نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 978 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: عورتوں کے لئے  چہرہ ، ہتھیلی اور پاؤں کے علاوہ پورا جسم ستر ہے، اور پورے ستر کا پردہ لازم ہے۔   واللہ تعالی اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 40/

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔بستر میں جو ناپاکی جذب ہوگئی ہے اس کو پاک کرنے کے لئے دھونا ہی لازم ہے ۔خشک ہونے سے پاکی حاصل نہیں ہوگی۔  اس پر نماز پڑھنے  کےلئے کوئی کپڑا بچھالیا جائے۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Prayer / Friday & Eidain prayers

Ref. No. 964/41-123

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

You should set alarm so that you will not miss the fajr prayer again. Nevertheless, if fajr prayer is missed due to oversleeping, you have to make up fajr prayer along with two rakat of fajr sunnat as soon as you wake up.  If you couldn’t make up fajr prayer with sunnah before the time of sun-decline, and Zuhr time started, then you have to pray only two obligatory Rakat of Fajr and don't pray two Rakat of fajr Sunnah. 

عَن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم حين قفل من غزوة خيبر فسار ليلة حتى أدركنا الكرى عرَّس وقال لبلال اكلأ لنا الليل فغلبت بلالا عيناه وهو مستند إلى راحلته فلم يستيقظ النبي صلى الله عليه وسلم ولا بلالاً، ولا أحد من أصحابه حتى ضربتهم النشمس فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم أولهم استيقاظا ففزع رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا بلال فقال أخذ بنفسي الذي أخذ بنفسك بأبي أنت وأمي يا رسول الله فاقتادوا رواحلهم شيئا ثم توضأ النبي صلى الله عليه وسلم وأمر بلالا فأقام لهم الصلاة وصلى بهم الصبح فلما قضى الصلاة قال من نسي صلاة فليصلها إذا ذكرها فإن الله تعالى قال {أقم الصلاة لذكري} [طه: 14] . (معالم السنن 1/136)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

طلاق و تفریق

Ref. No. 1072/41-243

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔  ان پیپرز میں کیا لکھا تھا اس کی مختصر وضاحت بھیجیں تاکہ جواب لکھاجاسکے۔ فائل اٹیچ نہیں کرسکتے تو فائل میں جو لکھا ہے اس کا اختصار بھیجیں۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Miscellaneous

Ref. No. 1407/42-835

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Yes, it is allowable to wear a watch which has a leather strap.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

حج و عمرہ

Ref. No. 1532/43-1035

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسا کرنا  کسی عذر کی بناء پر مکروہ  نہیں ہے، لیکن اس کی عادت بنالینا مکروہ ہوگا۔ اس لئے کہ سنت طریقہ یہی ہے کہ ہر طواف  کی تکمیل پر دو رکعت واجب ادا کرے، اور پھر اس کے بعد دوسرا طواف شروع کرے۔  

ويكره أن يجمع بين أسبوعين فصاعدا قبل أن يصلي الركعتين بينهما عند أبي حنيفة ومحمد، وهو مذهب عمر وجماعة أخر وقال أبو يوسف لا بأس به إن انصرف عن وتر مثل أن ينصرف عن ثلاثة أسابيع أو خمسة أو سبعة (تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، باب الاحرام، 2/19)

(قال) ، ويكره أن يجمع بين أسبوعين من الطواف قبل أن يصلي في قول أبي حنيفة ومحمد رحمها الله تعالى، وقال أبو يوسف - رحمه الله تعالى - لا بأس بذلك إذا انصرف على وتر ثلاثة أسابيع أو خمسة أسابيع لحديث عائشة - رضي الله عنها - أنها طافت ثلاثة أسابيع ثم صلت لكل أسبوع ركعتين، ولأن مبنى الطواف على الوتر في عدد الأشواط فإذا انصرف على وتر لم يخالف انصرافه مبنى الطواف، واشتغاله بأسبوع آخر قبل الصلاة كاشتغاله بأكل أو نوم، وذلك لا يوجب الكراهة فكذا هنا إذا انصرف على ما هو مبنى الطواف بخلاف ما إذا انصرف على شفع؛ لأن الكراهة هناك لانصرافه على ما هو خلاف مبنى الطواف لا لتأخيره الصلاة وأبو حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى قالا إتمام كل أسبوع من الطواف بركعتين فيكره له الاشتغال بالأسبوع الثاني قبل إكمال الأول كما أن إكمال كل شفع من التطوع لما كان بالتشهد يكره له الاشتغال بالشفع الثاني قبل إكمال الأول (المبسوط للسرخسی، الطواف قبل طلوع الشمس 4/47) (فتح القدیر، باب الاحرام 2/294) البنایۃ، حکم السعی بین الصفا والمروۃ 4/210)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ مسئلہ استواء علی العرش کا ہے، اہل حق کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا برحق ہے؛ البتہ اس کی کیفیت کا ہم کو علم نہیں ہے اور عرش پر ہونا دنیاوی بادشاہوں کے تخت پر بیٹھنے سے بالکل مختلف ہے۔ مذکورہ فی السوال عقیدہ فرقۂ مرجیہ کا ہے جو اہل سنت

والجماعت سے خارج گمراہ فرقہ ہے؛ لہٰذا مذکورہ شخص ایمان سے خارج نہیں ہے۔ (۱)

(۱) ففي صحیح البخاري قال مجاہد: استوی علی العرش علا علی العرش وقال أبو العالیۃ: استوی علی العرش ارتفع۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ طہ: الآیات:۱، إلی ۱۶‘‘: ج ۸، ص: ۴۷۵)

ومن طریق ربیعۃ بن أبی عبد الرحمن أنہ سئل کیف استوی علی العرش فقال الاستواء غیر مجہول والکیف غیر معقول وعلی اللہ الرسالۃ وعلی رسولہ البلاغ وعلینا التسلیم۔ (ابن حجر، فتح الباري، ’’قولہ باب وکان عرشہ علی الماء وہو رب‘‘: ج ۱۳، ص: ۴۰۶)

 

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1683/43-1325

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز پڑھنے کے لئے جگہ کا پاک ہونا شرط ہے، اور اس سے مراد وہ جگہ ہے، جہاں نمازی کے دونوں پاؤں رہتے ہیں ، اور سجدے کی حالت میں جہاں دونوں گھٹنے، دونوں ہاتھ، پیشانی اور ناک رکھی جاتی ہو۔ اس لئے پنڈلی کے نیچے کی جگہ جس سے پنڈلی مس نہیں ہوتی ہے، اس کا ناپاک رہنا مضر نہیں، نماز درست ہوجائے گی۔

يشترط طهارة "موضع القدمين۔۔۔۔و "منها طهارة موضع "اليدين والركبتين" على الصحيح لافتراض السجود على سبعة أعظم۔۔۔"و" منها طهارة موضع "الجبهة على الأصح" من الروايتين عن أبي حنيفة وهو قولهم رحمهم الله ليتحقق السجود عليها لأن الفرض وإن كان يتأدى بمقدار الأرنبة على القول المرجوح يصير الوضع معدوما حكما بوجوده على النجس ولو أعاده على طاهر في ظاهر الرواية ولا يمنع نجاسة في محل أنفه مع طهارة باقي المحال بالاتفاق لأن الأنف أقل من الدرهم ويصير كأنه اقتصر على الجبهة مع الكراهة (مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی: ج: 1، ص: 210، ط: دار الکتب العلمیۃ)

وإن كانت النجاسة تحت قدمي المصلي منع الصلاة. كذا في الوجيز للكردي ولا يفترق الحال بين أن يكون جميع موضع القدمين نجسا وبين أن يكون موضع الأصابع نجسا وإذا كان موضع إحدى القدمين طاهرا وموضع الأخرى نجسا فوضع قدميه اختلف المشايخ فيه الأصح أنه لا تجوز صلاته فإن وضع إحدى القدمين التي موضعها طاهر ورفع القدم الأخرى التي موضعها نجس وصلى فإن صلاته جائزة. كذا في المحيط۔ --- وإن كانت النجاسة تحت يديه أو ركبتيه في حالة السجود لم تفسد صلاته في ظاهر الرواية واختار أبو الليث أنها تفسد وصححه في العيون. كذا في السراج الوهاج. (الھندیۃ، الفصل الثانی فی طھارۃ مایستر بہ العورۃ 1/61)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حدیث و سنت

Ref. No. 1794/43-1561

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  غلام کی ذات اس کے آقا کے پاس مملوک ہوتی تھی،  اور غلام کو کسی بھی طرح کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہوتاتھا، وہ اپنی مرضی سے غلامیت سے باہر نہیں آسکتا تھا وہ اپنی مرضی سے اپنے آپ کو کسی سےبیچے یا خریدے اس کا بھی کوئی اختیار نہیں تھا۔ جبکہ آج کل کے ملازمین خودمختار ہوتے ہیں ، ملازمت پر رکھنے والے سے ایک معاہدہ ہوتاہے اور دونوں فریق کی رضامندی سے ملازمت کے اصول طے ہوتے ہیں، ملازم جب چاہے ملازمت ترک کرسکتاہے،  اور دوسری جگہ ملازمت تلاش کرسکتاہے۔ معاہدہ کی خلاف ورزی کرنے کی صورت میں دونوں قابل گرفت ہوں گے۔ اس لئے غلام اور ملازم  کے اجروثواب میں فرق ہوگا،  اور جو دوہرے اجر کی بات غلام کے لئے ہے وہ آزاد کے لئے نہیں ہوگی۔ البتہ اپنے اہل وعیال کی عمدہ طریقہ پر  کفالت کرنے کے لئے کوشاں رہنے کا ثواب ضرور حاصل ہوگا جس کی حدیث میں تاکید آئی ہے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

 

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اللہ تعالیٰ کی مقدس ذات کے علاوہ سب کے لئے فنا ہے اور سب اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں رزاق بھی صرف اسی کی ذات ہے، اپنی زندگی میں جو لین دین کرتا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر نہیں ہوتا، تو انتقال کے بعد کوئی کسی کو اور کس طرح دے سکتا ہے۔ قرآن کریم میں واضح طور پر ہے کہ {إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ہط ۴ }(۱) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں ’’أدعوني أستجب لکم‘‘(۲) مجھ سے مانگو میںتمہاری دعائیں قبول کرتا ہوں {ہُوَ الرَّزَّاقٌ}(۳) وہ ہی ہے جو رزق دیتا ہے، اس کے باوجود غیر اللہ سے مانگنا اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ کو مددگار حقیقی یقین کرنا، اللہ تعالیٰ سے نہ مانگنے اور اس کے نہ دینے کا عقیدہ رکھنا کفریہ عقیدہ ہے اور ایسا شخص خارج از ایمان ہے(۴) البتہ اگر رزاق حقیقی اللہ تعالیٰ کو مانا جائے اور کسی ولی یا برزگ کا وسیلہ اختیار کیا جائے تو یہ درست ہے۔(۵)

(۱) (الفاتحہ: ۴) قال ابن عباس -رضي اللّٰہ عنہ-: معناہ نعبدک ولا نعبد غیرک وإیاک نستعین أي نعبدک مستعین بک۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، تفسیر مظہري: ج ۱، ص: ۸)

(۲) قال ابن جزیر: إن اللّٰہ واسع بإحاطۃ تورہ ووجودہ الأشیاء کلہا منہا مشارق الأرض ومغاربہا إحاطۃ غیر متکفیۃ ولا مدرکاً۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي-رحمہ اللّٰہ-، تفسیر مظہري: ج ۱، ص: ۱۱۷)

(۳) {إِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الرَّزَّاقٌ ذُوْ الْقُوَّۃِ الْمَتِیْن} (سورۃ الزاریات: ۶۰) قال صاحب مظہري: إن اللّٰہ ہو الرزاق لجمیع خلقہ مستغن عنہ۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي-رحمہ اللّٰہ-، تفسیر مظہري:  ج ۹، ص: ۹۲)

(۴) (قولہ باطل وحرام) لوجوہ: منہا أنہ نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا یجوز لأنہ عبادۃ والعبادۃ لا تکون لمخلوق۔ ومنہا أن المنذور لہ میت والمیت لا یملک۔ ومنہ أنہ إن ظن أن المیت یتصرف في الأمور دون اللّٰہ تعالیٰ واعتقادہ ذلک کفر۔ وأیضاً: والنذر الذي یقع

من أکثر العوام بأن یأتي إلی قبر بعض الصلحاء ویرفع سترہ قائلاً یا سیدي فلان إن قضیت حاجتي فلک مني من الذہب مثلاً کذا باطل إجماعاً۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یسفد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب: في النذر الذي یقع للأموات من أکثر‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)

(۵) عن أنس بن مالک أن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ: کان إذا قحطوا استسقیٰ بالعباس بن عبد المطلب، فقال: اللّٰہم إنا کنا نتوسل إلیک بنبینا فتسقینا، وأنا نتوسل إلیک بعم نبینا فأسقنا، قال: فیسقون۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الاستسقاء: باب سؤال الناس الإمام الاستسقاء إذا قحطوا‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، رقم: ۱۰۱۰)

ویستفاد من قصۃ العباس استحباب الاستشفاع بأہل الخیر والصلاح وأہل بیت النبوۃ۔ (أحمد بن علي بن حجر، فتح الباري شرح صحیح البخاري، ’’قولہ باب سؤال الناس الإمام الاستسقاء‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۷)

ومن أداب الدعاء تقدیم الثناء علی اللّٰہ والتوسل بنبي اللّٰہ، لیستجاب الدعاء۔ (الشاہ ولي اللّٰہ الدہلوي، حجۃ اللّٰہ البالغۃ، ’’الأمور التي لا بد منہا في الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۴)

أن التوسل النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم جائز في کل حال قبل خلقہ وبعد خلقہ في مدت حیاتہ في الدنیا وبعد موتہ فی مدۃ البرزخ۔ (السبکي، شفاء السقام: ص: ۳۵۸)

لأن المیت لا یسمع بنفسہ۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ’’مسألۃ في أن الدعاء للمیت ینفع‘‘: ص: ۲۲۶)

{إِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَہٗط} (سورۃ الحج: ۷۳)

{قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ج لَا یَمْلِکُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ  فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَھُمْ فِیْھِمَا مِنْ شِرْکٍ وَّمَا لَہٗ مِنْھُمْ مِّنْ ظَھِیْرٍہ۲۲} (سورۃ السباء: ۲۲)

{قُلْ أَفَرَئَ یْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللّٰہُ بِضُرٍّ ھَلْ ھُنَّ کٰشِفٰتُ ضُرِّہٖٓ أَوْ أَرَادَنِيْ بِرَحْمَۃٍ ھَلْ ھُنَّ مُمْسِکٰتُ رَحْمَتِہٖط قُلْ حَسْبِيَ اللّٰہُ ط عَلَیْہِ یَتَوَکَّلُ الْمُتَوَکِّلُوْنَ ہ۳۸} (سورۃ الزمر: ۳۸)  أي: لا تستطیع شیئاً من الأمر۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر: ج ۷، ص: ۱۰۰)

 

(فتاوی دار العلوم وقف دیوبند جلد اول ص 181)