Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں نمازپوری ہوجانے کے بعد اتفاقاً دو چار آدمیوں کا صف سے الگ یا تھوڑا ہٹ کر تسبیح پڑھنے والوں کو منافق کہنا درست نہیں تسبیح کے دوران صف سے تھوڑا آگے پیچھے ہوجانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔(۱)
(۱)عن أنس بن مالک، قال: أخَّرَ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الصلاۃ ذات لیلۃ إلی شطر اللیل، ثم خرج علینا، فلما صلی أقبل علینا بوجہہ، فقال: إن الناس قد صلوا ورقدوا، وإنکم لن تزالوا في صلاۃ ما انتظرتم الصلاۃ، (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب یستقبل الإمام الناس إذ سلّم‘‘: ج۱، ص: ۱۱۷، رقم: ۸۴۷: )
یستحب للإمام التحول لیمین القبلۃ یعني یسار المصلي لتنفل أو وردٍ۔ وخیرہ في المنیۃ بین تحویلہ یمینا وشمالا وأماما وخلفا وذہابہ لبیتہ، واستقبالہ الناس بوجہہ۔ (ابن عابدین،در المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب فیما لو زاد علی العدد في التسبیح عقب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۸)
و یستحب أن یستقبل بعدہ أي بعد التطوع وعقب الفرض إن لم یکن بعدہ نافلۃ یستقبل الناس إن شاء أن لم یکن في مقابلۃ مصل لما في الصحیحین کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا صلی أقبل علینا بوجہہ وإن شاء الإمام انحرف عن یسارہ وجعل القبلۃ عن یمینہ وإن شاء انحرف عن یمینہ وجعل القبلۃ عن یسارہ وہذا أولیٰ لما في مسلم: کنا إذا صلینا خلف رسول اللّٰہ أحببنا أن نکون عن یمینہ حتی یقبل علینا بوجہہ۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الأذکار الواردۃ بعد الفرض‘‘: ص: ۱۱۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص426
بدعات و منکرات
Ref. No. 2805/45-4393
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسی تقریبات میں چھوٹی بچیوں کے ذریعہ نعت و ترانے پیش کرنے اور مختصر اشارہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم بچیوں کو غیرشرعی لباس پہنانا یا ترانے و نعت میں ڈانس کے طور پر اشارے کرانا جائز نہیں ہے۔ بڑی اور بالغ بچیوں کو پروگرام میں سب کے سامنےلانا فتنہ کا باعث ہے یہاں تک کہ پردہ کے ساتھ بھی مناسب نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ظاہر روایت میں جمعہ کے بعد چار کعت ایک سلام کے ساتھ سنت مؤکدہ ہیں امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک چھ رکعت سنت مؤکدہ ہیں؛ اس لیے نماز جمعہ کے بعد چار رکعت ایک سلام سے سنت مؤکدہ کی نیت سے اور دو رکعت سنت مؤکدہ کی نیت سے الگ سے پڑھے اور صرف چار رکعت سنت مؤکدہ پڑھنے والے کو ملامت نہ کی جائے۔
’’وأربع قبل الجمعۃ وأربع بعد ہا وکذا ذکر الکرخي، وذکر الطحاوي عن أبي یوسف أنہ قال: یصلي بعدہا ستاً وقیل ہو مذہب علي رضي اللّٰہ عنہ وما ذکرنا أنہ کان یصلي أربعاً مذہب ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ‘‘(۱)
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: الصلاۃ المسنونۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۵۔)
(و السنۃ قبل الجمعۃ أربع وبعدہا أربع) … (وعند أبي یوسفؒ) السنۃ بعد الجمعۃ (ست) رکعات وہو مروي عن علي رضي اللّٰہ عنہ و الأفضل أن یصلی أربعاً ثم رکعتین للخروج عن الخلاف۔ (إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملی، ’’فصل في النوافل‘‘: ج ، ص: ۳۳۷، دارالکتاب دیوبند)
وسنّ مؤکداً (أربع قبل الظہر و) أربع قبل (الجمعۃ) وأربع (بعدہا بتسلیمۃ)۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج۲، ص:۴۵۱، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص350
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 2831/45-4434
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Your question is not clear. If you want to know the status of one who throws the unused wrapper with the halal marks in the trash, so it does not make one a disbeliever and you should not be in doubt unreasonably. If you want to know anything else, do re-send your query.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
طلاق و تفریق
Ref. No. 1079 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ بلا وجہ شرعی طلاق دینا اللہ کے نزدیک سخت ناپسندیدہ عمل ہے، ابغض المباحات الی اللہ الطلاق۔ اس لئے طلاق دینے سے بہر صورت اجتناب کیا جانا چاہیے۔ عورتیں کمزور اور کم عقل ہوتی ہیں، ان کی غلطیوں کو معاف کردیا جائے۔ نافرمانی حد سے بڑھے تو بستر الگ کردیا جائے، باز نہ آنے پر گھر کے افراد بیٹھ کر معاملہ کو سلجھانے کی کوشش کریں ۔ لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود طلاق دینا ہی ناگزیر ہو تو عورت کے پاکی کے ایام میں ایک طلاق دے کر اس سے الگ ہوجائے،تین حیض پورے گذرنے سے پہلے اگر بیوی کو واپس نکاح میں لینا ہو تو رجعت کرلے اور دوگواہوں کی موجودگی میں کہے کہ گواہ رہو میں نے رجعت کرلی، اور اگر تین ماہواری پوری ہوگئی تو اب عورت نکاح سے نکل گئی ، اور جس سے چاہے گی نکاح کرسکے گی۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 878
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم-: میت کی قبر کے پاس اذان دینے کا کوئی ثبوت نہیں ہے، عالم برزخ کے احوال دنیا کے احوال سے مختلف ہیں، اس لئے مقصد اذان کی تعیین بھی ناقابل فہم ہے، قبر کے اوپر درخت کی ہری ڈالی رکھنا درست ہے اور اس کے کفن پر خوشبو چھڑکنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور قبر پر بھی چھڑکا جاسکتا ہے، تاہم اگربتی جلانے سے بعض مرتبہ آگ وغیرہ لگنے کا خطرہ رہتا ہے اس لئے اس سے احتراز کیا جانا بہتر ہے۔ واللہ تعالی اعلم بالصواب878
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
متفرقات
Ref. No. 41/1027
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ضرار نام رکھنا درست نہیں ہے، اس لئے کہ اس کا معنی ہے نقصان پہنچانے والا، اور نام کے معانی کے اثرات انسان کی ذات پر پڑتے ہیں۔ اس لئے کوئی دوسرا نام رکھ لینا چاہئے جیسے عبد اللہ ، عبدالجبار ،زبیر وغیرہ۔ ہاں، اگر جرّار جیم سے ہو تو معنی میں کوئی خرابی نہیں ہے، جرار کے معنی ہیں کھینچنے والا، بہادر، دلیر۔ اس لئے یہ نام رکھا جاسکتاہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 926/41-47B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والد صاحب نے بوقت وفات جو جائداد چھوڑی وہی ترکہ ہے، اور تقسیم میراث سے قبل بھائیوں نے کاروبار کرکے جو منافع کمائے اس پر انہیں کا حق ہے، دیگر ورثہ اس کے مستحق نہیں ہیں۔ والد کے وفات کے وقت جس قدر جائداد موجود تھی اسی کو ورثہ میں تقسیم کیا جائے گا، اور جو کسی وارث نے کمایا وہ اس کا اپنا ہے؛ اسے منہا کرکے تقسیمِ ترکہ عمل میں آئےگی۔
ولو تصرف احد الورثۃ فی الترکۃ المشترکۃ وربح فالربح للمتصرف وحدہ (فتاوی ھندیۃ 2/346)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1486/42-1250
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ صورت میں جبکہ امام صاحب بیٹھنے کے قریب تھے، ان پر سجدہ سہو لازم نہیں تھا، ان کو سجدہ سہو نہیں کرنا چاہئے تھا۔ تاہم اگر سجدہ سہو کرلیا تو بھی صحیح قول کے مطابق نماز درست ہوگئی۔ تاہم سجدہ سہو کا مذکورہ طریقہ درست نہیں ہے، سجدہ سہو کے لئے التحیات ضروری ہے، احناف کے یہاں سجدہ سہو ، التحیات دو سجدے اور سلام کے مجموعہ کا نام ہے۔
وإن قعد الأخير ثم قام عاد وسلم من غير إعادة التشهد. فإن سجد لم يبطل فرضه وضم إليها أخرى لتصير الزائدتان له نافلة وسجد للسهو. (نورالایضاح، باب سجود السھو 1/96) ثم في القيام إلى الخامسة إن كان قعد على الرابعة وينتظره المقتدي قاعدا، فإن سلم من غير إعادة التشهد سلم المقتدي معه (شامی باب الوتر والنوافل 2/12)
ولو ظن الإمام السهو فسجد له فتابعه فبان أن لا سهو فالأشبه الفساد لاقتدائه في موضع الانفراد. (شامی، باب الاستخلاف 1/599) ولو ظن الإمام أن عليه سهوا فسجد للسهو فتابعه المسبوق فيه ثم علم أنه لم يكن عليه سهو فأشهر الروايتين أن صلاة المسبوق تفسد؛ لأنه اقتدى في موضع الانفراد قال الفقيه أبو الليث: في زماننا لا تفسد. هكذا في الظهيرية. (الھندیۃ الفصل السابع فی المسبوق اللاحق 1/92)
وَمَنْ سَهَا عَنْ الْقَعْدَةِ الْأُولَى ثُمَّ تَذَكَّرَ وَهُوَ إلَى حَالَةِ الْقُعُودِ أَقْرَبُ عَادَ وَقَعَدَ وَتَشَهَّدَ لِأَنَّ مَا يَقْرُبُ مِنْ الشَّيْءِ يَأْخُذُ حُكْمَهُ، ثُمَّ قِيلَ يَسْجُدُ لِلسَّهْوِ لِلتَّأْخِيرِ. وَالْأَصَحُّ أَنَّهُ لَا يَسْجُدُ كَمَا إذَا لَمْ يَقُمْ وَلَوْ كَانَ إلَى الْقِيَامِ أَقْرَبَ لَمْ يَعُدْ لِأَنَّهُ كَالْقَائِمِ مَعْنًى،وَيَسْجُدُ لِلسَّهْوِ لِأَنَّهُ تَرَكَ الْوَاجِبَ. )مرغيناني، الهداية شرح البداية، 1: 75، المكتبة الاسلامية(
إذا ظن الإمام أنه عليه سهواً فسجد للسهو وتابعه المسبوق في ذلك ثم علم أن الامام لم يكن عليه سهو فيه روايتان ... وقال الإمام أبو حفص الكبير: لايفسد، والصدر الشهيد أخذ به في واقعاته، وإن لم يعلم الإمام أن ليس عليه سهو لم يفسد صلاة المسبوق عندهم جميعاً".(خلاصۃ الفتاوی 1/163، امجداکیڈمی)
ویجب سجدتان بتشھد و تسلیم – ھما واجبان بعد سجود السھو لان الاولین ارتفعا بالسجود (مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی، شیخ الھند دیوبند، ص 460)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند