Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 3010/46-4803

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

 All Shias are not infidels, but those whose beliefs are in accordance with the beliefs of the people of Islam are Muslims, and those who do not hold the beliefs of the people of Islam are called infidels. Among the Shias those who are out of faith, their beliefs are clearly against the Qur'an and Sunnah. They believe that Hazrat Jibreel betrayed the revelation; they believe that the Qur'an is distorted and the Qur'an is not safe. How can they be called Muslims with these beliefs?  Ahle-Sunnat consider these shia kafir. And the Shias who do not hold these beliefs are yet Muslims.

However, it is also worth noting that these people hide their blasphemous beliefs as taqiyyah, and say that doing taqiyyah, - lying and hiding their blasphemous beliefs - is not only permissible but is part of their worship and religion. The belief of the Shias about Imamat is also a revolt against seal of the Prophet and it is an open conspiracy against Islam, and it is also disbelief.

When you read about them, you will realize how different their beliefs are from the beliefs of Ahle-Sunnat. Therefore, marriage with them is not permissible. Yes, the Shias whose beliefs are in accordance with the basic beliefs of the people of Islam and but they disagree on a few things, they are not infidels, but they will definitely be called the misguided due to these wicked things, therefore marriage with such people will be permitted in Sharia, however. For the sake of expediency, they have been forbidden to marry; otherwise there is a threat and fear of corruption after marriage.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Divorce & Separation

Ref. No. 3009/46-4792

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق کا محض خیال آنا اور اس پر طلاق کی نیت کرلینا وقوع طلاق کے لئے کافی نہیں ہے۔ وقوع طلاق کے لئے زبان سے الفاظ کا ادا کرنا ضروری ہے۔ اگر صریح لفظ طلاق کے لئے استعمال کیاجائے تو اس میں نیت کی ضروررت نہیں ہوتی اور اگر کوئی لفظ کنائی بولا تو اس میں طلاق دینے کی نیت ہو گی تو طلاق ہوتی ہے ورنہ نہیں ۔ پس صورت مسئولہ میں چونکہ کسی لفظ کا تلفظ نہیں کیا اس وجہ سے صرف طلاق کا خیال آنے اور اس پر نیت کرلینے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اس لئے آپ کی نیت طلاق کی ہو یا تعلیق طلاق کی بلاتلفظ کے دونوں غیرمعتبر ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Divorce & Separation

Ref. No. 3008/46-4794

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق کالفظ دیکھنا اور اس پر طلاق کی نیت کرنا وقوع طلاق کے لئے کافی نہیں ہے۔ وقوع طلاق کے لئے زبان سے الفاظ کا ادا کرنا ضروری ہے۔ اگر صریح لفظ طلاق کے لئے استعمال کیاجائے تو اس میں نیت کی ضروررت نہیں ہوتی اور اگر کوئی لفظ کنائی بولاجائے تو اس میں طلاق دینے کی نیت ہو گی تو طلاق ہوتی ہے ورنہ نہیں ۔ پس صورت مسئولہ میں چونکہ کسی لفظ کا تلفظ نہیں کیا  ، دوسرے کی طلاق کو دیکھ کر اس میں اپنی بیوی کو طلاق دینے کی نیت کرنا معتبر نہیں ہے، اس لئے وسوسہ سے باہر نکلئے اور آئندہ اس طرح کی باتوں پر دھیان نہ دیجئے، آپ کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے۔ ایسی ویڈیو اور آڈیو محفوظ کرنے اور چلانے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref.  No.  3007/46-4791

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔

اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوںکہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔  ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔  ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔

 صورت مسئولہ میں شوہر نے تعلیق نہیں کی ہے، تعلیق الگ ہے اور طلاق الگ ہے۔ ماں کی ناراضگی کو بتاتے ہوئے ان سے تنجیزا تین طلاقیں دی ہیں۔ یہ تعلیق، طلاق کو ماں کے نظریہ پر محمول کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ ماں سے ناراضگی کے اظہار کے لئے ہے۔ اس لئے اس تعلیق کا طلاق سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ طلاق فوری طور پر واقع ہوگئی ہے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref.  No.  3006/46-4793

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر سوال میں مذکورہ امور واقعی ہیں تو یقینا یہ امور غیرشرعی ہونے کے ساتھ  غیراخلاقی بھی ہیں۔ نیز دعا و تعویذ میں شرکیہ کلمات اور غیراللہ کے نام سے استعانت وغیرہ امور حرام بھی ہیں، اس لئے ایسے عامل سے علاج کرانا جائز نہیں ہے۔

وأما ما کان من الآیات القرآنیۃ والأسماء والصفات الربانیۃ والدعوات المأثورۃ النبویۃ فلا بأس بل یستحب سواء کان تعویذا أو فیہ أو نشرۃ وأما علی لفۃ العبرانیۃ نحوہا فیمتنع لاحتمال الشرک فیہا‘‘ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’الفصل الثاني: کتاب الطب والرقي‘‘: ج ۷، ص: ۱۸۱، رقم: ۴۵۵۳۔)  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2963/46-4761

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  میت کی جائداد  میں اس کے ورثاء کا حق شرعی طور پر ثابت ہوتاہے، اس میں کسی کے دعوی کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ ہر تقسیم کرنے والے پر لازم ہے کہ وراثت تقسیم کرتے وقت تمام حقداروں کو ان کا حق  تقسیم کرے، اور صرف اپنا حق وصول کرے، دیگر ورثہ کا حق چھوڑدے ۔  اگر کوئی جائداد پہلےسے تقسیم شدہ  نہیں ہے تو اب جلد از جلد اس کو تقسیم کرلیا جائے۔ صورت مسئولہ میں دادا کو جو پشتینی زمین ورثہ میں ملی  ہے اس میں ان کی تمام اولاد کا حق ہے۔ اس لئے جس طرح دو بیٹے وراثت کے مستحق ہیں ان کی چار بیٹیاں بھی وراثت کی مستحق ہیں۔ اب جبکہ دادا کے انتقال کے بعد تمام  چچا اور پھوپھی  بھی مرچکے ہیں تو ان کا جو حق بنتاہے اس کو ان کی اولاد کے حوالہ کردیاجائے وہ آپس میں شرعی طور پر تقسیم کرلیں گے۔ ان کے نام دنیاوی کاغذات میں گرچہ شامل نہ ہوں  مگر اللہ کے یہاں ان کا حق متعین ہے، اس کو دنیا کے رسم و رواج سے ختم نہیں کیاجاسکتاہے۔ اس لئے پھوپھیوں کی اولاد کو ان کا حق دیاجائے اور ان کو بتایاجائے کہ یہ آپ کا شرعی حق ہے، اور مقدار یہ ہے ، اور ان کو اپنے حصے پر قبضہ کا مکمل اختیار دیدیاجائے۔ اس کے باوجود جو ان میں سے لینے سے انکار کرے تو پھر  اس کا حصہ دیگر ورثاء میں شرعی طریقہ پر تقسیم کردیاجائے۔ ح جولوگ ناحق دوسروں کا مال کھائیں گے اور وراثت کی تقسیم شریعت کے مطابق  نہیں کریں گے ان سے قیامت میں بازپرس ہوگی۔  

قال اللہ تعالیٰ:{ يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (11} [النساء: 11] "عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «ألا من ظلم معاهدا، أو انتقصه، أو كلفه فوق طاقته، أو أخذ منه شيئا بغير طيب نفس، فأنا حجيجه يوم القيامة»" سنن أبي داود (3/ 171) قالَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - : "(وَإِنْ أَخْرَجَتْ الْوَرَثَةُ احَدَهُمْ عَنْ عَرَضٍ أَوْ عَقَارٍ بِمَالٍ، أَوْ عَنْ ذَهَبٍ بِفِضَّةٍ، أَوْ بِالْعَكْسِ) أَيْ عَنْ فِضَّةٍ بِذَهَبٍ (صَحَّ قَلَّ، أَوْ كَثُرَ) يَعْنِي قَلَّ مَا أَعْطَوْهُ أَوْ كَثُرَ؛ لِأَنَّهُ يُحْمَلُ عَلَى الْمُبَادَلَةِ؛ لِأَنَّهُ صُلْحٌ عَنْ عَيْنٍ وَلَا يُمْكِنُ حَمْلُهُ عَلَى الْإِبْرَاءِ إذْ لَا دَيْنَ عَلَيْهِمْ وَلَا يُتَصَوَّرُ الْإِبْرَاءُ عَنْ الْعَيْنِ۔ "تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (5/ 49) وقال العلامۃ الشبلی –رحمہ اللہ- : " قَالَ الْأَتْقَانِيُّ مَعْنَى التَّخَارُجِ أَنْ يُصَالِحَ بَعْضُ الْوَرَثَةِ مِنْ نَصِيبِهِ عَلَى شَيْءٍ فَيَخْرُجُ مِنْ الْبَيْنِ وَإِنَّمَا أَخَّرَ هَذَا الْفَصْلَ لِقِلَّةِ وُقُوعِهِ؛ لِأَنَّ كُلَّ أَحَدٍ لَا يَرْضَى بِأَنْ يَخْرُجَ مِنْ الْبَيْنِ بِشَيْءٍ يَأْخُذُهُ؛ لِأَنَّ الظَّاهِرَ أَنَّ الَّذِي يَأْخُذُهُ دُونَ نَصِيبِهِ. اهـ. (قَوْلُهُ وَلَا يُتَصَوَّرُ الْإِبْرَاءُ) أَيْ؛ لِأَنَّ الْإِبْرَاءَ عَنْ الْأَعْيَانِ غَيْرِ الْمَضْمُونَةِ لَا يَصِحُّ. اهـ " حاشية الشلبي (5/ 49)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حج و عمرہ

Ref.  No.  3005/46-4807

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی عورت کا  بغیر محرم مرد کےسفر شرعی پر جانا جائز نہیں ہے،  وہ عورت جو بغیر محرم مرد کے سفر کرتی ہے، اس کے لئے حدیث میں سخت  ممانعت  وارد ہے، اس لئے جب تک محرم مرد یعنی عورت کا بھائی ، باپ چچا یا شوہر وغیرہ ساتھ میں نہ ہو اس کا سفر کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لئے ابھی اپنی بیوی کو ماں اور بھائی کے ساتھ ہرگز نہ بھیجیں، جب استطاعت ہوجائے تو اپنی بیوی کے ساتھ خود آپ جائیں یا کسی محرم مرد کو اس کے ساتھ بھیج دیں۔ عمرہ کا سفر ایک مبارک سفر ہے، غیرشرعی طریقہ پر عمرہ پر جانا ہرگز مناسب نہیں ہے۔"عن عبد الله بن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر، تسافر مسيرة ثلاث ليال، إلا ومعها ذو محرم۔ (الصحیح لمسلم، 1/433، کتاب الحج، ط: قدیمی)" عن ابن عباس رضي الله عنهما، أنه: سمع النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: «لا يخلونّ رجل بامرأة، ولا تسافرنّ امرأة إلا ومعها محرم»، فقام رجل فقال: يا رسول الله، اكتتبتُ في غزوة كذا وكذا، وخرجت امرأتي حاجةً، قال: «اذهب فحجّ مع امرأتك»". (صحيح البخاري (4/ 59(ومنها المحرم للمرأة) شابة كانت أو عجوزا إذا كانت بينها وبين مكة مسيرة ثلاثة أيام هكذا في المحيط، وإن كان أقل من ذلك حجت بغير محرم كذا في البدائع (الھندیۃ: (218/1، ط: دار الفکر)

والمحرم في حق المرأۃ شرط، شابۃ کانت أو عجوزا۔ -إلی قولہ-: والمحرم الزوج ومن لا یجوز لہ مناکحتہا علی التأبید برضاع، أو صہریۃ۔(الفتاوی التاتارخانیة: (474/3، ط: زکریا)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Miscellaneous

Ref. No. 3004/46-4786

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

It is permissible for the person whose income is mostly from halal sources to donate to the mosque or to buy some goods to gift to a masjid. However, if someone's earnings are mixed with halal and haram income and it is not possible to distinguish, but he says that I am giving donations from halal earnings, then it is permissible to take his donation for the mosque. If he is participating in the clock with Halal money, no further investigation is required, and his donation is permissible. So the guardians of the mosque may accept the same clock as a donation.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Prayer / Friday & Eidain prayers

Ref. No. 3003/46-4788

In the name of Allah the most Gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

The Imam should live in a dignified manner and sit with dignified people. It is not appropriate for him to associate with people who are wicked in the society. However the prayers performed behind such imam are valid all the way without any doubt.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 3002/46-4787

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال واضح نہیں ہے کہ یہ پانچ لاکھ روپئے کس طرح لگائے گئے ہیں، آیا یہ کاروبار میں شرکت ہے یا منافع میں شرکت ہے۔ اگر منافع میں شرکت ہے کہ جو نفع ہوگا اس میں آٹھ فی صد دیں گے تو یہ درست ہے، اور اگر پانچ لاکھ کا  آٹھ فیصد طے کیاگیا ہے تو یہ سودی معاملہ ہے جو حرام ہے۔ شرکت کے معاملہ میں نفع و نقصان دونوں میں شرکت ہوتی ہے، اگر کمپنی بند ہوگی تو مال کے شرکت کے اعتبار سے نقصان میں دونوں شریک ہوں گے، نقصان کی خاص مقدار طے کرنا درست نہیں ہے۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند