Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم و دیگر انبیاء ؑ و صحابہؓ و دیگر علماء و صلحاء کو (ان کی زندگی میں یا بعد وفات) وسیلہ بناکر ان کا واسطہ دے کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا شرعاً جائز اور باعث قبولیت ہے۔
ایک روایت میں کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نابینا صحابی کو اپنے وسیلہ سے دعاء کرنے کی تلقین فرمائی اور کتب حدیث بخاری وغیرہ کی روایات سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو استسقاء کے لئے وسیلہ بنانا بھی ثابت ہے؛ لیکن اس سے یہ بات ہرگز لازم نہیں آتی کہ بعد وفات انبیاء یا صلحاء کو وسیلہ بنانا جائز نہیں، احناف وجمہور علماء محدثین کا یہی مسلک ہے۔ معارف القرآن، امداد الفتاویٰ، شرح فقہ اکبر وغیرہ اور حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے مشکلات القرآن میں طبرانی وبیہقی کے حوالہ سے روایات نقل کی ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام نے عرش الٰہی پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لکھا ہوا دیکھا، تو آپ کے وسیلہ سے دعاء کی، تو اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت متوجہ ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے حضرت آدم علیہ السلام کو یہ کلمات (ربنا ظلمنا أنفسنا الخ) عطا فرمائے۔ مشکلات القرآن۔(۱)
(۱) ’’عن عثمان بن حنیف، أن رجلا ضریر البصر أتی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: أدع اللّٰہ أن یعافیني قال: إن شئت دعوت، وإن شئت صبرت فہو خیر لک۔ قال: فادعہ، قال: فأمرہ أن یتوضأ فیحسن وضوئہ ویدعو بہذا الدعاء: اللہم إني أسألک وأتوجہ إلیک بنبیک محمد نبي الرحمۃ، إني توجہت بک إلی ربي في حاجتي ہذہ لتقضی لی، اللہم فشفعہ في: (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ما جاء في جامع الدعوات باب منہ‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۸)
بینما ثلاثۃ نفر یتماشون أخذہم المطر فأوؤا إلی غار في الجبل فقال بعضہم لبعض أنظروا أعمالا عملتموہا صالحۃ للّٰہ فادعوا للّٰہ بہا لعلہ یفرجہا عنکم۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الحرث والمزارعۃ، باب إذا زرع بمال قوم بغیر إذنہم‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۳)؛ کذا في فتح القدیر،’’کتاب الحج‘‘: ج ۳، ص: ۱۸۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص278
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:عینی ج۴ ص ۷۶، فتح الملہم ص ۸۱۱ و بذل الجہود ج۲ ص ۲۱۴ میں ہے کہ ابن حزم نے زیارت القبور کو زندگی میں ایک مرتبہ واجب کہا ہے؛ کیونکہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں صیغہ امر ہے جو وجوب کے لئے ہے۔
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: نہیتکم عن زیارۃ القبور ألافزوروہا‘‘(۱) محی السنہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ عبدربہ رحمۃ اللہ علیہ اور مازنی رحمۃ اللہ علیہ نے مردوں کے لیے زیارت قبور کے لیے جواز پر تمام اہل علم اور ائمہ دین کا اتفاق نقل کیا ہے لیکن امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے ابن سیرین، امام نخعی اور امام شیبہ رحمہم اللہ سے مردوں کے لئے زیارت قبور کی کراہت نقل کی ہے۔ ان کی دلیل بھی مسلم کی روایت ہے جس میں ’’نہیتکم‘‘ فرماکر منع کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جن محدثین اور اہل علم کے یہاں مردوں کے لئے زیارت قبور کی اجازت ہے ان کے پاس دلیل میں بہت سی حدیثیں ہیں۔ مثلاً اوپر والی حدیث ہی ہے کہ ابتدائے اسلام میں منع فرمایا گیا، پھر اجازت دیدی گئی ہے۔ ایسے ہی مسلم میں روایت ہے ’’قال کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعلمہم إذا خرجوا إلی المقابر السلام علی الدیار‘‘ (۲) اور ابن ماجہ میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ’’عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رخص في زیارۃ القبور‘‘(۳) اس قسم کی بہت سی حدیثیں ہیں جن سے جواز ثابت ہے۔
ابن حزم نے جو واجب کہہ دیا تو وہ صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ اصول میں یہ بات طے شدہ ہے کہ حکم نہی ممانعت کے بعد واجب کو ثابت نہیں کرسکتا صرف اباحت اور جواز ہی ثابت ہوسکتا ہے ۔ امام نخعیؒ اور شعبیؒ نے جومکروہ فرمایا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو وہ تمام حدیثیں نہیں پہونچی جن سے ممانعت کے بعد جواز ثابت ہوتا ہے جیسا کہ علامہ عینی اور صاحب فتح الباری اور صاحب بذل نے فرمایا ہے۔ علامہ عینی کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ بت پرستی چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوئے اور وہ قبروں کا غیر ضروری احترام کرتے تھے؛ اس لیے ابتدائے اسلام میں زیارت قبور سے منع فرمایا گیا ہے جب اسلام کی محبت راسخ ہوگئی اور بت پرستی سے نفرت ہوگئی تو وہ حکم منسوخ ہوگیا۔(۴)
حاصل یہ ہے کہ گاہے بگاہے عبرت اور موت کو یاد کرنے کے لئے قبرستان جانا جائز ہے، عورتوں کی زیارت قبور سے متعلق اہل علم میں اختلاف ہے: بعض اہل علم کے یہاں عورت کا قبرستان جانا مکروہ ہے۔ ان کی دلیل حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہے کہ آپ نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے ’’لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم زوارات القبور‘‘(۱) لیکن اکثر اہل علم نے کہا ہے کہ اگر فتنہ دین ودنیا نہ ہو تو عورتوں کو اجازت ہے۔ مسلم میں روایت ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’کیف أقول یا رسول اللّٰہ إذا زرت القبور؟ قال علیہ السلام: قولي السلام علی أہل الدیار من المؤمنین والمسلمین‘‘(۲) ایسے ہی مسند حاکم میں روایت ہے کہ حضرت فاطمہؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر کی زیارت کرتی تھیں۔(۳)
امام قرطبی نے کہا ہے کہ جن روایات میں ممانعت آئی ہے وہاں صیغہ مبالغہ کا ہے ’’زوارات القبور‘‘ یعنی جو بکثرت زیارت کرتی ہوں تو کثرت سے عورتوں کا جانا ممنوع ومکروہ ہے ورنہ اجازت ہے۔ یا عورتوں میں جزع وفزع کا معاملہ زیادہ ہے صبر کم ہے، حقوق زوجیت بھی متاثر ہوتے ہیں(۴) اگر دینی اور دنیاوی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو، تو شرعی حدود میں رہ کر زیارت قبور کی جاسکتی ہے؛ لیکن فی زمانہ عورتیں قبرستان میں جاکر بدعت کرتی ہیں، اور ایسی خرافات اور واہیات حرکتیں کرتی ہیں جن سے دین کو نقصان پہونچتا ہے، بے پردگی اور بے آبروئی کے اندیشے اپنی جگہ الگ ہیں؛ اس لئے انتظام اور احتیاط کی بات یہ ہی ہے کہ عورتوں کو قبرستان نہ جانے دیا جائے۔(۵)
(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الجنائز: فصل في جواز زیارۃ قبور المشرکین‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۴، رقم: ۹۷۷)
(۲) قد سبق تخریجہ۔
(۳) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب الجنائز: باب ما جاء في زیارۃ القبور‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۲، رقم: ۱۵۷۰۔
(۴) إن زیارۃ القبور إنما کان في أول الإسلام عند قربہم بعبادۃ الأوثان واتخاذ القبور مساجد، فلما استحکم الإسلام وقوی في قلوب الناس وآمنت عبادۃ القبور والصلوٰۃ إلیہا نسخ النہي عن زیارتہا الخ۔ (العیني، عمدۃ القاري، ’’باب قول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۸، ص: ۷۰)
(۱) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب الجنائز، باب ما جاء في النہي عن زیارۃ النساء القبور‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۳، رقم: ۱۵۷۴۔
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الجنائز: فصل فی جواز زیارۃ قبور المشرکین‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۴، رقم: ۹۷۴۔
(۳) أن الرخصۃ ثابتۃ للرجال والنساء لأن السیدۃ فاطمۃ رضي اللّٰہ عنہا کانت تزور قبر حمزۃ کل جمعۃ وکانت عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا تزور قبر أخیہا عبد الرحمٰن بمکۃ کذا ذکرہ البدر العیني في شرح البخاري۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في زیارۃ القبور‘‘: ج ۱، ص:۶۲۰)
(۴) الزیارۃ لقلۃ صبرہن وجرعہن۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’باب زیارۃالقبور‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۴)
(۵) وأما النساء إذا أردن زیارۃ القبور إن کان ذلک التجدید الحزن والبکاء والندب کما جرت بہ عادتہن لا تجوز لہن الزیارۃ۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في زیارۃ القبور‘‘: ج۱: ۶۲۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص386
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ رسم مالیدہ وغیرہ کا شرعاً کوئی ثبوت نہیں ہے؛ اس لیے اس کو ثواب کی نیت سے کرنا بدعت ہے جو واجب الترک ہے۔(۲)
(۲) {حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ أُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ} (سورۃ المائدہ: ۳)
وقد عاکس الرافضۃ والشیعۃ یوم عاشوراء النواصب من أہل الشام فکانوا … …إلی یوم عاشوراء یطبخون الحبوب ویغتسلون ویتطیبون ویلبسون أفخر ثیابہم ویتخذون ذلک الیوم عیدا یصنعون فیہ أنواع الأطعمۃ ویظہرون السرور والفرح یریدون بذلک عناد الروافض ومعاکستہم۔ (أبو الفداء إسماعیل، البدایۃ والنہایۃ، ’’فصل وکان مقتل الحسین -رضي اللّٰہ عنہ-‘‘: ج ۸، ص: ۲۰۳)
ویظہر الناس الحزن والبکاء وکثیر منہم لا یشرب الماء لیلتئذ موافقۃ للحسین لأنہ قتل عطشانا ثم تخرج النساء حاسرات عن وجوہہن ینحن ویلطمن وجوہہن وصدورہن حافیات في الأسواق إلی غیر ذلک من البدع الشنیعۃ والأہواء الفظیعۃ۔ (’’أیضاً‘‘: ص: ۲۰۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص476
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2498/45-3819
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر بچہ نے جائے نماز پر ایسی جگہ پیشاب کیا جہاں نمازی کے اعضاء سجدہ میں پڑتے ہیں تو اگر ممکن ہو تو نماز میں ہی تلویث سے بچتے ہوئے دائیں بائیں ہٹ کر نماز پوری کرلے، اس کو دوہرانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اور اگر دائیں یا بائیں جگہ نہ ہو یا بچہ نے نمازی کے اوپر پیشاب کردیا تو ایسی صورت میں ایک طرف سلام پھیر کر نماز سے نکل جائے اور پاک ہوکر یا دوسری جائے نماز پر نماز ادا کرے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’یداً بیدٍ‘‘ کا ورود بیع کے لیے ہے نہ کہ قرض میں؛ لہٰذا قرض پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔(۱)
(۱) حدیث کا تعلق بیع سے ہے، قرض سے نہیں اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک جنس کی بیع اسی جنس سے ہو رہی ہو تو نقد در نقد ہونا چاہیے ادھار جائز نہیں ہے، حدیث میں ’’الحنطۃ بالحنطۃ‘‘ سے پہلے ’’بیعوا‘‘ محذوف ہے۔
’’وأما عدم جواز بیع الحنطۃ بالحنطۃ وزنا معلوما فلعدم العلم بالمساواۃ الذہب بالذہب مثلاً بمثل وقد تقدم وجہ انتصابہ إنہ بالعامل المقدر أي بیعوا وفي البخاري لا تبیعوا الذہب بالذہب إلا مثلا بمثل۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصرف‘‘: ج ۷، ص: ۱۳۴)
قال الحنطۃ بالحنطۃ مثلاً بمثل یدا بید والفضل ربا أي: بیعوا الحنطۃ بالحنطۃ مثلاً بمثل یدا بیدا۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’فصل في شرائط الصحۃ في البیوع‘‘: ج ۵، ص: ۱۸۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص115
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صحیح قول کے مطابق حج ۹ھ میں یا اس کے بعد فرض ہوا(۲) اور فرض ہونے کے بعد جیسا کہ تمام احکام الٰہی کے متعلق آپ کی سیرت شاہد ہے، فوراً وقتِ حج آنے پر آپ نے حج ادا کیا؛ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی تاخیر نہیں کی۔(۳)
(۲) قال القاضي عیاض: وإنما لم یذکر الحج لأن وفادۃ عبد القیس کانت عام الفتح ونزلت فریضۃ الحج سنۃ تسع بعدہا علی الأشہر۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، شرح مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: ج ۱، ص: ۹۰، رقم: ۱۷)
إنہ علیہ السلام حج سنۃ عشر وفریضۃ الحج کانت سنۃ تسع۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الحج‘‘: ج ۲، ص: ۴۱۴)
(۳) ابوالبرکات، اصح السیر: ص: ۵۲۵۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص210
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:چمگادڑ کی بیٹ پاک ہے۔ کپڑے یا بدن پر لگی ہو،تو نماز درست ہے۔ شامی وغیرہ میں اس کی وضاحت ہے؛ لیکن نظافت کے طور پر دھو لینا چاہیے۔(۱)
(۱)بول الخفافیش و خرئھا لیس بنجس لتعذر صیانۃ الثوب والأواني عنھا؛ لأنھا تبول من الھواء وھي فارۃ طیارۃ فلھذا تبول۔ (ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في طہارۃ بولہ ﷺ،ج۱، ص:۵۲۳)؛ و بول الخفاش و خرؤہ لا یفسد لتعذر الإحتراز عنہ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس و تطہیرہا، ج۱،ص:۲۰۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص429
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2688/45-4152
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز میں خشوع وخضوع کے لئے مستحب ہے کہ قیام کی حالت میں نظر سجدہ کی جگہ پر ہو، حالت رکوع میں قدموں پر سجدہ میں نگاہ ناک پر رہے اور قعدہ کی حالت میں اپنی گود پر نظر رہے، اکر کوئی شخص بیت اللہ کے سامنے نماز پڑھ رہا ہے تو اس کو بھی مذکورہ آداب کا خیال رکھنا چاہئے، اس لئے سوال میں مذکور صورت کو ضروری سمجھنا درست نہیں ہے، بلکہ بوقت تحریمہ نظر سجدہ کی جگہ رکھنا ہی مستحب ہے۔
’’ومنہا نظر المصل سواء کان رجلا أو امرأۃ لی موضع سجودہ قائما حفظا لہ عن النظر الی ما یشغلہ عن الخشوع ونظرہ الی ظاہر القدم راکعا والی أرنبۃ أنفر ساجدا والی حجرہ جالسا ملاحظا، وفی الطحطاوی تحتہ ویفعل ہذا ولو کان مشاہدا للکعبۃ علی المذہب‘‘ (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقی الفلاح: ص: ٢٧٦)
نظرہ الی موضع سجودہ حال قیامہ والی ظہر قدمیہ حال رکوع والی أرینۃ انفہ حال سجودہ والی حجرہ حال قعودہ والی منکبہ الأیمن والأسیر منہ التسلمیۃ الأول والثانیۃ لتحصیل الخشوع‘‘ (رد المحتار: ج ١، ص: ٤٧٧)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:تمباکووالا پان نہ مسکر ہے اور نہ ہی مفتر ہے، لہٰذا اس کے استعمال سے وضو نہیں ٹوٹے گا اگر آپ پہلے سے باوضو ہیں تو بلا وضو تمباکو والا پان کھانے کے بعد نماز پڑھنا جائز ہے۔
’’ فإنہ لم یثبت اسکارہ ولا تفتیرہ ولا اضرارہ بل ثبت لہ منافع فہو داخل تحت الأصل في الأشیاء الإباحۃ وأن فرض إضرارہ للبعض لا یلزم منہ تحریمہ علی کل أحد‘‘(۱)
’’وینقضہ اغماء و منہ الغشي و جنون و سکر بأن یدخل فيمشیہ تمایل ولو یأکل الحشیشۃ‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الأشربۃ‘‘: ج ۵، ص: ۴۰۶۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب نوم الأنبیاء غیر ناقض‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص244
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں جو شخص امامت کر رہا ہے، جمعہ کی نماز پڑھاتا ہے، بچوں کو تعلیم دیتا ہے، وہی عیدین کی نماز پڑھانے کا مستحق ہے، اختلاف کرنا ہر گز جائز نہیں اور بغیر وجہ شرعی کسی کام سے (شرعی کاموں سے) کسی کو علیحدہ کرنا جائز اور درست نہیں ہے۔(۱)
(۱) اعلم أن صاحب البیت ومثلہ إمام المسجد الراتب أولی بالإمامۃ من غیرہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع الرد، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۷)
دخل المسجد من ہو أولی بالإمامۃ من إمام المحلۃ، فإمام المحلۃ أولی، کذا في القنیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس فيالإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص99