Frequently Asked Questions
نکاح و شادی
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 17/43-1540
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ امام کو تجوید کی رعایت کے ساتھ ہی قرآن پڑھنا چاہئے، آپ قرآن اچھا پڑھتے ہیں مگر معنی نہیں سمجھتے ہیں، ایسی صورت میں صرف یہی حل ہے کہ کسی اچھے عالم سے غلطی کی نشاندہی کرکے مسئلہ معلوم کرلیا جائے۔ اتنا یاد رہے کہ چند آیات چھوٹ جانے سے یا معروف کو مجہول پڑھنے سے نماز ہوجاتی ہے، دوہرانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ البتہ حرکات میں غلطی یا ایک کلمہ کی جگہ دوسرا کلمہ پڑھ لینے کی صورت میں معنی کی خرابی پر نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ اس علاقہ کے کسی عالم و مفتی کواس امام کا قرآن کریم سنوادیاجائے اور اگرآپ کو کوئی مفتی میسر نہ ہو اور آپ کو غالب گمان ہے کہ نماز نہیں ہوئی تو آپ اپنی صوابدید پر نمازیں دوبارہ تنہا پڑھ سکتے ہیں۔
"قال في شرح المنیة الکبیر:"القاعدة عند المتقدمین أن ما غیره تغیراً یکون اعتقاده کفراً تفسد في جمیع ذلک سواء کان في القرآن أو لم یکن إلا ما کان من تبدیل الجمل مفصولاً بوقف تام، ثم قال بعد ذلک: فالأولی الأخذ بقول المتقدمین". (إمداد المفتین، ص ۳۰۳)
"وإن غیر المعنی تغیراً فاحشاً فإن قرأ: ” وعصی آدم ربه فغوی “ بنصب میم ” اٰدم “ ورفع باء ” ربه “……… وما أشبه ذلک لو تعمد به یکفر، وإذا قرأ خطأً فسدت صلاته..." الخ (الفتاوی الخانیة علی هامش الهندیة، ۱: ۱۶۸، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)
"ومنها: ذکر کلمة مکان کلمة علی وجه البدل إن کانت الکلمة التي قرأها مکان کلمة یقرب معناها وهي في القرآن لاتفسد صلاته، نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم …، وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ: "وعداً علینا إنا کنا غافلین" مکان {فاعلین} ونحوه مما لو اعتقده یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وهو الصحیح من مذهب أبي یوسف رحمه الله تعالی، هکذا في الخلاصة". (الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۰،، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)
"وفي المضمرات: قرأ في الصلاة بخطإ فاحش ثم أعاد وقرأ صحیحاً فصلاته جائزة". (حاشیة الطحطاوي علی الدر المختار،۱: ۲۶۷ط: مکتبة الاتحاد دیوبند)
"ذکر في الفوائد: لو قرأ في الصلاة بخطإفاحش ثم رجع وقرأ صحیحاً ، قال: عندي صلاته جائزة". (الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۲، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت جو صحابہؓ نابالغ تھے وہ بھی صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمرہ میں داخل ہیں ان کو بھی صحابی ہی کہا جائے گا۔ (۱)
(۱) من لقي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم مؤمنا بہ ومات علی الإیمان، (سید عمیم الإحسان، قواعد الفقہ: ص: ۳۴۶)
ومن صحب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أو رآٔہ من المسلمین فہو من أصحابہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ،’’کتاب المناقب: باب فضائل أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۵، رقم: ۳۶۴۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص287
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بغیر ہاتھ اٹھائے دعا کرے اور قبر کی طرف پشت کرکے اور اگر قبلہ کی طرف منھ کرکے دعا کرے کہ قبر سامنے نہ ہو، توہاتھ اٹھاکر دعاء کرسکتا ہے۔(۱)
(۱) وفي حدیث ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ، رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في قبر عبد اللّٰہ ذي النجادین الحدیث وفیہ فلما فرغ من دفنہ استقبل القبلۃ رافعاً یدیہ أخرجہ أبو عوانہ في صحیحہ۔ (ابن حجرالعسقلاني، فتح الباري، ’’کتاب الدعوات: قولہ باب الدعاء مستقبل القبلۃ‘‘: ج ۱۱، ص: ۱۶۵، رقم: ۶۳۴۳)
ویکرہ النوم عند القبر وقضاء الحاجۃ وکل ما لم یعہد من السنۃ والمعہود منہا لیس إلا زیارتہا والدعاء عندہا قائماً کما کان یفعل صلی اللّٰہ علیہ وسلم في الخروج إلی البقیع۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلوۃ: فصل في الدفن‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص392
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم کو عقیدت سے چومنا یا آنکھوں سے لگانا ثابت ہے؛ اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔ (۱)
(۱) عن عمر رضي اللّٰہ عنہ، أنہ کان یأخذ المصحف کل غداۃ ویقبلہ ویقول: عہد ربي ومنشور ربي عز وجل وکان عثمان رضي اللّٰہ عنہ، یقبل المصحف ویمسحہ علی وجہہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: باب الاستبراء وغیرہ، متصل فصل في البیع‘‘: ج ۹، ص: ۵۵۲)
فتاوی درالعلوم وقف دیوبند ج1ص518
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: افہام و تفہیم کا پہلو اختیار کرنا ہی بہتر ہے اس کے لیے آپ کوئی طریقہ اختیار کرسکتے ہیں؛ بلکہ یہ عمل کار ثواب ہوگا اور فتنہ وفساد کا سد باب بھی ہوگا انشاء اللہ تعالیٰ، خطبات میں خطا ہوجائے تو کوئی خاص نقصان نہیں ہوگا مگر امامت کے دوران قرأت میں خطا ہوجانا بعض دفعہ نماز کے فاسد ہوجانے کا سبب بن جاتا ہے؛ لہٰذا کوئی فریق ضد سے کام نہ لے اگر واقعۃً ایسی خطا نہیں ہے جو مفسد نماز ہو تو بھی امام و خطیب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کا خیال کرکے اعلم من الناس کو ترجیح دینا چاہئے دین میں واراثت علمی اعتبار سے چلتی ہے خاندانی اعتبار سے نہیں، پھر بھی امام بضد رہتا ہے تو اس کے لیے امامت کرنا مناسب نہیں۔(۱)
(۱) عن عبداللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال لنا علیہ السلام: یؤم القوم أقرأہم لکتاب اللّٰہ وأقدمہم قراء ۃ۔ (أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلوۃ، باب من أحق بالإمامۃ ‘‘: ج۱، ص: ۲۳۶، رقم: ۶۷۳)
الأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ، وتجویداً للقراء ۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۵ - ۲۹۴، زکریا)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص107
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: نماز وقت مقررہ پر پڑھانی چاہئے اتفاقاً کبھی کچھ تاخیر ہوجائے تو کوئی حرج نہیں؛ لیکن تاخیر کی عادت بنا لینا قطعاً درست نہیں ہے اس سے مقتدیوں کوپریشانی ہوگی۔(۱)
(۱) فالحاصل أن التاخیر القلیل لإعانۃ أہل الخیر غیر مکروہ۔ (ابن عابدین، رد المحتارعلی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: في إطالۃ الرکوع للجائي، ج ۲، ص: ۱۹۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص80
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: عورت اور مرد کی نمازوں میں کئی اعتبار سے فرق ہے حضرات فقہاء نے اس کی تفصیلات ذکر کی ہیں اور وہ تفصیلات اور فرق احادیث مبارکہ سے ماخوذ اور مستفاد ہے جس کا جواب درج ذیل ہے اس سے مرد وعورت کی نمازوں میں جو فرق ہے وہ واضح ہو جائے گا۔
مرد تکبیر تحریمہ کے وقت کانوں تک ہاتھ اٹھائیں گے جب کہ خواتین کے لیے سینہ تک ہاتھ اٹھانے کا حکم ہے، اور یہ حدیث سے ثابت ہے:
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے وائل! جب تم نماز پڑھو تو اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاؤ اور عورت اپنے دونوں ہاتھ اپنی چھاتی کے برابر اٹھائے۔
’’عن وائل بن حجر، قال: جئت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم … فقال لي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یا وائل بن حجر، إذا صلیت فاجعل یدیک حذاء أذنیک، والمرأۃ تجعل یدیہا حذاء ثدییہا‘‘(۱)
’’عن عبد ربہ بن زیتون، قال: رأیت أم الدرداء ترفع یدیہا حذو منکبیہا حین تفتتح الصلاۃ‘‘(۲)
عبد ربہ بن زیتون سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ام درداء رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ نماز شروع کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھاتی تھیں، علامہ ابن الہمام ؒنے بھی فتح القدیر میں لکھا ہے: تکبیر تحریمہ کے وقت عورت اپنے کندھوں کے برابر اپنے ہاتھ اٹھائے، یہ صحیح تر ہے کیوں کہ اس میں اس کی زیادہ پردہ پوشی ہے۔ ’’المرأۃ ترفع یدیہا حذاء منکبیہا، وہو الصحیح؛ لأنہ أسترلہا‘‘(۳)
ان روایات اور فتح القدیر کی عبارت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عورت کے لیے ہاتھوں کو کندھے اور سینہ تک اٹھانے کا حکم ہے؛ لہٰذا عورت اپنے ہاتھ اس طرح اٹھائے گی کہ ہاتھوں کی انگلیاں کندھوں تک اور ہتھیلیاں سینہ کے برابر آجائیں۔ فرق کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح ہاتھ اٹھانے میں زیادہ ستر پوشی ہوتی ہے، جو عورت کے حق میں عین مطلوب ہے۔
دوسرا فرق عورت اور مرد کی نماز میں قیام کی حالت میں ہاتھ باندھنے کی ہیئت میں ہے کہ مرد کے لیے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا مستحب ہے، اگرچہ حضرات فقہاء نے اس حوالے سے اختلاف بھی کیا ہے، تاہم عورتوں کے حوالہ سے تمام اہلِ علم کا اجماع ہے (اور اجماع مستقل دلیل شرعی ہے) کہ وہ قیام کے وقت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی۔ جیسا کہ کنز کی شرح میں لکھا ہے:
’’تضع المرأۃ یدیہا علی صدرہا‘(۱)
عورت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی۔
’’و تضع المرأۃ یدیہا علی صدرہا‘‘(۲)
عورت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی۔
’’وأما في حق النساء فاتفقوا علی أن السنۃ لہن وضع الیدین علی الصدر لأنہا أستر لہا‘‘(۳)
الحاصل: مذکورہ عبارتوں سے مردوں اور عورتوں کی نماز میں فرق واضح ہو جاتا ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت خواتین سینہ تک ہاتھ اٹھائیں گی اور قیام کی حالت میںسینہ پر ہاتھ باندھیںگی۔
(۱) المعجم الکبیر للطبراني، أم یحییٰ بنت عبدالجبار بن وائل: ج ۹، ص: ۱۴۴، رقم: ۱۷۴۹۷؛ ومجمع الزوائد: ج ۲، ص:۱۲۲، رقم: ۲۵۹۴۔
(۲) مصنف ابن أبي شیبۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب في المرأۃ إذا افتتحت الصلاۃ إلی أین ترفع یدیہا‘‘: ج ۲، ص: ۴۲۱۔
(۳) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۶۔
(۱) مستخلص الحقائق شرح کنز الدقائق: ص: ۱۵۳۔
۲) فخرالدین عثمان بن علي، تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۰۷۔
(۳) السعایۃ: ج ۲، ص: ۱۵۶۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص354
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسی صورت میں نماز ہو جائے گی لوٹانے کی ضرورت نہیں ہوگی تاہم امام صاحب کو اس طرف توجہ دلائے تاکہ وہ اس عمل سے رک جائیں۔(۱)
(۱) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم قال من جرّ ثوبہ خیلاء لم ینظر اللّٰہ إلیہ یوم القیامۃ فقال ابوبکر یارسول اللّٰہ إن أحد شقي إزاری یسترخي إلا أن اتعاہدہ ذلک منہ، فقال لہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لست ممن یفعلہ خیلاء،( أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب فضائل أصحاب النبي‘‘: ج۲، ص: ۳۷۶، یاسر ندیم اینڈ کمپنی دیوبند)
قولہ: لست یفعلہ: والمعنی أن استرخاء ہ من غیر قصد لایضر لاسیّما بمن لایکون من شیمتہ الخیلاء ولکن الأفضل ہو المتابعۃ وبہ یظہر أن سبب الحرمۃ من جرّ الازار ہو الخیلاء۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’اللباس‘‘: ج ۷، ص: ۲۷۹۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص164
نکاح و شادی
Ref. No. 38 / 1092
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ہاں، کرسکتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند