اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:زکوٰۃ کا منکر کافر ہے اور عشر کا منکر کافر نہیں؛ بلکہ فاسق اور سخت گناہگار ہے۔

عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: بني الإسلام علی خمس علی أن یعبد اللّٰہ، ویکفر بما دونہ وأقام الصلاۃ وإیتاء الزکوۃ وحجَّ البیت، وصوم رمضان۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب بیان أرکان الإسلام ودعائمۃ العظام‘‘: ج ۱، ص: ۴۵، رقم: ۱۶)

قال اللّٰہ تعالیٰ: سورۃ أنزلناہا وفرضناہا أي قدرناہا وقطعنا الأحکام فیہا قطعاً، والفرائض في الشرع مقدرۃ لا تحتمل زیادۃ ولا نقصانا أي مقطوعۃ ثبتت بدلیل لا شبہۃ فیہ مثل الإیمان والصلاۃ والزکاۃ والحج وسمیت مکتوبۃ۔ (علی بن محمد البزدوي الحنفي، أصول البزدوي، کنز الوصول إلی معرفۃ الأصول: ج ۱، ص: ۱۳۶)

أما الفرض فحکمہ اللزوم علماً وتصدیقاً بالقلب، وہو الإسلام وعملاً بالبدن، وہو من أرکان الشرائع ویکفر جاحدہ ویفسق تارکہ بلا عذرٍ۔ (علی بن محمد البزدوي الحنفي، أصول البزدوي، کنز الوصول إلی معرفۃ الأصول: ج ۱، ص: ۱۳۶-۱۳۷)

لزوم الإتیان بہ، مع ثواب فاعلہ، وعقاب تارکہ، ویکفر منکرہ۔ (وہبۃ بن مصطفیٰ، ’’الفقہ الإسلامي وأدلتہ، المصطلحات الفقہیۃ العامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۷)

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1842/43-1661

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شرعی احکام کو مدنظر رکھتے ہوئے شیعوں کے ساتھ تجارت کرنے میں کوئی گناہ نہیں، اور غالی شیعہ  سے بھی تجارتی لین دین کیاجاسکتاہے جس طرح کہ غیرمسلموں سے تجارتی لین دین کیا جاسکتاہے۔   

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2138/44-2196

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہماری معلومات کے مطابق ہنڈی کے ذریعہ پیسے بھیجنا قانونا جرم ہے، اس لئے اس کاروبار سے گریز کرنا لازم ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:زید اس قبر کو ہموار یعنی برابر کرا سکتا ہے اس کے لیے ایسا کرنا درست ہے۔(۲)

(۲)  عن جابر رضي اللّٰہ عنہ، قال: نہی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن یجصص القبر، وأن یقعد علیہ، وأن یبنی علیہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الجنائز: باب النہي عن تجصیص القبر والبناء علیہ‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۲، رقم: ۹۷۰)
ویخیر المالک بین إخراجہ ومساواتہ بالأرض کما جاز زرعہ والبناء علیہ إذا بلي وصار تراباً۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۵)


فتاوہ دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص360

اسلامی عقائد

Ref. No. 2434/45-3690

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   اللہ کے نام کے آگے کوئی حمدیہ  جملہ استعمال کرنا افضل ہے، یہ کوئی لازم و ضروری امر نہیں ہے، اس لئے اگر کوئی حمدیہ جملہ ترک کردے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا کی جگہ اللہ نے فرمایا کہنا جائز ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:تعلیم نسواں کی موجودہ دور میں شدید ضرورت ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اگر لڑکیاں تعلیم و تہذیب یافتہ ہوںگی، تو نسلوں کے ایمان کی حفاظت ہوگی لیکن اس کے ساتھ شریعت کے اصولوں کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے اس لیے بالغ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ عورتوں کو ہی معلمات مقرر کیا جائے لیکن اگر بڑی کتابوں کو پڑھانے کے لیے معلمات دستیاب نہ ہوں تو بدرجہ مجبوری پردہ کے نظم کے ساتھ مرد وں کو مقرر کیا جاسکتا ہے اور ایسے مردکے پیچھے نماز درست ہے۔(۱)

(۱) ثلاثۃ لہم أجران: رجل من أہل الکتاب آمن بنبیہ وآمن بمحمد والعبد المملوک إذا أدی حق اللّٰہ وحق موالیہ ورجل لہ أمۃ فأدبہا فأحسن تأدیبہا علمہا فأحسن تعلیمہا ثم اعتقہا فتزوج فلہ أجران۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۷۹، رقم: ۱۱)
قالت النساء للنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: غلبن علیک الرجال فاجعل لنا یوماً من نفسک فوعدہن یوماً لیقہن فیہ فوعظہن وأمرہن۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب العلم، باب ہل یجعل للنساء یوماً علی حدۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱، رقم: ۱۰۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص180

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں پیشاب کا قطرہ کپڑے پر لگا ہوگا؛ مگر وہ اتنی مقدار میں نہیں ہوتا کہ نماز کے لئے مانع ہو؛ اس لیے نماز درست ہوگئی، اعادہ کی ضرورت نہیں ہے مگر آئندہ ایسا نہ کریں، نماز جیسی اہم عبادت کو ذرا سی لاپرواہی (استنجا نہ کرنا) سے ناقص کردینا اچھا نہیں ہے، کیوںکہ اگر اس طرح پیشاب کے قطرات کی زیادہ مقدار ہو گئی، تو ظاہر ہے کہ نماز نہ ہوگی۔(۱)

(۱) و أما الفرض فھي ما إذا کانت النجاسۃ أکثر من قدر الدرھم، و أما السنۃ إذا کانت النجاسۃ أقل من قدر الدرھم فالاستنجاء حینئذ سنۃ۔ والدلیل أن المراد عدم الوجوب لأن قدر الدرھم معفو، فعلم أن الاستنجاء لیس بواجب۔ (بدرالدین العینی، البنایہ شرح الھدایۃ، ’’فصل فيالاستنجاء،‘‘ج۱، ص:۷۴۸)؛ والاستنجاء سنۃ۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في الاستنجاء،‘‘ ج۱، ص:۷۸)؛  والغسل سنۃ و یجب إن جاوز المخرج نجس۔ (’’ابن، عابدین، در المختار،کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب إذا دخل المستنجی في ماء قلیل،‘‘ج۱، ص:۴۹-۵۵۰)؛  و في موضع آخر منہ، و عفا الشارع عن قدر درھم و إن کرہ تحریما فیجب غسلہ و ما دونہ تنزیھا فیسن و فوقہ مبطل فیفرض۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس،‘‘ ج۱، ص:۵۲۰)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص89

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  بعد نماز فجر دعاء دائماً بالجہر خلاف سنت نبوی ہے، خطبہ جمعہ عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں پڑھنا مکروہ ہے اور خطبہ کو اتنا لمبا کرنا جس سے لوگوں کو پریشانی ہو اور لوگوں کی ناراضگی کا سبب بنے تو اس میں دینی حرج ہے؛ اس لیے شرعاً درست نہیں ہے اور اگر مقتدی اس پر راضی ہوں، تو طویل خطبہ میں کوئی حرج نہیں اور خطبہ نکاح کا مذکورہ طریقہ بھی خلاف سنت ماثورہ ہے۔ نماز جنازہ کے بعد دعا اور فاتحہ منقول نہیں ہے اور گیارہویں، بارھویں میں شریک ہونااس لیے جائز نہیں کہ اس کا ثبوت نہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے نہ صحابہ کرامؓ سے ہے نیز یہ بہت سے مفاسد کا ذریعہ ہے؛ لہٰذا مذکورہ امام کے اگر ایسے حالات ہوں تو وہ مشعل راہ نہیں ہیں امام کو چاہئے کہ شریعت کا پابند رہے حتی کہ تہمت کی جگہوں اور افعال سے بھی پرہیز کرے اور یہ شخص اگر اس طریقہ کو نہ چھوڑے تو امام بدل دیا جائے۔(۱)

(۱) وکرہ إمامۃ المبتدع، بارتکابہ ما أخذت علی خلاف الحق الملتقي عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من علم وعمل أو مال بنوع شبہۃ أو استحسان، وروی محمد عن أبي حنیفۃؒ وأبي یوسفؒ أن الصلاۃ خلف أہل الأہواء لاتجوز والصحیح أنہا تصح مع الکراہۃ خلف من لاتکفرہ بدعتہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص54

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر امام صاحب نے بلا شرعی ضرورت کے سود پر پیسے لے کر کاروبار شروع کیا ہے تو وہ کمائی حلال نہیں ہے، ان کا یہ عمل غلط ہے، اس کاروبار کو فورا ترک کردینا چاہئے اور توبہ کرنی چائیے، بعد توبہ کے امام صاحب کی امامت درست ہوگی، اور اس سے قبل ان کی امامت مکروہ ہے، نیز اگر تحقیقی طور پر یہ بات ثابت ہو کہ کل آمدنی یا غالب آمدنی حرام ہے تو ایسی صورت میں ان کی دعوت کھانا جائز نہیں ہے، لیکن اگر کوئی اور بھی کاروبار یا آمدنی ہے جو حلال طریقہ سے کمائی ہوئی ہے اس حلال پیسے سے دعوت کرے تو ایسی صورت میں دعوت قبول کرنے کی گنجائش ہے۔
’’ویکرہ إمامۃ عبد وفاسق وفاسق، من الفسق وھو الخروج عن الاستقامۃ۔ ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر‘‘(۱)
’’وأماالفاسق فقد عللوا کراھۃ تقدیمہ بأنہ لا یھتم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیھم إھانتہ شرعا، ولا یخفی أنہ إذا کان أعلم من غیرہ لا تزول العلۃ، فإنہ لا یؤمن أن یصلي بھم بغیر طہارۃ فہو کالمبتدع تکرہ إمامتہ بکل حال‘‘(۱)
’’وکسبہ حرام فالمیراث حلال ثم رمز وقال لا ناخذ بھذہ الروایۃ وھو حرام مطلقا علی الورثۃ‘‘(۲)

(۱) (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸۔
(۱) أیضًا:ص: ۲۹۹۔
(۲) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ‘‘: ج۹، ص:۴۴۴۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص181

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2750/45-2750

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہاں یہ باب درست ہے کہ مقتدی کی اقتداء پہلے سلام کے بعد ختم ہو جاتی ہے، لہٰذا امام کے دوسرے سلام کی تکمیل سے پہلے مقتدی اپنا دوسرا سلام پھیر سکتا ہے تاہم بلا کسی عذر کے ایسا کرنا مناسب نہیں ہے۔

’’وتنقطع التحريمة بتسليمة واحدة ........ وتنقضى قدوة بالأول قبل عليكم بالمشهور قال في التنجيس الامام اذا فرغ من صلاته فلما قال السلام جاء رجل واقتدى به قبل أن يقول عليكم لا يصير داخلا في صلاته‘‘ (الدر المختار مع رد المحتار’’كتاب الصلاة‘‘: ج 2، ص: 126 اور 239)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند