طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:تاش کھیلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا؛ البتہ ایسے شخص کو وضو کر لینا چاہئے یعنی ایسے شخص کے لیے وضو کرنا مستحب ہے۔
طحطاوی میں ہے:
’’والقسم الثالث: وضوء مندوب … بعد کلام غیبۃ وکذب ونمیمۃ وبعد کل خطیئۃ وإنشاد شعر الخ‘‘ (۲)
عالمگیری میں ہے:
’’ومنہا الوضوء بعد الغیبۃ وبعد إنشاد الشعر‘‘(۳)

(۲) الطحطاوي، طحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ: …الوضوء علی ثلاثۃ اقسام‘‘: ج۱ ، ص: ۸۴۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الأول في الوضوء، الفصل الثالث: في المستحبات‘‘: ج ۱، ص: ۶۰۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص253

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر نابالغ لڑکے نے بالغہ عورت سے جماع کر لیا، تو اس صورت میں بالغہ عورت پر غسل واجب ہوگا اور نابالغ پر غسل واجب نہیں ہوگا؛ لیکن اگر لڑکا اس قابل ہے کہ جماع کرسکتا ہے یا قریب البلوغ ہے اور اس کو شہو ت بھی ہوتی ہے، تو ایسی حالت میں اس پر بھی غسل واجب ہے، علی ہذا القیاس اگر بالغ مرد نابالغہ سے جماع کرے، تو مرد پر غسل واجب ہے اور نابالغہ پر غسل واجب نہیں ہے؛ لیکن اگر لڑکی مرا ہقہ (قریب البلوغ) ہے اور اس کو شہوت ہوتی ہے تو اس پر بھی غسل واجب ہے۔ یہ مسئلہ منیۃ المصلی ، ہدایہاور قدوری وغیرہ میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔
نابالغ بچہ یا بچی احکام شرع کے مکلف نہیں ہوتے ہیں؛ اس لیے نابالغ لڑکی یا لڑکے پر صحبت کی وجہ سے غسل واجب نہ ہوگا، امام بخاریؒ نے ایک روایت نقل کی ہے: ’’ان القلم رفع عن المجنون حتی یفیق وعن الصبي حتی یدرک وعن النائم حتی یستیقظ‘‘(۱)
’’والمعاني المو جبۃ للغسل إنزال المني علی وجہ الدفق والشھوۃ من الرجل والمرأۃ حالۃ النوم والیقظۃ‘‘(۱)
’’ولا (یجب الغسل) عند إدخال إصبع ونحوہ کذکر غیرآدمي وذکر خنثی ومیت وصبي لا یشتھی وما یصنع من نحو خشب في الدبر أو القبل علی المختار‘‘(۲)
’’صبي ابن عشر جامع امرأتہ البالغۃ علیھا الغسل لوجود مواراۃ الحشفۃ بعد توجہ الخطاب ولا غسل علی الغلام لانعدام الخطاب إلا أنہ یؤمر بہ تخلقا
کما یؤمر بالوضوء والصلوٰۃ ولو کان الزوج بالغا والزوجۃ صغیرۃ تشتھی فالجواب علی العکس‘‘(۳)
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’باب لا یرجم المجنون والمجنونۃ‘‘: ج ۸، ص: ۱۶۵، رقم: ۶۸۱۵۔(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(۱) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في تحریر الصاع والمد والرطل‘‘: ج۱، ص: ۳۰۴۔
(۳) إبراہیم الکبیري، غنیۃ المستملي معروف بہ کبیري، ’’کتاب الطہارۃ: في بیان فضیلۃ المسواک، بحث غسل‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص345

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: ہر مقررہ امام کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ محراب سنائے اور اگر امام صاحب اپنی کسی ذاتی مجبوری کی وجہ سے تراویح میں قرآن پاک نہیں پڑھ سکتے تھے تو ان کو مطعون کرنے والے یا ان کے خلاف اس سلسلہ میں آواز اٹھانے والے اور فتنہ برپا کرنے والے سخت غلطی پر ہیں اور فتنہ پردازی کی وجہ سے گنہگار بھی ہوتے ہیں اور ضروری ہے کہ ایسی حرکت سے باز آئیں۔ اور صورت مسئول عنہا میں امام مذکور کی امامت بلا شبہ بلا کراہت جائز و درست ہے۔(۱)
(۱) ولو أم قوما وہم لہ کارہون، إن) الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ لہ ذلک تحریما؛ لحدیث أبي داؤد: لا یقبل اللّٰہ صلاۃ من تقدم قوما وہم لہ کارہون، (وإن ہو أحق لا)، والکراہۃ علیہم۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۷)
رجل أم قوما وہم لہ کارہون إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ لہ ذلک، وإن کان ہو أحق بالإمامۃ لا یکرہ، ہکذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘:ج۱، ص: ۸۷)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص331

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر شدید عذر وتقاضا ہو تو جا سکتا ہے جیسے مسافر کی ٹرین چھوٹ جانے کا اندیشہ، یا پیشاب وپاخانہ کا شدید تقاضا ہو، آگ لگ گئی وغیرہ، بلا عذر ایسا کرنا جائز نہیں، نمازی کے آگے سے گزرنے پر سخت وعید ہے۔(۱)

(۱) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لویعلم الماربین یدي المصلي ماذا علیہ لکان أن یقف أربعین خیرالہ من أن یمربین یدیہ، قال أبوالنضرلاأدري، قال أربعین یوما أوشہرا أوسنۃ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب إثم الماربین یدی المصلي‘‘: ج۱، ص: ۷۴، رقم: ۵۱۰)
إن کعب الأحبارقال: لویعلم الماربین یدي المصلي ماذا علیہ لکان أن یخسف بہ خبرالہ من أن یمربین یدیہ۔ (أخرجہ مالک، في الموطأ، ’’کتاب الصلاۃ: التشدید في أن یمر أحد بین یدي المصلي‘‘: ص: ۱۵۳، مطبوعہ کراچی)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص447

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر مقتدی امام کے ساتھ رکوع میں اتنی دیر تک شامل ہوگیا کہ کم از کم ایک بار ’’سبحان ربي العظیم‘‘ کہا جا سکے، تو اس مقتدی کو رکوع مل گیا اور رکعت بھی مل گئی؛ بلکہ اگر نفس شرکت بھی پائی گئی کہ مقتدی رکوع میں گیا اور امام رکوع میں تھا پھر فوراً امام اٹھ گیا، تو بھی رکعت پانے والا کہلائے گا اور اگر رکوع میں شرکت بالکل نہیں پائی گئی تو رکعت نہیں ملی۔(۱)

(۱) ومن انتہی إلی الإمام في رکوعہ فکبر ووقف حتی رفع الإمام رأسہ لا یصیر مدرکاً لتلک الرکعۃ خلافاً لزفر ہو یقول أدرک الإمام فیما لہ حکم القیام فصار کما لو أدرکہ في حقیقۃ القیام ولنا۔ أن الشرط ہو المشارکۃ في أفعال الصلاۃ ولم یوجد لا في القیام ولا في الرکوع۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب إدراک الفریضۃ‘‘:ج۱، ص: ۱۵۳، مکتبہ: دار الکتاب دیوبند)
قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إنما جعل الإمام لیؤتم بہ فإذا کبر فکبروا وإذا رکع فارکعوا وإذا رفع فارفعوا۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ، باب ما جاء إذا صلی الإمام قاعدًا فصلوا قعودًا‘‘: ج ۱، ص: ۸۳)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص361

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئلہ میں نیز محدث شخص وضو کرنے بعد جب دیکھے کہ امام صاحب نماز سے فارغ ہوچکے ہیں تو بنا کرنے والا اپنی اصل جگہ واپس آکر یا کسی جگہ اس طرح چھوٹی ہوئی رکعت یا رکعتیں پڑھے گا جس طرح امام کے پیچھے پڑھتا ہے، یعنی: قرأت نہیں کرے گا، صرف اندازے سے امام صاحب کے قیام کے بہ قدر قیام کرے گا اور رکوع اور سجدہ وغیرہ حسب معمول کرے گا اور اس طرح چھوٹی رکعت یا رکعتیں ادا کرکے نماز مکمل کرے گا۔ جیسا کہ کتب فقہ میں اس کی تفصیل مذکور ہے۔
فتاویٰ ہندیہ میں مذکور ہے: جو شخص پہلی رکعت میں امام کے ساتھ شریک ہو، لیکن بعد میں کسی رکعت میں مثلاً سوتے رہ جانے، یا وضو ٹوٹ جانے وغیرہ کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے، اسے لَاحِق کہا جاتا ہے۔
’’اللاحق وہو الذي أدرک أولہا وفاتہ الباقي لنوم أو حدث أو بقي قائما للزحام‘‘(۱)
’’واللاحق من فاتتہ الرکعات کلھا أو بعضھا لکن بعد اقتدائہ بعذر کغفلۃ وزحمۃ وسبق حدث الخ‘‘(۲)
’’فلو نام في الثالثۃ واستیقظ في الرابعۃ فإنہ یأتي بالثالثۃ بلا قراء ۃ۔ فإذا فرغ منھا صلی مع الإمام الرابعۃ، وإن فرغ منھا الإمام صلاھا وحدہ بلا قراء ۃ أیضاً‘‘(۳)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس ……في الإمامۃ، الفصل السابع في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۰، مکتبہ فیصل دیوبند۔
(۲) الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: آخر باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۳، ۳۴۴، ط: مکتبہ زکریا دیوبند۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: آخر باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۵، ط: مکتبہ زکریا دیوبند نقلاً عن البحر۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص60

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: چین لگی ہوئی گھڑی باندھ کر نماز پڑھنا درست ہے؛ اس لیے کہ گھڑی عام طور پر زینت کے لیے نبض پر پہنی جاتی۔(۲)

(۲) ولا یتختم الا بالفضۃ لحصول الاستغناء بہا فیحرم لغیرہا کجہر وصحح السرخسي جواز الیشب والعقیق وعمم منلا خسرو وذہب وحدید وصفر ورصاص وزجاج وغیرہا لما مر۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’ ‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۹، سعید کراچی)… التختم بالحدید والصفر والنحاس والرصاص مکروہ للرجال والنساء جمیعاً، وأما العقیق ففي التختم بہ اختلاف المشایخ، وصحیح في الذخیرۃ أنہ لایجوز وقال قاضي خان: الأصح أنہ یجوز۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۸۸، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص185

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: وقت مکروہ نہ ہو اور جماعت شروع ہونے میں اتنا وقت ہو کہ تحیۃ المسجد پڑھی جا سکتی ہو تو پڑھ سکتا ہے ورنہ نہیں۔(۲)

(۲) (وأداء الفرض أو غیرہ الخ:) قال في النہر: وینوب عنہا کل صلاۃ صلاہا عند الدخول فرضاً کانت أو سنۃ۔ وفي البنایۃ معزیا أي مختصر المحیط أن دخولہ بنیۃ الفرض أو الاقتداء ینوب عنہا، وإنما یؤمر بہا إذا دخلہ لغیر الصلاۃ، والحاصل أن المطلوب من داخل المسجد أن یصلي فیہ لیکون ذلک تحیۃ لربہ تعالی: والظاہر أن دخولہ بنیۃ صلاۃ الفرض لإمام أو منفرد أو بنیۃ الاقتداء ینوب عنہا إذا صلی عقب دخولہ، وإلا لزم فعلہا بعد الجلوس وہو خلاف الأولی کما یأتي، (ینوب عنہا بلانیۃ) قال في الحلیۃ: لو اشتغل داخل المسجد بالفریضۃ غیرنا وللتحیۃ قامت تلک الفریضۃ مقام تحیۃ المسجد لحصول تعظیم المسجد، کما في البدائع وغیرہ۔ فلو نوی التحیۃ مع الفرض فظاہر ما في المحیط وغیرہ أنہ یصح عندہما۔ وعند محمد لایکون داخلا في الصلاۃ۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب في تحیۃ المسجد: ج ۲، ص: ۴۵۹، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص405

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1253 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-: درست ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Usury / Insurance

Ref. No. 1024

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

It is not allowable to give interest money in house tax or road tax etc. The interest money must be given to the poor and needy without having any intention of reward. And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband