اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحت سوال مذکورہ شخص مسلمان ہے؛ لیکن مذکورہ شخص پر لازم ہے کہ اس غیر مسلم عورت کو مسلمان ہونے کی ترغیب دے، اگر وہ عورت مسلمان ہوجائے، تو شرعی طریقے پر اس سے شادی کرسکتا ہے؛ ورنہ اس کو علاحدہ کرکے توبہ واستغفار کرے اور آج تک جو گناہ ہوا اس پر بہر حال توبہ کرتے رہنا ضروری ہے۔(۱)

(۱) تثبت (أي الردۃ بالشہادۃ) ویحکم بہا حتي تبین زوجتہ منہ ویجب تجدید النکاح۔ (ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب السیر: باب أحکام المرتدین، توبۃ الزندیق‘‘: ج ۵، ص: ۲۱۳)

وما کان خطأ من الألفاظ ولا یوجب الکفر فقائلہ یقر علی حالہ ولا یؤمر بتجدید النکاح، ولکن یؤمر بالاستغفار والرجوع عن ذلک۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار،کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: جملۃ من لا یقتل إذا ارتد‘‘: ج ۶، ص: ۳۹۱)

 

بدعات و منکرات

Ref. No. 1816/43-0000

الجواب

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔

میت کے لیے ایصال ثواب کا ثبوت احادیث اور سلف کے تعامل سے ثابت ہے اور جس طرح مالی عبادت کا ثواب میت کو پہنچتاہے اسی طرح بدنی عبادت کا ثواب بھی میت کو پہنچتاہے ۔علامہ شامی نے اسے اہل السنت والجماعت کا مسلک قرار دیا ہے ۔

من دخل المقابر فقرأ سورة يس خفف الله عنهم يومئذ، وكان له بعدد من فيها حسنات  بحر. وفي شرح اللباب ويقرأ من القرآن ما تيسر له من الفاتحة وأول البقرة إلى المفلحون وآية الكرسي - وآمن الرسول - وسورة يس وتبارك الملك وسورة التكاثر والإخلاص اثني عشر مرة أو إحدى عشر أو سبعا أو ثلاثا، ثم يقول: اللهم أوصل ثواب ما قرأناه إلى فلان أو إليهم. اهـ. مطلب في القراءة للميت وإهداء ثوابها له [تنبيه]صرح علماؤنا في باب الحج عن الغير بأن للإنسان أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو غيرها كذا في الهداية، بل في زكاة التتارخانية عن المحيط: الأفضل لمن يتصدق نفلا أن ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات لأنها تصل إليهم ولا ينقص من أجره شي(رد المحتار،مطلب فی زیارۃ القبور ،2/243)۔

قرآن کریم کے ذریعہ میت کو ثواب پہنچانا بھی درست ہے او راس سے میت کو فائدہ پہنچتاہے اور یہ عمل بھی حدیث اور سلف کے تعا مل سے ثابت ہے۔

 أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ويس قلب القرآن لا يقرؤها رجل يريد الله والدار الآخرة إلا غفر له، اقرءوها على موتاكم(السنن الکبری للنسائی،حدیث نمبر:10847) وعن مجالد، عن الشعبي " كانت الأنصار إذا حضروا قرؤوا عند الميت البقرة ". مجالد ضعيف.(خلاصۃ الاحکام،باب مایقولہ من مات لہ میت ،حدیث نمبر:3279 )ملا علی قاری مرقات میں لکھتے ہیں : وأن المسلمين ما زالوا في كل مصر وعصر يجتمعون ويقرءون لموتاهم من غير نكير، فكان ذلك إجماعا، ذكر ذلك كله الحافظ شمس الدين بن عبد الواحد المقدسي الحنبلي في جزء ألفه في المسألة، ثم قال السيوطي: وأما القراءة على القبر فجاز بمشروعيتها أصحابنا وغيرهم.(مرقات المفاتیح،باب دفن المیت ، 3/1229)۔

تاہم یہاں چند باتیں پیش نظر رکھنی ضروری ہے ، اُسی عمل کا ثواب میت کو پہنچتاہے جو عمل انسان خالص اللہ کی رضا کے لیے کرے اوراس کا ثواب میت کو بخش دے ، جو عمل خالص رضائے ا لہی کے لیے نہ ہو اس کاثواب خود کرنے والے کونہیں ملتا تو دوسروں کو اس کا کیا فائدہ ملے گااسی وجہ سے حضرات علماء نے مروجہ قرآن خوانی پر سخت نکیر کی ہے اس لیے کہ اس میں بہت سے مفاسد جمع ہوجاتے ہیں ۔پڑھنےوالا اس نیت سے پڑھتاہے کہ اس پر کچھ ملے گا اور پڑھانے والوں کے بھی ذہن میں رہتا ہے کہ مدارس کے طلبہ کو بلایا تو اس کو کچھ ہدیہ کے نام پہ دینا ہوگا یا کھانا کھلانا ہوگا ظاہر ہے کہ اس عمل میں جانین سے اخلاص کا تحقق نہیں ہوتا۔اس لیے قرآن خوانی کی مروجہ صورت جس میں جس میں پڑھنے والوں کے لیے کھانے پینے کا نظم ہو یا شرطیہ یا بلاشرط کے بچوں کو کچھ دینے کا رواج ہو یا مدرسہ کے لیے رسید کٹانے کو ضروری قرار دیا جائے یہ سب ناجائز ہے ۔

قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لا يستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون - اهـ.(شامی ، مطلب فی الاستئجار علی المعاصی٦/٥٦)۔

مدرسہ کے بچوں کو جمع کرنے اور گھر بلانے میں تو اور بھی مفاسد ہیں بسااوقات ان کی تعلیم و تربیت کا نقصان ہوتا ہے بچوں کے ماں باپ اعزہ کی تکلیف کا موجب ہے بہت سے لوگ بھی بچوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے بعض لوگ حقارت کی بھی نظروں سے دیکھتے ہیں اس لئے مدرسہ کے ذمہ داران کو بچوں کے بھیجنے سے صاف معذرت کردینا چاہئے۔

اگر لوگ مدارس سے قرآن خوانی کے لیے رابطہ کریں تو اس کی منا سب صورت یہ ہےکہ ان کو بچوں کی تعلیم کو تربیت کا حوالہ دے کر منع کردیا جائے اور یہ کہا جائے کہ مدرسہ میں بچے ہر وقت قرآن پڑھتے ہیں آپ کسی وقت تشریف لے آئیں بچوں نے جو قرآن پڑھا ہے اس میں ایصال ثواب کی نیت کرکے مرحوم کےلیے دعا کردی جائے گی یا مرحوم کا نام لے لیا جائے اور حفظ کی  درسگاہ میں سبق کے اختتام کے وقت مرحوم کے لیے دعا کرادیا جائے تو یہ بہتر متبادل ہوسکتاہے ا س کے علاوہ ان کو انفرادی طورپر قرآن پڑھنے اور میت کو اس کا ثواب پہنچانے کی ترغیب کی جائے ۔

واللہ اعلم بالصواب

 دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2163/44-2248

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں بشرط صحت سوال، اگر وارثین میں صرف چار بیٹیاں باحیات ہیں اور ان کے ماں باپ بھی مرحوم کے انتقال کے وقت باحیات نہیں تھے تو مرحوم کی جائداد کو چار حصوں میں تقسیم کردیاجائے گا ۔ لیکن اگر اصحاب فرائض  یا ذو الارحام میں سے کوئی  ہو تو اس کی تفصیل لکھ کر دوبارہ معلوم کرلیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مشرکین کے وہ بچے جو قبل از بلوغ دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں ان کے ساتھ آخرت میں اللہ تعالیٰ کا کیا معاملہ فرمائیں گے اس بارے میں فقہاء کے تین اقوال ہیں:
(۱) یہ کہ اطفال مشرکین جہنم میں جائیں گے اس لئے کہ بچے والدین کے تابع ہیں۔
(۲) اطفال مشرکین جنت میں جائیں گے اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے تو وہ بھی فطرت اسلام پر پیدا ہوئے ہیں اور قبل از بلوغ دنیا سے رخصت ہوگئے اور کوئی گناہ بھی ان سے سرزد نہیں ہوا امام محمد ؒ کا بھی یہی رجحان ہے انہوں نے فرمایا کہ : ’’إن اللّٰہ لا یعذب أحداً بلا ذنب۔ الشامی۔
(۳) امام اعظم ابوحنیفہؒ کی طرف ایک تیسرا قول منسوب ہے کہ امام صاحب نے اس بارے میں توقف اختیار کیا ہے یعنی کوئی تشریح اس کی نہیں فرمائی لیکن صحیح امام اعظمؒ کے نزدیک یہ ہے کہ اللہ رب العزت زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ کون بچہ جنت میں جائے گا اور کون بچہ دوزخ میں جائے گا (أللّٰہ أعلم بما کانوا عاملین) کہ اللہ رب العزت کو آئندہ کا علم ہے کہ کون بچہ ایسا ہے کہ اگر وہ زندہ رہتا تو اسلام لے آتا اور کون سا بچہ زندہ رہتا تو اسلام نہ لاتا پس جو بچے اللہ کے علم کے مطابق اگر زندہ رہتے اور اسلام لے آتے وہ جنت میں جائیں گے اور جو بچے اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق اگر زندہ رہتے تو کفر پر برقرار رہتے وہ بچے جہنم میں جائیں گے خلاصہ یہ کہ اللہ رب العزت کی مشیت پر موقوف ہے کہ اللہ رب العزت کو آئندہ کا بھی پورا علم ہے اسی کے اعتبار سے جنت اور جہنم کا فیصلہ ہوگا پس کوئی فیصلہ کن بات اس بارے میں نہیں کہی جاسکتی یہ امام اعظمؒ کا مسلک ہے اور یہی ’’أقرب إلی الصواب‘‘ معلوم ہوتا ہے چونکہ یہ مسئلہ از قبیل عبادات نہیں ہے اور انسان کا کوئی عمل اس پر موقوف نہیں؛ اس لئے اس میں امام اعظمؒ کا قول ہی قابل اختیار معلوم ہوتا ہے۔ (۱)

(۱) وقد اختلف في سؤال أطفال المشرکین وفي دخولہم الجنۃ أو النار، فتردد فیہم أبو حنیفۃ وغیرہ، وقد وردت فیہم أخبار متعارضۃ فالسبیل تفویض أمرہم إلی اللّٰہ تعالیٰ وقال محمد بن الحسن: اعلم أن اللّٰہ لا یعذب أحداً بلا ذنب۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: في أطفال المشرکین‘‘: ج ۳، ص: ۸۲)
لا یحکم بأن أطفالہم في النار البتۃ بل فیہ خلاف، قیل: یکونون خدام أہل الجنۃ وقیل: إن کانوا قالوا بلی یوم أخذ العہد عن اعتقاد ففي الجنۃ وإلا ففي النار إلخ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الصلاۃ علی المیت‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص294

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2421/44-3653

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  دیوار اگر کچی اینٹ یا پکی اینٹ کی ہے اور اس پر پلاسٹر نہیں ہوا ہے تو وہ خشک ہونے سے پاک ہوجائے گی، اور اگر دیوار پر پلاسٹر ہوگیا یا ٹائل لگوادیا اور پھر ناپاکی لگی  تو اب اس کو پاک کرنے کے لئے دھونا ضروری ہوگا، محض نجاست کا خشک ہوجانا دیوار کی طہارت کے لئے کافی نہیں ہوگا۔

 ومنها ) الجفاف وزوال الأثر الأرض تطهر باليبس وذهاب الأثر للصلاة لا للتيمم. هكذا في الكافي. ولا فرق بين الجفاف بالشمس والنار والريح والظل۔ (فتاوی ہندیہ 2/130)

"وإن كان اللبن مفروشاً فجف قبل أن يقلع طهر بمنزلة الحيطان، وفي النهاية: إن كانت الآجرة مفروشةً في الأرض فحكمها حكم الأرض، وإن كانت موضوعةً تنقل وتحول، فإن كانت النجاسة على الجانب الذي يلي الأرض جازت الصلاة عليها، وإن كانت النجاسة على الجانب الذي قام عليه المصلي لاتجوز صلاته".(البحرالرائق، 1/235)

"والمراد بالأرض مايشمله اسم الأرض، كالحجر والحصى والآجر واللبن ونحوها، إذا كانت متداخلةً في الأرض غير منفصلة عنها‘‘. (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح، كتاب الطهارة، باب الأنجاس والطهارة عنها". (حاشیة الطحطاوي علی مراقي الفلاح 1/231)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں مذکورہ موقع پر ضروری سمجھ کر لین دین التزام مالا یلزم ہے اور رسم ہے، جو درست نہیں، اس رسم کو چھوڑ دینا ضروری ہے؛ لیکن جو کپڑے اس طرح کہہ کر دیئے گئے وہ اس کی ملک ہوگئے، جس طرح چاہے استعمال کرے۔ (۲)

(۲) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: …باب إذا اصطلحوا عصلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
قال الکشمیري: ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، شرح سنن الترمذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص526

بدعات و منکرات

Ref. No. 2604/45-4121

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    مساجد  عبادت اور ذکراللہ کے لئے خاص ہیں ، مسجد میں ایسا کوئی عمل جس سے عبادت و ذکراللہ میں خلل ہو اور نمازیوں کو دشواری ہو، جائز نہیں ہے۔ خیال رہے کہ مسافر اور معتکف کے علاوہ افراد کے لیے مسجد میں کھانا، پینا اور سونا مکروہ ہے؛ اس لئے کھانے وغیرہ کا نظم مساجد  کی حدودسے باہر  ہونا چاہئے، یا پھر مسجد شرعی کے باہری حصہ میں نظم ہو تو نمازوں کے اوقات کا خیال رکھ کر اس کی ترتیب بنائی جائے۔

’’ وأكل، ونوم إلا لمعتكف وغريب.  (قوله: وأكل ونوم إلخ) وإذا أراد ذلك ينبغي أن ينوي الاعتكاف، فيدخل ويذكر الله تعالى بقدر ما نوى، أو يصلي ثم يفعل ما شاء، فتاوى هندية.‘‘ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) 1/ 661)

’’ويكره النوم والأكل فيه لغير المعتكف، وإذا أراد أن يفعل ذلك ينبغي أن ينوي الاعتكاف فيدخل فيه ويذكر الله تعالى بقدر ما نوى أو يصلي ثم يفعل ما شاء، كذا في السراجية (الفتاوى الهندية 5/ 321)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:تقریر کے معنی کسی بات کو بیان کرنا ہے اور وعظ نصیحت آمیز باتوں کا بیان کرنا ہے مگر عرف عام میں دونوں کے ایک ہی معنی ہوتے ہیں کہ دین کی بات کا بیان کرنا۔ جو حضرات اتنی صلاحیت رکھتے ہوں کہ دین کی بات کو صحیح صحیح طریقہ پر بیان کردیں تو ان کا وعظ کہنا جائز ہے اگر ایسی صلاحیت اس میں نہیں ہے تو اس کا وعظ کہنا جائز نہیں ہے۔(۱)

(۱) وعن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ لا یقبض العلم انتزاعاً ینتزعہ من العباد ولکن یقبض العلم بقبض العلماء حتی إذا لم یبق عالماً اتخذ الناس رؤوساً جہالا فسئلوا فأفتوا بغیر علم فضلوا وأضلوا، متفق علیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳، رقم: ۲۰۶)
وعن الأعمش قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: آفۃ العلم النسیان وإضاعتہ أن تحدث بہ غیر أہلہ، رواہ الدارمي مرسلاً۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب العلم: الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۳۷، رقم: ۲۶۵)
وعن ابن سیرین قال: إن ہذا العلم دین فانظروا عمن تأخذون دینکم، رواہ مسلم، المراد الأخذ من العدول والثقات۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۴، رقم: ۲۷۳)


--------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص345

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:مینڈھک جس کی انگلیوں کے درمیان سترہ، یعنی: کھال نہ ہو وہ بری ہے، کیوںکہ اس میں دم سائل ہوتا ہے، اس کے مرنے سے پانی نجس ہو جاتا ہے، یعنی: کنواں ناپاک ہو جائے گا اور دریائی مینڈھک کے مرنے سے کنواں ناپاک نہیں ہوگا، سمندری مینڈھک وہ ہے کہ اس کی انگلیوں میں کھال ہوتی ہے، جس سے انگلیاں جڑی رہتی ہیں۔(۱)

(۱) و إن مات فیہ غیر دموي و مائي مولد کسمک و سرطان و ضفدع، فلو تفتت فیہ نحو ضفدع جاز الوضوء بہ لا شربہ، لحرمۃ لحمہ۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ،  باب المیاہ مطلب،  مسئلۃ الوضوء في الفساقی، ج۱، ص:۲۹؍۳۳۱)؛  و ضفدع  إلا بریّا لہ دم سائل وھو مالا سترۃ لہ بین أصابعہ۔ أیضاً:

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص481

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر کسی طرح بھی وضو یا تیمم کرنے کی کوئی شکل نہ ہو، تو وہ شخص بغیر طہارت کے ہی نماز ادا کرے جب تک طہارت ممکن نہ ہو، طہارت کے بغیر نماز ادا کرے۔(۱)

(۱) مقطوع الیدین والرجلین إذا کان بوجھہ جراحۃ، یصلي بغیر طھارۃ ولا یعید وھو الأصح (الشرنبلالي، نورالإیضاح مع مراقی والطحطاوي، قبیل ’’باب المسح علی الخفین‘‘ ص:۴۴) ؛ وقال في البحر : و لو قُطعت یدہ أو رجلہ، فلم یبق من المرفق والکعب شيء، سقط الغسل۔ (الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، أرکان الوضوء أربعۃ،‘‘ج۱، ص:۲۱۷)؛ و قال الشیخ الإمام محمد بن الفضل: رأیت في الجامع الصغیر للکرخي أن مقطوع الیدین والرجلین، إذا کان بوجھہ جراحۃ، یصلی بغیر طھارۃ ولا یتمم، ولا یعید، وھذا ھو الأصح، کذا في الظھیریۃ۔(جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الرابع في  التیمم، الفصل الثالث في التفرقات،‘‘ ج۱، ص:۸۴)
 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص149