Games and Entertainment

Ref. No. 963/41-124

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The games, which are helpful in physical well being and do not involve something that is Haram, are permissible, such as swimming, shooting, horse-riding. The games that are meant only for wasting time are demoted in Islam. And the games which include something haram or known as the games of disbelievers and criminals are forbidden in Shariah. In Fatawa   of Mufti Mahmood sb it is mentioned that playing tash or ludu is very bad and if it is played with betting between the players then it is gambling which is Haram. It is duty of a muslim to refrain from Haram objects. The holy Quran says: and who keep themselves away from vain things (Surah Muminoon 23/3). (An abstract from Fatawa Mufti Mahmood Vol. 11 page No. 259)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Miscellaneous

Ref. No. 1408/42-836

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Yes, it is allowable. You should note that it is not allowed to put the Quran directly on the floor as we are obliged to respect the holy Book. But putting the bag which contains the holy Book on the floor is not considered as disrespecting the Quran. However one should not put the holy Quran on the floor even if it is packed in bag; it seems against its etiquette.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

بدعات و منکرات

Ref. No. 1531/43-1033

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ علم الاعداد حروف ابجد کا ایک علم ہے جوقدیم زمانہ سے چلا آرہاہے۔ قرآنی آیات یا اسماء حسنی وغیرہ  کے اعداد نکالنا درست  ہے اور اکابر کے تجربہ سے ثابت ہے۔  اور کسی مریض کے احوال معلوم کرنے میں اس سے مدد لینا بھی معروف ہے، البتہ اس علم سےمستقبل میں پیش آنے والی  غیب کی خبریں جاننے کا دعوی کرنا غلط ہے۔ جو کچھ اس علم سے احوال معلوم ہوتے ہیں وہ ظنی ہیں، ان پر مکمل یقین نہیں کیاجاسکتاہے۔ اس میں غلطی کا امکان بہرحال رہتاہے، تاہم اس کو علم غیب سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک اندازہ ہوتاہے اور اس کے مطابق تعویذ و رقیہ کے ذریعہ اس کا علاج کیاجاتاہے۔ اور تعویذ ورقیہ کی شریعت میں اس شرط کے ساتھ اجازت ہے کہ اس میں شرکیہ کوئی بات نہ ہواور عقیدہ کے فساد کا سبب نہ بنے۔ اس لئے ایسے عامل سے علاج  کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے جو  متبع سنت ہو اور شرکیہ کلمات سے بچتے ہوئے قرآن و حدیث سے علاج کرتاہو۔

’’ عن عوف بن مالك الأشجعي، قال: كنا نرقي في الجاهلية، فقلنا: يا رسول الله كيف ترى في ذلك؟ فقال: «اعرضوا علي رقاكم، لا بأس بالرقى ما لم يكن فيه شرك»‘‘. صحیح مسلم، (4/ 1727، رقم الحدیث: 2200، باب لا باس بالرقی مالم یکن فیہ شرک، ط: دار احیاء التراث العربی)

’’ذكر مالك في " موطئه ": عن زيد بن أسلم: ( «أن رجلاً في زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم أصابه جرح، فاحتقن الجرح الدم، وأن الرجل دعا رجلين من بني أنمار، فنظرا إليه، فزعما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لهما: " أيكما أطب"؟ فقال: أو في الطب خير يا رسول الله؟ فقال: " أنزل الدواء الذي أنزل الداء (ففي هذا الحديث أنه ينبغي الاستعانة في كل علم وصناعة بأحذق من فيها فالأحذق، فإنه إلى الإصابة أقرب‘‘.(زاد المعاد  فی ھدی خیرالعباد، ص:781، فصل في هديه صلى الله عليه وسلم في الإرشاد إلى معالجة أحذق الطبيبين، دار الفکر بیروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سیاسی وسماجی طور پر ایسی راہ اختیار کی جاسکتی ہے۔ (۱) عقیدہ کے لحاظ سے درست نہیں ہے۔ (۲)

۱) {قُلْ ٰٓیأَ یُّھَا الْکٰفِرُوْنَہلا ۱  لَآ أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَہلا۲  وَلَآ أَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ أَعْبُدْہج ۳ وَلَآ أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْہلا ۴ وَلَآ أَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ أَعْبُدُہط ۵  لَکُمْ دِیْنُکُمْ  وَلِيَ دِیْنِ ہع  ۶} (سورۃ الکافرون)

(۲) وللإمام الرازي أو جہ في تفسیر ہا لا یخلو بعضہا عن نظر، وذکر علیہ الرحمۃ أنہ جرت العبادۃ بأن الناس یتمثلون بہذہ الآیۃ عند المتارکۃ، وذلک لا یجوز لأن القرآن ما أنزل لیتمثل بہ بل لیہتدي بہ، وفیہ میل إلی سرّ باب الاقتباس، والصحیح جوازہ الخ۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ الکافرون، تفسیر الآیات: ۱-۶‘‘: ج ۱۶، ص: ۴۵۷)

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1795/43-1563

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مرغی کا بیٹ نجاست غلیظہ ہے۔ اگر انڈے پر نجاست تھی تو اس کو دھونے میں جو پانی استعمال ہوا وہ بھی نجاست غلیظہ ہوگیا اس لئے جہاں بھی وہ لگے گا ناپاک ہوگا۔ اور جو بھی پانی اس پر گرے گا اس کی ناپاکی کا حکم ہوگا۔ نجاست غلیظہ ماء قلیل کو فوری ناپاک کردیتاہے۔ اس لئے نجاست غلیظہ کی چھینٹیں ناپاک ہیں اور ناپاک کرنے والی ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند


 

اسلامی عقائد

 

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسے افراد کے بارے میں فقہاء نے تصریح کی ہے کہ وہ اسلام سے خارج ہوجاتے ہیں۔ کفر ان پر لازم آجاتا ہے۔(۱)

فقط: واللہ اعلم بالصواب

(۱) إذا أنکر آیۃ من القرآن أو استخف بالقرآن أو بالمسجد، أو بنحوہ مما یعظم في الشرع، أو عاب شیأ من القرآن کفر۔ (عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب السیر والجہاد: باب المرتد، ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۷)

إذا أنکر الرجل آیۃ من القرآن، أو تسخر بآیۃ من القرآن، وفي ’’الخزانۃ‘‘: أو عاب کفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالقرآن‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۹)

 

مفتی دار العلوم وقف دبوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ وسیلہ جائز اور درست ہے، اگرچہ اس میں علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اختلاف کیا ہے جن پر فقہ کا غلبہ ہوگیا تھا جس کی وجہ سے ابن قیم بہت سے مسائل میں اہل سنت والجماعۃ کہ خلاف چلے گئے ہیں؛  اس لئے ابن قیم اور ان کی نسبت کا اختلاف حجت نہیں ہوگا جمہور علماء جواز کے قائل ہیں پس جمہور کا قول معتبر ہوگا۔ جیسا کہ روح المعانی اور فتح الباری کی عبارت میں اس کی تصریح موجود ہے۔
’’ففیہ جعل الدعاء وسیلۃ وہو جائز بل مندوب۔ ویحسن التوسل والاستغاثہ بالنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلی ربہ ولم یکن أحد من السلف والخلف حتی جاء ابن تیمیہ فانکر ذلک وعدل الصراط المستقیم وابتدع مالم یقلہ وصار بین الأنام مثلہ انتہی۔ في صحیح البخاري عن أنس -رضي اللّٰہ عنہ- أن عمر بن الخطاب -رضي اللّٰہ عنہ- کان إذا قحطوا استسقٰی باالعباس فقال اللہم إنا کنا نتوسل إلیک بنبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم فتسقینا وأنا نتوسل إلیک بعم نبینا فأسقنا الخ، أما الأول: فلقول عمر -رضي اللّٰہ عنہ- فیہ کنا نتوسل بنبیک، وأما الثاني: فلقولہ أنا نتوسل بعم بنبیک لما قیل: أن ہذ التوسل لیس من باب الأقسام بل ہو من جنس الاستشفاع وہو أن یطلب من الشخص الدعاء والشفاعۃ ویطلب من اللّٰہ تعالیٰ أن یقبل دعائہ وشفاعتہ ویؤید ذلک أن العباس -رضي اللّٰہ عنہ- کان یدعوا وہم یومنون لدعائہ حتی سقوا الخ‘‘۔
پس جمہور کے قول پر عمل کرتے ہوئے جواز توسل ہی راجح ہے۔(۱)
(۱) علامہ محمود آلوسي، روح المعاني: ج ۶، ص: ۱۲۶-۱۲۷۔
عن أنس بن مالک أن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ: کان إذا قحطوا استسقیٰ بالعباس بن عبد المطلب، فقال: اللّٰہم إنا کنا نتوسل إلیک بنبینا فتسقینا وأنا نتوسل إلیک بعم نبینا فأسقنا، قال: فیسقون۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الاستسقاء: باب سؤال الناس الإمام الاستسقاء إذا قحطوا‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، رقم: ۱۰۱۰)
ومن أٓداب الدعاء تقدیم الثناء علی اللّٰہ والتوسل بنبي اللّٰہ، یستجاب الدعاء۔ (الشاہ ولي اللّٰہ الدہلوي، حجۃ اللّٰہ البالغۃ، ’’الأمور التي لا بد منہا في الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴)
إن التوسل بالنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم جائز في کل حال قبل خلقہ وبعد خلقہ في مدۃ حیاتہ في الدنیا وبعد موتہ فی مدۃ البرزخ۔ (السبکي، شفاء السقام: ص: ۳۵۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص276

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کے لئے سفر کرنے میں شرعی قباحت نہیں ہے۔(۱) البتہ بزرگان دین کے جن مزارات پر اہل بدعت کا تسلط ہے اور وہاں بدعات وخرافات انجام دی جاتی ہوں وہاں زیارت کے لئے نہ جانا چاہئے، بلکہ اپنے مقام پر رہ کر ہی ایصال ثواب پر اکتفا کرنا چاہئے۔(۲)

(۱) ذہب بعض العلماء إلی الاستدلال بہ علی المنع من الرحلۃ لزیارۃ المشاہد وقبور العلماء والصالحین، وما تبین في أن الأمر کذلک، بل الزیارۃ مأمور بہا لخبر: (کنت نہیتکم عن زیارۃ القبور ألا فزوروہا)۔ والحدیث إنما ورد نہیا عن الشد لغیر الثلاثۃ من المساجد لتماثلہا، بل لا بلد إلا وفیہا مسجد، فلا معنی للرحلۃ إلی مسجد آخر، وأما المشاہد فلا تساوي بل برکۃ زیارتہا علی قدر درجاتہم عند اللّٰہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب المساجد ومواضع الصلوٰۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۹، رقم: ۶۹۳)
عن أبی ہریرۃ، قال: زار النبي صلی النبي صلی اللّٰہ علیہ و سلم قبر أمہ فبکی وأبکی من حولہ فقال استأذنت ربي في أن أستغفر لہا فلم یؤذن لي واستأذنتہ في أن أزور قبرہا فأذن لي فزوروا القبور فإنہا تذکر الموت۔ (أخرجہ المسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الجنائز: فصل جواز زیارۃ قبور المشرکین ومنہ الاستغفار لہم‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۴، رقم: ۹۷۶)
(۲) وأما أہل السنۃ والجماعۃ فیقولون في کل فعل وقول لم یثبت عن الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم ہو بدعۃ لأنہ لو کان خیراً لسبقونا إلیہ، لأنہم لم یترکوا خصلۃ من خصال الخیر إلا وقد بادروا إلیہا۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ الأحقاف: ۱۰-۱۴‘‘: ج ۷، ص: ۲۵۶)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص385

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:محرم الحرام کے چاند میں نئی دلہن کو چھپانا بالکل غلط عقیدہ ہے، ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔(۱)

(۱) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقومٍ فہو منہم۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب اللباس: باب في لبس الشہرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱)
قولہ ومبتغ في الإسلام سنۃ الجاہلیۃ أي یکون لہ الحق عند شخص فیطلبہ من غیرہ ممن لا یکون لہ فیہ مشارکۃ کوالدہ أو ولدہ أو قریبہ وقیل المراد من یرید بقاء سیرۃ الجاہلیۃ أو إشاعتہا أو تنفیذہا۔ (ابن حجر، فتح الباري، ’’قولہ باب العفو في الخطأ بعد الموت‘‘: ج ۱۲، ص: ۲۲۱، رقم: ۶۸۸۲)
{قَالُوا اطَّیَّرْنَا بِکَ وَبِمَنْ مَّعَکَط قَالَ ٰٓطئِرُکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَہ۴۷} (سورۃ النمل: ۴۷)
{فَإِذَا جَآئَ تْھُمُ الْحَسَنَۃُ قَالُوْا لَنَا ھٰذِہٖ ج وَإِنْ تُصِبْھُمْ سَیِّئَۃٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰی وَمَنْ مَّعَہٗط أَ لَآ إِنَّمَا ٰطٓئِرُھُمْ عِنْدَ اللّٰہِ وَلٰکِنَّ أَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَہ۱۳۱} (سورۃ الأعراف: ۱۳۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص475

فقہ

Ref. No. 2441/45-3714

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    عورت کے گزرنے سے اگر ہاتھ پاؤں مرد کے جسم سے چھوجائے توایسی صورت  میں مرد کی نماز میں کوئی خرابی نہیں آئے گی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند