اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جنت کے صحیح احوال کا علم اللہ رب العزت کو ہی ہے۔ اس لئے حتمی طور پر کوئی بات نہیں کہی جاسکتی ہے۔ البتہ بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ ایسی عورت کو اختیار دیا جائے گا اور جس کے ساتھ رہنا چاہے وہ رہ سکتی ہے۔ {ولھم مایشتہون}۔(۲)

(۲) إني سمعت أبا الدرداء یقول: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم         … یقول: أیما امرأۃ توفي عنہا زجہا، فتزوجت بعدہ فہي لأٓخر أزواجہا، وما کنت لاختارک علی أبي الدرداء۔ (سلیمان بن أحمد الطبراني، المعجم الأوسط: ج ۳، ص: ۲۷۵، رقم: ۳۱۳۰)
 في الغرائب ولو ماتت قبل أن تتزوج تخبیر أیضاً أن نصیب بآدمي زوجت منہ وإن لم ترض فاللّٰہ یخلق من الحور العین فیزوجہا منہ واختلف الناس في المرأۃ التي یکون بہا زوجان في الدنیا لا بہما تکون في الآخرۃ قیل تکون لآخر ہما وقیل تخیر فتتحار أیہما شاء۔ (مجموعۃ الفتاوی: ج ۳، ص: ۱۰، بحوالہ محمودیۃ: ج ۳، ص: ۴۱۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص295

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ رواج کی کوئی اصل شرعاً نہیں ہے اور یہ اعتقاد بھی غلط ہے جیسا کہ مشہور ہے کہ عید اور بقر عید کے دن شیطان روزہ رکھتا ہے اس کی بھی کوئی اصل نہیں ہے غلط مشہور ہے۔ (۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا عصلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
أشرف علي التھانوي، أغلاط العوام: ص: ۴۷۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص527

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سرندیپ میں ہے۔(۲) بعض حضرات مسجد حنیف میں ہونے کے قائل ہیں۔(۱)

(۲) قال علي بن أبي طالب وقتادۃ وأبو العالیہ، أہبط بالہند فقال قوم بل أہبط بسرندیب علی جبل یقال لہ: نود۔ (المنتظم، لابن الجوزي، ’’باب ذکر آدم علیہ السلام‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۸)
(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: صلی جبریل علی آدم کبر علیہ أربعاً وصلی جبریل بالملائکۃ یومئذ ودفن في مسجد الحنیف واحد من قبل القبلۃ ولحد لہ وکتم کبرہ۔ (’’أیضاً‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۸)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص224

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سیاست مذہب سے جدا نہیں ہے، اعلاء کلمۃ اللہ اور تبلیغ دین کے ساتھ ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے افعال حالات کے اعتبار سے سیاست پر بھی مبنی تھے مثلاً مدینہ منورہ پہونچ کر یہودی قبائل سے مصالحت کرنا وغیرہ ذلک۔ صحابہؓ، خلفاء اربعہؒ کی زندگی بھی سیاست اور تبلیغ دین سے معمور ہے سیاست کو مذہب سے الگ سمجھنا نادانی اور جہالت  ہے تبلیغی جماعت کیوں ایسا کرتی ہے اس کی ذمہ داری اسی پر ہے ان سے پوچھنا چاہئے کہ ان کے پاس کیا دلائل ہیں۔(۱)

(۱) حدثنا محمد بن بشار رضي اللّٰہ عنہ، قال حدثنا شعبۃ عن فرات القزاز، سمعت أباہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، یحدث عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: کانت بنو إسرائیل تسوسہم الأنبیاء، کلما ہلک نبي خلفہ نبي وإنہ لا نبي بعدي وسیکون خلفاء، فیکثرون قالو، فما تأمرنا؟ قال فوا ببیعۃ الأول فالأول أعطوہم حقہم فإن اللّٰہ سائلہم عمن استرعاہم۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأنبیاء: باب ماذکر عن بني إسرائیل‘‘: ج ۱، ص: ۴۹۱، رقم: ۳۴۵۵)
وکانت شہرۃ عمر رضي اللّٰہ عنہ، بالسیاسۃ وکان فضلہ بالعلم باللّٰہ الذي مات تسعۃ أعشارہ بموتہ وبقصدہ التقرب إلی اللّٰہ عز وجل في ولایتہ وعدلہ وشفقتہ علی خلقہ …… والسلطان یتوسط بین الخلق للّٰہ فیکون مرضیاً عند اللّٰہ سبحانہ ومثابا۔ ( إمام غزاليؒ، إحیاء علوم الدین، ’’کتاب العلم: ج ۱، ص: ۴۴)
وقال تعالیٰ: {وَ أَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ وَأٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ ج لَاتَعْلَمُوْنَھُمْ ج أَللّٰہُ یَعْلَمُھُمْ ط وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئٍ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یُوَفَّ إِلَیْکُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ ہ۶۰ وَإِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَھَا وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط إِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ہ۶۱} (سورۃ الأنفال: ۶۰، ۶۱)

------------------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص346

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:اس صورت میں کنواں ناپاک ہو گیا۔ جن لوگوں نے اس ناپاک پانی سے وضو کی وہ تمام نمازیں لوٹائیں؛ اور تین دن کی نمازیں لوٹائی جائیں۔’’کذا في الفقہ والفتاویٰ‘‘۔(۲)

(۲) و وجود حیوان میت فیھا أي البئر ینجسھا من ثلاثہ أیام و لیالیھا إن لم یعلم   وقت وقوعہ۔ (احمد بن محمد بن اسماعیل الطحطاوی،حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، ص:۴۱)؛  و قید بالحیوان؛ لأن غیرہ من النجاسات لا یتاتي فیہ التفصیل ولا الخلاف، بل ینجسھا من وقت الوجدان فقط۔(ایضاً)، و إن کانت قد انتفخت أو تفسخت أعادوا صلاۃ ثلاثۃ أیام و لیالیھا۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، کتاب الطہارۃ، فصل في البئر، ج۱، ص:۱۱۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص482



 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو میں بدن کے اعضاء کو دھونا گناہوں کے ترک کی طرف ایماء ہے اور رجوع الی اللہ کی صورت اور صفائی ظاہر وباطن کی استدعاء ہے، زبان قال سے پڑھنا رحمت الٰہی کو جذب کرنے کے لیے بہت ہی مناسب اور مؤکد دعا ہے؛ کیونکہ جب انسان کا ظاہر پاک ہو جاتا ہے، تو یہ اس کی فطرت کا تقاضا ہے کہ اس کا دل بھی اسی طرح پاک وصاف ہو جائے، مگر وہاں چونکہ قدرت کے علاوہ کسی اور کی رسائی نہیں ہوسکتی ہے؛ اس لیے دل کو پاک صاف کرنے کی استدعااسی سے کی جاتی ہے۔(۱)

(۱) (ماخوذاز: حکیم الامت حضرت تھانوی قدس سرہٗ،احکامِ اسلام عقل کی نظر میں، ’’اختتام وضو پر دعائے توبہ پڑھنے کا راز‘‘ ص۳۴)
روح الطھارۃ لا یتم إلا بتوجہ النفس إلی عالم الغیب، واستفراغ الجھد في طلبھا، فضبط لذلک ذکراً، و رتب علیہ ماھو فائدۃ الطھارۃ الداخلۃ في جذر النفس۔ (الشاہ ولی اللّٰہ الدہلوی، حجۃ اللّٰہ البالغہ، آداب الوضوء، ج۱، ص:۵۷۵)؛ و(اللھم اجعلني من التوابین) أي للذنوب والراجعین عن العیوب … و فیہ تعلیم للأمۃ کما ورد: ’’کلکم خطّاؤون، وخیر الخطائین التوابون۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، کتاب الطہارۃ، الفصل الأول، ج۲، ص:۱۵، مکتبۃ فیصل دیوبند)
 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص150

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حالت وضو میں اگر کسی نے ویکسین لگوائی اور خون اتنی قلیل مقدار میں نکلا کہ وہ بہنے کے درجہ میں نہ ہو تو وضو نہیں ٹوٹے گا؛ لیکن جسم میں سوئی داخل کرنے یا نکالتے وقت خون اتنی مقدار میں ہو کہ وہ بہنے کے درجے میں ہو یعنی اگر جسم پر اس کو چھوڑ دیا جائے تو وہ از خود بہہ پڑے، تو ایسی صورت میں وضو ٹوٹ جائے گا، یہی حکم عام انجکشن کا ہے کہ اگر تھوڑا سا خون انجکشن کے ساتھ نکل آئے جو بہنے کے قابل نہ ہو، تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
’’الوضوء من کل دم سائل‘‘(۱)
’’أما العلق إذا مصت العضو حتی امتلأت دما وکانت قلیلا بحیث لوسقطت وشقت لسال منہا الدم انتقض الوضوء وإن مصت قلیلاً بحیث لو شقت لم یسل لا ینتقض‘‘(۲)
’’إذا فصد وخرج منہ دم کثیر ولم یتلطخ رأس الجرح فإنہ ینقض‘‘(۳)

نیز کسی بھی ٹیسٹ کے لئے جسم سے خون نکالا جائے، تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا نماز یا دیگر عبادات کے لئے دو بارہ وضو کرنا ہوگا، جیسا کہ علامہ حصکفیؒ نے لکھا ہے:
    ’’(وینقضہ) خروج منہ کل خارج (نجس) بالفتح ویکسر (منہ) أي منالمتوضئ الحي معتاداً  أو لا، من السبیلین أو لا، (إلی ما یطہر) بالبناء للمفعول: أي یلحقہ حکم التطہیر۔ ثم المراد بالخروج من السبیلین مجرد الظہور وفي غیرہما عین السیلان ولو بالقوۃ، لما قالوا: لو مسح الدم کلما خرج، ولو ترکہ لسال نقض وإلا لا‘‘(۱)

(۱) حسن بن عمار الشرنبلالي، مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۔
(۲) ابراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۹۔
(۳) إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملي المعروف الحلبي الکبیري، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۰۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص254

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مکان دیا یا رقم دے کر مکان بنوایا اس کی دو صورتیں ہیں امام کو مذکورہ مکان امام ہونے کی حیثیت سے صرف رہائش کے لیے دیا مالک بناکر نہیں دیا یہ ہی صورت سوال سے معلوم ہوتی ہے تو مذکورہ مکان امام صاحب کی ملکیت نہیں ہوا اور امام صاحب کو اس کے فروخت کرنے کا کوئی حق حاصل نہ تھاامام صاحب نے ناحق مکان فروخت کیا  اس صورت میں امامت مکروہ ہوگی، اوردوسری صورت یہ کہ امام صاحب کو مکان کا مالک بنادیا گیا تھا اس صورت میںامام نے مکان فروخت کرلیا تو کوئی حرج نہیں اب مسجد کمیٹی یا متولی و مصلیان جو فیصلہ کریں اسی کے مطابق عمل ضروری ہے اگر ضرورت محسوس کریں تو فیصلہ کرکے اور صورتحال لکھ کر دارالافتاء سے رابطہ کرلیں اس کے بعد فیصلہ سنائیں۔ (۱)
(۱) قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لاتظلموا ألا لایحل مال إمرء إلا بطیب نفس منہ ولایجوز لأحد من المسلمین :أخذ مال أحد لغیر سبب شرعي۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، کتاب البیوع، باب الغصب والعاریۃ، ج۶، ص: ۵۲۰، رقم: ۲۹۶۴)
 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص332

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: (۱) اگر امام کے سامنے سترہ نہ ہو تو مقتدی کے سامنے سے گزرنا درست نہیں ہے، ہاں اگر پہلی صف میں جگہ خالی ہو تو صف پُر کرنے کے لیے مقتدی کے لیے  آگے سے گزرنے کی اجازت ہے۔
’’ولو وجد فرجۃ في الأول لا الثاني لہ خرق، الثاني لتقصیرہم وقال العلامۃ ابن عابدین: یفید أن الکلام فیما إذا شرعوا وفي القنیۃ: قال في آخر صف وبین الصفوف مواضع خالیۃ فللداخل أن یمر بین یدیہ لیصل الصفوف‘‘(۱)
(۲) اگر امام کے سامنے سترہ ہو تو وہ مقتدیوں کا بھی سترہ شمار ہوگا، لہٰذا اگر کوئی شخص نماز کے دوران مقتدیوں کی صف کے آگے سے گزرنا چاہے تو گزر سکتا ہے اس سے وہ گنہگار نہیں ہوگا۔
’’وکفت سترۃ الإمام للکل قولہ للکل أي المقتدین بہ کلہم وعلیہ فلو مر مار في قبلۃ الصف في المسجد الصغیر لم یکرہ إذا کان للإمام سترۃ‘‘(۲)
(۳، ۴) امام کا اگر سترہ ہو تو مقتدی کے سامنے سے گزرنا جائز ہے اور امام کے سامنے دیوار  بھی سترہ کے حکم میں ہے۔
’’یجوز أن یکون السترۃ ستارۃ معلقۃ إذا رجع أو سجد یحرکہا رأس المصلي ویزیلہا من موضع سجودہ ثم تعود إذا قام أو قعد‘‘(۳)
’’کان بین مصلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وبین الجدار ممر الشاۃ‘‘(۴)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في الکلام…علی الصف الأوّل‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۲۔
(۲) أیضًا:۔
(۳) أیضًا: ’’باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۰۔
(۴) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب قدرکم ینبغي أن یکون بین مصلي والسترۃ ‘‘: ج ۱، ص: ۵۱، رقم: ۴۹۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص448

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنتوں میں چاروں رکعتوں میں ضم سورت واجب ہے،(۱) اگر کسی بھی رکعت میں چھوٹ جائے، تو ترک واجب کی وجہ سے سجدہ سہو لازم ہوگا، سجدہ سہو آخر میں کرلیا جائے، تو نماز صحیح اور درست ہوجائے گی اعادہ نہیں کرنا ہوگا(۲) اور اگر سجدہ سہو نہیں کیا تو اعادہ نماز کا واجب ہوگا۔

(۱) تفسیر قولہ علیہ السلام: لا یصلي بعد صلاۃ مثلہا یعني رکعتین بقرأۃ ورکعتین بغیر قراء ۃ فیکون بیان فرضیۃ القراء ۃ في رکعات النفل کلہا۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب النوافل‘‘: ج۱، ص: ۱۴۹، مکتبہ: دار الکتاب دیوبند)
والقراء ۃ واجبۃ في جمیع رکعات النفل وفي جمیع رکعات الوتر۔ (أیضًا: ص: ۱۴۸، مکتبہ: دار الکتاب دیوبند)
وہذا الضم واجب في الأولیین من الفرض وفي جمیع رکعات النفل والوتر۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۶، مکتبہ: زکریا دیوبند)
(۲) ویلزمہ (أي السہو) إذا ترک فعلا مسنونا کأنہ أراد بہ فعلا واجبا إلا أنہ أراد بتسمیتہ سنۃ أن وجوبہا بالسنۃ۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب سجود السہو‘‘: ج۱، ص: ۱۵۷، مکتبہ: دار الکتاب دیوبند)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص361