نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: شامی میں ہے کہ اگر شافعی المذہب امام ہو تو اس کی اتباع میں حنفی مقتدی بھی سجدہ تلاوت کریں اسی طرح جب کہ امام حنفی ہو تو شوافع مقتدی یہ سجدہ نہ کریں اس لیے کہ مقتدیوں کے ذمے سے بھی یہ سجدہ امام کی وجہ سے ساقط ہوجائے گا۔(۱)

(۱) (منہا أولی الحج) أماثانیتہ فصلاتیۃ لاقترانہا بالرکوع (وص) خلافاً للشافعي واحمدؒ قولہ: (لاقترانہا بالرکوع) لأن السجدۃ متی قرنت بالرکوع کانت عبارۃ عن السجدۃ الصلاتیۃ کما في قولہ تعالیٰ: {واسجدي وارکعي} (آل عمران)، بدائع، قولہ: (خلافاً للشافعي وأحمد) حیث اعتبرا کلا من سجدتي الحج ولم یعتبرا سجدۃ ص۔ کما في غرر الأفکار۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۷۵، ۵۷۶)وإذا تلا الإمام آیۃ السجدۃ سجدہا وسجد الماموم معہ سواء سمعہا منہ أم لا و سواء کان في صلاۃ الجہر أو المخافتۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث عشر: في سجود التلاوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۳)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:319

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: محقق قول کی بنا پر تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ سورہ ’’ص‘‘ میں آیت سجدہ {وَخَرَّ رَاکِعًا  وَّأَنَابَ ہاَلسَّجْدَۃ ۲۴    } پر ہے۔(۱)

(۱) سجود التلاوۃ في القرآن أربعۃ عشر کذا في الہدایۃ … السجدۃ العاشرۃ: و(ص) عند قولہ: {فَاسْتَغْفَرَ رَبَّہٗ وَخَرَّ رَاکِعًا  وَّأَنَابَہاَلسَّجْدَۃ ۲۴   } (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث عشر: في سجود التلاوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۱، ۱۹۲)(والسجدۃ) {إِنَّمَا یُؤْمِنُ بِأٰیٰتِنَا الَّذِیْنَ إِذَا ذُکِّرُوْا بِھَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّسَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَھُمْ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ ہاَلسَّجْدَۃ۱۵} (سورۃ السجدۃ: ۱۵) ’’ص‘‘ {وَظَنَّ دَاوٗدُ اَنَّمَا فَتَنّٰہُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّہٗ وَخَرَّ رَاکِعًا وَّأَنَابَہاَلسَّجْدَۃ۲۴    فَغَفَرْنَا لَہٗ ذٰلِکَط وَإِنَّ لَہٗ  عِنْدَنَا لَزُلْفٰی وَحُسْنَ مَأٰبٍہ۲۵ } (سورۃ ص: ۲۴، ۲۵) وہذا ہو الأولی مما قال الزیلعي تجب عند قولہ تعالی: {وَخَرَّ رَاکِعًا وَّأَنَابَہاَلسَّجْدَۃ ۲۴   } (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ص: ۴۸۲)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:319

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں چوں کہ قرآن کریم میں ۱۴؍ سجدے ہیں؛ اس لیے متعدد آیات سجدہ کی تلاوت سے متعدد سجدے واجب ہوں گے اور ایک آیت سجدہ کو بار بار پڑھنا مجلس واحد کے حکم میں ہے۔

’’حاشیۃ الطحاوي علی مراقي الفلاح‘‘ میں مصرح ہے ’’(کمن کررہا) أي الآیۃ الواحدۃ (في مجلس واحد) الخ‘‘(۲)

(۲) أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ص: ۴۹۴۔وفي مجلس) واحد (لا) تتکرر بل کفتہ واحدۃ وفعلہا بعد الأولی أولی قنیۃ۔وفي البحر التأخیر أحوط والأصل أن مبناہا علی التداخل دفعا للحرج  بشرط اتحاد الآیۃ والمجلس (وہو تداخل في السبب) بأن یجعل الکل کتلاوۃ واحدۃ فتکون الواحدۃ سببا والباقي تبعا لہا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۰، ۵۹۱)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:318

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق:(۱) سورت کی تلاوت کے وقت سورت پڑھنا اور آیت سجدہ کو ترک کرنامکروہ ہے، اس لیے بہتر ہے کہ سورت کی تلاوت کے ساتھ آیت سجدہ کو بھی پڑھ لیا کرے۔

’’(وکرہ ترک آیۃ سجدۃ وقراء ۃ باقي السورۃ) لأن فیہ قطع نظم القرآن وتغییر تالیفہ … وحاصلہ: أن المکروہ إسقاط آیۃ السجدۃ من السورۃ مع ضم ما بعدہا إلی ما قبلہا لأنہ تغییر للنظم‘‘(۱)

’’(ویکرہ أن یقرأ السورۃ في صلاۃ أو غیرہا ویدع آیۃ السجدۃ) لأنہ یشبہ الإستنکاف عنہا‘‘(۲)

(۲)آیت سجدہ بالغ حضرات پڑھیں یا بچے پڑھیں دونوں صورت میں بچوں پر سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے اس لیے کہ سجدہ تلاوت نماز کے اجزاء میں سے ایک جز ہے پس جس پر نماز فرض ہوتی ہے اسی پر سجدہ تلاوت واجب ہوتاہے اور جس پر نماز فرض نہیں ہے اس پر سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے۔

’’لأن السجدۃ جزء من أجزاء الصلاۃ فیشترط لوجوبہا أہلیۃ وجوب الصلاۃ من الإسلام والعقل والبلوغ والطہارۃ من الحیض والنفاس حتی لا تجب علی کافر وصبي ومجنون وحائض ونفساء قرؤا أو سمعوا‘‘(۳)

(۳) بچہ اگر سمجھدار ہے اور وہ گھر میں آیت سجدہ پڑھے تو گھر والوں پر سجدہ تلاوت واجب ہوگا اور اگر بچہ ناسمجھ ہے تو اس سے سننے پر بالغ حضرات پر سجدہ تلاوہ واجب نہیں ہوگا نیز ایک مجلس میں بار بار سننے سے صرف ایک مرتبہ ہی واجب ہوگا۔

’’قولہ: (وتجب بتلاوتہم) أي وتجب علی من سمعہم بسبب تلاوتہم ح۔ قولہ: (یعنی المذکورین) أي الأصم والنفساء وما بینہما۔ قولہ: (خلا المجنون) ہذا ما مشي علیہ في البحر عن البدائع۔ قال في الفتح: لکن ذکر شیخ الإسلام أنہ لا یجب بالسماع من مجنون أو نائم أو طیر لأن السبب سماع تلاوۃ صحیحۃ وصحتہا بالتمییز، ولم یوجد وہذا التعلیل یفید التفصیل في الصبي، فلیکن ہو المعتبر إن کان ممیزا وجب بالسماع منہ وإلا فلا اہـ۔ واستحسنہ في الحلیۃ‘‘(۱)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجودالتلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۵ تا ۵۹۷۔(۲) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب في سجدۃ التلاوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۵۔(۳) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۱۔(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۱۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:316

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: صورت مسئولہ کے سلسلہ میںایک اصول یاد رکھیں کہ اگر براہ راست اور لائیو آیت سجدہ کی تلاوت ہو رہی ہو خواہ ٹی وی پر ہو یا یوٹیوب وغیرہ پر اس صورت میں سننے والے پر سجدہ تلاوت کرنا واجب ہے اور اگر براہ راست اور لائیو تلاوت نہ ہوتی ہو، بلکہ ریکارڈنگ ہو تو اس پر سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے یہی حکم لاؤڈ اسپیکر کا بھی ہے کہ اگر اس سے ریکارڈنگ چلائی جا رہی ہے تو سننے والے پر سجدہ کرنا واجب نہیں ہے، البتہ براہ راست قاری کی آواز ہو تو سجدہ کرنا واجب ہے، نیز خارج صلوٰۃ والے بھی اگر براہ راست تلاوت سنے اور اسے معلوم ہو کہ آیت سجدہ ہے تو اس صورت میں سجدہ کرنا واجب ہے، لیکن سننے والے کو معلوم نہ ہو کہ آیت سجدہ ہے تو اس پر سجدہ واجب نہیں ہے، جیسا کہ علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:

’’قال الشامیۃ لا یجب علی الأعجمي ما لم یعلم کما في الفتح أي وإن لم یفہم‘‘(۱)

’’والسجدۃ واجبۃ في ہذہ المواضع علی التالي والسامع سواء قصد سماع القرآن أو لم یقصد، کذا في الہدایۃ … ولا تجب إذا سمعہا من طیر ہو المختار ومن النائم الصحیح أنہا تجب وإن سمعہا من الصدي لا تجب علیہ، کذا في الخلاصۃ‘‘(۲)

’’(لا) تجب (بسماعہ من الصدی والطیر)‘‘(۳)

’’ولو سمعہا من الإمام أجنبي لیس معہم في الصلاۃ ولم یدخل معہم في الصلاۃ لزمہ السجود، کذا في الجوہرۃ النیرۃ، وہو الصحیح، کذا في الہدایۃ۔سمع من إمام فدخل معہ قبل أن یسجد، سجد معہ، وإن دخل في صلاۃ الإمام بعد ماسجدہا الإمام لایسجدہا، وہذا إذا أدرکہ في آخر تلک الرکعۃ، أما لو أدرکہ في الرکعۃ الأخری یسجدہا بعد الفراغ، کذا في الکافي، وہکذا في النہایۃ‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۷۷۔(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث عشر: في سجود التلاوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۲۔(۳) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۳۔(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث عشر: في سجود التلاوۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۹۳۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:314

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: اگر کوئی شخص آیت سجدہ کی تلاوت نہ کرے صرف سجدہ والی آیت کا لفظی ترجمہ کرے اور اس کو سمجھ بھی لے تو اس پر سجدہ تلاوت واجب ہو جاتا ہے اور اگر ترجمہ کے بعد وہ نہ سمجھ پائے تو اس صورت اس پر سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے، اگر سجدہ والی آیت کی تفسیر کی جائے تو تفسیر کرنے والے اور سننے والے کسی پر بھی سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے، نیز آیت سجدہ پوری پڑھی جائے تو سجدہ تلاوت واجب ہوگا اور اگر بعض حصہ کو پڑھا اور بعض کو چھوڑ دیا تو اس صورت میں سجدہ واجب نہیں ہوگا، جیسا کہ کتب فقہ میں اس کی تفصیل موجود ہے۔

’’والسماع شرط في حق غیر التالي ولو بالفارسیۃ إذا أخبرقولہ: إذا أخبر) أي بأنہا آیۃ سجدۃ سواء فہمہا أو لا وہذا عند الإمام وعندہما إن علم السامع أنہ یقرأ القرآن لزمتہ وإلا فلا بحر۔ وفي الفیض وبہ یفتی وفي النہر عن السراج أن الإمام رجع إلی قولہما وعلیہ الاعتماد۔ والمراد من قولہ: إن علم السامع أن یفہم معنی الایۃ کما في شرح المجمع حیث قال: وجبت علیہ سواء فہم معنی الایۃ أو لا عندہ۔ وقالا: إن فہمہا وجبت وإلا فلا لأنہ إذا فہم کان سامعا للقرآن من وجہ دون وجہ۔ ملخصا‘‘(۱)

’’(یجب) بسبب (تلاوۃ آیۃ) أي أکثرہا مع حرف السجدۃ۔ قولہ: (أي أکثرہا الخ) ہذا خلاف الصحیح الذي جزم بہ في نور الإیضاح۔ ففي السراج: وہل تجب السجدۃ بشرط قراء ۃ جمیع الایۃ أم بعضہا؟ فیہ اختلاف۔ والصحیح أنہ إذا قرأ حرف السجدۃ وقبلہ کلمۃ أو بعدہ کلمۃ وجب السجود وإلا فلا۔ وقیل لا یجب إلا أن یقرأ أکثر آیۃ السجدۃ مع حرف السجدۃ؛ ولو قرأ آیۃ السجدۃ کلہا إلا الحرف الذي في آخرہا لا یجب علیہ السجود۔ لکن قولہ: ولو قرأ آیۃ السجدۃ إلخ یقتضی أنہ لا بد من قراء ۃ الایۃ بتمامہا کما یفہم من إطلاق المتون ویأتي قریبا ما یؤیدہ إلا أن یقال سیاق الکلام قرینۃ علی أن المراد بقولہ إلا الحرف إلخ الکلمۃ التي فیہا مادۃ السجود وإطلاق الحرف علی الکلمۃ شائع في عرف القراء‘‘(۱)

’’أن السبب تلاوۃ آیۃ تامۃ کما ہو ظاہر إطلاق المتون وأن المراد بالایۃ ما یشمل الآیۃ والآیتین إذا کانت الثانیۃ متعلقۃ بالآیۃ التي ذکر فیہا حرف السجدۃ‘‘(۲)

(۱) الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۷۷۔

(۱) أیضاً: ص: ۵۷۵۔

(۲) أیضاً: ج ۲، ص: ۵۷۶۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:313

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: واضح رہے کہ اگر کوئی شخص آیت سجدہ کی تلاوت کرتا ہے یا کوئی سامع آیت سجدہ کو سنتا ہے، تو تلاوت کرنے یا سننے والوں پر سجدہ کرنا واجب ہے، آیت سجدہ پر  عمل کرنے میں تاخیر نہ کی جائے اور اگر کوئی عذر یا امر مانع نہ ہو تو سجدہ والی آیت پر فوراً سجدہ کرنا چاہئے، نیز اگر کوئی شخص نماز کی حالت میں آیت سجدہ کی تلاوت کرتا ہے، اس کو نماز میں ہی ادا کرنا واجب ہے اگر کسی وجہ سے وہ نماز میں سجدہ نہیں کر سکا تو نماز کے بعد یہ سجدہ ساقط ہو جاتا ہے نماز کے بعد اب الگ سے وہ سجدہ نہیں کرے گا؛ لیکن ترکِ واجب کی وجہ سے وہ شخص گناہ گار ہوگا، اس پر توبہ اور استغفار لازم ہے، جیسا کہ کتب فقیہ میں اس کی تفصیل موجود ہے۔

’’والسجدۃ واجبۃ في ہذہ المواضع علی التالي والسامع سواء قصد سماع القرآن أو لم یقصد‘‘(۱)

’’وفي التجنیس: وہل یکرہ تأخیرہا عن وقت القراء ۃ ذکر في بعض المواضع: أنہ إذا قرأہا في الصلاۃ فتأخیرہا مکروہ، وإن قرأہا خارج الصلاۃ لایکرہ تأخیرہا، وذکر الطحاوي: أن تأخیرہا مکروہ مطلقاً، وہو الأصح۔اھـ۔ وہي کراہۃ تنزیہیۃ في غیر الصلاتیۃ؛ لأنہا لو کانت تحریمیۃً لکان وجوبہا علی الفور ولیس کذلک‘‘(۲)

’’وفي الغیاثیۃ وأداؤہا لیس علی الفور حتی لو أداہا في أي وقت کان، یکون مؤدیاً لا قاضیاً، کذا في التتارخانیۃ، ہذا في غیر الصلاتیۃ، أما الصلاتیۃ إذا أخرہا حتی طالت القراء ۃ تصیر قضائً ویأثم، ہکذا في البحر الرائق‘‘(۳)

(۱) المرغیناني، ہدایہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب في سجدۃ التلاوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۳۔

(۲) ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۱۔

(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث عشر: في سجود التلاوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۵۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:311

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سجدہ تلاوت کی نیت کرکے ایک ساتھ چودہ سجدہ کرلینا شرعاً جائز ہے؛ لیکن بہتر یہ ہے کہ جب آیت سجدہ تلاوت کرے تو فوراً ہی سجدہ کرے اس میں زیادہ تاخیر کرنا اچھا نہیں ہے۔(۱)

(۱) (وہي علی التراخي) علی المختار ویکرہ تأخیرہا تنزیہا، ویکفیہ أن یسجد عدد ما علیہ بلا تعیین ویکون مؤدیا وتسقط بالحیض والردۃ (إن لم تکن صلویۃ) فعلی الفور لصیرورتہا جزء ا منہا۔ (قولہ علی المختار) کذا في النہر والإمداد، وہذا عند محمد وعند أبي یوسف علی الفور ہما روایتان عن الإمام أیضا، کذا في العنایۃ قال في النہر: وینبغي أن یکون محل الخلاف في الإثم وعدمہ حتی لو أداہا بعد مدۃ کان مؤدیا اتفاقا لا قاضیا۔ اہـ قال الشیخ إسماعیل وفیہ نظر أي لأن الظاہر من الفور أن یکون تأخیرہ قضاء۔

قلت: لکن سیذکر الشارح في الحج الإجماع علی أنہ لو تراخي کان أداء مع أن المرجح أنہ علی الفور ویأثم بتأخیرہ فہو نظیر ما ہنا تأمل۔ (قولہ تنزیہا) لأنہ بطول الزمان قد ینساہا، ولو کانت الکراہۃ تحریمیۃ لوجبت علی الفور ولیس کذلک ولذاکرہ تحریما تأخیر الصلاتیۃ عن وقت القراء ۃ -إمداد- واستثنی من کراہۃ التأخیر ما إذا کان الوقت مکروہا کوقت الطلوع۔

(فرع) في التتارخانیۃ: یستحب للتالی أو السامع إذا لم یمکنہ السجود أن یقول {سمعنا وأطعنا غفرانک ربنا وإلیک المصیر} (قولہ ویکفیہ إلخ) مکرر مع ما قدمہ في قولہ: ’’خلا التحریمۃ ونیۃ التعیین‘‘۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۳، ۵۸۴)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:310

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر بقیہ نماز امام کے ساتھ پوری کی تو مذکورہ صورت میں نماز سبھی مقتدیوں کی ادا ہو گئی اور جن لوگوں نے امام کے ساتھ سجدہ تلاوت نہیں کیا اب وہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد سجدہ نہ کریں چوں کہ ترک مقام کی وجہ سے سجدہ ساقط ہوگیا۔(۱)

(۱) (ومقتد بسہو إمامہ إن سجد إمامہ) لوجوب المتابعۃ (لا بسہوہ) أصلا۔ قولہ: (لا بسہوہ أصلا) …… بل الأولی التمسک بما روي ابن عمر عنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ’’لیس علی من خلف علی الإمام سہوا‘‘۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۶)(ولو تلاہا في الصلاۃ سجدہا فیہا لا خارجہا) لما مر۔ وفي البدائع: وإذا لم یسجد أثم فتلزمہ التوبۃ۔ (قولہ وإذا لم یسجد أثم إلخ) أفاد أنہ لا یقضیہا۔ قال في شرح المنیۃ وکل سجدۃ وجبت في الصلاۃ ولم تؤد فیہا سقطت أي لم یبق السجود لہا مشروعا لفوات محلہ۔ أقول: وہذا إذا لم یرکع بعدہا علی الفور وإلا دخلت في السجود وإن لم ینوہا کما سیأتي وہو مقید أیضا بما إذا ترکہا عمدا حتی سلم وخرج من حرمۃ الصلاۃ۔ أما لو سہوا وتذکرہا ولو بعد السلام قبل أن یفعل منافیا یأتي بہا ویسجد  للسہو کما قدمناہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۵)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:309

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: زبان سے آیت سجدہ تلاوت کئے بغیر سجدہ تلاوت لازم نہیں آتا ہے؛ لہٰذااس صورت میں چوں کہ زبان سے نہیں پڑھا اس لیے سجدہ تلاوت لازم نہیں ہے۔(۱)

(۱) رجل قراء آیۃ السجدۃ لا یلزمہ السجدۃ بتحریک الشفتین وإنما تجب إذا صحح الحروف وحصل بہ صوت سمع ہو أو غیرہ إذا قرب أذنہ إلی فمہ کذا في فتاوی قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود التلاوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۲)(ویجب) السجود (علی من تلا آیۃ) مکلفا بالصلاۃ … قولہ: (و في مختصر البحر الخ) قد علمت أن ہذا أحد أقوال، ولا تجب بکتابۃ، ولا تظر من غیر تلفظ لأنہ لم یقرأ ولم یسمع وکذا التہجي فلا تجب علیہ۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ص: ۴۸۰، ۴۸۱)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:309