عمارۃ موضع إقامتہ) قاصداً (مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیھا) … (صلی الفرض الرباعي رکعتین) … (حتی یدخل موضع مقامہ) أو ینوي إقامۃ نصف شھر) بموضع صالح لھا (فیقصر إن نوی في أقل منہ) أو … (بموضعین مستقلین)۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۹ - ۶۰۶)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:327
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسافر جب نماز جمعہ میں حاضر ہو گیا تو اس کا اصل فرض ہی نماز جمعہ ہو گیا ہے پس جس طرح وہ خود نماز جمعہ پڑھ سکتا ہے، تو اسی طرح نماز جمعہ پڑھانا بھی اس کے لیے جائز اور درست ہے۔(۱)
(۱) (ویصلح للإمامۃ فیہا من صلح لغیرہا فجازت لمسافر وعبد ومریض وتنعقد) الجمعۃ (بہم)۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في شروط وجوب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۰)عن عمران بن حصین رضي اللہ عنہ قال: غزوت مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وشہدت معہ الفتح، فأقام بمکۃ ثماني عشرۃ لیلۃ لا یصلي إلا رکعتین یقول: یا أہل البلد! صلوا أربعا، فإنا قوم سفر۔ (أخرجہ أبي داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب متی یتم المسافر‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۳، رقم: ۱۲۲۹، النسخۃ الہندیۃ، دارالسلام)ولنا ماروي عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ صلی الجمعۃ بالناس عام فتح مکۃ وکان مسافراً۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في بیان شرائط الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۸۸، دار الکتاب، دیوبند)ومن لا جمعۃ علیہ إن أداہا جاز عن فرض الوقت وللمسافر والعبد والمریض أن یؤم فیہا۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۶، ۲۶۷)لأنہما مختلفان علی أن المسافر لما التزم الجمعۃ صارت واجبۃ علیہ ولذا صحت إمامتہ فیہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: فيشروط وجوب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۴)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:327
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر منزل پر پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ ہو وہاں پوری نماز پڑھے گی اور اگر پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت سے وہاں رہے گی، تو قصر کرے گی۔ حالت سفر میں حیض شروع ہونے سے پہلے جتنی نمازیں قضاء ہوئی ہیں ان کی قضاء کرتے وقت قصر کرے گی۔(۱)
(۱) کوطن الإقامۃ تبقی ببقاء الثقل وإن أقام بموضع آخر … وأما وطن الإقامۃ فہو الوطن الذي یقصد المسافر الإقامۃ فیہ، وہو صالح لہا نصف شہر۔ (ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۲۳۹، دار الکتاب، دیوبند)ویبطل (وطن الإقامۃ بمثلہ و) بالوطن (الأصلي و) بإنشاء (السفر)، والأصل أن الشيء یبطل بمثلہ وبما فوقہ لا بما دونہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۱۴، ۶۱۵، ط: مکتبہ زکریا دیوبند)قولہ: (الوطن الأصلي): ویسمی بالأھلي ووطن الفطرۃ والقرار۔ ح عن القھستاني … قولہ: (أو توطنہ): أي: عزم علی القرار فیہ، وعدم الارتحال الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر، مطلب: في الوطن الأصلي ووطن الإقامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۱۴)ثم الأوطان ثلاثۃ: وطن أصلي: وھو وطن الإنسان في بلدتہ أو بلدۃ أخری اتخذھا داراً وتوطن بھا مع أھلہ وولدہ ولیس من قصدہ الارتحال عنھا؛ بل التعیش بھا، … فالوطن الأصلي ینتقض بمثلہ لا غیر، وھو أن یتوطن الإنسان في بلدۃ أخری وینقل الأھل إلیہا من بلدتہ فیخرج الأول من أن یکون وطناً أصلیاً لہ حتی لو دخل فیہ مسافراً لا تصیر صلاتہ أربعاً۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: الکلام في الأوطان، فصل: في بیان ما یصیر المسافر بہ مقیماً‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۰، دار الکتاب، دیوبند)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:326
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس طرح مسافر مقتدی کی نماز درست نہیں۔ مقیم امام کی اقتداء میں نماز پڑھنے والے پر پوری نماز میں امام کی اقتداء لازم ہے۔(۱)
(۱) وإن اقتدی المسافر بالمقیم في الوقت أتم أربعا لأنہ یتغیر فرضہ إلی أربع للتبعیۃ: (وإن اقتدی المسافر بالمقیم في الوقت) ش: قید بقولہ: في الوقت لأنہ لا یقتدي المسافر بالمقیم خارج الوقت للزوم اقتداء المفترض بالمتنفل في حق القعدۃ، لأن القعدۃ الأولیٰ فرض في حقہ نفل في حق الإمام، کذا في المبسوط م: (أتم أربعا) ش: أي أربع رکعات وسواء في ذلک اقتدی بہ في جزء من صلاتہ أو کلہا، وبہ قال الشافعي وأحمد وداود۔ (العیني، البنایۃ شرح الھدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۳، ص: ۲۴، مکتبہ نعیمیہ، دیوبند)
قولہ: (ولو اقتدی مسافر بمقیم في الوقت صح وأتم) لأنہ یتغیر فرضہ إلی الأربع للتبعیۃ کما تتغیر نیۃ الإقامۃ لاتصال المغیر بالسبب وہو الوقت۔ قولہ: (وبعدہ) أي بعد خروج الوقت لا یصح اقتداء المسافر بالمقیم لأن فرضہ لا یتغیر بعد الوقت لانقضاء السبب۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۲۳۵، ۲۳۶، دار الکتاب، دیوبند)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:325
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3318/46-9136
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں اگر دیگر ورثاء نہ ہوں تو والدین کے انتقال کے بعد ساری جائداد کو تین حصوں میں تقسیم کریں گے جن میں سے دو حصے بیٹے کو اور ایک حصہ بیٹی کو ملے گا۔ ان کے علاوہ دیگر ورثہ اگر موجود ہوں تو ان کی تفصیل لکھ کر رجوع کیاجائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: امام کے سجدہ تلاوت ادا کرنے کے بعد اگر بقیہ نماز ان مقتدیوں نے صحیح ادا کی تو ان کی نماز درست ہوئی اور امام کے سجدہ تلاوت سے ان کا بھی ادا ہوگیا۔(۱)
(۱) (سجد معہ و) لو ائتم (بعدہ) لایسجد أصلا: قولہ: (سجد معہ) قید بہ لأن الإمام لو لم یسجد لایسجد المأموم وإن سمعہا لأنہ إن سجدہا في الصلاۃ وحدہ خالف إمامہ وإن سجد بعد الفراغ فہي صلاتیۃ لا تقضی خارجہا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۵)وإذا قرأ الإمام آیۃ السجدۃ وبعض القوم في الرحبۃ، فکبر الإمام للسجدۃ، وحسب من کان في الرحبۃ أنہ کبر للرکوع فرکعوا، ثم قام الإمام من السجدۃ فکبر فظن القوم أنہ رفع رأسہ من الرکوع، فکبروا ورفعوا رؤوسہم، إن لم یزیدوا علی ذلک لم تفسد صلاتہم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث عشر: في سجود التلاوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۴)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:321
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: جس آدمی نے آیت سجدہ پڑھی اس پر سجدہ تلاوت واجب ہے، اور جس جس آدمی نے سنی ان سب پر بھی سجدہ تلاوت واجب ہے، کسی ایک آدمی کے متعدد بار سجدے کرلینے سے دوسروں کا سجدہ ادا نہیں ہوتا، ایک آدمی قرآن کریم پڑھے تو اس کے قریب دوسرے آدمی کا قرآن پڑھنا درست ہے، اور مذکورہ آیت میں مراد یہ ہے اگر کوئی قرآن کریم پڑھے اورتم قرآن نہ پڑھ رہے ہو تو اس کی تلاوت کو غور سے سنو دوسرے کسی کام میں مشغول ہونا درست نہیں ہے۔(۱)
(۱) والسجدۃ واجبۃ في ہذہ المواضع علی التالي والسامع سواء قصد سماع القرآن أو لم یقصد۔ (المرغینانی، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب في سجدۃ التلاوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۳)(ویتکرر الوجوب علی السامع بتبدیل مجلسہ و) الحال أنہ (قد اتحد مجلس التالي) کأن سمع تالیا بمکان فذہب السامع ثم عاد فسمعہ یکررہا تکرر علی السامع السجود اجماعاً۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ص: ۴۹۶)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:320