Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2415/44-3647
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دہ در دہ کے لئے حوض کی لمبائی اور چوڑائی کا برابر دس دس ہاتھ کا ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ کل پیمائش کا دہ در دہ ہونا کافی ہے۔ اس لئے سوال میں مذکور حوض، حوض کبیر ہے، اگر اس کا مجموعی رقبہ 225 فٹ ہے۔
ولولہ طول لا عرض لکنہ یبلغ عشرا فی عشر جاز تیسیرا (شامی 1/341)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حسب تصریح سیرت خاتم الانبیاء حضرت آدم علیہ السلام کو دنیا میں تشریف لائے ہوئے تقریباً ۶۸۴۸؍ چھے ہزار آٹھ سو اڑتالیس سال ہوگئے(۲)۔ حضرت آدم علیہ السلام حسب تصریح النور المبین: ۹۳۰؍(۳) سال اور حسب تصریح حیات الحیوان ۹۴۰؍ سال بقید حیات رہے۔ تاہم اس پر کوئی صحیح حدیث نہیں ملتی، مگر امام ابن عساکر کی عبارت سے مذکورہ وضاحت ملتی ہے۔
(۲) محمد بن إسحاق بن یسار قال: کان من آدم إلی نوح ألف ومائتا سنۃ ومن نوح إلی إبراہیم ألف ومائۃ واثنتان وأربعون سنۃ وبین إبرہیم إلی موسیٰ خمسمائۃ وخمس وستون سنۃ ومن موسیٰ إلی داؤد خمسمائۃ تسعۃ وستون سنۃ ومن داؤد إلی عیسیٰ ألف وثلاثۃ مائۃ وست وخمسون سنۃ ومن عیسیٰ إلی محمد علیہ السلام ستمائۃ سنۃ فذلک خمسۃ آلاف وأربعمائۃ واثنان وثلاثون سنۃ، ہذا الأجمال صحیح۔ (تاریخ دمشق الابن عساکر: ج ۱، ص: ۳۱)
(۳)أحمد بن محمد الصاوي، تفسیر الصاوي: ج ۱، ص: ۴۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص225
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:تبلیغی جماعت کے اصل ذمہ دار ان معتمد علماء دین ہیں ضمناً کام کرنے والوں میں بھی علماء ہوں تو بہتر ہے لیکن سفر کرکے تبلیغ کرنے والی بعض جماعتوں میں علماء نہ بھی ہوں تو ان کو ذمہ دار کہہ کر نااہلوں کے ہاتھ میں باگڈور اور انتظامی قباحت کی بات کہنا درست نہیں ہے جب کہ اصل ذمہ دار علماء ہی ہیں اور ہر آدمی مکلف ہے کہ جس قدر جانتا ہو اس کو دوسروں تک پہونچائے۔(۱)
(۱) عن عبد اللّٰہ ابن عمرو رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: بلغوا عني ولو آیۃ وحدثوا عن بني إسرائیل ولا حرج ومن کذب علي متعمداً فلیتبوأ مقعدہ من النار، رواہ البخاري۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۲، رقم: ۱۹۸)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من دعا إلی ہدی کان لہ من الأجر مثل أجور من یتبعہ لا ینقص ذلک من أجورہم شیئاً ومن دعا إلی ضلالۃ کان علیہ من الإثم مثل آثام من یتبعہ لا ینقص ذلک من آثامہم شیئاً، ہذا حدیث حسن صحیحٌ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب العلم، باب ما جاء في من دعاء إلی ہدی الخ‘‘: ج ۲، ص: ۹۶، رقم: ۲۶۷۴)
-----------
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص347
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: جب دیکھا گیا کہ اس مردہ جانور کی ہڈی اور پر وغیرہ ٹنکی سے نکلے ہیں شرعاً اسی وقت سے ٹنکی کے ناپاک ہونے کا حکم ہوگا اور اس سے پہلے ناپاک ہونے کا حکم شرعاً نہیں ہوگا، اس سے جو وضو بنا کر نمازیں پڑھی گئی ہیں، سب درست ہوںگی۔ (۱)
(۱) إذا وقعت نجاسۃ في بئر دون القدر الکثیر أو مات فیھا حیوان دموي وانتفخ أوتمعط أو تفسخ أي تفرقت أعضاؤہ عضوا عضوا، ولا فرق بین الصغیر والکبیر کالفأرۃ ۔۔۔ ینزح الماء کلہ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، فصل في البئر، ج۱، ص:۳۶۶)؛ و یحکم بنجاستھا مغلظۃ من وقت الوقوع إن علم و إلا فمذ یوم و لیلۃ إن لم ینتفخ ولم یتفسخ (ایضا، ج۱، ص:۳۷۵)،… و قالا من وقت العلم فلا یلزمھم شيء قبلہ قیل و بہ یفتی۔ (ایضاً، ج۱، ص:۳۷۸)، فإن أخرج الحیوان غیر منتفخ و متفسخ۔۔۔ نزح کلہ ۔۔۔ و إن کان کعصفور و فارۃ فعشرون إلی ثلاثین کما مر و ھذا یعم المعین وغیرھا بخلاف نحو صھریج وحب حیث یھراق الماء کلہ لتخصیص الآبار بالآثار بحر و نھر۔۔۔ و مذ ثلاثۃ أیام بلیالیھا إن انتفخ أو تفسخ استحسانا۔ (ایضاً ،ص:۳۷۲- ۳۷۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص483
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہاتھ و پیر کے ناخنوں میں جو میل یا مٹی جم جاتی ہے اسے چھڑائے بغیر بھی وضو ہوجائے گا۔(۱)
(۱) ولا یمنع الطھارۃ و نیم و حناء و درن و وسخ و کذا دھن و دسومۃ و تراب و طین ولو في ظفر مطلقا أي قرویا أو مدنیا في الأصح، (ابن عابدین الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل،‘‘ ج ۱،ص:۲۸۸)؛ وفي الجامع الصغیر: سئل أبوالقاسم، عن وافر الظفرالذي یبق في أظفارہ الدرن أو الذي یعمل عمل الطین أو المرأۃ التي صبغت أصبعھا بالحناء أوالصرام أوالصباغ؟ قال: کل ذلک سواء یجزیھم و ضوئھم إذ لا یستطاع الامتناع عنہ إلا بحرج، والفتوی علی الجواز من غیر فصل بین المدني والقروي کذا في الذخیرۃ، (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ؛ ’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول في الوضوء، الفرض الثاني، غسل الیدین،‘‘ ج۱، ص:۵۴)؛ ولو بقي الدرن أي الوسخ في الأظفار جاز الغسل والوضوء لتولدہ من البدن یستوی فیہ أي في الحکم المذکور المدن أي ساکن المدینۃ والقروي أي ساکن القریۃ لما قلنا۔ (ابراہیم، حلبي کبیري، باب في آداب الوضوء، ص: ۴۲، دارالکتاب دیوبند)، وفي الجامع الصغیر إن کان وافر الأظفار و فیھا درن أو طین أو عجین أو المرأۃ تضع الحناء جاز في القروي والمدني۔ (ابن الہمام، فتح القدیر،’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱،ص:۱۲)
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص151
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسی حالت میں کہ کہنی زمین پر ٹکی ہو اور پیٹ بھی رانوں سے مل گیا ہو، تو وضو ٹوٹ جائے گا۔ اور اگر پیٹ رانوں سے نہ ملا ہو، تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔
شامی میں ہے:
’’والہیئۃ المسنونۃ بأن یکون رافعاً بطنہ عن فخذیہ مجافیاً عضدیہ عن جنبیہ … وظاہرہ أن المراد الہیئۃ المسنونۃ في حق الرجال لا المرأۃ۔ … واختار في شرح المنیۃ النقض في مسألۃ الذخیرۃ لارتفاع المقعدۃ وزوال التمکن۔ وإذا نقض في التربع مع أنہ أشد تمکنا فالوجہ الصحیح النقض ہنا ثم أیدہ بما في الکفایۃ عن المبسوط من أنہ لو نام قاعداً ووضع ألیتیہ علی عقبیہ وصار شبہ
المنکب علی وجہہ قال أبو یوسف رحمہ اللّٰہ علیہ الوضوء‘‘(۱)
عالمگیری میں ہے:
’’إلا في السجود فإنہ یشترط أن یکون علی الہیئۃ المسنونۃ لہ بأن یکون رافعاً بطنہ عن فخذیہ مجافیا عضدیہ عن جنبیہ وإن سجد علی ہذہ الہیئۃ انتقض وضوئہ‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: نواقض الوضوء، مطلب: نوم من بہ انفلات ریح غیر ناقض‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۱۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الأول، الفصل الخامس: منہا النوم‘‘: ج ۱، ص: ۶۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص255
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ مسجد مدرسہ کی ہے، اس کا نظم مدرسہ سے متعلق ہے لہٰذا اس مسجد میں جو بھی آمدنی ہوگی وہ مدرسہ میں جمع ہوگی اور مدرسہ والے اس کو جس طرح مناسب سمجھیں ضروریات مسجد پر صرف کریں۔ ذمہ داروں کو چاہے کہ امامت و اذان کہنے کے لیے اشخاص مقرر کرکے تنخواہ دی جائے تاکہ جماعت و اذان کے نظم میں خلل نہ پڑے۔(۲)
(۲) لا یجوز الاستیجار علی الأذان والحج وکذا الإمامۃ وتعلیم القرآن والفقہ والأصل أن کل طاعۃ یختص بہا المسلم لا یجوز الاستیجار علیہ عندنا۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ‘‘: ج ۳، ص: ۲۳۸)
قال ابن المنذر: ثبت أن رسول اللّٰہ قال لعثمان بن أبي العاص واتخذوا مؤذناً لا یأخذ علی أذانہ أجرأ وأخرج ابن حبان عن یحیی البکالی قال سمعت رجلا قال لإبن عمر إني لأحبک في اللّٰہ قال لہ ابن عمر إني لأبغضک فی اللّٰہ فقال سبحان اللّٰہ أحبک فی اللّٰہ وتبغضی فی اللّٰہ قال نعم إنک تسئل علی أذانک أجرا وروي عن ابن مسعود انہ قال أربع لا یوخذ علیہن أجر الأذان و قرأۃ القرآن والمقاسم والقضاء۔ (نیل الأوطار، ’’باب النہي عن أخذ الأجرۃ علی الأذان‘‘: ج۱، ص: ۳۷۵)
(إن أحق ما أخذتم علیہ أجرا کتاب اللّٰہ) (أخرجہ البخاري في صحیحہ، کتاب الإجارۃ، باب ما یعطي في الرقیۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۰۴)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص333
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: عورتوں کے سامنے آنے جانے سے نماز میں کوئی خلل نہیں ہوتا، نماز فاسد نہیں ہوتی؛ لیکن خشوع باقی نہیں رہتا اس لیے ایسی جگہ نماز پڑھے جہاں کسی کا گزر نہ ہو۔(۱)
(۱) والدلیل علی أن مرور المرأۃ لا یقطع الصلاۃ ما روي أن النبي کان یصلي في بیت أم مسلمۃ فأراد عمر بن أبي سلمۃ أن یمر بین یدیہ فأشار فوقف ثم أراد زینب أن تمر بین یدیہ فأشار علیہا فلم تقف فلما فرغ من صلاتہ، قال ہن أغلب صاحبات یوسف یغلبن الکرام ویغلبھن اللئام۔ (السرخسي، المبسوط: ج ۱، ص: ۳۵۰)
وتکرہ بحضرۃ کل ما یشغل البال کزینۃ وبحضرۃ ما یخل بالخشوع کلہو ولعب۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، فصل في المکروہات‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص449
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ترک ضم سورت سے ترک واجب ہونے کی بنا پر سجدہ سہو لازم ہوگا بعد والی رکعت میں اس کی تلاوت کرنے سے سجدۂ سہو ساقط نہیں ہوگا؛ بلکہ سجدہ سہو بہر حال کرنا پڑے گا۔ (۳)
والقراء ۃ واجبۃ في جمیع رکعات النفل وفي جمیع رکعات الوتر۔ (أیضًا: ص: ۱۴۸، مکتبہ: دار الکتاب دیوبند)
وہذا الضم واجب في الأولیین من الفرض وفي جمیع رکعات النفل والوتر۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۶، مکتبہ: زکریا دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص362